تبرک کی جائز صورتیں
735۔ سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ چمڑے کے سرخ خیمے میں تشریف فرما تھے۔
میں نے سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ وہ نبی ﷺ کے وضو کا پانی لیے ہوئے ہیں اور لوگ اس وضو کا پانی لینے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (ان کی کیفیت یہ تھی:)
((فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ یَدِ صَاحِبِهِ)) (أخرجه البخاري:376، 5786،5859، ومسلم:503)
’’اگر ان میں سے کسی کو پانی مل جاتا تو وہ اسے اپنے بدن پر لگا لیتا اور جسے پانی نہ ملتا تو وہ اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی لے لیتا۔‘‘
736۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے اور دو پہر کے آرام کے لیے سو گئے تو آپ کو پسینہ آگیا۔ میری والدہ ایک شیشی لے آئیں اور چمڑے کے بچھونے سے آپ کا پسینا انگلی کے ذریعے سے اس میں اکٹھا کرنے لگیں۔
نبیﷺ جاگ گئے تو آپﷺ نے فرمایا:
((يَا أُم سُلَيْمٍ مَا هٰذَا الَّذِي؟)) ’’ام سلیم یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘
وہ کہنے لگیں: یہ آپ کا پسینا ہے، اسے ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے۔ یہ (دنیا کی) ہر خوشبو سے زیادہ اچھی خوشبو ہے۔ (أخرجه مسلم:2331)
صحیح مسلم ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: میری والدہ اندر آئیں، آپ ﷺ کو پیسنا آیا ہوا تھا اور وہ بستر پر (بچھے ہوئے) چمڑے کے ایک ٹکڑے پر اکٹھا ہو گیا تھا۔ انھوں نے قیمتی چیز میں رکھنے کا اپنا ڈبہ کھولا اور وہ پسینا پونچھ پونچھ کر اپنی شیشیوں میں ڈالنے لگیں۔ نبی ﷺ گھبرا کر اٹھےاور فرمایا:
((مَا تَصْنَعِينَ يَا أُم سُلَيْم)) ’’ام سلیم! تم کیا کر رہی ہو؟‘‘
کہنے لگیں: اللہ کے رسول! ہم اپنے بچوں کے لیے اس کی برکت کی آرزو رکھتے ہیں۔
آپ ﷺنے فرمایا: ((أصبتِ)) ’’تم نے اچھا کیا۔‘‘
737۔ سیدنا عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ ہی سے روایت ہے، انھوں نے صلح حدیبیہ والی لمبی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کے بارے میں کہا:
((فَوَاللهِ! مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ نَخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ)) (هو حديث صلح الحديبية الطويل أخرجه البخاري:2731، 2732)
’’اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ تھوکتے تھے تو صحابہ میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر ہی پڑتا تھا اور وہ اسے اپنے چہرے اور بدن پر ملتا تھا۔
738 سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میری خالہ مجھے نب یﷺ کی خدمت میں لے آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! میرا یہ بھانجا بیمار ہے۔ آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی، پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپﷺ کے وضو سے بچا ہوا پانی پیا، پھر میں آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور آپ کے دور کندھوں کے درمیان مہر ثبوت دیکھی جو مسہری کے لٹویا چھپر کَھٹ، یعنی پوشش والے پلنگ کی گھنڈی یا کبوتری کے انڈے کی طرح تھی۔ ( أخرجه البخاري: 190، 3540، 3541، 5670، 6352، و مسلم:2345)
739۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مدینے کے خادم اور غلام اپنے برتن لے آتے جن میں پانی ہوتا۔ جو بھی برتن آپ منہ کے سامنے لائے جاتا آپ اپنا دست مبارک اس میں ڈبوتے۔ بسا اوقات سخت ٹھنڈی صبح میں برتن لائے جاتے تو (پھر بھی) آپﷺ ان میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔(أخرجه مسلم:2324)
توضیح و فوائد: جو دلائل گزر چکے ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی ذات سے تبرک کے لیے خاص ہیں کیونکہ آپﷺ کے اندر برکت رکھی گئی ہے۔ اس پر آپ ا کے علاوہ دیگر صالحین، اولیاء اور علماء کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ان کے وجود ہی کے ساتھ تبرک حاصل کرنا جائز ہے اور نہ ان کے آثار اور وضو ہی سے کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے آپﷺ کے بعد افضل الخلق، یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما وغیرہ سے تبرک حاصل نہیں کیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ تبرک حاصل کرنا صرف رسول اللہ علیہﷺ کے وجود مسعود کے ساتھ اص ہے۔
740۔ سیدنا جابررضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک غزوے میں رسول اللہ کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ
مجھے ملے جبکہ میں اپنے پانی لانے والے اونٹ پر تھا جو تھک چکا تھا اور چلنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: ((ما لبعبيرك)) ’’تمھارے اونٹ کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘
میں نے عرض کی: تھک گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پیچھے آئے، اسے ڈانٹ کر دوڑایا اور اس کے لیے دعا کی۔ اس کے بعد وہ سب اونٹوں سے آگے چلنے لگا۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا:
((كيْفَ تَرٰى بَعِيْرَكَ)) ’’اب تم اپنے اونٹ کو کیسے دیکھ رہے ہو؟‘‘
میں نے عرض کی: بہت بہتر ہو گیا ہے۔ یقینًا اسے آپ کی برکت حاصل ہوئی ہے۔(أخرجه البخاري:2967، ومسلم:715، بعد الحديث: 1599)
توضیح و فوائد: دعا کی برکت عمومی ہے۔ کسی بھی مسلمان کی دعا سے برکت حاصل ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی سے بھی دعا کی درخواست کرنا جائز ہے۔
741۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک مرتبہ ہم نبی ﷺکی خدمت میں
موجود تھے کہ آپ کے پاس کھجور کا گودا لایا گیا۔
نبی ﷺنے فرمایا: ((إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ لَمَا بَركتُهُ كَبَرَكَةِ المُسْلِم))
’’درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جس کی برکت، مسلمان کی برکت جیسی ہے۔‘‘
میں نے خیال کیا کہ آپﷺ کا اشارہ کھجور کے درخت کی طرف ہے۔ میں نے سوچا کہ کہہ دوں: اللہ کے رسول! یہ کھجور کا درخت ہے لیکن جب میں نے ادھر ادھر دیکھا تو جس میں میرے علاوہ نو آدمی اور تھے اور میں ان سب سے چھوٹا تھا، اس لیے میں خاموش رہا، پھر نبیﷺ نے فرمایا:
((هي النخلة)) ’’وہ درخت کھجور کا ہے۔‘‘ (أخرجه البخاري: 5444)