کفار اور مشرکین کی سرزمین میں رہائش اختیار کرنے کی حرمت

992۔ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِكَ وَسَكَنَ مَعَهُ، فَإِنَّهُ مِثْلُهُ)) (أخرجه أبو داود: 2787)

’’جو شخص کسی مشرک کی صحبت اختیار کرے اور اس کے ساتھ رہائش رکھے وہ بھی اسی کی طرح ہے۔‘‘

993۔ سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ، يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ))

’’میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے اندر مقیم ہو۔‘‘

انھوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیوں؟ آپﷺ نے فرمایا:

((لَا تَرَایَا نَارَاهُمَا)) (أخرجه أبو داود:2648، والترمذي:1604)

’’دونوں کو ایک دوسرے کی آگ نہیں دکھائی دینی چاہیے۔‘‘

994۔  سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((لَا يَقْبَلُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ مُشْرِكٍ، بَعْدَ مَا أَسْلَمَ عَمَلًا، أَوْ يُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى المسلمين)).(أخرجه أحمد: 20037، 20043، و النسائي في المجتبي: 2569، و في الكبريٰ:11469)

’’اللہ تعالی اسلام قبول کرنے والے کسی مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ مشرکوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کے پاس چلا جائے۔‘‘

توضیح و فوائد مشرکین اور کفار کے علاقے میں اقامت اختیار کرنے سے اجتناب ہی کرنا چاہیے لیکن ناگزیر صورت میں درج ذیل شرائط کے ساتھ اقامت کی جاسکتی ہے:

(1) انسان کو شریعت کا اس قدر علم ہو کہ وہ اسلام کے بارے میں کفار کے شبہات سے بچ جائے۔

(2) آدمی دین کا اس قدر پابند ہو کہ وہ شہوات سے بچ سکے اور دینی شعائر، مثلا: نماز، روزہ اور جمعہ وغیرہ کا اہتمام یقینی ہو۔

(3) حالات ایسے ہوں کہ مشرکوں کے علاقے میں رہے بغیر چارہ نہ ہو۔

…………….