شفاعت کا اثبات اور اس کی اقسام
911۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ، فَأُرِيدُ إِنْ شَاءَ اللهُ أَنْ أَخْتَبِي، دَعْوَتِی شَفَاعَةً لِأُمِّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) (أخرجه البخاري:7474، ومسلم:198)
’’ہر نبی کی ایک عظیک دعا مقبول ہے، ان شاء اللہ میرا ارادہ ہے کہ میں اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھوں گا۔‘‘
توضیح و فوائد: کسی دوسرے کے لیے خیر مانگتا یا کسی کو نقصان سے بچانے کی درخواست کرنا شفاعت کہلاتا ہے۔ دنیا و آخرت میں شفاعت کرتا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ دنیا میں کسی زندہ حاضر شخص سے سفارش کرنے کی درخواست کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ اس کی قدرت رکھتا ہو اور جس کام کی سفارش کی جائے وہ جائز ہو جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سفارش کی تھی کہ وہ مغیث رضی اللہ تعالی عنہ کے عقد میں رہے۔ جس سے شفاعت کی درخواست کی جائے وہ اس کی طاقت نہ رکھتا ہو، جیسے فوت شدہ آدمی یا ناجائز کام کے بارے میں سفارش کی جائے، یہ سفارش جائز نہیں ہے۔ آخرت میں نبی ﷺ کے علاوہ مومن بندے اور فرشتے بھی سفارش کریں گے۔
شفاعت کی اقسام:
(1) شفاعت کبری: یہ صرف نبی ﷺکریں گے، دوسرا کوئی نبی ایسی شفاعت نہیں کر سکے گا۔ یہ حساب کتاب شروع کرنے کی سفارش ہوگی۔ یہی مقام محمود ہے جس کا احادیث میں ذکر آیا ہے۔
(2) حساب کتاب کے بعد جنت میں داخل ہونے کی سفارش۔ یہ بھی نبی مکرمﷺ کے ساتھ خاص ہے کہ یہ آپ ہی ہوں گے جو جنت کا دروازہ کھلوائیں گے جیسا کہ حدیث (915) میں ہے۔
(3) ابو طالب کے حق میں نبی ﷺ کی سفارش کہ اس کا عذاب ہلکا ہو جائے۔ یہ شفاعت بھی نبی ﷺہی کے ساتھ خاص ہے جیسا کہ حدیث (919) میں ہے۔ اس کے علاوہ شفاعت کی دیگر قسموں میں اہل ایمان اور فرشتوں کے علاوہ قرآن کی شفاعت بھی شامل ہوگی۔
(4) نافرمان موحدین جن پر دوزخ واجب ہو چکی ہوگی۔ ان کے حق میں سفارش کہ انھیں دوزخ میں داخل نہ کیا جائے۔
(5) بڑے بڑے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں داخل ہونے والے موحدین کو وہاں سے نکالنے کی سفارش جیسا کہ حدیث (917) میں ہے۔
(6) بعض اہل جنت کے درجات کی بلندی کی سفارش۔
(7) بعض لوگ ایسے ہوں گے جن کے گناہ اور نیک کام برابر ہوں گے۔ وہ جنت اور دوزخ کے مابین ایک مقام پر ہوں گے جسے اعراف کہتے ہیں۔ اعراف والوں کے حق میں سفارش ہو گی کہ انھیں جنت میں داخل کر دیا جائے۔
(8) بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کرنے کی شفاعت۔
شرائط: شفاعت کی مذکورہ بالا آٹھ قسمیں دو شرطوں کے ساتھ معتبر ہوں گی:
(1) اللہ تعالی سفارش کرنے والے کو سفارش کی اجازت دے۔
(2) جس کی سفارش کی جارہی ہو اللہ تعالی اس کی سفارش کرنے پر راضی ہو۔
912۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((خُیِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ وَبَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ أَمْتِي الْجَنَّةَ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ)) (أخرجه ابن ماجه:4311)
’’مجھے یہ اختیار دیا گیا کہ میں عمومی طور پر امت کے حق میں شفاعت کروں یا آدمی امت کے جنت میں داخل ہونے کی ضمانت لوں تو میں نے شفاعت کو اختیار کر لیا۔‘‘
توضیح و فوائد: اس سے معلوم ہوا کہ شفاعت کے ذریعے سے آدھی امت سے بھی زیادہ لوگ جنت میں جائیں گے۔
913۔ معبد بن ہلال عنزی کہتے ہیں کہ ہم اہل بصرہ جمع ہوئے اور ثابت بنانی کو ساتھ لے کر سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے تا کہ وہ ان سے ہمارے لیے حدیث شفاعت کے بارے میں پوچھیں۔
سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت اپنے محل میں تشریف فرما تھے، جب ہم وہاں پہنچے تو دو چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے، ہم نے ان سے اجازت طلب کی تو انھوں نے اجازت دے دی، اس وقت وہ اپنے بستر پر بیٹھے تھے، ہم نے ثابت بنانی سے کہہ رکھا تھا کہ ان سے حدیثہ شفاعت سے پہلے کوئی بات نہ پوچھنا، چنانچہ ثابت نے کہا: اے ابو حمزہ! یہ آپ کے (دینی) بھائی بصرہ سے آئے ہیں اور آپ سے
حدیث شفاعت کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ جی لڑ نے کہا: سیدنا محمد ہم نے ہمیں حدیث بیان کی، فرمایا:
(( إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ فَإِنَّهُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللَّهِ فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى فَإِنَّهُ رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونِي فَأَقُولُ أَنَا لَهَا فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فَيُؤْذَنُ لِي وَيُلْهِمُنِي مَحَامِدَ أَحْمَدُهُ بِهَا لَا تَحْضُرُنِي الْآنَ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ وَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي فَيَقُولُ انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ثُمَّ أَعُودُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي فَيَقُولُ انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ أَوْ خَرْدَلَةٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ثُمَّ أَعُودُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي فَيَقُولُ انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنْ النَّارِ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ )) (أخرجه البخاري:7510، ومسلم:193)
’’قیامت کے دن لوگ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ظاہر ہوں گے، پھر وہ سیدنا آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور (ان سے) عرض کریں گے: آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کریں، وہ کہیں گے: میں سفارش کے لائق نہیں ہوں، تم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ رحمان کے خلیل ہیں، چنانچہ لوگ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے تو وہ کہیں گے: میں اس قابل نہیں ہوں، ہاں تم سیدنا موسی علیہ السلام کے پاس جاؤ، یقینًا وہ اللہ تعالی سے شرف ہم کلامی پانے والے ہیں، لوگ سیدنا موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے: میں اس قابل نہیں، البتہ تم سیدنا عیسی علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ کا حکم اور اس کی خاص روح ہیں، جب لوگ سیدنا عیسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے: میں اس قابل نہیں ہوں، البتہ تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ، جب وہ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا: ہاں میں اس (شفاعت) کے لائق ہوں، پھر میں اپنے سب سے اجازت چاہوں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی، اس دوران میں اللہ تعالیٰ مجھے اپنے لیے تعریفی کلمات الہام کرے گا، جن کے ذریعے سے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کروں گا جو اس وقت مجھے یادیں ہیں، پھر جب میں اللہ کی تعریفیں بیان کروں گا اور اللہ تعالی کے حضور سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، بات کرو، تمھاری بات سنی جائے گی، جو مانگو وہ دیا جائے گا۔ سفارش کرو قبول کی جائے گی، پھر میں عرض کروں گا: میرے رب! میری امت میری امت کہا جائے گا: جاؤ، دوزخ سے ان لوگوں کو نکال لاؤ جن کے دلوں میں ایک جو کے برابر ایمان ہے، چنانچہ میں جاؤں گا اور حکم کی تعمیل کروں گا، پھر میں واپس آؤں گا اور انھی تعریفی کلمات سے اللہ کی حمد و ثنا کروں گا اور اللہ کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اپنا سر اٹھاؤ اور کہو، آپ کی بات کی جائے گی۔ سوال کرو آپ کو دیا جائے گا، سفارش کرو، تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ اور ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لاؤ جن کے دلوں میں رائی کے دانے سے بھی کم بلکہ کمتر ایمان ہو، میں جاؤں گا اور حکم کی تعمیل کروں گا۔ پھر میں واپس آؤں گا اور انھی تعریفی کلمات سے اللہ کی حمد و ثنا کروں گا اور اللہ کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا اللہ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا: اپنا سر اٹھاؤ اور کہو: آپ کی بات سنی جائے گی، سوال کرو آپ کو دیا جائے گا، سفارش کرو، تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری است، میری امت. الله تعالی فرمائے گا: جاؤ ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لاؤ جن کے دلوں میں رانی کے دانے سے بھی تین گنا کم ایمان ہے۔ میں جاؤں گا اور حکم کی تعمیل کروں گا۔‘‘
پھر جب ہم سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس سے واپس آئے تو میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے کہا۔ ہمیں امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھی جانا چاہیے، وہ اس وقت (حجاج بن یوسف کے ڈر سے ) ابوخلیفہ کے مکان میں چھپے ہوئے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان سے وہ حدیث بیان کریں جو ہمیں سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ نے سنائی ہے۔ لہٰذا ہم ان کے پاس آئے اور انھیں سلام کیا، انھوں نے ہمیں اجازت دی تو ہم نے ان سے کہا: اے ابو سعید ہم آپ کے پاس آپ کے بھائی سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں سے آئے ہیں، انھوں نے جو حدیث شفاعت بیان کی ہے وہ ہم نے کسی سے نہیں سنی۔
سیدنا حسن بصری نے کہا: اسے بیان کرو۔ ہم نے ان سے ساری حدیث بیان کی، جب ہم حدیث کے آخر مقام تک پہنچے تو انھوں نے کہا: اور بیان کرو۔ ہم نے کہا: اس سے زیادہ انھوں نے بیان نہیں کی۔ سیدنا حسن بصری کہتے ہیں کہ انھوں نے مجھے میں سال پہلے یہ حدیث بیان کی تھی جبکہ وہ پورے قومی نوجوان تھے، اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ باقی ماندہ حدیث بھول گئے ہیں یا انھوں نے تمھارے باتیں کرنے کے پیش نظر اسے بیان نہیں کیا۔
ہم نے عرض کی: ابو سعیدا آپ ہم سے حدیث بیان کریں۔ وہ ہنس کر بولے: انسان بہت جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے اس کا ذکر ہی اسے بیان کرنے کے لیے کیا تھا۔
سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے یہی حدیث بیان کی تھی جو تمھیں بیان کی ہے (اور اس میں یہ الفاظ مزید بڑھائے)، پھر آپ اﷺ نے فرمایا:
((ثُمَّ أَعُودُ الرَّابِعَةُ فَأَحْمَدُهُ بتلك المحَامِد ثُمَّ أَخِرُّلَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدًا ارْفَعْ رَأْسَكَ وَ قُلْ يُسْمَعُ وَسَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ: يَارَبَ إِئْذَنْ لِي فِيمَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، فَيَقُولُ وَعِزَّتِي وَجَلَالِي وَكَبْرِيَالِي وَعَظَمَتِي لَأُخْرِجَنَّ مِنْهَا مَنْ قَالَ: لَا إله إلا الله))
’’میں چوتھی بار واپس آؤں گا اور انھی (تعریفي) کلمات سے اللہ کی حمد و ثنا کروں گا، پھر اللہ کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، جو کہو گے اسے سنا جائے گا، جو مانگو گے دیا جائے گا، جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: میرے رب! مجھے ان لوگوں کو بھی جہنم سے نکالنے کی اجازت دے جنھوں نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا تھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: میری عزت میرے جلال، میری کبریائی اور میری عظمت کی قسم میں دوزخ سے ان لوگوں کو بھی نکالوں گا جنھوں نے صرف لا الہ الا اللہ کہا ہے۔‘‘
914۔ سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((يَجْمَعُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى النَّاسُ، فَيَقُومُ الْمُؤْمِنُونَ حَتّٰى تُزلَفَ لَهُمُ الْجَنَّةُ. فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السلام فَيَقُولُونَ: يَا أَبَانَا اسْتَفْتِحْ لَنَا الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ وَهَلْ أَخْرَجَكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا خَطِيئَةُ أَبِيكُمْ آدَمَ، لَسْتُ بِصَاحِبِ ذٰلِكَ، إِذْهَبُوا إِلَى ابني إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ اللهِ، قَالَ: فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السلام لَسْتُ بِصَاحِبِ ذٰلِكَ إِنَّمَا كُنتُ خَلِيلًا مِنْ وَرَاءَ وَرَاءَ اعْمِدُوا إِلٰى مُوسَى الَّذِي كَلَّمَهُ اللهُ تَكْلِيمًا، فَيَأْتُونَ مُوسَى عَلَيْهِ السلام فَيَقُولُ: لَسْتُ بِصَاحِبِ ذلِكَ اذْهَبُوا إِلٰى عِيسَى كَلِمَةِ اللَّهِ تَعَالَى وَرُوحِهِ فيقول عيسى عَلَيْهِ السلام لَسْتُ بِصَاحِب ذٰلِكَ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُومُ فَيُؤْذَنَ لَهُ، وَتُرْسَلُ الْأَمَانَةُ وَالرَّحِمُ فَتَقُومَانِ جَنْبَتَي الصِّرَاطِ يَمِينًا وَشِمَالًا فَيَمُرُّ أوَّلُكُمْ كَالبرقِ)) (أخرجه البخاري:3361، ومسلم:195)
’’اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا تو مومن کھڑے ہو جائیں گے یہاں تک کہ جنت ان کے قریب کر دی جائے گی اور وہ آدم علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے: اے والدہ بزرگ اہمارے لیے جنت کا درواز دکھلوائے۔ وہ جواب دیں گے کیا جنت سے تمھیں نکالنے کا سبب تمھارے باپ آدم کی خطا کے علاوہ کوئی اور چیز بھی تھی! میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، میرے بیٹے، اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ آپ نے فرمایا: ابراہیم السلام کہیں گے: اس کام (کو کرنے) والا میں نہیں ہوں، میں خلیل تھا اس (شفاعت کے منصب) سے پیچھے پیچھے، تم موسی کا رخ کرو جن سے اللہ تعالی نے کلام کیا۔ لوگ موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ وہ جواب دیں گے: اس کام (کو کرنے) والا میں نہیں ہوں تم اللہ تعالی کی روح اور اس کے کلمے عیسی علیہ السلام کے پاس جاؤ عیسی علیہ السلام فرمائیں گے: میں اس کام (کو کرنے) والا نہیں ہوں، پھر لوگ محمد ﷺ کے پاس آئیں گے، آپ اللہ کے سامنے قیام فرمائیں گے اور آپ کو (شفاعت کی) اجازت دی جائے گی۔ امانت اور قرابت داری کو بھیجا جائے گا، وہ پل صراط کی دونوں جانب دائیں اور بائیں کھڑی ہو جائیں گی۔ تم میں سے اولین شخص بجلی کی طرح گزر جائے گا۔‘‘
میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! بجلی کے گزرنے کی طرح کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
((أَلَمْ تَرَوْا إِلَى الْبَرْقِ كَيْفَ يَمُرُّ، وَيَرْجعُ فِي طَرْفَةِ عَيْنٍ؟ ثُمَّ كَمَرِّ الرِّيحِ ثُمَّ كَمَرِ الطَّيْرِ، وَشَدِّ الرِّجَالِ تَجْرِي بِهِمْ أَعْمَالُهُمْ، وَنَبِيُّكُمْ قَائِمٌ عَلَى الصِّرَاطِ يَقُولُ: رَبِّ سَلِّمْ سَلَّمْ حَتّٰى تَعْجِرُ أَعْمَالُ الْعِبَادِ، حَتّٰى يَجِيءَ الرَّجُلُ فَلَا يَسْتَطِيعُ السَّيْرَ إِلَّا رَحْفًا قَالَ وَفِي حَافَتَيِ الصِّرَاطِ کَلالِيبُ مُعَلَّقَةٌ مَأْمُورَةٌ تَأْخُذُ مَنْ أُمِرْتُ بِهِ، فَمَخْدُوشَ نَاجٍ وَمَكْدُوسٌ فِي النَّار))
"”تم نے کبھی بجلی کی طرف نہیں دیکھا، کسی طرح پلک جھپکنے میں گزرتی اور لوتی ہے ؟ پھر ہوا کے گزرنے کی طرح تیزی سے پھر پرندہ گزرنے اور آدمی کے دوڑنے کی طرح ان کے اعمال انھیں لے کر دوڑیں گے اور تمھارا نبي پل صراط پر کھڑا ہوا کہہ رہا ہوگا: اے میرے رب! بچا بچا ( میری امت کے ہر گزرنے والے کو سلامتی سے گزار دے)۔ حتی کہ بندوں کے اعمال انھیں لے کر گزر نہیں سکیں گے یہاں تک کہ ایک ایسا آدمی آئے گا جس میں گھسٹ گھسٹ کر چلنے سے زیادہ کی استطاعت نہ ہوگی۔ آپﷺ نے فرمایا: (پل) صراط کے دونوں کناروں پر لوہے کے آکڑے لٹکے ہوں گے، وہ اس بات پر مامور ہوں گے کہ جن لوگوں کے بارے میں حکم ہو انھیں پکڑ لیں، اس طرح بعض زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے اور بعض آگ میں دھکیل دیے جائیں گے۔‘‘
توضیح و خواند: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بھی نہ پل صراط سے بحفاظت گزرنے کی سفارش بھی کریں گے۔
915۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((أنَا أَوَّلَ النَّاسِ يَشْفَعُ فِي الْجَنَّةِ، وَأَنَا أَكْثَرُ الأَنْبِيَاءِ تَبَعًا)) .(أخرجه مسلم:196)
’’لوگوں میں سے سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جو جنت کے بارے میں سفارش کروں گا اور تمام انبیاء کے پیرو کاروں سے میرے پیرو کار زیادہ ہوں گے۔‘‘
916۔ سید نا عمران بن حسین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ شَفَاعَةِ مُحَمَّدٍﷺ، فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُسَمُّونَ الْجَهَنَمِيِين)) (أخرجه البخاري: 6566)
’’جہنم سے ایک قوم کو محمد سر کی سفارش سے نکالا جائے گا اور وہ جنت میں داخل ہوں گے تو انہیں جہنمی کے نام سے پکارا جائے گا۔‘‘
توضیح وفوائد: اہل جنت ان لوگوں کا نام ’’جنم والے‘‘ رکھیں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کا نام بدل کر عتقاء (اللہ کے آزاد کردہ) رکھ دے گا۔ (مسند احمد144/3) ایک روایت میں ہے کہ جب وہ جہنم سے نکلیں گے تو اللہ تعالی سے ملیں گے۔ تو ان کے چہرے پر سیاہی ہوگی جس وجہ سے ان کا نام ’’جہنمی‘‘ پڑ جائے گا۔ وہ اللہ تعالی سے یہ نام دور کرنے کی درخواست کریں گے تو ان کا یہ نام بدل دیا جائے گا۔(صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان، حدیث:7432)
917۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الكَبَائِرِ مِن أُمَّتِي)) (أخرجه أحمد: 13222، وأبو داره:4739، والترمذي:2435، وابن أبي عاصم في السنة:831، 832،
وأبو يعلى:3284، وابن جبان: 6468)
’’میری شفاعت میری است کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے بارے میں ہوگی۔‘‘
918۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ (ایک مہم کے لیے ) روانہ ہوئے حتی کہ ہم کشادہ وادی میں جا اترے۔
رسول اللہ یا قضائے حاجت کے لیے گئے تو میں (چمڑے کا بنا ہوا) پانی کا ایک برتن لے کر آپ کے پیچھے گیا۔
رسول اللہﷺ نے نظر دوڑائی تو کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی جس کی آپ اوٹ لے سکتے، وادی کے کنارے پر دو درخت نظر آئے، آپ ان میں سے ایک درخت کے پاس تشریف لے گئے، اس کی ایک ٹہنی کو پکڑا اور فرمایا:
((انْقَاِدي عَلَىَّ بِاِذْنِ الله)) ’’اللہ کے حکم سے میرے مطلع ہو جاؤ۔‘‘
تو وہ نکیل ڈالے ہوئے اونٹ کی طرح آپ کا فرمانبردار بن گیا، پھر دوسرے درخت کے پاس آئے اور اس کی ایک ٹہنی کو پکڑا اور کہا: ((انْقَاِدي عَلَىَّ بِاِذْنِ الله)) ’’اللہ کے حکم سے میرے مطلع ہو جاؤ۔‘‘
تو وہ بھی اسی طرح آپ کے ساتھ چل پڑا یہاں تک کہ آپ (اسے چلاتے ہوئے) دونوں کے درمیان پہنچے تو آپﷺ نے ان دونوں کو جھکا کر آپس میں ملا (کر اکٹھا کر) دیا، آپﷺ نے فرمایا:
((اِلْتَئِمَا عَلَىَّ بِاِذْنِ الله)) ’’دونوں اللہ کے حکم سے میرے سامنے مل جاؤ‘‘ تو وہ دونوں ساتھ مل گئے (اور آپ ﷺکو پردہ مہیا کر دیا)۔ (أخرجه مسلم:3012)
سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں ڈر سے بھاگتا ہوا وہاں سے نکلا کہ رسول اللہ ﷺ مجھے اپنے قریب پا کر وہاں سے مزید دور نہ جائیں، اور محمد بن عبادہ نے (اپنی روایت میں) کہا: آپ کو دور جانے کی زحمت کرنی پڑے گی۔ میں ایک جگہ بیٹھ گیا اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا، اچانک میری نگاہ پڑی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لا رہے ہیں اور دیکھا کہ دونوں درخت الگ الگ ہو چکے ہیں، ہر ایک درخت تنے پر سیدھا کھڑا ہو گیا ہے، پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ایک بار رکے اور اپنے سر مبارک سے اس طرح اشارہ کیا۔ ابو اسماعیل (حاتم بن اسماعیل) نے اپنے سر سے دائیں بائیں اشارہ کیا۔ پھر آپﷺ آگے تشریف لائے، جب میرے پاس پہنچے تو فرمایا:
((یا جابر! هل رأيت بمقامی)) ’’جابر! کیا تم نے میرے کھڑے ہونے کی جگہ دیکھی تھی؟‘‘
میں نے عرض کی: جی ہاں اللہ کے رسول! آپﷺ نے فرمایا:
((فَانْطلق إِلَى الشَّجَرَتَيْنِ فَاقْطَعْ مِنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا، فَأَقِبلْ بِهِمَا حتَّٰى إذا قمتَ مقامى، فَأَرْسِلْ غُصْنًا عَنْ يَمِييَانَ وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِكَ)) .
تم ان دونوں درحنتوں کی طرف جاؤ اور ان میں سے ہر ایک سے ایک (ایک) شاخ کاٹ کر لاؤ اور آکر جب میری جگہ پر کھڑے ہو جاؤ تو ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دینا اور ایک شاخ اپنی بائیں طرف۔‘‘
سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: میں اٹھا، ایک پتھر اٹھایا، اسے توڑا اور اسے گھسایا، جب وہ (چھری کی طرح) تیز ہو گیا تو ان دونوں درختوں کی طرف آیا، ہر ایک سے ایک (ایک) شاخ کاٹی، پھر انھیں گھسیٹا ہوا اس جگہ کھڑا ہو گیا جہاں رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے تھے، پھر ایک شاخ اپنی دائیں طرف ڈال دی اور دوسری اپنی بائیں طرف، پھر میں آپ سے ملا اور عرض کی: اللہ کے رسول! ( جو آپﷺ نے فرمایا تھا) میں نے کر دیا ہے، وہ کس لیے تھا؟ فرمایا:
((إِلى مَرَرْتُ بِقَبَرْينِ، يُعَذِّبَانِ، فَأَحْبَبْتُ بِشَفَاعَتِي أَنْ يُرَفَّهَ ذَاكَ عَنْهُنَا مَا دَامَ الغصنان رطبین))
’’میں دو قبروں کے پاس سے گزرا، انھیں عذاب دیا جارہا تھا، میں نے ان کے بارے میں شفاعت کرنی چاہی کہ ان سے عذاب میں اس وقت تک کے لیے تخفیف کر دی جائے جب تک یہ شاخیں گیلی رہیں۔‘‘
توضیح و قوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عذاب قبر کی تخفیف کی مقام کی شفاعت کی وجہ سے ہوئی۔ تاہم وہ محدود وقت کے لیے تھی۔ ٹہنیوں کا اس میں کوئی عمل دخل نہ تھا۔
919۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی ﷺ سے سنا کہ جب آپ کے سامنے آپ کے چچا ابو طالب کا ذکر کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا:
((لَعَلّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ، يَبْلُغُ كَعْبَيهِ يَغْلي مِنْهُ دِماغُهُ)) (أخرجه البخاري:3885، 6564، ومسلم:210)
’’قیامت کے دن اسے میری سفارش کچھ فائدہ دے گی کہ اسے کم گہری آگ میں رکھا جائے گا جس میں اس کے صرف ٹخنے ڈوبے ہوں گے مگر اس سے بھی اس کا دماغ ابل رہا ہو گا۔‘‘
920۔ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کو سپہ سالار بنا کر ایک لشکر کے ہمراہ اوطاس کی طرف روانہ کیا جو وہاں پہنچ کر درید بن صمہ سے نبرد آزما ہوئے۔ درید تو جنگ میں مارا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھیوں کو شکست سے دو چار کر دیا۔ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مجھے بھی ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کے ہمراہ روانہ کیا تھا۔ سیدنا ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھٹنے میں ایک جشمی آدمی نے تیر مارا جو کہ وہاں پیوست ہو کر رہ گیا۔ میں سیدنا ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہکے پاس گیا اور ان سے پوچھا: چچا جان! آپ کو کس نے تیر مارا ہے؟ انھوں نے ابو موسی اشعری کو اشارے سے بتایا کہ وہ میرا قاتل ہے جس نے مجھے تیر مارا ہے۔ فرماتے ہیں: میں دوڑ کر اس کے پاس جا پہنچا مگر جب اس نے مجھے دیکھا تو بھاگ نکلا، میں اس کے پیچھے ہو لیا اور کہنے لگا کہ تجھے شرم نہیں آتی، اب تو ٹھہرتا کیوں نہیں ہے؟ آخر وہ رک گیا، پھر میرے اور اس کے درمیان تلوار کے دو وار ہوئے، بالآخر میں نے اسے مار ڈالا، پھر واپس آکر میں نے ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ اللہ تعالی نے تمھارے قاتل کو ہلاک کر دیا ہے۔
انھوں نے فرمایا: اب میرے جسم سے تیر نکالو۔ میں نے تیر نکالا تو زخم سے پانی بہنے لگا، انھوں نے مجھ سے فرمایا: بھتیجے نبی ﷺ کو میری طرف سے سلام عرض کرنا اور آپ سے کہنا کہ میرے لیے بخشش کی دعا فرمائیں۔
ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ مجھے اپنی جگہ لوگوں کا سپہ سالار مقرر کیا، چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد وہ انتقال کر گئے۔
واپس آکر میں نبی ﷺ کی خدمت میں آپ کے گھر حاضر ہوا، اس وقت آپ بان سے بنی ہوئی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے جس پر ہلکا سا بہتر تھا۔ چار پائی کی رسیوں کے نشانات آپ کے پہلو اور پشت پر پڑ گئے تھے، میں نے آپ سے تمام حالات بیان کیے اور سیدنا ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا واقعہ بھی بیان کیا اور ان کی دعائے مغفرت کی درخواست بھی پیش کی۔
آپ نے پانی منگوایا، وضو کرنے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: ((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ))
’’اے اللہ عبید، یعنی ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کو بخش دے۔‘‘
اس وقت میں آپ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ رہا تھا، آپﷺ نے پھر فرمایا:
((اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ مِنَ النَّاسِ))
’’اے اللہ اسے قیامت کے دن انسانوں میں سے اکثر پر برتری عطا فرما۔‘‘
میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے بھی مغفرت کی دعا فرمائیں۔ آپﷺ نے دعا کی:
((اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ، وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلًا كَرِيمًا)) (أخرجه البخاري:4323، ومسلم: 2498)
’’اے اللہ عبداللہ بن قیس کے گناہ بخش دے اور روز قیامت اسے مقام عزت عطا فرما۔‘‘
توضیح و فوائد: شفاعت کی ایک قسم یہ ہے کہ کی رضی اللہ تعالی عنہ نے زندگی میں اس کے لیے دعا کی ہو جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ اس طرح کسی مرنے والے کے جنازے میں اہل ایمان شامل ہو کر شفاعت کریں تو ان کی شفاعت بھی قبول ہوتی ہے۔
921۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ بِأَشَدَّ مُنَاشَدَةً لِلَّهِ فِي اسْتِقْصَاءِ الْحَقِّ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لِلَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ فِي النَّارِ، يَقُولُونَ: رَبَّنَا كَانُوا يَصُومُونَ مَعَنَا وَيُصَلُّونَ وَيَحُجُّونَ، فَيُقَالُ لَهُمْ: أَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ، فَتُحَرَّمُ صُوَرُهُمْ عَلَى النَّارِ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا قَدِ أَخَذَتِ النَّارُ إِلَى نِصْفِ سَاقَيْهِ، وَإِلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا مَا بَقِيَ فِيهَا أَحَدٌ مِمَّنْ أَمَرْتَنَا بِهِ، فَيَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ [ص:170] فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا أَحَدًا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا، ثُمَّ يَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا، ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا أَحَدًا، ثُمَّ يَقُولُ: ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ، فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا ثُمَّ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا خَيْرًا )) ((أخرجه البخاري:7439، وتسليم:183)
’’جب مومن آگ سے خلاصی پالیں گے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اور اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں جو آگ میں ہوں گے اس قدر منت سماجت اور آوہ و زاری کریں گے کہ تم میں سے کوئی اپنا پورا پورا حق وصول کرنے کے لیے بھی نہیں کرتا۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے اور حج کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا۔ تم جنہیں پہچانتے ہو انھیں نکال لو، ان کی صورتیں آگ پر حرام کر دی گئی ہوں گی۔ وہ بہت سے لوگوں کے نکال لائیں گے جن کی آدھی پنڈلیوں تک یا گھٹنوں تک آگ انھیں پکڑ چکی ہوگی، پھر وہ کہیں گے ہمارے رب انھیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں رہا۔ وہ فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کے دل میں دینار بھر خیر (ایمان) پاؤ اسے بھی نکال لاؤ تو وہ بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے ہمارے رب! جنھیں نکالنے کا تونے حکم دیا تھا اُن میں سے کسی کو ہم نے دوزخ میں نہیں چھوڑا۔ اللہ تعالی پھر فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر خیر پاؤ اسے بھی نکال لاؤ تو وہ (پھر سے) بڑی خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب انھیں نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا ہم نے ان میں سے کسی کو دوزخ میں نہیں چھوڑا، وہ پھر فرمائے گا: واپس جاؤ، جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر غیر پاؤ اسے نکال لاؤ تو وہ کثیر خلقت کو نکال لائیں گے، پھر وہ کہیں گے: ہمارے رب اہم نے اس میں کسی صاحب خیر کو نہیں چھوڑا۔ ‘‘ (ایمان ایک ذرے کے برابر بھی ہو سکتا ہے)۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہا کرتے تھے: اگر تم اس حدیث کی تصدیق نہیں کرتے ہو تو (اس آیت کو)
پڑھ لو
﴿إِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ (النساء: 40)
’’یقینا اللہ تعالی ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر وہ عمل نیکی کا ہو تو وہ اسے کئی گناہ بڑھا دے گا اور اپنی طرف سے اجر عظیم سے نوازے گا۔‘‘ (النساء :40)
پھر اللہ تعالی فرمائے گا:
((شَفَعَتِ الْمَلَائِكَةُ، وَشَفَعَ النَّبِيُّونَ، وَشَفَعَ الْمُؤْمِنُونَ، وَلَمْ يَبْقَ إِلَّا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ، فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ، فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ))
’’فرشتوں نے سفارش کی، نبیوں نے سفارش کی اور مومنوں نے سفارش کی اور (اب) صرف ارم الراحمین ہی باقی رہ گیا ہے، چنانچہ وہ آگ سے ایک مٹھی بھرے گا اور وہاں سے ایسے لوگوں کو نکالے گا جنھوں نے کبھی خیر کا عمل نہیں کیا ہوگا۔‘‘
922۔ سیدنا عبداللہ بن ابو جذعاء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:
((لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي، أَكْثَرُ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ))(أخرجه أحمد: 15857، 15858، و الترمذي: 2438)
’’میری امت کے کسی آدمی کی شفاعت سے بنو تمیم سے زیادہ افراد ضرور جنت میں جائیں گے۔‘‘
عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! یہ آدمی آپ کے علاوہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
((سوای)) ’’میرے علاوہ ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: اس آدمی سے مراد کون ہے؟ اس کی تعیین کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے، تاہم شارحین نے اس ضمن میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے نام لکھے ہیں۔
923۔ سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((اِقْرَءُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ يَأْتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ، اقْرَءُوا الأَهْزهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَة وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا، أِقْرَءُوا سُورَةً الْبَقَرَةِ، فَإِنْ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا يَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ)) (أخرجه مسلم:804)
’’قرآن پڑھا کرو کیونکہ قیامت کے دن وہ اپنے پڑھنے اور عمل کرنے والوں کا سفارشی بن کر آئے گا۔ دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں: سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے پرندوں کی دو ڈاریں ہوں، وہ اپنی صحبت (میں پڑھنے اور عمل کرنے) والوں کی طرف سے دفاع کریں گی۔ سورہ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت اور اسے ترک کرنا باعث حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘