عذاب قبر اور اس کی نعمتوں کا اثبات

1120۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتی ہیں کہ مدینے کے یہودیوں کی بوڑھی عورتوں میں سے دو بوڑھیاں میرے گھر آئیں اور انھوں نے کہا: قبروں والوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے۔ میں نے ان دونوں کو جھٹلایا اور ان کی تصدیق کے لیے ہاں تک کہنا گوارا نہ کیا۔ وہ چلی گئیں اور رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ ﷺسے کہا: اللہ کے رسول میرے پاس مدینے کی بوڑھی یہودی عورتوں میں سے وہ  بوڑھیاں آئی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ قبر والوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((صَدَقَتَا إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِم)) (أخرجه البخاري:6366، و مسلم:586)

’’ ان دونوں نے سچ کہا تھا۔ بلاشبہ قبر والوں کو ایسا عذاب ہوتا ہے کہ اسے مویشی بھی سنتے ہیں۔‘‘

 اس کے بعد میں نے آپ ﷺکو دیکھا آپ ہر نماز میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے۔

 توضیح و فوائد: قبر کا عذاب اور قبرہی میں حاصل ہونے والی نعمتیں برحق ہیں۔ اس کا انکار رسول اکرم کی احادیث کا انکار ہے، قبر سے مراد وہی قبر ہے جو مٹی کے ڈھیر کی صورت میں نظر آتی ہے۔ یہ برزخی زندگی کا معاملہ ہے۔ اسے دنیاوی زندگی پر قیاس کرنا ٹھیک نہیں، نہ ہم اس کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہاں مرنے کے بعد اگر کسی کو زمین میں دفن نہیں کیا گیا تو جو جس جگہ بھی ہے وہی اس کی قبر ہے، اللہ ان کے ذرات اکٹھے کرنے پرقادر ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں صحابہ کرام کو شاید اس بات کا علم نہیں تھا۔

1121۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت ہے،  وہ نبی ﷺسے ارشاد باری تعالی: (فَإِنَّ لَهُ مَعِيْشَةً ضَنْكًا﴾

’’بے شک ہم اس کا گزران زندگی تنگ کر دیں گے۔ (طہ 124:20)  کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے۔ (أخرجه ابن جبان:3119)

1122۔ سیدنا زید بن ثابت  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی ﷺ بنو نجار کے ایک باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے، ہم آپ کے ساتھ تھے کہ اچانک خچر بدک گیا۔ وہ آپ کو گرانے لگا تھا، ہم نے دیکھا تو وہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں تھیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هٰذِهِ الْأَقبُرِ))

 ’’ان قبروں والوں کو کون جانتا ہے؟‘‘

ایک آدمی نے کہا: میں۔ آپﷺ نے فرمایا: ((متي مات هؤلاء)) ’’ یہ لوگ کب مرے تھے ؟‘‘

اس نے کہا: شرک (کے عالم) میں مرے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتلٰى فِي قُبُورِهَا ، فَلَوْلَا أَن لَّا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ منْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعْ مِنْهُ))

’’یہ لوگ اپنی قبروں میں مبتلائے عذاب ہیں۔ اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم (اپنے مردوں کو) دفن نہ کرو گے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ قبر کے جس عذاب (کی آوازوں) کو میں سن رہا ہوں وہ تمھیں بھی سنا دے‘‘

پھر آپ ﷺ نے ہماری طرف رخ انور پھیرا اور فرمایا:

((تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ)) ’’ آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘

سب نے کہا: ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا:

((تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ القبر)) ’’قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘

سب نے کہا: ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا:

((تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ))

’’(تمام) فقتوں سے، جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں، اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘

سب نے کہا: ہم فتنوں سے، جو ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں، اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا: ((تَعَوَّذُوا بِالله مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ)) (أخرجه مسلم:2867)

’’دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘

سب نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔

توضیح و فوائد: اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کو ایک خصوصیت یہ عطا فرمائی تھی کہ آپ کو عذاب کے متعلق معلوم ہو جاتا تھا، اس لیے آپ نے قبر کے عذاب میں مبتلا افراد کی قبروں کو دیکھ کر صحابہ کرام کوحکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔ انسانی زندگی کے پانچ مراحل تھا۔ کسی ایک مرحلے کو دوسرے مرحلے پر قیاس کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ ہر مرحلے کی حقیقت دوسرے سے مختلف ہے۔ ایک زندگی ماں کے پیٹ میں ہے، جہاں انسان دنیا جہاں سے بے خبر ہوتا ہے۔ دوسری زندگی پیدائش سے لے کر وفات تک ہے جس کا اپنا نظام اور قواعد وضوابط ہیں۔ روح اور جسم کا ایک تعلق نیند کی حالت میں ہوتا ۔ اسے حدیث میں موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چوتھا تعلق مرنے کے بعد والا ہے۔ اسے برزخی یا قبر کی زندگی کیا جاتا ہے۔ یہ دور قیامت قائم ہونے تک جاری رہے گا، برزخی زندگی کے اپنے ضابطے اور تقاضے ہیں۔ اس دور میں انسان عذاب وثواب سے دوچار رہتا ہے۔ پانچو اں دور قیامت قائم ہونے کے اور حساب کتاب مکمل ہونے کے بعد شروع ہو گا، یہ ہمیشگی کی زندگی ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گی۔ اس کے اپنے ضابطے ہیں۔ اب کسی ایک مرحلے کو دوسرے مرحلے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ ہر مرحلے کے بارے میں قرآن وحدیث سے جو ثابت ہے، اس پر ایمان لانا فرض ہے۔

 1123۔ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہﷺ سورج غروب ہونے کے بعد باہر تشریف لے گئے۔ آپﷺ نے ایک آواز سنی تو فرمایا:

((يَهُودُ تُعَذَّبُ فِي قُبُورِهَا)) ’’یہود ہیں، انھیں قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔‘‘(أخرجه البخاري:1375 ومسلم:2869)

1124۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے نبیﷺ سے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ﴿يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾ (إبراهيم27:14)

’’ اللہ تعالی ایمان لانے والوں کو پختہ قول، یعنی کلمہ طیبہ کے ذریعے سے (حق پر)  ثابت قدم رکھتا ہے۔‘‘

فرمایا:

((نَزَلَتْ في عَذَابِ الْقَبْرِ ، يُقَالُ لَهُ: مَنْ رَبِّكَ فَيَقُولُ: رَبِّي اللهُ وَنَبِيِّ مُحَمَّدٌﷺ فَذٰلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ﴾ (أخرجه البخاري:1369، 4699 ومسلم:2871)

’’یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس (مرنے والے) سے کہا جاتا ہے۔ تمھارا رب کون ہے؟ وہ (مؤمن) کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد ﷺ ہیں۔ یہی قول عز وجل ﴿يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ﴾  (سے مراد) ہے۔

1125۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُكُمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ مَا كَانَ يَقُولُ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ فَيَقُولَانِ نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ))(أخرجه الترمذي:1071)

’’جب میت کو یا فرمایا: تم میں سے کسی کو قبر میں اتارا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ، نیلی آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو منکر (نامانوس اجنبی ) اور دوسرے کو نکیر (جو کسی کو نہ پہچانے) کہتے ہیں۔  وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس آدمی کے بارے میں کیا کہتا تھا؟ تو وہ وہی بات کہے گا جو (دنیا میں ) کہتا تھا۔ یعنی وہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور بلاشبہ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے تووہ دنوں کہتے کیا: یقینا ہم جانتے تھے کہ تو یہی کہے گا، پھر اس کے لیے قبر چاروں طرف سے ستر ہاتھ کشادہ کر دی جاتی ہے۔ اس کے لیے اس میں روشنی کر دی جاتی ہے، پھر اسے کہا جاتا ہے۔ سو جاؤ ۔ تو وہ کہتا ہے: میں اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاتا ہوں تا کہ انھیں اطلاع دوں؟ تو وہ اسے کہتے ہیں: تو اس دلھن کی طرح (آرام و سکون سے ) سوجا۔ جسے صرف وہی شخص بیدار کرتا ہے جو اسے اپنے سب گھر والوں سے زیادہ محبوب ہو۔ حتی کہ قیامت کے دن اللہ تعالی عنہ اسے اس کی آرام گاہ سے اٹھائے گا۔ اور اگر (مرنے والا) منافق ہوا تو وہ کہے گا میں لوگوں کو (کچھ کہتے) سنتا تھا تو میں بھی اس طرح کہہ دیتا تھا، اب مجھے اس کا پتا نہیں ہے۔ تو وہ کہتے ہیں: ہم جانتے تھے کہ تو یہی کہے گا۔ پھر زمین سے کہا جاتا ہے: اس پر سکڑ جا تو وہ اس پر سکڑ جاتی ہے تو اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں۔ اس طرح اسے ہمیشہ عذاب ہوتا رہتا ہے حتی کہ اللہ تعالی اسے اس کی اس لیٹنے کی جگہ سے اٹھائے گا۔‘‘

توضیح و فوائد:  مذکورہ بالا احادیث برزخی زندگی کی دلیل ہیں۔ روح اور جسم کے اس تعالق کی کیفیت کیا ہے؟ یہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ فوت ہونے والا قبر میں فرشتوں سے ہم کلام ہوتا ہے لیکن ہم اس کی حقیقت سے نا آشنا ہیں۔ اس زندگی کو بنیاد بنا کر یہ کہنا کہ فوت ہونے والا دنیا والوں کی باتیں سنتا ہے اور اسے احوال دنیا کی خبر ہوتی ہے، بالکل غلط بات ہے کیونکہ ایک زندگی کے امور کو دوسری زندگی کے امور پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔

1126۔ سیدنا براء بن عازب  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں گئے۔ ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی  لحد تیار نہیں ہوئی تھی۔ رسول اللہ ﷺبیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹے گئے۔ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں (نہایت پرسکون اور خاموشی سے بیٹھے تھے۔) آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ اس سے زمین کرید رہے تھے۔ آپ نے اپنا سر ا  اٹھایا اور فرمایا:

((اسْتَعِيذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ القبر)) ’’ اللہ سے قبر کے عذاب کی امان مانگو۔‘‘ (أخرجه أبو دارد:4753)

آپ نے یہ دو یا تین بار فرمایا۔ جریر کی روایت میں یہاں یہ اضافہ ہے: ((وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ حِينَ يُقَالُ لَهُ: يَا هٰذَا مَنْ رَبُّكَ وَمَا دِيْنُكَ وَمَنْ نَبِيِّكَ))

’’جب لوگ واپس جاتے ہیں تو میت ان کے قدموں کی آہٹ سکتی ہے، جبکہ اس سے یہ پوچھا جا رہا ہوتا ہے: اے فلاں ! تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ اور تیرا نبی کون ہے؟‘‘

ہناد کی روایت میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:

((وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ مَن رَبِّكَ فَيَقُولُ رَبِّيَ اللهُ ، فَيَقُولَانِ لَهُ: ما دينُكَ فَيَقُولُ دِينِى الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هٰذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ قَالَ فَيَقُولُ هُوَ رَسُولُ اللهِ ﷺ. فَيَقُولَانِ: وَمَا يُدْرِيكَ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ))

’’اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے، پھروہ پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے، پھر وہ پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں (رسول بنا کر) بھیجا گیا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول ہیں….ﷺ…… پھر وہ کہتے ہیں: تجھے کیسے علم ہوا؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی۔ میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ۔‘‘

جریر کی روایت میں مزید ہے:

((فَذٰلِكَ قَوْلَ اللهِ تَعَالٰى ﴿يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾ (إبراهيم27:14)

’’یہی (سوال جواب ہی) مصداق ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان کا﴿يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾

 پھر وہ دونوں روایت کرنے میں متفق ہیں۔ فرمایا:

((فَيُنَادِي مَنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ قُدْ صَدَقَ عَبْدِي فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَالْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ))

’’پھر آسمان سے منادی کرنے والا اعلان کرتا ہے۔ تحقیق میرے بندے نے کیا کہا ہے۔ اسے جنت کا بستر بچھا دو۔ اس کے لیے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو۔‘‘

فرمایا: ((فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا))

’’جنت کی طرف سے وہاں کی ہوائیں، راحتیں اور خوشبو آنے لگتی ہے۔‘‘

 فرمایا: وَ يفتح له فيها مدَّ بَصرہ))

’’اور اس کی قبر کو انتہائے نظر تک وسیع کر دیا جاتا ہے۔‘‘

((وَإَنَّ الكافرَ)) پھر کافر اور اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا:

((وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ مَنْ رَبّكَ؟ فَيَقُولُ: هاهْ هَاهْ لَا أَدْرِى فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ: مَا هذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ كَذَبَ فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ وَالْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ))

’’اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے: ہاہ ہاہ! مجھے خبر نہیں، پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے۔ ہاہ ہاہ! مجھے خبر نہیں۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: ہاہ ہاہ! مجھے خبر نہیں۔ تو منادی آسمان سے ندا  دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا۔ اسے آگ کا بستر بچھا دو۔ اسے آگ کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے دوزخ کی طرف سے دروازہ کھول دو۔‘‘

فرمايا: ((فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسُمُومِهَا وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتّٰى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهَا))

’’پھر اس جہنم کی طرف سے اس کی تپش اور سخت گرم ہوا آنے لگتی ہے اور اس پر قبر تک کر دی جاتی ہے حتی کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں۔‘‘

جریر کی روایت میں مزید ہے۔

((ثُمَّ يُقَیَّضُ لَهُ أَعْمٰى أَبَُْمْ مَعَهُ مِرْزَبَةٌ مِنْ حَدِيدٍ لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ أَصَارَ تُرَابًا))

’’پھر اس پر ایک اندھا گونگا فرشتہ مقرر کردیا جاتا ہے، جس کے پاس بھاری گرز ہوتا ہے۔ اگر اسے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ (پہاڑ) مٹی ہو جائے۔‘‘

((فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ فَيَصِيرُ تُرَابًا))

’’ پھر وہ اسے اس کے ساتھ ایسی چوٹ مارتا ہے جس کی آواز جنوں اور انسانوں کے علاوہ مشرق و مغرب کے درمیان ساری مخلوق سنتی ہے۔ اور پھر وہ مٹی (ریزہ ریزہ) ہو جاتا ہے۔‘‘

فرمایا: ((ثُمَّ تُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ))(أخرجه ابوداود:4753)

’’پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے۔‘‘

 توضیح و فوائد: اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ قبر میں عذاب نہیں ہوتا اور ان کی بھی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ ہر مرنے والے کی قبر میں سرور کائنات م تشریف لاتے ہیں۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ فرشتے پوچھتے ہیں کہ تم ان صاحب کے بارے میں کیا جانتے ہو جو تمھارے مابین مبعوث کیے گئے تو مسلمان کہتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ فرشتے پوچھتے ہیں کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں تو وہ کہتا ہے کہ مجھے یہ علم اللہ کی کتاب پڑھنے اور اس پر ایمان لائے اور تصدیق کرنے کی بدولت ہوا ہے۔

1127۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ   ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ فَيُقَالُ هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))(أخرجه البخاري:1379، 3240، 6515، و مسلم2866)

’’جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو ہر صبح اور شام اسے اس کا ٹھکانا  دکھایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت میں اور اگر دوزخی ہے تو جہنم میں، پھر اسے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا مقام ہے لیکن قیامت کے دن لیکن اس وقت ملے گا، جب اللہ تجھے اٹھائے گا۔‘‘

توضیح وفوائد: مطلب یہ ہے کہ اسے اس کا آخری ٹھکانا روزانہ دکھایا جاتا ہے۔ دوزخی وہ ٹھکانا دیکھ کر بڑی اذیت محسوس کرتا ہے یہ اس کے لیے عذاب ہے اور جنتی اپنا  ٹھکانا دیکھ کر خوش ہوتا ہے، یہ اس کےلیے نعمت ہے۔

1128۔ سید نا سمرہ بن جندب رضی  اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کثرت صحابہ کرام سے فرمایا کرتے تھے:

((هَلْ رَأى أَحَدٌ مِنكُمْ مِنْ رُویَا؟

’’ کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟‘‘

 جس نے خواب دیکھا ہوتا وہ اللہ تعالی کی توفیق سے آپ کے سامنے بیان کرتا۔آپﷺ نے ایک  صبح فرمایا:

((إِنَّهُ أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتِيَانِ وَإِنَّهُمَا ابْتَعَثَانِي وَإِنَّهُمَا قَالَا لِي انْطَلِقْ وَإِنِّي انْطَلَقْتُ مَعَهُمَا وَإِنَّا أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَيْهِ بِصَخْرَةٍ وَإِذَا هُوَ يَهْوِي بِالصَّخْرَةِ لِرَأْسِهِ فَيَثْلَغُ رَأْسَهُ فَيَتَهَدْهَدُ الْحَجَرُ هَا هُنَا فَيَتْبَعُ الْحَجَرَ فَيَأْخُذُهُ فَلَا يَرْجِعُ إِلَيْهِ حَتَّى يَصِحَّ رَأْسُهُ كَمَا كَانَ ثُمَّ يَعُودُ عَلَيْهِ فَيَفْعَلُ بِهِ مِثْلَ مَا فَعَلَ الْمَرَّةَ الْأُولَى قَالَ قُلْتُ لَهُمَا سُبْحَانَ اللَّهِ مَا هَذَانِ قَالَ قَالَا لِي انْطَلِقْ انْطَلِقْ قَالَ فَانْطَلَقْنَا فَأَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُسْتَلْقٍ لِقَفَاهُ وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَيْهِ بِكَلُّوبٍ مِنْ حَدِيدٍ وَإِذَا هُوَ يَأْتِي أَحَدَ شِقَّيْ وَجْهِهِ فَيُشَرْشِرُ شِدْقَهُ إِلَى قَفَاهُ وَمَنْخِرَهُ إِلَى قَفَاهُ وَعَيْنَهُ إِلَى قَفَاهُ قَالَ وَرُبَّمَا قَالَ أَبُو رَجَاءٍ فَيَشُقُّ قَالَ ثُمَّ يَتَحَوَّلُ إِلَى الْجَانِبِ الْآخَرِ فَيَفْعَلُ بِهِ مِثْلَ مَا فَعَلَ بِالْجَانِبِ الْأَوَّلِ فَمَا يَفْرُغُ مِنْ ذَلِكَ الْجَانِبِ حَتَّى يَصِحَّ ذَلِكَ الْجَانِبُ كَمَا كَانَ ثُمَّ يَعُودُ عَلَيْهِ فَيَفْعَلُ مِثْلَ مَا فَعَلَ الْمَرَّةَ الْأُولَى قَالَ قُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ مَا هَذَانِ قَالَ قَالَا لِي انْطَلِقْ انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا فَأَتَيْنَا عَلَى مِثْلِ التَّنُّورِ قَالَ فَأَحْسِبُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فَإِذَا فِيهِ لَغَطٌ وَأَصْوَاتٌ قَالَ فَاطَّلَعْنَا فِيهِ فَإِذَا فِيهِ رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ وَإِذَا هُمْ يَأْتِيهِمْ لَهَبٌ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ فَإِذَا أَتَاهُمْ ذَلِكَ اللَّهَبُ ضَوْضَوْا قَالَ قُلْتُ لَهُمَا مَا هَؤُلَاءِ قَالَ قَالَا لِي انْطَلِقْ انْطَلِقْ قَالَ فَانْطَلَقْنَا فَأَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ حَسِبْتُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ أَحْمَرَ مِثْلِ الدَّمِ وَإِذَا فِي النَّهَرِ رَجُلٌ سَابِحٌ يَسْبَحُ وَإِذَا عَلَى شَطِّ النَّهَرِ رَجُلٌ قَدْ جَمَعَ عِنْدَهُ حِجَارَةً كَثِيرَةً وَإِذَا ذَلِكَ السَّابِحُ يَسْبَحُ مَا يَسْبَحُ ثُمَّ يَأْتِي ذَلِكَ الَّذِي قَدْ جَمَعَ عِنْدَهُ الْحِجَارَةَ فَيَفْغَرُ لَهُ فَاهُ فَيُلْقِمُهُ حَجَرًا فَيَنْطَلِقُ يَسْبَحُ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَيْهِ كُلَّمَا رَجَعَ إِلَيْهِ فَغَرَ لَهُ فَاهُ فَأَلْقَمَهُ حَجَرًا قَالَ قُلْتُ لَهُمَا مَا هَذَانِ قَالَ قَالَا لِي انْطَلِقْ انْطَلِقْ قَالَ فَانْطَلَقْنَا فَأَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ كَرِيهِ الْمَرْآةِ كَأَكْرَهِ مَا أَنْتَ رَاءٍ رَجُلًا مَرْآةً وَإِذَا عِنْدَهُ نَارٌ يَحُشُّهَا وَيَسْعَى حَوْلَهَا قَالَ قُلْتُ لَهُمَا مَا هَذَا قَالَ قَالَا لِي انْطَلِقْ انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا فَأَتَيْنَا عَلَى رَوْضَةٍ مُعْتَمَّةٍ فِيهَا مِنْ كُلِّ لَوْنِ الرَّبِيعِ وَإِذَا بَيْنَ ظَهْرَيْ الرَّوْضَةِ رَجُلٌ طَوِيلٌ لَا أَكَادُ أَرَى رَأْسَهُ طُولًا فِي السَّمَاءِ وَإِذَا حَوْلَ الرَّجُلِ مِنْ أَكْثَرِ وِلْدَانٍ رَأَيْتُهُمْ قَطُّ قَالَ قُلْتُ لَهُمَا مَا هَذَا مَا هَؤُلَاءِ قَالَ قَالَا لِي انْطَلِقْ انْطَلِقْ قَالَ فَانْطَلَقْنَا فَانْتَهَيْنَا إِلَى رَوْضَةٍ عَظِيمَةٍ لَمْ أَرَ رَوْضَةً قَطُّ أَعْظَمَ مِنْهَا وَلَا أَحْسَنَ قَالَ قَالَا لِي ارْقَ فِيهَا قَالَ فَارْتَقَيْنَا فِيهَا فَانْتَهَيْنَا إِلَى مَدِينَةٍ مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ ذَهَبٍ وَلَبِنِ فِضَّةٍ فَأَتَيْنَا بَابَ الْمَدِينَةِ فَاسْتَفْتَحْنَا فَفُتِحَ لَنَا فَدَخَلْنَاهَا فَتَلَقَّانَا فِيهَا رِجَالٌ شَطْرٌ مِنْ خَلْقِهِمْ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ وَشَطْرٌ كَأَقْبَحِ مَا أَنْتَ رَاءٍ قَالَ قَالَا لَهُمْ اذْهَبُوا فَقَعُوا فِي ذَلِكَ النَّهَرِ قَالَ وَإِذَا نَهَرٌ مُعْتَرِضٌ يَجْرِي كَأَنَّ مَاءَهُ الْمَحْضُ فِي الْبَيَاضِ فَذَهَبُوا فَوَقَعُوا فِيهِ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَيْنَا قَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ السُّوءُ عَنْهُمْ فَصَارُوا فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ قَالَ قَالَا لِي هَذِهِ جَنَّةُ عَدْنٍ وَهَذَاكَ مَنْزِلُكَ قَالَ فَسَمَا بَصَرِي صُعُدًا فَإِذَا قَصْرٌ مِثْلُ الرَّبَابَةِ الْبَيْضَاءِ قَالَ قَالَا لِي هَذَاكَ مَنْزِلُكَ قَالَ قُلْتُ لَهُمَا بَارَكَ اللَّهُ فِيكُمَا ذَرَانِي فَأَدْخُلَهُ قَالَا أَمَّا الْآنَ فَلَا وَأَنْتَ دَاخِلَهُ قَالَ قُلْتُ لَهُمَا فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ مُنْذُ اللَّيْلَةِ عَجَبًا فَمَا هَذَا الَّذِي رَأَيْتُ قَالَ قَالَا لِي أَمَا إِنَّا سَنُخْبِرُكَ أَمَّا الرَّجُلُ الْأَوَّلُ الَّذِي أَتَيْتَ عَلَيْهِ يُثْلَغُ رَأْسُهُ بِالْحَجَرِ فَإِنَّهُ الرَّجُلُ يَأْخُذُ الْقُرْآنَ فَيَرْفُضُهُ وَيَنَامُ عَنْ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَأَمَّا الرَّجُلُ الَّذِي أَتَيْتَ عَلَيْهِ يُشَرْشَرُ شِدْقُهُ إِلَى قَفَاهُ وَمَنْخِرُهُ إِلَى قَفَاهُ وَعَيْنُهُ إِلَى قَفَاهُ فَإِنَّهُ الرَّجُلُ يَغْدُو مِنْ بَيْتِهِ فَيَكْذِبُ الْكَذْبَةَ تَبْلُغُ الْآفَاقَ وَأَمَّا الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ الْعُرَاةُ الَّذِينَ فِي مِثْلِ بِنَاءِ التَّنُّورِ فَإِنَّهُمْ الزُّنَاةُ وَالزَّوَانِي وَأَمَّا الرَّجُلُ الَّذِي أَتَيْتَ عَلَيْهِ يَسْبَحُ فِي النَّهَرِ وَيُلْقَمُ الْحَجَرَ فَإِنَّهُ آكِلُ الرِّبَا وَأَمَّا الرَّجُلُ الْكَرِيهُ الْمَرْآةِ الَّذِي عِنْدَ النَّارِ يَحُشُّهَا وَيَسْعَى حَوْلَهَا فَإِنَّهُ مَالِكٌ خَازِنُ جَهَنَّمَ وَأَمَّا الرَّجُلُ الطَّوِيلُ الَّذِي فِي الرَّوْضَةِ فَإِنَّهُ إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَّا الْوِلْدَانُ الَّذِينَ حَوْلَهُ فَكُلُّ مَوْلُودٍ مَاتَ عَلَى الْفِطْرَةِ))

’’آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے، انھوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا: (ہمارے ساتھ چلو۔ میں ان کے ساتھ چل دیا، چنانچہ ہم ایک آدمی کے پاس آئے جو لیٹا ہوا تھا اور دوسرا آدمی اس کے پاس ایک پتھر لیے کھڑا تھا۔ اچانک وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو اس کا سرتوڑ دیتا اور پھر لڑھک کر دور چلا جاتا۔ وہ پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لاتا۔ اس کے واپس آنے سے پہلے پہلے اس شخص کا سر صیح ہو جاتا جیسا کہ پہلے تھا۔ کھڑا ہوا شخص پھر اسی طرح مارتا اور وہی صورت پیش آتی جو پہلے آئی تھی۔ آپ ﷺنے فرمایا: میں نے ان دونوں سے کہا: سبحان اللہ کیا ماجرا ہے؟ یہ دونوں شخص کون ہیں؟ انھوں نے کہا: آگے چلو، آگے چلو۔ ہم چل دیے تو ایک آدمی کے پاس پہنچے جو پیٹھ کے بل چت لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص اس کے پاس لوہے کا آکڑا لیے کھڑا تھا۔ وہ اس کے چہرے کے ایک طرف آتا اور اس کے چہرے کو گدی تک، اس کے نتھنے کو گدی تک اور اس کی آنکھ کو گدی تک چیر دیتا پھر چہرے کے دوسری طرف جاتا تو ادھر بھی اسی طرح چیرتا جس طرح اس نے پہلی جانب چیرا تھا۔ وہ ابھی دوسری جانب سے فارغ نہ ہوتا تھا کہ پہلی جانب اپنی  صحیح حالت میں آجاتی، پھر دوبارہ وہ اسی طرح کرتا جس طرح اس نے پہلی مرتبہ کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے ان سے کہا: سبحان اللہ یہ دونوں کون ہیں؟ انھوں کے کہا: آگے چلو، آگے چلو، چنانچہ ہم آگے چلے، پھر ہم ایک تنور جیسی چیز پر آئے۔ اس میں شور وغل کی آواز تھی۔ ہم نے جھانک کر دیکھا تو اس میں ننگے مرد اور ننگی عورتیں تھیں۔ جب ان کے پاس  نیچےسے آگ کا شعلہ آتا تو وہ چلانے لگتے۔ میں نے ان دونوں سے پوچھا: یہ کون ہیں ؟ تو انھوں نے کہا: آگے چلو، آگے چلو، چنانچہ ہم آگے بڑھے اور ایک نہر پر آئے۔ وہ شہر خون کی طرح سرخ تھی۔ اس میں ایک تیرنے والا آدمی تیر رہا تھا۔ نہر کے کنارے ایک اور آدمی تھا جس کے پاس بہت سے پتھرجمع تھے۔ جب تیرنے والا آدمی اس شخص کے پاس پہنچتا جس نے پتھر جمع کر رکھے تھے تو وہ اس کا منہ کھول دیتا اور زور سے پتھر مار کر اسے پیچھے دھکیل دیتا اور وہ پھر تیرنے لگتا، پھر اس کے پاس لوٹ کر آتا جیسے پہلے آیا تھا تو وہ اس کا منہ کھول دیتا اور منہ پر زور سے پھر مار کر اسے پیچھے دھکیل دیتا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا: آگے چلو، آگے چلو، چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک انتہائی بدصورت آدمی کے پاس پہنچے۔ جتنے بدصورت آدمی تم نے دیکھے ہوں گے وہ ان سب سے زیادہ بدصورت تھا۔ اس کے پاس آگ جل رہی تھی اور وہ اسے خوب تیز کر رہا تھا اور اس کے اردگرد روڑ رہا تھا۔ میں نے ان دونوں سے پوچھا: یہ کیا ماجرا ہے؟ انھوں نے مجھ سے کہا: آگے چلو، آگے چلو۔ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے باغ میں پہنچے جو سرسبز و شاداب تھا اور اس میں موسم بہار کے سبب پھول تھے۔ اس باغ کے درمیان ایک لیے قد والا آدمی تھا۔ اتنا کہا کہ میرے لیے اس کا سر دیکھتا مشکل ہو گیا، گویا وہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ اس آدمی کے ارد گرد بہت سے بچے تھے۔ میں نے اتنے بچے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا: یہ کون ہے؟ اور بچوں کی حقیقت کیا ہے؟ انھوں نے کہا: آگے چلیے۔ ہم آگے بڑھے تو ہم ایک عظیم الشان باغ تک پہنچے۔ میں نے اتنا بڑا اور اتنا خوبصورت باغ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ان دونوں نے کہا: اس پر چڑھیے تو میں اس پر چڑھ گیا۔ جب ہم اس پر چڑھے تو وہاں ایک ایسا شہر دکھائی دیا جس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی کی تھی۔ ہم اس شہر کے دروازے پر آئے اور ہم نے اسے کھلوایا تو وہ ہمارے لیے کھول دیا گیا۔ ہم اس میں داخل ہوئے تو ہمارا استقبال ایسے لوگوں نے کیا جن کے جسم کا نصف حصہ انتہائی خوبصورت اور دوسرا حصہ انتہائی بد صورت تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں ساتھیوں نے ان لوگوں سے کہا۔ اس نہر میں کود جاؤ۔ وہاں ایک نہر بہہ رہی تھی جس کا پانی انتہائی سفید اور صاف شفاف تھا۔ وہ لوگ گئے اور اس میں کود پڑے، پھر جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی جاتی رہی تھی اور اب وہ نہایت خوبصورت ہو گئے تھے۔ ان دونوں نے مجھے کہا: یہ جنت عدن ہے اور یہ آپ کی منزل ہے۔ جب میری نظر اوپر اٹھی تو سفید بادل کی طرح وہاں مجھے ایک محل نظر آیا۔ انھوں نے مجھے کہا: اس جگہ آپ کا مقام ہے۔ میں نے ان سے کہا: اللہ تمھیں برکت عطا فرمائے مجھے چھوڑ دو تا کہ میں اس محل کے اندر داخل ہو جاؤں۔ انھوں نے کہا: اس وقت تو آپ نہیں جا سکتے لیکن آئندہ آپ اس میں ضرور جائیں گے۔ میں نے ان سے کہا: آج رات میں نے بہت عجیب و غریب چیز یں دیکھیں ہیں۔ بہر حال جو کچھ میں نے دیکھا ہے ان کی حقیقت کیا ہے؟ انھوں نے مجھ سے کہا: ہم ابھی آپ سے بیان کرتے ہیں: پہلا آدمی جس کے کیا۔ پاس آپ گئے تھے اور اس کا سرپتھر سے کچلا جا رہا تھا یہ وہ شخص ہے جو قرآن سیکھتا، پھر اسے چھوڑ دیتا اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جاتا تھا۔ اور وہ شخص جس کے پاس آپ گئے تھے اور اس کا جبڑا گدی تک اس کے نتھنے گدی تک اور اس کی آنکھیں گدی تک چیری جا رہی تھیں وہ ایسا شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور سارا دن جھوٹ بولتا رہتا حتی کہ دور دراز تک اس کا جھوٹ پہنچ جاتا۔ اور وہ ننگے مرد اور ننگی عورتیں جو تنور میں آپ نے دیکھے وہ زنا کار مرد اور زنا کار عورتیں تھیں۔ اور آپ جس آدمی کے پاس آئے اور وہ خونی نہر میں تیر رہا تھا اور اس کے منہ میں پتھر مارے جارہے تھے وہ سود خور تھا۔ اور وہ بد صورت شخص جو آگ بھڑکا رہا تھا اور اس کے ارد گرد دوڑ رہا تھا، وہ جہنم کا دارو غہ مالک نامی فرشتہ ہے۔ اور باغ میں لمبے قد والے آدمی سیدنا ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد وہ بچے تھے جو پیدا ہو کر فطرت اسلام پر فوت ہو گئے۔‘‘

اس پر کچھ صحابہ کرام نے کہا چھا: اللہ کے رسول! کیا مشرکین کے بچے بھی ان میں شامل ہیں؟

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((وَأَوْلَادُ المُشْرِكِينَ، وَأَمَّا القَوْمُ الَّذِينَ كَانُوا شَطْرًا مِّنْهُمْ حَسَنٌ وَشطْرًا مِنْهُمْ قَبِيْحٌ فَإِنَّهُمْ قَوْمٌ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا تَجَاوَزَ اللهُ عَنْهُمْ))

’’ہاں مشرکین کے بچے بھی ان میں داخل ہیں۔ اب رہے وہ لوگ جن کا نصف بدن خوبصورت اور نصف بہ صورت تھا تو یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اچھے اور برے دونوں قسم کے عمل کیے تھے۔ اللہ تعالی نے ان سے درگزر فرمایا اور انھیں معاف کر دیا۔‘‘

توضیح و فوائد: اس حدیث میں بظاہر عذاب قبر کے لفظ نہیں ہیں جبکہ باب عذاب قبر کے بارے میں ہے، باپ سے اس حدیث کا تعلق اس لیے ہے کہ یہ سارے مناظر عالم برزخ کے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ برزخ کا عذاب برحق ہے اور اس کا نام عذاب قبر ہے

1129۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا:

((أَمَا إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِينَةِ. وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ))

’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور ( بظاہر ) یہ کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب میں گرفتار نہیں ہیں بلکہ ایک اپنے پیشاب (کے چھینٹوں) سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا۔‘‘

 پھر آپ نے کھجور کی ایک تازہ شاخ منگوائی اور اسے چیر کر دو ٹکڑے کر دیے اور ایک قبر پر ایک شاخ اور دوسری قبر پر دوسری شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: ((لَعَلَّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسًا)) (أخرجه البخاري:6052، ومسلم:292)

’’امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘

 توضیح و فوائد: یہ حدیث بھی اس امر کی واضح دلیل ہے کہ قبر سے مراد دنیا کی ظاہری قبر ہے جومٹی کے ڈھیر کی صورت میں ہوتی ہے ورنہ نبی ﷺ اس قبر پر شاخ نہ گاڑتے۔ یاد رہے کہ  نبی ﷺ نے ان قبر والوں کی سفارش کی تو محدود مدت کے لیے آپ کی سفارش قبول کر لی گئی کہ آپ ﷺ ان کی قبر پر سبز ٹہنیاں رکھ دیں جب تک وہ تر و تازہ رہیں گی ان کا عذاب ہاکا رہے گا۔ اس میں ٹہنیوں کا کسی طرح کوئی عمل دخل نہیں۔

1130۔ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ مذکور ہیں:

((وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُعَذِّبُ فِي الْغِيبَة)) (أخرجه ابن ماجه:349)

’’رہا دوسرا  شخص تو اسے غیبت کی وجہ سے عذاب دیا جاتا تھا۔‘‘

1131۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ أَكْثَرَ عَذَابِ القَبْرِ فِي الْبَوْلِ)) (أخرجه أحمد:9033،9059)

’’اکثر عذاب قبر پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوگا۔‘‘

1132۔سیدنا سلمان فارسی  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((رِبِاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ شَهرٍ وَّقِيَامِهِ، وَإِنْ مَاتَ جَرٰى عَلَيْهِ عَمَلَهُ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُهُ وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ وَأَمِنَ الْفَتَّانَ))(أخرجه مسلم:1913)

’’ایک دان اور ایک رات سرحد پر پہرہ دینا، ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے۔ اور اگر ( پہرہ دینے والا) فوت ہو گیا تو اس کا وہ عمل جو وہ کر رہا تھا  (آئندہ بھی) جاری رہے گا۔ اس کے لیے اس کا رزق جاری کیا جائے گا اور  وہ (قبر میں ) امتحان لینے والے سے محفوظ رہے گا۔‘‘

توضیح و فوائد: ((فتّان)) اسے مراد منکر نکیر ہیں جو قبر میں سوال کریں گے۔ صحیح جواب نہ دینے کی صورت میں ۔ آدمی آزمائش اور عذاب قبر میں گرفتار ہو جائے گا۔ قبروں سے مردے نکال کر حشر کے میدان میں لا کھڑا کرنے کو بعث اور اٹھائے جانے والے لوگوں کی صورت حال عیاں کرنے اور لوگوں کے سامنے ان کا کچا چٹھا کھولنے کا نام نشور ہے۔ اس بات پر ایمان رکھنا کہ اللہ تعالی تمام انسانوں کو قیامت کے دان ان کی قبروں سے اٹھائے گا، اللہ تعالی مرنے والوں کے ذرات اکٹھے کرنے پر بھی قادر ہے، انہیں جلا دیا دیا گیا ہو یا کسی کو درندے کھا گئے ہوں۔