با ہمی نفرت و عداوت

﴿إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر:6)

معاشرے میں پائی جانے والی ہر طرح کی بے راہ روی، لڑائی جھگڑا، سر پھٹول ، دھینگا مشتی قتل و غارت اور دشمنی اور عداوت ، لوٹ کھسوٹ، ہیرا پھیری، دھوکہ وفراڈ ، بدکاری، بے حیائی، فحاشی اور فتنہ و فساد اور بد اعمالیوں کے اسباب میں سے ایک سبب خود انسان کا اپنا نفس بھی ہے کہ:

﴿اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ؕ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝﴾ ( يوسف:53)

’’نفس  یقینًا  انسان کو برائی پر بہت زیادہ ابھارنے والا ہے، الا یہ کہ جس پر میرا رب رحم فرما دے۔‘‘

نفس کے برائی پر ابھارنے اور برانگیختہ کرنے کے ساتھ ساتھ، انسان کی فطری کمزوریاں بھی ان کا سبب بنتی ہیں، مگر ان تمام تر برائیوں کے ارتکاب میں سب سے بڑا حصہ شیطان کا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے گناہ "شرک سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے گناہ تک کے لیے بھی انسان کو اکساتا ہے۔

رسول کریم ﷺکے عہد مبارک کے آخری دور میں جب جزیرۃ العرب میں ہر طرف اسلام کا بول بالا ہو گیا، لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے، قبائل عرب کے وفود حاضر ہو کر اسلام قبول کرتے اور آپ سلام کے دست مبارک پر بیعت ہوتے ، اس وقت آپ ﷺنے اپنے صحابہ کو یہ نوید سنائی کہ:

((إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَیِسَ أَنْ يَّعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَلٰكِنَ فِي التَّحْرِيْشِ بَيْنَهُمْ)) (مسلم: 2812)

’’شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرۃ العرب میں نمازی اس کی عبادت کریں، البتہ ایک دوسرے کے خلاف براننگیختہ کرنے اور اکسانے میں (وہ اب بھی پر امید ہے۔ )‘‘

اس حدیث میں آپﷺ نے جو شیطان کی مایوسی کا ذکر فرمایا ہے تو علماء کرام نے اس کے متعدد مفہوم بیان فرمائے ہیں، کیونکہ واقعاتی اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا میں بشمول جزيرة العرب شیطان کا کام بند نہیں ہوا۔ آپﷺ کی وفات کے بعد بہت سے قبائل عرب مرتد ہو گئے، کچھ نے زکاۃ دینا بند کر دی، کسی نے نبوت کا دعوی کر ڈالا اور ابھی تو وہ دور خیر القرون کا دور تھا، جبکہ بعد کے ادوار میں ایسے واقعات کا پیش آنا زیادہ قرین قیاس ہے۔

 اور ادھر دوسری طرف آپﷺ نے شرک و بت پرستی کی پیش گوئی بھی فرما رکھی ہے، فرمایا:

((لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتّٰى تَضْطَرِبَ أَلْیَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ عَلٰى ذِي الْخَلَصَةِ )) (بخاري: 7116)

’’اس وقت تک قیامت بر پانہیں ہوگی جب تک دوس قبیلے کی عورتیں ذوالخلصہ کے بت خانے میں کو لہے نہ بلائیں ۔‘‘

کو لہے ہلانا کنایہ ہے، جوش و خروش، توجہ، انجاک اور شدید رغبت ہے ۔ ورنہ آدمی نارمل رفتار کے ساتھ بھی چلتا ہے تو اس کے کولہے بھی تو ہلتے ہی ہیں، اور کولہے ہلانے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ عورتیں وہاں ناچیں گی، جیسا کہ آج کل شرک کے اڈوں پر مرد اور عور تیں جوش و جذبے سے ناچتے اور بھنگڑے ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح اس حوالے سے آپﷺ کی اور بھی پیش گویاں ہیں، جیسا کہ فرمایا:

((لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتّٰى تُعْبَدَ اللَّاتُ وَالْعُزَّى)) (فتح الباري لابن حجر ، ج:13 ، ص:79)

’’اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک لات اور عزمی کی پوجا نہ کی جانے لگے گی۔‘‘

تو واقعاتی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کے دور مبارک سے لے کر آج تک دنیا میں بشمول جزیرۃ العرب کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں شیطان کی عبادت ہوتی چلی آرہی ہے۔

تو اس حدیث مبارک میں جو شیطان کی مایوسی کا ذکر فرمایا گیا تو اس میں شرک و بت پرستی کی نفی نہیں کی گئی، بلکہ شیطان کے احساسات بیان کیے گئے ہیں کہ جب شیطان نے دیکھا کہ اسلام کو جزیرۃ العرب میں ایک فیصلہ کن فتح حاصل ہو گئی ہے اور اب کوئی طاقت اسلام سے ٹکر لینے کے قابل باقی نہیں رہی، دین پوری طرح غالب ہو گیا ہے اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں تو ایسی صورت میں، حالات و واقعات کے پیش نظر مایوسی چھا جانا اک طبعی کی بات ہے، ورنہ وہ کوئی غیب تو نہیں جانتا کہ اسے علم ہو گیا ہو کہ اب کوئی شخص کم از کم جزیرۃ العرب میں بت پرستی نہ کر سکے گا، محض اس کا گمان اور اندازہ تھا، جس طرح اس نے اکثر بنی آدم کو گمراہ کرنے کا دعوی کیا تھا جو کہ اس کا بھی اندازہ تھا، تا ہم اس نے اپنی اس مایوسی کے بعد اس بات پر ہی اکتفا کر لیا کہ اگر انہیں کافر و مشرک نہ بنا سکوں گا تو کم از کم لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف برانگیختہ ضرور کروں گا، انہیں ایک دوسرے کے خلاف بھڑ کاؤں گا اور اکساؤں گا ضرور،

تو شیطان کی مایوسی کے حوالے سے بعض علماء کرام نے اس کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس حدیث میں آپ ﷺنے مومن یا مسلم کے لفظ کے بجائے ’’المصلون ‘‘ کا لفظ بیان فرمایا ہے تو اس میں  یقینًا  کوئی نہ کوئی حکمت ہے، جو معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ جب تک آدمی نماز پڑھتا رہے گا، تو شرک اور کفر تو دور کی بات ہے وہ تو عام برائیوں سے بھی بچتا رہے گا کہ:

﴿إِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ﴾ (العنكبوت:45)

’’نماز فحاشی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘

اور یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص پورے یقین اور ایمان کے ساتھ نماز میں ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین﴾ کہتا ہو وہ کسی زندہ یا مردہ انسان کے سامنے یا اس کی قبر پر، یا کسی مورتی کے سامنے ماتھا ٹیکے!

تو اس حدیث میں گویا کہ کفر و شرک اور بت پرستی سے بچنے کا نسخہ کیمیا بیان فرما دیا گیا ہے، اور نہ حقیقت یہ ہے کہ شرک و بت پرستی اپنی مختلف اور متعدد صورتوں کے ساتھ نہایت ہی خطر ناک چیز ہے، اس کی اس سنگینی کے پیش نظر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اس سے بچنے کی اللہ تعالی سے دعا کرتے رہے،

﴿وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَؕ۝﴾ (ابراهيم:35)

’’اے اللہ! مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچانا ۔‘‘

تو جب ابراہیم علیہ السلام  اس بارے میں اتنے فکر مند ہیں تو ہماری کیا حیثیت ہے کہ ہم بے فکر ہو کر بیٹھ جائیں! اور ابراہیم علیہ السلام  تو اپنی اولاد کے لیے بھی فکر مند تھے، مگر ہم شاید اپنے لیے بھی اتنے فکر مند نظر نہیں آتے ، اولاد کے لیے کیا ہوں گے، اگر فکر مند ہیں تو بتلائیے ہم اپنی اولاد کو شیطان سے بچانے کے لیے کیا کرتے ہیں! ہم نے تو باگیں ان کے کندھوں پر ڈال رکھی ہیں کہ جاؤ جس کے کھیت میں جی چاہتا ہے منہ مارو، ہمیں اپنی اولادوں پر بڑا بھروسہ ہے، کہ بڑے شریف بچے ہیں، یہ حقائق سے چشم پوشی ہے، جوانی کے عالم میں اور فتنے کے دور میں انہیں فرشتے سمجھتا تو شتر مرغ کی طرح اپنا چہرہ چھپا کر اپنے آپ کو صیاد سے محفوظ سمجھ بیٹھنا ہے۔ کبھی ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی کہ کہاں جاتے ہیں، کب جاتے ہیں، کب آتے ہیں، کیا کرتے ہیں؟ ان پر اتنا اعتماد کہ جتنا اپنے آپ پر بھی نہیں، یہ اپنے فرائض سے سراسر غفلت اور کوتاہی ہے اور ہر آدمی اپنے فرائض منصبی کے بارے میں جوابدہ ہے۔ (كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)) (بخاری:5200)

’’تم میں سے ہر شخص رائی، تمگران اور نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھ کچھ ہوگی۔‘‘

ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنی اولاد کے لیے کم از کم اتنے ہی فکر مند ہوں کہ ان کے بت پرستی، برائی اور بے حیائی سے بچنے کی دل کی گہرائیوں سے دعا ہی کرتے ہوں؟ حالانکہ ابراہیم علیہ السلام نے محض دعاء پر ہی اکتفاء نہیں کیا، بلکہ عملی طور پر بھی انہیں ایک ایسے محفوظ اور پاکیزہ مقام پر بسایا کہ جہاں انہیں شیطان سے بچنے کا اور نماز میں ادا کرنے کا ماحول مل سکے۔ ابراہیم علیہ السلام اپنے اور اپنی اولاد کے لیے بت پرستی سے بچنے کی دعاء مانگتے ہوئے، اس ضمن میں اپنی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

﴿رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ﴾ (ابراهيم:37)

’’اے ہمارے رب ! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے، اے ہمارے رب یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ نماز قائم کریں۔‘‘

ابراہیم علیہ السلام کو اپنی اولاد کی تربیت کی ، ان کی نمازوں کی، اور انہیں بت پرستی سے بچانے مانے کی فکر ہوئی تو انھوں نے اپنی اولاد کو ایک ایسی جگہ آباد کیا کہ جہاں وسائل معدوم تھے، پانی تھا نہ گھاس تھی، بجلی تھی نہ گیس تھی، تمام تر سہولتوں سے بے نیاز اور بے پرواو، کیونکہ انہیں ایک ہی فکر تھی اور وہ تھی اپنی اولاد کی تربیت کی۔

آپ شاید یہ تصور نہ کر سکیں گے کہ کچھ لوگ اپنی اولاد کے دشمن ہوتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ اپنی اولاد کے دشمن ہوتے ہیں جنہیں اپنی اولاد کی تربیت کی فکر نہیں، ان کی آخرت کی فکر نہیں، وہ ان کے دشمن ہیں، لوگ اولاد سے پیار محبت کا مطلب سمجھتے ہیں کہ انہیں اچھا کھلانا پلانا اور زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنا۔ مگر ایسی محبت تو جانور بھی اپنی اولاد سے کرتے ہیں، پھر انسان کو دوسری مخلوقات پر شرف و برتری کسی چیز کا حاصل ہے!

اللہ غور کیجیے اور اپنی اپنی ذمہ داری کو پہچاہنی ، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے؟

خیر! یہ تو ضمنی باتیں تھیں، اصل بات کی طرف آتے ہیں جو ہماری آج کی گفتگو کا موضوع ہے وہ یہ کہ شیطان جب انسان کو شرک و بت پرستی پر آمادہ کرنے سے مایوس ہو گیا ، تو اس نے ایک بات پر اکتفا کر لیا، اور وہ بات کیا تھی؟

((وَلٰكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَهُمْ))

’’لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا اور اکسانا ۔‘‘

یہ بات کہ جس پر شیطان اکتفا کر کے بیٹھ گیا، کیا سمجھتے ہیں کہ اس نے کوئی گھاٹے کا سودا کیا ؟ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟

آج انسانی معاشرے میں جس قدر بھی مسائل ہیں، ان میں سے بیشتر اس سبب سے پیدا ہوتے ہیں، کہ ایک کو دوسرے کے خلاف ابھارنا، اس کے دل میں نفرت، عداوت ، بغض اور کینہ پیدا کرنا اور پھر نتیجہ ظلم و زیادتی اور قتل و غارت ہوتا ہے، اور پھر عداوت نسل در نسل چلتی ہے، وہ ایسی آگ لگاتا ہے کہ بجھنے کا نام نہیں لیتی۔

اس ہنر میں شیطان کو ایسا کمال حاصل ہے کہ نہ صرف غیروں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتا ہے بلکہ ایسے قریبی رشتوں میں پھوٹ ڈال دیتا ہے کہ جہاں آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا، والدین اور اولاد کے درمیان قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے، وہ ایسی ہنر مندی اور کاریگری دکھاتا ہے، کہ صرف عام لوگوں کو ہی زیر نہیں کرتا بلکہ بڑے سے بڑے متقی اور پر ہیز گاروں کو بھی اپنے دام میں پھنسا لیتا ہے۔ اب کا ئنات میں انبیاء بیلی کے بعد سب سے افضل ترین لوگ صحابہ کرام ہیں۔ مگر شیطان نے ان پر بھی طبع آزمائی کی ایسی کوشش کی، قریب تھا کہ فتنہ کھڑا ہو جاتا۔

حدیث میں ہے حضرت جابر اللہ بیان کرتے ہیں۔

(( كُنَّا فِي غَزَاةٍ))

’’ہم ایک غزوہ میں تھے۔‘‘

((فَكَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ ))

’’مہاجرین میں سے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کو لات مار دی۔‘‘

((فَقَالَ الْأَنْصَارِي يَا للأَنْصَارِ وَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ يَا لَلْمُهَاجِرِيْنَ))

’’انصاری نے کہا، اے انصار یو! روڑ و اور مدد کرو، مہاجر نے کہا: اے مہاجرین! ڈوڑو۔‘‘

 ((فَسَمِعَ ذٰلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا بَالُ دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ))

’’آپ﷜ نے سنا تو فرمایا: یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے ؟“

((قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ كَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِّنَ الأَنصَارِ ))

’’لوگوں نے بتلایا کہ ایک مہاجری نے ایک انصاری کو لات ماری اس پر لڑائی شروع ہوئی ہے۔‘‘

((فَقَالَ دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ))

’’فرمایا چھوڑو اسے یہ بد بودار ہے۔‘‘

((فَسَمِعَ بِذٰلِكَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِيٍّ فَقَالَ فَعَلُوهَا!))

’’عبد اللہ بن ابی نے سنا تو اس نے کہا کہ کیا واقعی انہوں نے ایسا کیا ہے، یعنی بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب یہ لوگ ہمارے آدمیوں کو مار نے بھی لگ گئے ہیں ؟‘‘

 ((أَمَا وَاللهِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَاالأَذَلَّ))

’’اللہ کی قسم ! جب ہم مدینہ لوٹیں گے تو دیکھنا کہ عزت والے ذلیلوں کو نکال باہر کردیں گے۔‘‘

((فَبَلَغَ النَّبِيَّ))

’’آپ﷜ﷺ کو بھی اس کی خبر پہنچ گئی۔‘‘

((فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنْقَ هَذَا الْمُنَافِقِ))

’’حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن کاٹ دوں ۔‘‘

((فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ محَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابه)) (بخاري: 4905)

’’تو آپ ﷺ نے فرمایا: رہنے دو! کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد ﷺاپنے ساتھیوں کو قتل کرا دیتے ہیں ۔‘‘

آپ نے اس واقعے سے اندازہ کیا ہوگا کہ شیطان پہلے تو ایک کو دوسرے کے خلاف معمولی سی بات پر بھڑ کا دیتا ہے اور پھر اسے ایسا پھیلاتا ہے کہ اس کی لپیٹ میں گروہ در گروہ شامل ہوتے جاتے ہیں۔ اور کڑی سے کڑی ملاتا جاتا ہے اور ایسے دلائل دیتا ہے کہ ہر ایک اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوئے اور اس لڑائی میں کو دنا اپنا فرض سمجھتے ہوئے شامل ہو جاتا ہے۔ تو یہ وہ بات ہے جس پر شیطان نے قناعت کر لی اور اکتفا کر کے بیٹھ گیا، جسے معمولی سمجھا جاتا ہے، مگر حقیقت میں اس کا اثر بہت دور تک اور بہت گہرا ہوتا ہے۔ آج ہم انسانی معاشرے میں، بالخصوص مسلم معاشروں میں اس کی واضح مثالیں اور نمونے دیکھتے ہیں، کوئی سیاست کے نام پر فتنہ برپا کر رہا ہے، کوئی مذہب کے نام پر اور کوئی علاقائی اور انسانی بنیادوں پر لوگوں کو آپس میں لڑا رہا ہے۔ مگر کوئی سمجھنے اور ماننے کو تیار نہیں کہ یہ سب کچھ اس چیز کے نتیجے میں ہے کہ جس پر شیطان نے اکتفا کر لیا ہے، کہ اس کے لیے یہی کافی ہے۔ شیطان کی اس چال کی مختلف صورتوں کو ان شاء اللہ آئند و خطبہ جمعہ میں جانتے کی کوشش کریں گے۔

وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

………………