حساب کتاب اور بدلے کا بیان

1142۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ حُوسِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عُذِّبَ))

’’قیامت کے دن جس سے حساب لیا گیا وہ عذاب میں مبتلا ہو گیا۔‘‘

میں نے عرض کی: کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا: عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

((لَيْسَ ذَاكِ الْحِسَابُ إِنَّمَا ذَاكِ الْعَرْضُ، مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عُذِّبَ)) (أخرجه البخاري: 103، 4939، 6536، 6537،، و مسلم:2876 واللفظ له)

’’وہ حساب نہیں، وہ تو حساب کے لیے پیش ہونا ہے۔ قیامت کے دن جس شخص سے حساب کی پوچھ کچھ ہوئی، اسے عذاب دیا جائے گا۔‘‘

 توضیح و فوائد: یہ بات بالکل  برحق ہے کہ روز قیامت ہر انسان کا حساب کتاب ہوگا، تاہم کئی طرح کے بھلے اعمال والے لوگوں کو اللہ تعالٰی اپنا فضل و کرم فرماتے ہوئے بغیر حساب جنت میں داخل کر دے گا۔ حساب دو طرح سے ہوگا:

(1) بعض لوگوں کی صرف پیشی ہوگی۔ ان سے ان کے گناہوں اور نیکیوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔  وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے اور نعمتوں کو بھی تسلیم کریں گے۔ اللہ تعالی ان سے کوئی باز پرس کیے بغیر ان پر پردہ ڈالتے ہوئے انھیں جنت میں بھیج دے گا۔ یعنی ان سے یہ نہیں پو چھا جائے گا یہ کام تم نے کیوں کیا۔ اللهم اجعلنا منهم

(2)حساب کی دوسری صورت جواب  طلبی والی ہے۔ بندے سے پوچھا جائے گا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا۔ جس سے وجہ پوچھ کی گئی وہ بلاک ہو گیا۔ اصلا یہ حساب کافروں کے لیے ہے۔ تاہم کئی اہل ایمان بھی اس کی زد میں آئیں گے، یہ حساب بڑا کیا اور بڑا کٹھن ہوگا۔ اعاذنا الله منه، کئی اہل توحید بھی روزخ میں ڈال دیے جائیں گے۔ لیکن ایک مدت کے بعد اللہ تعالی انھیں جہنم سے نکال لے گا۔

1143۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا:

((لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتّٰى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمْرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلاهُ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، وَ فِيمَا أَنفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ)) (أخرجه الترمذي:2416)

’’قیامت کے دن آدمی کے پاؤں اپنے رب کے سامنے سے ہل نہیں سکیں گے، جب تک اس سے پانی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے گا:

(1)  اس کی زندگی اور عمر کے بارے میں کہ کن کاموں میں اسے ختم کیا۔

(2)اس کی جوانی کے بارے میں کہ کن مشاغل میں اپنی قوتوں کو بوسیدہ اور پرانا کیا۔

(3) مال و دولت کے بارے میں کہاں سے اور کن طریقوں اور راستوں سے اسے حاصل کیا۔

(4) اور کن کاموں اور کن راہوں میں اسے صرف کیا۔

(5)اور اسے جو کچھ معلوم تھا اس پر کس حد تک اور کیا عمل کیا۔‘‘

1144۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی کہ آپﷺ نے فرمایا:

أَلَّا كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلٰى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَفِي مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلٰى مَالِ سَيّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عنْهُ ، أَلا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)) (أخرجه البخاري:7138 ومسلم:1829، واللفظ له)

’’سنوا تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، سو جو امیر لوگوں پر مقرر ہے وہ لوگوں کی بہبود کا ذمہ دار ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے اہل خانہ پر نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگر ان ہے، اس سے ان کے متعلق سوال ہوگا۔ اور غلام اپنے مالک کے مال کا ذمہ دار ہے، اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ سن لو تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘

1145۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((اَتَدْرُونَ مَا المُفْلِسُ؟))

’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟‘‘

 صحابہ نے کہا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی ساز و سامان ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاة﷭ٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هٰذَا، وَقَذَفَ هٰذَا ، وَأَكَلَ مَالَ هٰذَا ، وَسَفَكَ دَمَ هٰذَا، وَضَرَبَ هٰذَا، فَيُعْطٰى هٰذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهٰذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِن فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنَ خَطَايَاهُمْ طَرِحَتْ عَلَيْهِ ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ)) (أخرجه مسلم:2581)

’’میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہوگی، اس پر بہتان لگایا ہوگا، اس کا مال کھایا ہوگا، اس کا خون بہایا ہونگا اور اس کو مارا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘

توضیح و فو ائد: اللہ تعالی کا قانون یہی ہے کہ حقوق العباد کے معاملے میں مکمل انصاف ہو گا اور اس سلسلے میں ہر شخص کو حساب دینا پڑے گا لیکن اگر اللہ تعالی کسی پر فضل فرمانا چاہے گا تو مظلوم کو اپنی طرف سے راضی کر دے گا اور ظالم کو معاف کر کے جنت میں بھیج دے گا۔ سب سے کنگال اور مفلس شخص وہ  ہو گا۔جو لوگوں کے گناہ اپنے سر لے کر جہنم رسید ہو جائے گا۔ (اعادنا الله عنه)

1146۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ   ﷺ نے فرمایا:

((لَتُؤَدُّنَ الْحَقُوقُ إِلٰى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتّٰى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ القَرْنَاء))  (أخرجه  مسلم:2582)

’’قیامت کے دن تم سب حقداروں کے حقوق ان کو ادا کرو گے حتی کہ اس بکری کا بدلہ بھی جس کے سینگ توڑ دیے گئے ہوں گے سینگوں والی بکری سے پورا پورا لیا جائے گا۔‘‘

توضیح و فوائد: ہر شخص پر لازم ہے کہ اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے پہلے اپنے ذمےحقوق و واجبات ادا کر کے بے باق ہو جائے بصورت دیگر قیامت کے دن یہ حقوق ادا کرنے پڑیں گے۔ قیامت کے دن تو جانوروں کے مظالم کا بھی حساب ہو گا، یہاں تک کہ کسی سینگ وار بکری نے بغیر سینگ کی بکری کو سینگ مارا ہوگا تو اس کی بھی گرفت ہو گی اور بغیر سینگ کی مظلوم بکری کو بدلہ دلوایا جائے گا۔ حساب کتاب کے بعد تمام جانور مٹی ہو جائیں گے۔ انسان اور جن زندہ رہیں گے۔ وہ اپنے اپنے اعمال کے مطابق جنت کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے رہیں گے یا عذاب جہنم میں گرفتار ہوں گے۔

1147۔  سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((مَنْ كَانَتْ عِندَهُ مَظْلِمَةٌ لِّأَخِيْهِ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهَا ، فَإِنَّهُ لَيْسَ ثُمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْهُمٌ مِن قَبْلِ أَن يُؤْخَذُ لِأَخِيهِ مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُن لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ أخِيهِ فَطَرِحَتْ عَلَيْهِ)) (أخرجه البخاري:6534)

’’جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس سے معاف کرا لے کیونکہ وہاں درہم و دینار نہیں ہوں کے پہلے اس سے کہ اس کے بھائی کا بدلہ چکانے کے لیے اس کی نیکیوں سے کچھ لیا جائے۔ اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی تو مظلوم بھائی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔‘‘

1148۔  سیدنا عبید اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((أَوَّلَ مَا يُقْضٰى بَيْنَ النَّاسِ بِالدِّمَاءِ)) (أخرجه البخاري:6533، 6864ومسلم:1678)

’’ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ لوگوں کے درمیان ہو گا وہ ناحق خون کے متعلق ہو گا ۔‘‘

 توضیح وفوائد: حقوق العباد میں سب سے پہلے خوان کے مقدموں کا فیصلہ ہوگا، یعنی اگر کسی نے کسی کو  قتل کیا ہو گا تو اس کے بارے میں گرفت اور باز پرس ہو گی۔

1149۔ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ سورت رسول اللہﷺ پر نازل ہوئی:

﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَّإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ﴾ بلاشبہ آپ بھی مرنے والے ہیں اور وہ بھی یقینًا مرنے والے ہیں، پھر بلاشہ تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس جھگڑو گے ۔‘‘

 تو زبیر نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا خاص گناہوں کے ساتھ ساتھ ہمارے باہمی معاملات کو بھی دہرایا جائے گا ؟ آپ ﷺنے فرمایا:

((نَعَمْ، لَيُكَرَّرَنَ عَلَيْكُمْ حَتّٰى يُؤْدّٰى إِلى كُن ذِي حَقٍ حَقَّهُ)) (أخرجه أحمد:1334، والبزار:964، وأبو يعلى:668)

’’ ہاں تم پر ان معاملات کو بار بارہ ہرایا جائے گا یہاں تک کہ ہر حق والے کو اس کا حق دیا جائے گا۔‘‘

سیدنا زبیر رضی اللہ تعالی عنہ  نے کہا: اللہ کی قسم ! تب تو معاملہ بڑا سخت ہوگا۔

1150۔  سيدنا ابوسعید خدری  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

(( إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنْ النَّارِ حُبِسُوا بِقَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيَتَقَاصُّونَ مَظَالِمَ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَتَّى إِذَا نُقُّوا وَهُذِّبُوا أُذِنَ لَهُمْ بِدُخُولِ الْجَنَّةِ فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَأَحَدُهُمْ بِمَسْكَنِهِ فِي الْجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا)) (أخرجه البخاري:2440، 6535)

’’جب اہل ایمان آگ سے خلاصی پالیں گے تو انھیں دوزخ اور جنت کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا۔ وہاں ان سے ان مظالم کا بدلہ لیا جائے گا جو انھوں نے دنیا میں ایک دوسرے پر کیے تھے۔ جب وہ پاک صاف ہو جائیں گے تو پھر انھیں جنت کے اندر جانے کی اجازت ملے گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺکی جان ہے!  ہر شخص جنت میں اپنے ٹھکانے کو اس سے بہتر طور پر پہچانے گا جس طرح وہ دنیا میں اپنے مسکن کو پہچانتا تھا۔‘‘

توضیح و فوائد: اس پل سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں علماء کی دو رائے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ اور دیگر کئی علماء کا خیال ہے کہ یہ پل اس پل کا آخری حصہ ہے جو جہنم پر قائم ہے جبکہ بعض علماء نے اسے مستقل دو سرا پل قرار دیا ہے۔ مظالم کے قصاص کی بعض صورتوں کا فیصلہ تو اس سے پہلے ہو جائے گا لیکن جن کے جنت میں داخلے کا فیصلہ ہو چکا ہو گا ان کے دلوں کی صفائی کے لیے معمولی سے معمولی بات ختم کرتے اور دلوں سے کینہ وغیرہ نکالنے کے لیے یہاں بعض امور کے فیصلے ہوں گے، پھر متعلقہ لوگوں کو پاک صاف کر کے جنت میں بھیج دیا جائے گا۔