نحوست اور بدشگونی کی ممانعت اور بیماری متعدی ہونے کا عقیدہ رکھنا ناجائز ہے۔
830۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لا عَدْوَى وَلَا طِيرَةً وَلَا هَامَةً وَلَا صَفَرَ)) (أخرجه البخاري: 5707، 5757، ومُسْلِمٌ:2220)
’’کوئی بیماری متعدی نہیں، بدفالی اور بدشگونی کی بھی کوئی حقیقت نہیں، نہ الو کا بولنا (کوئی برا اثر رکھتا) ہے اور نہ ماہ صفر (منحوس) ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: کوئی بیماری از خود متعدی نہیں ہوتی لیکن جب اللہ کا حکم ہوتا ہے تو جراثیم اثر انداز ہو جاتے ہیں، اس لیے شریعت نے کوڑھ والے مریض سے دور رہنے کا حکم دیا ہے کہ اگر اللہ کے حکم سے کسی دوسرے کو جراثیم لگ جائیں تو یہ عقیدہ نہ بن جائے کہ بیماری از خود متعدی ہے، اس لیے اس خرابی سے بچنے کے لیے احتیاط کا پہلو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔
٭ اہل عرب اہم کام کرنے کے لیے جس طرح پانسے کے تیر استعمال کرتے تھے اسی طرح وہ ایک خاص طریقے سے پرندے کو بھی اڑاتے تھے۔ اگر وہ دائیں جانب جاتا تو کام کر لیتے اور اگر بائیں جانب جاتا تو کام کا ارادہ ترک کر دیتے تھے اور اس سے بدشگونی لیتے تھے۔ شریعت نے اس سے منع کر کے استخارے کا مسنون طریقہ سکھایا۔ اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ جس مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے اس کی کھوپڑی سے ایک پرندہ نکلتا ہے اور ورثاء کے پاس آکر انھیں بدلہ لینے کی دہائی دیتا ہے۔ اسلام نے اس تو ہم پڑتی کا بھی خاتمہ کر دیا۔
٭ اہل جاہلیت صفر کے مہینے کو منحوس خیال کرتے تھے۔ اسلام نے اس کا رد کیا اور اعلان کیا کہ مہینے سارے اللہ کے ہیں۔ بعض مخصوص ایام یا کسی م یا کسی خاص مہینے کو منحوس سمجھنا ایک باطل تصور ہے۔ رہے۔ آج کے موجودہ دور میں بھی بعض لوگ اسی طرح کے باطل نظریات پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اسلام کا دعوی بھی کرتے ہیں۔
831۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، وَمَا مِنَّا إِلَّا، وَلَكِنَّ اللهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكَّلِ)) ((أخرجه أحمد:3687،4171، 4194،وأبو داود:3910، والترمذي:1614، وابن ماجه:3538، وأبو یعلی:5219، و ابن حبان:6122، و فتح الباري:213/10)
’’بد شگونی شرک ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی وہم ہو ہی جاتا ہے، مگر اللہ عز وجل توکل کی م ہی جاتا مگراللہ عزو جل توکل کی برکت سے اسے زائل کر دیتا ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اور ہم میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی وہم ہو ہی جاتا ہے، مگر اللہ عز و جل تو کل کی برکت سے اسے زائل کر دیتا ہے۔‘‘ یہ جملہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان نہیں بلکہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے جسے حدیث میں شامل کر دیا گیا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد سلیمان بن حرب نے اسے واضح کیا ہے جیسا کہ امام ترمذی نے نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کیا ہے۔
832۔ سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم میں سے کچھ
لوگ ایسے ہیں جو بدشگونی لیتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
((ذَاكَ شَيْئٌ يَجِدُهُ أَحَدُكُمْ فِي نَفْسِهِ، فَلَا يَصُدَّنَكُمْ)) (أخرجه مسلم:537، وبعد الحديث:2227)
’’یہ ایسی بات ہے جو تم میں سے کسی کے دل میں پیدا ہو سکتی ہے ( ایک طرح کا وہم ہے) یہ (وہم) تمھیں (کسی کام سے ) نہ روکے۔‘‘
833۔ سیدہ ام کرز رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کوفرماتے سنا:
((أَقِرُّوا الطَّيْرَ عَلٰى مَكِنَاتِهَا)) (أخرجه أحمد:27199، وأبو داود:2835، وابن حبان:5312، والحاكم: 237،238/4)
’’پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں رہنے دو (انھیں اچھا یا برا شگون لینے کے لیے نہ اڑاؤ )۔‘‘
توضیح وفوائد: مطلب یہ ہے کہ پرندوں سے شگون لینے کے لیے انھیں گھونسلوں سے مت اڑاؤ۔ یہ غیر شرعی طریقہ ہے۔
834۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((الطَّيْرُ تَجْرِي بِقَدَرٍ)) أخرجه أحمد:24982، وابن حبان: 5824، والحاكم:32/1، والطحاوي في شرح مشكل الآثار:1845، وابن أبي عاصم في السنة: 254)
’’پرندہ اللہ تعالی کے حکم سے چلتا (اُڑتا) ہے۔‘‘
835۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ يُعْجِبُهُ الْفَألُ، وَيَكْرَهُ الطَّيِّرَةَ)) (أخرجه أحمد: 8393، وابن ماجه:3536، وابن حبان:6121)
’’رسول اللہﷺ کو شگون لینا پسند تھا اور بدفالی آپ مال کو ناپسند تھی۔‘‘
836۔ سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کسی چیز سے بدشگونی نہیں لیتے تھے۔
آپ جب کسی کو گورنر بنا کر بھیجتے تو اس کا نام پوچھتے۔ اگر اس کا نام اچھا ہوتا تو آپ خوش ہوتے اور خوشی کے آثار آپ کے چہرے پر نمایاں ہوتے اور اگر اس کا نام پسندیدہ نہ ہوتا تو کراہت کے آثار بھی آپ کے چہرے پر واضح ہوتے۔ اور جب آپ کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس کا نام پوچھتے، اگر وہ نام پسند آتا تو آپ خوش ہوتے اور خوشی کے آثار آپ کے چہرے پر نمایاں ہوتے اور اگر اس بستی کا نام پسند نہ آتا تو ناپسندیدگی آپ کے چہرے سے نمایاں ہوتی۔ (أخرجه أحمد: 22946، وأبو داود:3920، وابن حبان:5827)
توضیح و فوائد: اچھا شگون لینے کو فال کہتے ہیں۔ نیک شگون لینا مستحب ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالی سے اچھی امید وابستہ کی جاتی ہے۔
837۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَا عَدْوٰى وَلَا طِيَرَةً، إِنَّهَا الشَّؤمُ فِي ثَلَاثٍ فِي الْفَرَسِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالنَّارِ)) (أخرجه البخاري: 2858، 5093، 5094، 5753، 5772، ومسلم:2225)
’’بیماری کا ایک دوسرے کو لگ جانا اور بدشگونی لینا کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو تین چیزوں: گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی۔ (مگر در حقیقت ان میں بھی نہیں ہے )۔‘‘
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہو سکتی ہے تو وہ تین چیزیں ہیں۔ بیوی کی نحوست یہ ہے کہ اس سے اولاد نہ ہو، وہ بد مزاج ہو اور دین سے دور کرنے والی ہو۔ گھوڑے کی حکومت یہ ہے کہ وہ اڑیل ہو یا جہاد کے کام نہ آسکے۔ اور گھر کی نحوست یہ ہے کہ وہ تنگ و تاریک ہو یا ہمسایہ برا ہو۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ تین چیزیں بجائے خود منحوس ہیں۔
838۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ہم ایک گھر میں تھے، اس میں ہم بہت سے افراد تھے اور وہاں ہمارے اموال بھی بہت تھے، پھر ہم ایک دوسرے گھر میں منتقل ہوئے تو ہمارے افراد کم ہو گئے اور اموال میں بھی قلت آگئی۔
رسول اللهﷺ نے فرمایا: ((ذَرُوهَا ذَمِيمَةٌ)) (أخرجه أبو داود:3924)
’’اسے چھوڑ دو، یہ برا گھر ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: اگر کسی گھر میں اس طرح کی صورت پیش آئے تو اسے تبدیل کرنے میں کوئی حرج والی بات نہیں تا کہ آزمائش نہیں ہونے کی صورت میں عقیدہ خراب نہ ہو جائے کہ یہ سارا کچھ اس گھر کی وجہ سے ہو رہا ہے، حالانکہ کوئی گھر اور جگہ وغیرہ نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتی۔
839۔ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّمَا الطِّيَرَةُ مَا أَمْضَاكَ أَوْ رَدَّكَ)) (أخرجه أحمد: 1824)
’’بدشگونی وہ ہے جو تجھے کسی کام کے کرنے پر آمادہ کرے یا اس سے روک دے۔‘‘
840۔ سیدنا فضالہ بن عبید انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيرَةُ فَقَدْ قَارَفَ الشَّرْكَ)) (رواه وهب في الجامع: 110، وانظر: سلسلة الأحاديث الصحيحة: 1065)
’’جس شخص کو بدشگونی کام سے روک دے وہ شرک میں ملوث ہو گیا۔‘‘
841۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لا يُعْدِى شَيْيٌّ شَيْئًا، لَا يُعْدِى شَيْيٌّ شَيْئًا، لَا يُعْدِي شَيْئً شَيْئًا))
’’کسی کو کسی دوسری شے سے بیماری نہیں لگتی، کسی کو کسی دوسری شے سے بیماری نہیں لگتی، کسی کو کسی دوسری شے سے بیماری نہیں لگتی۔‘‘
ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کی: اللہ کے رسول! خارش کا ایک چھوٹا سا دانہ اتنے بڑے اونٹ کے نتھنے یا دم پر ہوتا ہے تو وہ پورے جسم پر سرایت کر جاتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((فَمَا أَجْرَبَ الْأَوَّلَ لَا عَدْوٰى وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ، خَلَقَ اللهُ كُلَّ نَفْسٍ، فَكَتَبَ حَيَاتَهَا، وَمُصِيبَاتِهَا، وَرِزْقَهَا)) (أخرجه أحمد:4198)
’’اونٹ کے جسم پر خارش کا آغاز کیسے ہوا؟ بیماری متعدی ہونے، الو کے بولنے اور ماہ صفر کی نحوست کا کوئی تصور نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا تو اس کی زندگی، اس کے مصائب و بیماریاں اور اس کا رزق لکھ دیا۔‘‘