دوزخ کی ہولناکیاں
1161۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِه! لَوْ رَأَيْتُمْ مَا رَأَيْتُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا))
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! اگر تم ان ( تمام چیزوں) کو دیکھو جو میں نے دیکھیں تو تم کم ہنسو اور زیادہ رؤو۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول ! آپ نے کیا دیکھا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
((رَأَيْتُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ)) (أخرجه مسلم:426)
’’ میں نے جنت اور دوزخ کو دیکھا ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: آخرت میں جس مقام پر عذاب دیا جائے گا، اس جگہ کو جہنم کہتے ہیں، اس کا ایک نام النار بھی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حقوق ہے، جسے اللہ تعالی نے کافروں اور نافرمانوں کو سزا دینے کے لیے پیدا کیا ہے۔ جہنم پیدا ہو چکا ہے۔ یہ کہاں ہے؟ کدھر ہے؟ اس بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں، البتہ نبی اکرمﷺ نے اسے دیکھا ہے۔ اس کے مخلوق اور برحق ہونے پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔
1162۔ سيدنا عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يُوتیٰ بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ ، لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زَمَامٍ ، مَعَ كُلِّ زَمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَجُرُّوْنَهَا)) (أخرجه مسلم: 2842)
’’ اس (قیامت کے) روز جہنم کو لایا جائے گا۔ اس کی ستر ہزار لگا میں ہوں گی۔ ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ رہے ہوں گے۔‘‘
توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روز قیامت اللہ تعالی جہنم کو با قاعدہ شکل دے گا اور فرشتوں نے اسے لگا میں ڈال کر پکڑ رکھا ہوگا۔ ستر ہزار لگا میں ہوں گی اور ہر نگام کو ستر ہزار فرشتے تھامے ہوئے ہوں گے۔ اس کے باوجود وہ چھوٹ کر بے قابو ہو رہی ہوگی۔ اللہ ہی جانتا ہے اس کا وجود کتنا بڑا اور کسی قدر ہولناک ہوگا۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
1163۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((نَارُكُمْ هٰذِهِ التِي يُوقِدُ ابْنُ آدَمَ جُزءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ))
’’تمھاری یہ آگ۔ جسے ابن آدم روشن کرتا ہے۔ جہنم کی گرمی کے سترحصوں میں سے ایک حصے کی حرارت) کے برابر ہے۔‘‘
انھوں (صحابہ) نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ کی قسم !یہ آگ بھی تو کافی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا:
((فَإِنَّهَا فُضِّلَتْ عَلَيْهَا بِتِسْعَةٍ وَسِتِّينَ جُزْءًا ، كُلُّهَا مِثْلُ حَرِّهَا)) (أخرجه البخاري:3265، ومسلم:2843، واللفظ له)
’’ بلا شبہ اسے انہتر (69) حصے زیادہ رکھا گیا ہے۔ ہر حصہ اس (دنیا کی آگ) کے مانند گرم ہے ۔‘‘
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ جہنم کے عذابوں میں سے ایک عذاب آگ کا ہے اور جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے انہتر (69) گنا ز یادہ گرم ہے۔ اللهم أجرنا من النار۔
1164۔ سیدنا ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((يُؤْتٰى بِالْمَوْتِ كَهَيْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ فَيُنَادِي مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ فَيَقُولُ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا فَيَقُولُونَ نَعَمْ هَذَا الْمَوْتُ وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ ثُمَّ يُنَادِي يَا أَهْلَ النَّارِ فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ فَيَقُولُ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا فَيَقُولُونَ نَعَمْ هَذَا الْمَوْتُ وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ فَيُذْبَحُ ثُمَّ يَقُولُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ ثُمَّ قَرَأَ ﴿وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ﴾ وَهَؤُلَاءِ فِي غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْيَا ﴿وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾ (أخرجه البخاري:4730، و مسلم:2849)
’’ موت کو ایک ایسے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا جو سفید اور سیاہ ہوگا، پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا: اے اہل جنت ! وہ گرد نیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے۔ وہ کہے گا: کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ جواب دیں گے: جی ہاں، یہ موت ہے۔ ان میں سے ہر شخص اسے دیکھ چکا ہوگا، پھر وہ (منادی کرنے والا) آواز دے گا: اے اہل دوزخ! وہ گردنیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھیں گے۔ وه كہے گا: تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ اسے پہچانتے ہوئے جواب دیں گے: جی ہاں، یہ موت ہے۔ ان میں سے ہر شخص اسے دیکھ چکا ہو گا۔ پھر اس (مینڈھے) کو ذبح کیا جائے گا اور اعلان کرنے والا آواز دے گا: اے اہل جنت ! ہمیشہ جنت میں رہو، تمھارے لیے موت نہیں۔ اور اسے اہل دوزخ! تم ہمیشہ دوزخ میں رہوں اب تمھارے لیے موت نہیں۔ پھر آپ نے اس آیت کو پڑھا: ﴿﴿وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَّهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾یعنی دنیا دار غفلت میں پڑے ہیں اور وہ ایمان نہیں لا رہے۔‘‘
توضیح و فوائد: جنت اور جہنم ہمیشہ رہیں گی یا ختم ہو جائیں گی ؟ اس بارے میں اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں صحابہ کرام اور محمد ثین عظام کا عقیدہ یہ ہے کہ جنت اور جہنم دائمی ہیں۔ یہ کبھی فنا نہیں ہوں گی۔
1165۔ سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے کہ آپ نے کسی بہت وزنی چیز کے گرنے کی آواز سنی، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا:
((أَتدْرُونَ مَا هٰذا)) ’’ کیا تم جانتے ہو، یہ کیسی آواز تھی ؟‘‘
کہا: ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:
((هٰذَا حَجَرٌ رُمِىَ به فِي النَّارِ مُنْذُ سَبْعِينَ خَرِيفًا، فَهُوَ يَهْوِى فِي النَّارِ الْآنَ، حَتَّى انْتَهٰى إِلٰى قَعْرِهَا))(أخرجه مسلم: 2844)
’’یہ ایک پتھر تھا جس کو ستر سال پہلے جنم میں پھینکا گیا تھا، یہ اب اس میں گرا ہے، یہاں تک کہ اس کی گہرائی تک پہنچ گیا ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم پیدا ہو چکا ہے اور وہ بہت وسیع اور گہرا ہے۔ یہ معالمہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کا ہمیں کوئی علم نہیں۔ اس بارے میں رسول اکرم ﷺ نے جو کچھ بتایا ہے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ چاہے اس کی حقیقت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
1166۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((ضِرْسُ الْكَافِرِ أَوْ نَابُ الْكَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ، وَغِلَظُ جِلْدِهِ مَسيرة ثَلَاثٍ)) (أخرجه مسلم2851)
’’ کافر کی داڑھ یا (فرمایا:) کافر کا کچلی والا وانت احد پہاڑ جتنا ہو جائے گا اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن مہینے کی مسافت کے برابر ہوگی ۔‘‘
1167۔ سیده الو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا بَيْنَ مَنْكَبَيِ الْكَافِرِ فِي النَّارِ ، مَسِيْرة ثلاثةِ أَيَّامٍ للراكب المسرع)) (أخرجه البخاري:6551 ومسلم: 2852، واللفظ له)
’’جہنم میں کافر کے دو کندھوں کے درمیان تیز رفتار سوار کی تین دن کی مسافت کے برابر فاصلہ ہوگا۔‘‘
1168۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنَ الزَّقُوْمِ قُطِرَتْ فِي دَارِ الدُّنْيَا لَأَفْسَدَتْ عَلٰى أَهْلِ الدُّنْيَا مَعَايِشَهُمْ، فَكَيْفَ بِمَن يَكُوْنُ طَعَامَهُ)) (أخرجه الترمذي:2582)
’’اگر زقوم کا ایک قطرہ اس دنیا میں نیکا دیا جائے تو دنیا والوں پر ان کی گزران اور معیشت بگڑ جائے تو جن لوگوں کا یہ کھانا ہوگا، ان کی کیا حالت ہوگی ۔‘‘
توضیح وفوائد: زقوم وہ کھانا ہے جو جہنم میں دوزخیوں کو ملے گا۔ زقوم ایک کانٹے دار درخت کا نام ہے، اردو میں اسے تھوہر کہتے ہیں۔ اس کا پودا نہایت بد صورت اور بدمزہ ہوتا ہے حتی کہ جانو ر بھی اسی کے قریب نہیں پھٹکتے۔ لیکن جہنم کا زقوم اس قدر زہر یلا ہو گا کہ اگر اس کی ایک بوند بھی دنیا میں آجائے تو لوگوں کی زندگی اجیرن ہو جائے۔
1169۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((يُؤْتَى بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُصْبَغُ فِي النَّارِ صَبْغَةً ثُمَّ يُقَالُ يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِيمٌ قَطُّ فَيَقُولُ لَا وَاللَّهِ يَا رَبِّ وَيُؤْتَى بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِي الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُصْبَغُ صَبْغَةً فِي الْجَنَّةِ فَيُقَالُ لَهُ يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ بُؤْسًا قَطُّ هَلْ مَرَّ بِكَ شِدَّةٌ قَطُّ فَيَقُولُ لَا وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا مَرَّ بِي بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَيْتُ شِدَّةً قَطُّ)). (أخرجه مسلم:2807)
’’قیامت کے دن اہل دنیا میں سب سے زیادہ ناز و نعمت میں رہنے والے، جہنم کے ایک مستحق کو لایا جائے گا اور اسے آگ میں ایک ڈبکی دی جائے گی، پھر اس سے پوچھا جائے گا: آدم کے بیٹے ! کیا تو نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ؟ کیا تمہیں کبھی کوئی نعمت چھو کر گزری؟ تو وہ کہے گا: اے پروردگارا اللہ کی قسم ؟ کبھی نہیں۔ اور دنیا میں سب سے زیادہ اذیتیں سہنے والے، جنت کے مستحق کو لایا جائے گا اور اسے جنت کی کسی نہر میں ایک غوطہ لگوایا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا: آدم کے بیٹے اکیا تم نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی؟ کیا کوئی تنگی تمھیں چھو کر گزری ؟ تو وہ کہے گا: نہیں، اللہ کی قسم ! اے پروردگار! مجھے کبھی کوئی اذیت نہیں اٹھانی پڑی اور میں نے کبھی کوئی بھی نہیں دیکھی ۔‘‘
1170۔ سیدنا سمرہ بن جناب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((إِنَّ مِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذَهُ النَّارُ إِلَى كَعْبَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ تَأْخُذُهُ إِلَى حُجْزَتِهِ، وَمِنْهُمْ مَن تَأخَذه إلى عُنُقِهِ)) (أخرجه مسلم:2845)
’’ان (جہنمیوں) میں سے کوئی ایسا ہوگا جس کے ٹخنوں تک آگ لپٹی ہوگی۔ کوئی ایسا ہوگا جس کی کمر تک لپٹی ہوگی۔ اور کوئی ایسا ہوگا جس کی گردن تک لپٹی ہوگی۔‘‘
1171۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:
((إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا مَنْ لَهُ نَعْلَانِ وَشِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ، يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ كَمَا يَغْلِ الْمِرْجَلُ، مَا يَرَى أَنَّ أَحَدًا أَشَدُّ مِنْهُ عَذَابًا وَإِنَّهُ لَأَهْوَنُهُمْ عَذَابًا)) (أخرجه مسلم:213)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشہ دوزخیوں میں سے سب سے ہلکے عذاب والا شخص وہ ہو گا جس کے دونوں جوتے اور دونوں تسمے آگ کے ہوں گے۔ ان سے اس کا دماغ اس طرح کھولے گا جس طرح ہنڈ یا کھولتی ہے۔ وہ نہیں سمجھے گا کہ کوئی بھی اس سے زیادہ سخت عذاب میں ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ ان سب میں سے ہلکے عذاب میں ہوگا ۔‘‘
1172۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے ﴿يُصْهَر بِهِ مَا فِي بُطُوْنِهِمْ﴾ کی تفسیرکرتے ہوئے) فرمایا:
((إِنَّ الْحَمِيمَ لَيُصَبُّ عَلَى رُءُوسِهِمْ فَيَنْفُذُ الْحَمِيمُ حَتَّى يَخْلُصَ إِلَى جَوْفِهِ فَيَسْلِتُ مَا فِي جَوْفِهِ حَتَّى يَمْرُقَ مِنْ قَدَمَيْهِ وَهُوَ الصَّهْرُ ثُمَّ يُعَادُ كَمَا كَانَ )) (أخرجه الترمذي: 2582)
’’یقینًا گرم کھولتا ہوا پانی دوزخیوں کے سروں پر ڈالا جائے گا اور وہ کھولتا پانی اندر سرایت کرتا ہوا دوزخی کے پیٹ تک پہنچ جائے گا اور اس کے پیٹ کی ہر چیز کو کاٹ ڈالے گا حتی کہ وہ اس کے دونوں قدموں، یعنی دبر سے نکل جائے گا۔ یہی صھر (کھلاتا) ہے، پھر ہر چیز کو پہلی حالت پر لوٹا دیا جائے گا۔‘‘
توضیح و فوائد: جہنم والے بھوک کے مارے تھوہر کھائیں گے تو وہ ان کے حلق میں پھنس جائے گا۔ پانی کی التجا کریں گے تو کھوتا ہوا گرم پانی دیا جائے گا جس کے استعمال سے ان کی استریاں باہر نکل پڑیں گی۔ مزید برآں ان کے سروں پر کھولتا ہوا گرم پانی ڈالا جائے گا جس سے ان کا بھیجا کھل کر باہر آ جائے گا۔ آعاذانا الله منه
1173۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ ﷺفرما رہے تھے:
((يُؤْتَى بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُ بَطْنِهِ فَيَدُورُ بِهَا كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِالرَّحَى فَيَجْتَمِعُ إِلَيْهِ أَهْلُ النَّارِ فَيَقُولُونَ يَا فُلَانُ مَا لَكَ أَلَمْ تَكُنْ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَى عَنْ الْمُنْكَرِ فَيَقُولُ بَلَى قَدْ كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ وَأَنْهَى عَنْ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ)) (أخرجه البخاري:3267، 7098 و مسلم :2989، و اللفظ له)
’’قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کے پیٹ کی انتریاں باہر نکلی آئیں گی ۔ وہ ان کے گرد اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد لگاتا ہے۔ اہل جنم اس کے پاس جمع ہو جائیں گے اور اس سے کہیں گے: او فلاں!تمھارے ساتھ کیا ہوا؟ کیا تو نیکیوں کی تلقین اور برائیوں سے منع نہیں کیا کرتا تھا ؟ وہ کہے گا: ایسا ہی تھا۔ میں نیکیوں کا حکم دیتا تھا، خود نیکی کے کام نہیں کرتا تھا اور برائیوں سے روکتا تھا اور خود برائیاں کرتا تھا ۔‘‘
1174۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَ عَهْدًا لِمَنْ يَّشْرَبُ الْمُسْكِرَ أَنْ يَسْقِيَهُ مِنْ طِينَةِ الْخَبَالِ))
’’بلا شبہ اللہ عزوجل کا (اپنے اوپر یہ) عہد ہے کہ جو شخص نشہ آور مشروب ہے گا وہ اس کو طینۃ الخبال پلائے گا۔‘‘
صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول طينة الخیال کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
((عَرَقُ أَهْلِ النَّارِ ، أَوْ عُصَارَةُ أَهْلِ النَّارِ)) (أخرجه مسلم:2002)
’’جہنمیوں کا پسینا یا (فرمایا:) جہنمیوں کے زخموں کا خون اور پیپ۔‘‘
1175۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((وَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَنَا وَأُمَّتِي أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ، وَلَا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا الرُّسُلُ، وَدَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ: اللهُمَّ سَلِّمْ، سَلِّمْ، وَفِي جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، هَلْ رَأَيْتُمُ السَّعْدَانَ؟))
’’جہنم کی پشت پر پل رکھ دیا جائے گا۔ سب سے پہلے میں اپنی امت کے ساتھ اس پر سے گزروں گا۔ اس دن رسولوں کے علاوہ کسی اور کو کلام کی ہمت اور طاقت نہ ہوگی۔ اس دن رسول کہیں گے: الہی! سلامتی دے۔ الہی! اسلامتی ہے۔ جنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔ کیا تم نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں ؟
صحابہ نے عرض کی: جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا:
((فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَعْلَمُ مَا قَدْرُ عِظَمِهَا إِلَّا اللهُ، تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمُ الْمُؤْمِنُ بَقِيَ بِعَمَلِهِ، وَمِنْهُمُ الْمُجَازَى حَتَّى يُنَجَّى، حَتَّى إِذَا فَرَغَ اللهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ، وَأَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ بِرَحْمَتِهِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مِنْ كَانَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا مِمَّنْ أَرَادَ اللهُ تَعَالَى أَنْ يَرْحَمَهُ مِمَّنْ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَيَعْرِفُونَهُمْ فِي النَّارِ، يَعْرِفُونَهُمْ بِأَثَرِ السُّجُودِ، تَأْكُلُ النَّارُ مِنَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا أَثَرَ السُّجُودِ، ))
(أخرجه البخاري806، 6573، 7437، و مسلم:182)
’’بلا شبہ وہ سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے مگر ان کی لمبائی اللہ تعالی کے سوا اور کوئی نہیں جانا۔ وہ ( آنکڑے ) لوگوں کو ان کے (برے) اعمال کے مطابق گھسیٹیں گے۔ بعض شخص تو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے اور کچھ زخموں سے چور ہو بچ جائیں گے حتی کہ جب اللہ تعالٰی اہل جہنم میں سے جن پر مہربانی کرنا چاہے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے تھے وہ نکال لیے جائیں، چنانچہ فرشتے انھیں سجدوں کے نشانات سے پہچان کر نکال لیں گے۔‘‘
………….