سابقہ امتوں میں فرقہ بندیوں کی وضاحت
975۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلٰى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلٰى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلٰى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً)) (أخرجه أحمد:8396، وأبو داؤد:4596،، والترمذي:2640، وابن ماجه:3991، وأبو يعلى:5910، 5978، 6117، وابن حبان:6731،6247، والحاكم:128/1، والبيهقي: 208/10)
یہودی اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹے اور عیسائی بھی اکہتر یا بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے جبکہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی۔‘‘
976۔ سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((أَلَّا إِنَّ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ افْتَرْقُوا عَلٰى ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَإِنْ هٰذِهِ المِلَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلٰى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ، ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ، وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهِي الجَمَاعَة)) (أخرجه أحمد:16937، وأبو داود: 4597، والدارمي:241/2)
’’خبر دار! تم سے پہلے اہل کتاب بہتر (72) گروہوں میں تقسیم ہوئے اور یہ امت تہتر (73) فرقوں میں بٹے گی بہتر(72) آگ میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور وہ جماعت ہوگی۔‘‘
977۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لَيَأْتِيَنَ عَلٰى أُمَّتِي مَا أَتٰى عَلٰى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتّٰى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتٰى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَن يَصْنَعُ ذٰلِكَ، وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِينَ تَفَرَّقَتْ عَلٰى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَةَ وَاحِدَةً)) (أخرجه الترمذي: 2641)
’’یقینا میری امت پر ایسا دور آئے گا کہ ہو بہو بنی اسرائیل جیسے ہو جائیں گے جیسا کہ جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے حتی کہ اگر ان میں کوئی ایسا ہوا، جو کھلم کھلا اپنی ماں کے پاس آیا (اس سے زنا کیا) تو میری امت میں سے بھی ایسی حرکت کرنے والا ہوگا اور بنی اسرائیل بہتر (72) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت تبتر (73) گروہوں میں بٹے گی اور ایک فرقے کے سوا سب دوزخی ہوں گے۔‘‘
کسی نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کون سا فرقہ ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا:
((مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحابی)) ’’جس پر میں اور میرے ساتھی ہیں۔‘‘
توضیح و فوائد: مذہبی گروہ بندی اور تعصب قابل مذمت ہے۔ اس کا سبب قرآن وسنت سے دوری اور شخصی تقلید ہے۔ ہر گروہ اپنی سچائی کا دعویدار ہے لیکن ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہدایت یافتہ طبقہ وہ ہے جو قرآن وسنت پر کار بند رہ کر صحابہ کا منہج اختیار کرے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ براہ راست قرآن اور نبی ﷺسے رہنمائی لیتے تھے۔ آج بھی ہدایت کی راہ وہی ہے جو چودہ سو سال پہلے اجاگر ہوئی تھی۔
978۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يَكُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلَافٌ وَفُرْقَةٌ)) (أخرجه أحمد:13036)
’’میری امت میں اختلاف اور گروہ بندی ہوگی۔‘‘
979۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا، اس اندیشے کے پیش نظر کہ کہیں میں اس کا شکار نہ ہو جاؤں۔
(ایک مرتبہ) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!جاہلیت اور شر کے زمانے میں تھے، پھر اللہ تعالی نے اس خیر و برکت سے سرفراز فرمایا، کیا اب اس خیر کے بعد پھر کوئی شر کا وقت آئے گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ((نعم) ’’ہاں۔‘‘
میں نے عرض کی: اس شر کے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا ؟ آپ نے فرمایا:
((نعم و فيه دخنٌ) ’’ہاں لیکن اس غیر میں کچھ فساد ہوگا۔‘‘
میں نے عرض کیا: وہ فساد کیا ہو گا؟ آپﷺ نے جواب دیا:
((قَوْم يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي وَيَهْتَدُونَ بِغَيْرِ هَدْیِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ))
’’ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے، تم ان میں اچھی اور بری چیزیں دیکھو گے۔‘‘
میں نے عرض کیا: آیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا ؟ آپﷺ نے فرمایا:
((نَعَمْ، دُعَاةٌ عَلٰى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا))
’’ہاں جہنم کے دروازوں پر کھڑے اس کی طرف بلانے والے لوگ ہوں گے جو ان کی بات مانیں کے وہ انھیں اس میں جھونک دیں گے۔‘‘
میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے ان کے کچھ اوصاف بیان فرما دیں۔
آپﷺ نے فرمایا: ((نعم، هو قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا))
’’وہ لوگ ہماری ہی قوم سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔‘‘
میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو میرے لیے کیا حکم ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: ((تُلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ))
’’تم ایسے حالات میں مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا۔‘‘
میں نے پوچھا: اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہی ہو تو؟ آپﷺ نے فرمایا:
((فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرْقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلٰى أَصْلٍ شَجَرَةٍ حَتّٰى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ
وأنتَ عَلٰى ذٰلك)) (أخرجه البخاري:3606،3607،7084 ومسلم:1847)
’’پھر تم ان تمام فرقوں سے الگ رہو اگرچہ تمھیں کسی درخت کی جڑ ہی چپانی پڑے یہاں تک کہ اس حالت میں تمھیں موت آجائے۔‘‘
توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مذہبی تنظیموں کے امراء کی حیثیت شرقی امیر کی نہیں ہے کہ جس کی حکم عدولی حرام ہو یا اس تنظیم سے علیحدگی دائرہ اسلام سے خروج کا باعث ہو۔ یہ صرف انتظامی امور کے ناظم ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ ان تنظیموں کے حسن وقبح میں پڑے بغیر قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے اور ہر تعلیم کی اچھی بات کی تائید کرے۔
980۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:
((لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِّنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ، ظَاهِرِينَ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ))
’’میری امت کا ایک گروہ، جو حق کی خاطر قتال کرے گا، روز قیامت تک مسلسل غالب رہے گا۔‘‘