کہانت، نجومیوں کے پاس جانا حرام اور ان کی تصدیق کرنا کفر ہے

803۔سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کچھ کام ایسے تھےجو ہم زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے، یعنی ہم کاہنوں کے پاس جایا کرتے تھے، آپﷺ نے فرمایا:

فَلَا تَأْتُوا الكُهَّانَ)) (أخرجه مسلم: 537 بعد الحديث: 2227)

’’تم کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو۔‘‘

کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: ہم بدشگونی لیا کرتے تھے، آپﷺ نے فرمایا:

((ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُهُ أَحَدُكُمْ فِي نَفْسِهِ، فَلَا يَصُدَّنَّكُمْ))

’’یہ (بدشگونی) محض ایک خیال ہے جو کوئی انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، یہ تمھیں (کسی کام سے) نہ روکے۔‘‘

توضیح و فوائد: جو شخص یہ دعوی کرے کہ وہ ستاروں کا علم رکھتا ہے، اس لیے وہ کئی لیبی امور جانتا ہے یا اسے الہام ہوتا ہے، ایسے شخص کو کاہن، نجومی، رمال یا عراف کہتے ہیں۔ نبی ﷺ نے ان کے پاس جانے اور ان کی تصدیق کرنے سے منع کیا ہے۔ اور بدشگونیی ہ ہے کہ کسی آدمی یا جگہ کو منحوس سمجھ کر اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ بداثر ہے، میں اس سے ملا تھا یا میں فلاں جگہ گیا تھا اس وجہ سے مجھے پر مصیبت ٹوٹ پڑی یا کام سے رک جانا کہ آج صبح صبح فلاں آدمی مل گیا ہے، اس لیے اب کوئی کام سیدھا نہیں ہوگا۔ اگر یہ محض وسوسہ ہو تو انسانی کمزوری ہے لیکن اگر اس خیال کو حقیقت سمجھ کر انسان اپنے کام سے رک جائے تو یہ ناجائز ہے۔

804۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں فیصلہ کیا جنھوں نے آپس میں جھگڑا کیا تھا، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر مارا جو اس کے پیٹ پر لگا۔ عورت حاملہ تھی، اس لیے اس کے پیٹ کا بچہ مر گیا،یہ دونوں فریق نبی ﷺ کے پاس معاملہ لے کر آئے تو آپ نے فیصلہ فرمایا:

((أَنَّ دِيَةَ مَا فِي بَطْنِهَا غُرَةٌ: عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ))

’’عورت کے پیٹ کے نیچے کی دیت ایک غلام یا لونڈی ادا کرنا ہے۔‘‘

 جس عورت پر تاوان واجب ہوا تھا اس کے سر پرست نے کہا: اللہ کے رسول! میں اس کا تاوان کیسے ادا کروں جس نے کھایا نہ پیا، نہ بولا اور نہ چلایا؟ ایسی صورت میں تو کچھ بھی دیت واجب نہیں ہو سکتی۔

اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّمَا هٰذَا مِنْ إِخْوَانِ الْكُهَّانِ)) (أخرجه البخاري: 5758، ومُسْلِمٌ:1681)

’’یہ تو کاہنوں کا بھائی (معلوم ہوتا) ہے۔‘‘

 توضیح وفوائد: کا ہن اکثر ہم قافیہ الفاظ بولتے ہیں، اس لیے آپﷺ نے اس کے ہم قافیہ کلام کی وجہ سے کاہن اسے کاہنوں کا بھائی قرار دیا۔

805۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺسے کاہنوں کے متعلق سوال کیا تو رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا: ((لَيْسُوْا بِشَئٍ)) ’’وہ کچھ نہیں ہیں۔‘‘(أخرجه البخاري:5762، ومُسْلِمٌ: 2228)

صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ لوگ بعض اوقات ایسی بات بتاتے ہیں جو سچ نکلتی ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيّهِ قَرَّ الدَّجَاجَةِ فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةٍ كِذْبَةٍ)) (أخرجه البخاري:5762، ومُسْلِمٌ: 2228)

’’جن اس سچی بات کو (آسمان کے نیچے سے) اچک لیتا ہے، پھر وہ اسے اپنے دوست (کاہن) کےکان میں مرغی کی کٹ کٹ کی طرح کٹکٹاتا رہتا ہے۔ اور وہ (کاہن) اس (ایک بات) میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔‘‘

806 ۔ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی اہلیہ) سیدہ صفیہ ﷺ کی کسی زوجہ محترمہ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((مَنْ أَتَى عَرَّافًا، فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ) (أخرجه مسلم:2230)

’’جو شخص کسی غیب کی خبر میں سنانے والے کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے تو چالیس راتوں تک اس شخص کی نماز قبول نہیں ہوتی۔‘‘

807۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ أَتٰى كَاهِنًا أَوْ عَرَّافًا، فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ))

’’جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس گیا اور اس کی بات کی تصدیق بھی کر دی تو اس نے محمد ﷺ پر نازل کردہ (وحی) کا انکار کیا۔‘‘(أخرجه أحمد: 9290، 9536، وأبو داود: 3904، والترمذي:135)

توضیح و فوائد: حدیث: 806 میں نجومی کے پاس جا کر سوال کرنے کی سزا کا ذکر ہے، اور حدیث: 807 کے مطابق پوچھ کر اس کی تصدیق کرے تو اسے گناہ قرار دیا گیا ہے۔

808۔ سیدنا ابو مسعود انصاری  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:

((أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ)) (أخرجه البخاري:5761، ومسلم: 1567)

’’نبی سلیم نے کتے کی قیمت، بدکارہ عورت کی اجرت اور کاہن کی شیرینی سے منع فرمایا ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: کاہن یا نجومی کی کمائی جو وہ کہانت کے ذریعے سے حاصل کرتا ہے حرام ہے۔ اسی طرح کتا بیچنایا خریدنا بھی حرام ہے۔ اگر چہ بعض علماء نے شکاری اور سراغ رساں کتوں کو اس سے مستثنی قرار دیا ہے۔ رنڈی کی کمائی کو ظاہری مشابہت کی بنا پر مہر سے تعبیر کیا گیا ہے، مقصد یہ ہے کہ ہر چند ظاہری طور پر یہ رقم مہر کے مشابہ ہے لیکن اللہ کے قانون کی مخالفت کی وجہ سے یکسر حرام ہے۔

809۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک غلام تھا جو انھیں خراج (محصول) لا کر دیا کرتا تھا اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اسے اپنی ضروریات میں استعمال کیا کرتے تھے۔

ایک دن وہ غلام کوئی چیز لایا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس میں سے کچھ کھا لیا، غلام نے ان سے کہا: آپ جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟

ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:  (بتائیں) یہ کیا ہے؟

اس نے کہا: میں نے دور جاہلیت میں ایک شخص کے لیے کہانت کی تھی حالانکہ میں کہانت نہیں جانتا تھا، میں نے اس شخص کو محض دھوکا دیا تھا، اتفاق سے ایک دن وہ مجھے ملا تو اس نے کہانت کا معاوضہ مجھے دے دیا اور اس سے آپ نے کھایا ہے۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے (سنتے ہی) اپنا ہاتھ (حلق میں) ڈالا اور پیٹ کی تمام چیزیں قے کر کے نکال دیں۔ (أخرجه البخاري: 3842)