قیامت کی بڑی نشانیوں کا ذکر

1068۔سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: ہم باتیں کر رہے تھے تو  نبی ﷺنے اوپر سے ہمیں جھانک کر دیکھا اور فرمایا: ((مَا تَذکُرُونَ؟) ’’تم کیا با تیں کر رہے ہو؟‘‘

 ہم نے عرض کی: ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں۔

آپ ﷺنے فرمایا: ’’إِنَّهَا لَن تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ)) (أخرجه مسلم:2901)

’’جب تک تم دس نشانیاں نہیں دیکھ لو گے اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی۔‘‘

پھر آپﷺ نے یہ نشانیاں ذکر فرمائیں: دھوئیں کے نمودار ہونے ، دجال، دابۃ الارض (زمین سے نمودار ہونے والے عجیب الخلقت جانور)، سورج کے مغرب سے طلوع ہوئے، عیسی  ابن مریم  علیہما السلام کےنزول، یا جوج ماجوج، تین جگہ زمین کا دھنسنا: ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں اور تیسرا جزیرہ عرب میں اور آخر میں یمن سے آگ نکلے گی اور لوگوں کو ان کے (میدان ) محشر کی طرف دھکیلے گی۔

 توضیح و فوائد: ان نشانیوں کے وقوع پذیر ہونے کی مذکورہ ترتیب ضروری نہیں بلکہ یہ آگے پیچھے بھی ہو۔ سکتی ہیں بلکہ دیگر احادیث کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے، اصل ترتیب اس سے ہٹ کر ہے لیکن اس کی حتمی ترتیب اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔

1069۔سیدنا عبد الله بن عمرو  رضی اللہ تعالی عنہمابیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ:

((إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَخُرُوجُ الدَّابَةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى ، وَأَیُّهُمَا مَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا فَالْأُخْرَى عَلَى إِثْرِهَا قَرِيبٌ )) (أخرجه مسلم:2941)

’’یقیناً نمودار ہونے والی سب سے پہلی نشانی مغرب سے سورج کا طلوع ہونا اور دن چڑھے لوگوں کے سامنے زمین کے چوپائے کا نکلنا ہے۔ ان میں سے جو بھی نشانی دوسری سے پہلے ظاہر ہوگی، دوسری اس کے بعد جلد صودار ہو جائے گی۔‘‘

1070۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((الآيَاتُ خَرَزَاتٌ مَنْظُومَاتٌ فِي سِلك، فَإِن يُقْطَع السِّلْكُ يَتْبَعُ بَعْضُهَا بَعْضا)) (أخرجه أحمد:7040)

’’آیات (قیامت کی نشانیاں) ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہیں، اگر لڑی کاٹ دی جائے تو وہ یکے بعد دیگرے سب گر جائیں گے۔‘‘

 توضیح و فوائد، مطلب یہ ہے کہ جب یہ بڑی نشانیاں ظاہر ہونی شروع ہوں گی تو یکے بعد دیگرے ، پے در پے ظاہر ہوتی چلی جائیں گی۔

1071۔ سیدنا نواس بن سمعان  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا، (دوران ذکر) آپﷺ نے اپنی آواز کبھی دھیمی رکھی اور کبھی اونچی، یہاں تک کہ ہمیں ایسے لگا جیسے وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔ جب شام کو ہم آپ کے پاس (دوبارہ) آئے تو آپ نے ہم میں اس (شدید تأثر) کو بھانپ لیا۔ آپﷺ نے ہم سے پوچھا:

((ما شأنكم؟)) ’’تم لوگوں کو کیا ہوا ہے ؟‘‘

ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول ! صبح کے وقت آپ نے دجال کا ذکر فرمایا تو آپ کی آواز میں (ایسا) اتار چڑھاؤ تھا کہ ہم نے سمجھا کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔ اس پر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:

((غَيْرُ الدَّجَالِ أَخْوَ فُیِ عَلَيْكُمْ ، إِن يَخْرُجُ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ ، وَإِنْ يخرج، وَلَسْتُ فِيكُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسهِ، وَاللهُ خَلِيفَتِي عَلٰى كُلِّ مُسْلِمٍ، إِنَّهَ شابٌّ قَطَطٌ عينهُ طافئةٌ. كَأَنِّي أشَبِّهُهُ بِِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ، فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فلْيَقُرْا عَلَيْهِ فَوَائِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ ، إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَةً بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ ، فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمالًا . يَا عِبَادَ اللهِ فَاثْبُتُوا))  (أخرجه مسلم:2937)

’’مجھے تم لوگوں پر دجال کے علاوہ دیگر فتنوں کا زیادہ خوف ہے، اگر دجال نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو میں تمھاری طرف سے اس کے خلاف  (اس کی تکذیب کے لیے)دلائل دینے والا ہوں گا اور اگر وہ نکلا اور میں موجود نہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والا خود ہوگا اور اللہ پر مسلمان پر میرا خلیفہ  (خودنہگبان) ہوگا۔ وہ گچھے دار بالوں والا ایک جوان شخص ہے، اس کی ایک آنکھ  بے نور ہے۔ میں ایک طرح سے اسے عبد العزی بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں ۔ تم میں سے جو اسے پائے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے، وہ عراق اور شام کے درمیان ایک رستے سے  نکل کر آئے گا۔ وہ دائیں طرف بھی تباہی  مچانے والا ہوگا اور بائیں طرف بھی۔ اے اللہ کے بندو!تم ثابت قدم رہنا۔‘‘

ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول ! زمین میں اس کے رہنے کی مدت کیا ہو گی ؟

آپ ﷺنے مام فرمایا: ((أَرْبَعُونَ يَوْمًا، يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَيَومٌ كَشَهْرٍ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ))

’’چالیس دن (ان میں سے) ایک دن ایک سال کی طرح ہوگا۔ ایک دن ایک مہینے کی طرح اور ایک دان ایک ہفتے کی طرح، اس کے باقی سارے دن تمھارے دنوں کی طرح ہوں گے۔‘‘

 ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول ! جو دن جو ایک سال کی طرح ہوگا، کیا اس میں ہمارے لیے ایک دن کی نماز کافی ہوگی؟

فرمایا: ((لاَ،أُقْدُرُ له قدره))

’’نہیں ، تم اس کی مقدار کا تعین کرنا  ( اور اس کے مطابق نمازیں ادا کرنا۔)‘‘

ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! زمین میں اس کی سرعت رفتار کیا ہوگی؟ آپﷺ نے فرمایا:

((كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ فَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتُمْطِرُ وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ وَيَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمْ اللَّهُ مِنْهُ فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْأَرْضِ فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى يَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ لَتَكْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ لَتَكْفِي الْقَبِيلَةَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ لَتَكْفِي الْفَخِذَ مِنْ النَّاسِ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ))

(اس کی رفتار ایسے) بادل کی طرح (ہوگی) جس کے پیچھے ہوا ہو، وہ ایک قوم کے پاس آئے گا۔ انھیں دعوت دے گا، وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے تو وہ آسمان (کے بادل ) کو حكم دے گا، وہ بارش برسائے گا اور وہ زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائے گی ، شام کے اوقات میں ان کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اونچے اور تھن انتہائی زیادہ بھرے ہوئے اور کو ھیں پھیلی ہوئی ہوں گی، پھر ایک (اور) قوم کے پاس آئے گا اور انہیں (بھی) دعوت دے گا، وہ اس کی بات ٹھکرا دیں گے وہ انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا تو وہ قحط کا شکار ہو جائیں گے۔ ان کے مال مویشیوں میں سے کوئی چیز ان کے ہاتھ میں نہیں ہوگی۔ وہ (دجال) بنجر زمین میں سے گزرے گا تو اس سے کہے گا: اپنے خزانے نکال تو اس (بنجر زمین) کے خزانے اس طرح نکل کر اس کے پیچھےبگ جائیں گے جس طرح شہد کی مکھیوں کی رانیاں ہیں، پھر وہ ایک بھر پور جوان کو بلائے گا اور اسے تلوار مار کر ( یک بارگی) دو حصوں میں تقسیم کر دے گا جیسے تیرے ہدف تکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے، پھر وہ اسے بلائے گا تو وہ (زندہ ہو کر) دمکتےہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔ وہ (دجال ) اسی عالم میں ہوگا جب اللہ تعالی مسیح ابن مریم علیہ السلام کو مبعوث فرمادے گا، وہ دمشق کے مشرقی حصے میں ایک سفید بینار کے قریب دو کیسری کپڑوں میں دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے، اتریں گے، جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو قطرے گریں گے اور سر اٹھائیں گے تو اس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی۔ کسی کافر کے لیے، جو آپ کی سانس کی خوشبو پائے گا، مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ ان کی سانس کی خوشبووہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔ آپ علیہ السلام اسے ڈھونڈیں گے تو اسے لد (Lyudia) کے دروازے پر پائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے، پھر عیسی ابن مریم علیہ السلام کے پاس وہ لوگ آئیں گے جنہیں اللہ نے اس (دجال کے دام میں آنے) سے محفوظ رکھا ہوگا تو وہ اپنے ہاتھ ان کے چہروں پر پھیریں گے اور انھیں جنت میں ان کے درجات کی خبر دیں گے، وہ اس عالم میں ہوں گے کہ اللہ تعالٰی عیسی علیہ ا لسلامم کی طرف وحی فرمائے گا: میں نے اپنے (پیدا کیے ہوئے) بندوں کو باہر نکال دیا ہے۔ ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں، آپ میری بندگی کرنے والوں کو اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں اور اللہ یا جوج ماجوج کو بھیج دے گا، وہ ہر اونچی جگہ سے امڈتے ہوئے آئیں گے۔ ان کے پہلے لوگ (میٹھے پانی کی بہت بڑی جھیل ) بحیرہ طبریہ سے گزریں گے اور اس میں جو (پانی) ہوگا اسے پی جائیں گے، پھر آخری لوگ گزریں گے تو کہیں گے: کبھی اس (بحیرہ) میں (بھی) پانی ہوگا۔ اللہ کےنبی سیدنا عیسی  اور ان کے ساتھی محصور ہو کر رہ جائیں گے حتی کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے بیل کا سراس سے بہتر (قیمتی) ہوگا جتنے آج تمھارے لیے سودینار ہیں۔ اللہ کےنبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی گڑ گڑا کر دعائیں کریں گے تو اللہ تعالی ان ( یا جوج ماجوج) پر ان کی گردنوں میں کیڑوں کا عذاب نازل کر دے گا تو وہ ایک انسان کے مرنے کی طرح  (یکبارگی) اس کا شکار ہو جائیں گے،  پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اتر کر (میدانی) زمین پر آئیں گے تو انھیں زمین میں بالشت بھر بھی جگہ نہیں ملے گی جو ان کی گندگی اور بدبو سے بھری ہوئی نہ ہو۔ اس پر سیدنا عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کے سامنے گڑ گڑ ائیں گے تو اللہ تعالی بختی اونٹوں کے جیسی بھی گردنوں کی طرح (کی گردنوں والے) پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھائیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا، جا پھینکیں گے، پھر اللہ تعالی اپنی بارش بھیجے گا جس سے کوئی گھر اینٹوں کا ہو یا اون کا (خیمہ) اوٹ مہیا نہیں کر سکے گا۔ وہ زمین کو دھو کر شیشے کی طرح  (صاف) کر چھوڑے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا۔ اپنے پھل اگاؤ اور اپنی برکت لوٹا لاؤ ۔ تو اس وقت ایک انار کو پوری جماعت کھائے گی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں (اتنی) برکت ڈالی جائے گی کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہوگا اور گائے کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلے کو کافی ہوگا اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے کی ایک شاخ کو کافی ہوگا۔ وہ اس عالم میں رہ رہے ہوں گے کہ اللہ تعالی ایک عمدہ ہوا بھیجے گا،  وہ لوگوں کو ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی اور ہر مسلمان کی روح قبض کرلے گی اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے، وہ گدھوں کی طرح ( پر سر عام) آپس میں اختلاط کریں گے تو ابھی پر قیامت قائم ہوگی ۔‘‘

1072۔  سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ   ﷺ نے فرمایا:

((لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰى تَمْتَلِئَ الأرضُ ظُلْمًا وعدوانًا)) (أخرجه أحمد:11313، 11130)

’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک زمین ظلم و زیادتی سے بھر نہ جائے ۔‘‘

آپﷺ نے فرمایا: ((ثُمَّ يَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ عِتْرَتيِ ، أَوْ مِنْ أَهْلِ بَيْنِ يَمُلُؤهَا قِسْطًا وَعَدْلًا، كمَا مُلِئتْ ظُلْمًا وعدوانًا))

’’پھر میری آل یا اہل بیت میں سے ایک آدمی اٹھے گا جو اس کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح پہلے ظلم و زیادتی سے بھری ہوگی ۔‘‘

اور مسند احمد کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: ((أَجْلٰی أَقْنٰی))

’’روشن چہرے والا، باریک، اونچی اور درمیان سے اٹھی ہوئی ناک والا ۔‘‘

1073۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((يَخْرُجُ فِي آخِرِ أُمَّتِي الْمَهْدِيُّ يَسْقِيهِ اللهُ الْغَيْثَ، وَتُخْرِجُ الْأَرْضِ نَباتها. ويُعطِى المَالَ صِحَاحًا، وتكثرُ الْمَاشِيَة، وتعظُمُ الْأُمَّةُ، يَعِيشُ سَبْعًا أَوْ ثَمَانِيًا))يعني حِجَجًا))(أخرجه الحاكم:558/4)

’’میری امت کے آخری دور میں مہدی آئے گا، اللہ بارش سے اسے نوازے گا اور زمین اپنی نباتات نکال باہر کرے گی اور وہ مال برابر اور صحیح طریقے سے تقسیم کرے گا، جانور بہت زیادہ ہو جائیں گے اور امت کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوگی ۔ وہ سات یا آٹھ سال زندہ رہے گا۔

توضیح و فوائد: مہدی آسمانوں سے نازل ہوں گے نہ پہاڑوں یا غاروں سے نکلیں گے بلکہ وہ رسول اللہ ﷺکی اولاد میں سے ہوں گے اور امت کے فرد ہوں گے۔ اللہ تعالی اس ماحول اور ذمہ داری کے لیے اس کی اصلاح فرمائے گا تو مہدی مسلمانوں کے خلیفہ اور نما ئندہ بنیں گے۔‘‘