جس نے جادو کیا اس نے شرک کیا
793۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ)) ’’سات تباہ کن گناہوں سے بچو۔‘‘
پوچھا گیا: اللہ کے رسول! وہ کون سے ہیں؟ فرمایا:
((الشَّرْكُ بِاللهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَأَكُلُ مَالِ الْيَتِيمِ، وَأَكُلُ الرِّبَا، وَالتَّوَلِي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ)) (أخرجه البخاري:2766، 5764، 6857، ومسلم:89)
’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو، جس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اسے ناحق قتل کرنا، یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، لڑائی کے دن دشمن کو پشت دکھانا ( بھاگ جانا ) اور پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر الزام تراشی کرنا۔‘‘
794۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’ثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَقَاطِعُ رَحِمٍ، وَمُصَدِّقُ بِالسِّحْرِ)) (أخرجه أحمد: 19569، وابن حبان: 5346 6137، والحاكم:146/4)
’’تین طرح کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے: شراب کا عادی، قطع رحمی کرنے والا اور جادو (بغیر حکم الہی کے مؤثر ہونے) کی تصدیق کرنے والا۔‘‘
توضیح و فوائد: جس طرح جادو کرنا شرک اور کبیرہ گناہ ہے اس طرح جادو گر کی باتوں کو سچا سمجھ کر اس کی تصدیق کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ جادو واقع ہو جانے کو سچ سمجھ لینا اس کی تصدیق کرنا نہیں ہے کیونکہ جادو کے واقع ہونے کا شریعت نے انکار نہیں کیا، تاہم یہ ایمانرکھنا ضروری ہے کہ اللہ کی مشیت کے بغیر جادو گر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
795- مذکورہ حدیث مسند احمد میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی انھی الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔(أخرجه أحمد:11107)
796۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ عَقَدَ عُقْدَةً ثُمَّ نَفَثَ فِيهَا فَقَدْ سَحَرَ، وَمَنْ سَحَرَ، فَقَدْ أَشْرَكَ، وَمَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وَكِلَ إِلَيْهِ)) (أخرجه النسائي في المجتبى:4084، وفي السنن الكبرى:3528، وفي إسناده عباد بن ميسرة المنقري، وهو ليّن الحديث، وفيه أيضًا عنعنة الحسن البصري.)
’’جس شخص نے گرہ باندھ کر اس میں پھونک ماری، تحقیق اس نے جادو کیا اور جس نے جادو کیا وہ شرک کا مرتکب ہوا اور جس شخص نے کوئی ( شرکیہ) چیز گلے میں لٹکائی اسے اس کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: جادوگر عام طور پر گرہیں لگا کر ان میں پھونک مارتے ہیں، اس لیے جائز دم میں بھی یہ طریقہ اختیار کرنا منع ہے۔
797۔ سید نا عمران حصین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَطَيَّرَ، أَوْ تُطَيِّرَ لَهُ، أَوْ تَكَهَّنَ أَوْ تُكَهِّنَ لَهُ، أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَهُ، وَمَنْ عَقَدَ عُقْدَةً وَمَنْ أَتٰی كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ)) (أخرجه البزار: 3044، كشف الأستار، وأورده السيوطي في الدر المنثور:103/1، وحسنه الألباني في غاية المرام:289)
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو فال نکالے، یا نکلوائے، کہانت کرے یا کرائے، جادو کرے یا کرائے، اور جس نے گرہ باندھی۔ اور جو شخص کسی نجومی کے پاس گیا اور اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے محمد (ﷺ) پر نازل کردہ دین کا انکار کیا۔‘‘
798 سیدنا جندب بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((حَذُ السَّاحِرِ ضَرْبَةٌ بِالسَّيْفِ)) (أخرجه الترمذي:1460، والدارقطني في السنن:114/3، والطبراني في الكبير:1666/2، والحاكم: 360/4، و البيهقي في السنن:136/8)
’’جادوگر کی سزا تلوار کے ساتھ اسے مارنا ہے۔‘‘
799- سیدنا بجالہ بن عبدہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس سیدنا عمرﷺ کا حکم نامہ آیا تو اس میں
یہ (لکھا ہوا) تھا:
((أَنِ اقْتُلُوا كُلَّ سَاحِرٍ وَسَاحِرَة)) ’’ہر جادو گر مرد ہو یا عورت اسے قتل کر دو۔‘‘(أخرجه أحمد: 1657، و أبوداود:3043)
چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کو قتل کیا۔
توضیح وفوائد: جادو گر اگر توبہ نہ کرے تو حاکم وقت کو چاہیے کہ اسے قتل کرا دے کیونکہ اس کا فتنہ کئی لوگوں کی جانیں ضائع ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔
800۔ سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:
((كَانَ لِدَاوُدَ نَبِيِّ اللهِ عَلَيْهِ السلام مِنَ اللَّيْلِ سَاعَةٌ يُوقِظُ فِيهَا أَهْلَهُ، فَيَقُولُ: يَا آلَ دَاوُدَ، قُومُوا فَصَلُّوا، فَإِنَّ هٰذِهِ سَاعَةٌ يَسْتَجِيبُ اللهُ فِيهَا الدُّعَاءَ إِلَّا لِسَاحِرٍ أَوْ عَشَّارٍ))(أخرجه أحمد:16281)
’’اللہ کے نبی داود علیه السلام رات کی ایک گھڑی میں اپنے اہل خانہ کو جگاتے اور فرماتے: اے آل داود! اٹھو اور نماز پڑھو کیونکہ اس گھڑی میں اللہ ضرور دعا قبول فرماتا ہے، سوائے جادوگر اور ٹیکس لینے والے کی دعا کے۔‘‘
801۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ سے نشرہ (جادو کا علاج بذریعہ
جادو) کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ((هُوَ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ)) ‘‘یہ شیطانی کام ہے۔(أخرجه أحمد:14135، و أبوداود:2868، و عبدالرزاق في المصنف:19762، و البيهقي في السنن:351/9)
‘‘توضیح و فوائد: جادو زدہ آدمی کے علاج کو نشرہ کہا جاتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ اگر جادو کا علاج جادو سے ہو تو یہ ناجائز ہے اور اس کو شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے اور اگر یہ علاج قرآن اور مسنون دعاؤں یا دواؤں سے ہو تو جائز ہے۔
802۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ پر جادو کیا گیا تو آپ کی طبیعت پر اس کا یہ اثر ہوا
کہ آپ اپنے خیال کے مطابق ایک کام کر چکے ہوتے لیکن وہ نہیں کیا ہوتا تھا، آخر کار ایک دن آپ میرے پاس تشریف فرما تھے تو آپ نے اللہ تعالی سے دعا کی اور پھر دعا کی، اس کے بعد آپ نے (مجھ سے) فرمایا:
((أَشْعَرْتِ يَا عَائِشَةُ أَنَّ اللهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ))
’’یا عائشہ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے جو بات پوچھی تھی اس کا جواب اللہ تعالی نے مجھے دے دیا ہے؟‘‘
میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
((جَاءَنِي رَجُلَانِ فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَى ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ الْيَهُودِي مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، قَالَ: فِي مَاذَا قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ ذكر قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ قَالَ فِي بِئْرِ ذِي أَرْوَانَ))
’’میرے پاس دو آدمی آئے، ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا، پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا: اس شخص کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم یہودی نے جو قبیلہ بنو زریق سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے نے کہا: کس چیز میں (جادو) کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں جو نر کھجور کے خوشے کے خلاف میں رکھا ہوا ہے۔ اس نے پوچھا: وہ کہاں رکھا ہے؟ اس نے جواب دیا: ذی اروان نامی کنویں میں رکھا ہے۔‘‘
نبی ﷺ اپنے چند صحابہ کو ساتھ لے کر اس کنویں پر تشریف لے گئے، اسے دیکھا، وہاں کھجور کے درخت تھے، پھر آپ واپس سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پاس تشریف لائے اور فرمایا:
((وَاللهِ! لَكَانَ مَاءَ هَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ وَلَكَأنَ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ))
’’اللہ کی قسم! اس کنویں کا پانی مہندی کے دھوؤن جیسا سرخ ہے اور وہاں کی کھجوریں گو یا شیطانوں کے سر ہیں۔‘‘
میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اسے نکالا؟ آپ نے فرمایا:
((لَا، أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِي اللهُ وَشَفَانِي وَخَشِيتُ أَنْ أَثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا)) (أخرجه البخاري: 3268، 5763، 5765، 7566، 6063، 62391، و هو عند مسلم بنحوه:2189، و فتح الباري: 235/10)
’’نہیں، بہرکیف اللہ تعالی نے مجھے شفا دے دی ہے، اب مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا لوگوں میں کوئی شر پیدا ہو۔‘‘
پھر آپﷺ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے دفن کر دیا گیا۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام حمیدی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: (سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ہی فرماتی ہیں کہ) پھر میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! تو آپ نے (اس کے مقابلے میں جادو) کیوں نہ کیا؟ سفیان کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے: آپ نے جادو کا علاج جادو کے ذریعے سے کیوں نہیں کیا ؟
توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اکرمﷺ پر جادو کیا گیا اور اس سے آپ کے ذاتی معاملات بھی متاثر ہوئے۔ آپ کو کوئی کام کرنا ہوتا تو آپ یہ سمجھتے تھے جیسے آپ وہ کام انجام دے چکے ہیں۔ طبیعت کی یہ خرابی دیناوی معاملات تک ہی محدود تھی۔ دینی معاملات میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوا۔ بالآخر اللہ تعالی نے آپ کو شفا دے دی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جاود سے متاثر آدمی کو جائز علاج کے ساتھ ساتھ کثرت سے دعا بھی کرنی چاہیے۔