اسباب نفرت: تکبر اور غیبت

﴿إِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر:6)
شیطان انسان کا اک ایسا دشمن ہے کہ جس کی دشمنی کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی صلاحیتوں کے لحاظ سے، نہ دشمنی کی شدت اور سنگینی کے لحاظ سے، نہ سنگدلی کے لحاظ سے اور نہ متنوع حربوں اور چالوں کے لحاظ سے۔
شیطان کی انسان کے خلاف استعمال ہونے والی صلاحیتوں میں سے ایک خطرناک صلاحیت یہ ہے کہ وہ نظر نہیں آتا، اس کا نظر نہ آنا بھی اگر چہ ایک لحاظ سے انسان کے لیے فائدہ مند ہی ہے، کیونکہ شیطان جو ہر وقت قرین کی صورت میں انسان کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور اس کے علاوہ دیگر شیاطین بھی جو اس کے پاس آتے ہیں، اسے ورغلاتے اور بھڑ کاتے ہیں اور فتنوں میں مبتلا کرتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ کی ہم نے فرمایا:
((إِنَّ عَرْشَ إِبْلِيسَ عَلَى الْبَحْرِ فَيَبْعَثُ سَرَايَاهُ فَيَفْتِنُونَ النَّاسِ فَأَعْظَمُهَمْ عِنْدَهُ أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً)) (مسلم:2813)
’’ابلیس کا تخت پانی پر ہے، وہ وہاں سے ہر روز اپنے لشکر بھیجتا ہے جو لوگوں کو فتنوں میں ڈالتے ہیں، اس کے نزدیک ان میں سے سب سے بڑے درجے والاوہ ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ پیدا کرتا ہے۔‘‘
تو قرین کے علاوہ دیگر شیاطین بھی انسان کے پاس آتے ہیں، جو ٹولیوں کی شکل میں آتے ہیں اور اسے بہکاتے، اکساتے اور آزمائشوں اور فتنوں میں ڈالتے ہیں تو اندازہ کریں کہ آدمی کو دشمنوں کا اک جھرمٹ اگر ہمہ وقت اپنے اردگرد نظر آتا ہو تو اس کی کیا کیفیت ہوگی۔
اگر کچھ مشکوک لوگ کسی آدمی کا پیچھا کر رہے ہوں، اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہوں، وہ جہاں بھی جائے وہی چہرے اسے وہاں نظر آتے ہوں، تو آدمی پر اک مجھنجھناہٹ اور خوف و ہراس کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، اس کا جینا مشکل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا شیاطین کا نظر نہ آنا ایک لحاظ سے انسان کے لیے بہتر ہی ہے۔ دوسری طرف ان کے نظر نہ آنے کا اک منفی اور نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ انسان اس سے غافل ہو جاتا ہے، ہے خوف اور بے فکر ہو جاتا ہے، اور جب کوئی اپنے دشمن سے غافل ہو جائے تو دشمن کے لیے حملہ آور ہونے کا وہ بہترین موقع ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی آپﷺ کو صلاة الخوف کا حکم دیتے اور طریقہ بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ ۫﴾ (النساء:102)
’’جب آپ مسلمانوں کے درمیان موجود ہوں اور انہیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوں، تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے ہوئے ہو‘‘
﴿فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَآىِٕكُمْ﴾ (النساء:102)
’’اور جب وہ گروہ سجدہ کرلے، تو آپ کے پیچھے چلا جائے۔‘‘
﴿وَ لْتَاْتِ طَآىِٕفَةٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْا حِذْرَهُمْ وَ اَسْلِحَتَهُمْ ﴾ (النساء:102)
’’اور وہ دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے، آکر آپ کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور وہ بھی چوکنا ر ہے اور اسلحہ لیے رہے۔‘‘
یہ صلاة الخوف ہے یعنی ڈر اور خوف کی نماز جو حالت جنگ میں پڑھی جاتی ہے، اس کا زیادہ تر انحصار جنگی حالت پر ہوتا ہے، چنانچہ آپ ﷺنے مختلف طریقوں سے پڑھائی ہے، ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ اسلحہ لیے ہوئے دشمن کے مقابل کھڑا رہا اور ایک حصے نے آکر آپ ﷺ کے ساتھ ایک رکعت پڑھی، آپﷺ التحیات میں بیٹھے رہے اور انہوں نے کھڑے ہو کر اپنی دوسری رکعت پوری کی اور پیچھے چلے گئے اور جا کر دشمن کے بالمقابل ہو گئے، پھر وہ دوسرا حصہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی، اگر آپ ﷺکے ساتھ کھڑے ہوئے ، آپ سی ام نے انہیں بھی ایک رکعت نماز پڑھائی اور پھر التحیات میں بیٹھ گئے، انہوں نے بھی کھڑے ہو کر اپنی دوسری رکعت پوری کر لی تو آپ ﷺنے سلام پھیرا اور انہوں نے بھی سلام پھیرا۔ یوں دونوں حصوں کو آپﷺ نے ایک ایک رکعت نماز پڑھائی،
آگے بڑھنے سے پہلے یہاں نماز کی اہمیت کے حوالے سے دو ایک باتیں عرض کرتا چلوں: اس آیت کریمہ اور آپ ﷺکے واقعہ نماز کی روشنی میں چند ایک باتیں خوب واضح ہو جاتی ہیں:
٭ نماز کی اہمیت کہ نماز ایک ایسا فريضہ ہے جو حالت جنگ میں بھی نہیں چھوڑا جا سکتا۔
٭ نماز اس کے وقت پر ، ورنہ کیا مانع تھا کہ جنگ سے فارغ ہوتے اور دشمن کا خطرہ ہوٹل جانے کے بعد نماز پڑھ لی جاتی۔
٭ نماز با جماعت ، کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ہر شخص انفرادی طور پر ایک ایک کر کے نماز پڑھ لیتا۔
٭ پہلی نماز، کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ سلام ایک حصے کو پوری نماز پڑھا دیتے اور پھر سلام پھیر کر دوسرے حصے کو پوری نماز پڑھا دیتے۔
مگر ایک ہی نماز میں دونوں حصوں کو شریک کرنا، پہلی نماز کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے، اگر چہ کوئی نماز سے لیٹ ہو جائے تو دوسری جماعت کر سکتا ہے، مگر حالت جنگ میں بھی اس سہولت کو نہ لینا اس بات کی شدید اہمیت پر دلالت کرتا ہے، اصل با جماعت نماز وہی ہے جو پہلی تھی، اس کے بعد والی جماعت نہایت اور سخت مجبوری کی حالت میں ہے جب پہلی جماعت کے ساتھ ملنا آدمی کے بس میں نہ رہا ہو، مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ نماز کے معاملے میں مسلمانوں میں بہت زیادہ کوتاہی پائی جاتی ہے، پہلے تو مسلمانوں کی اکثریت سرے سے نماز پڑھتی ہی نہیں، پھر جو پڑھتے ہیں ان میں بھی بہت زیادہ لوگ نماز کے اوقات کو اہمیت نہیں دیتے اور پھر کتنے ہی ایسے ہیں جو نماز با جماعت کی پابندی نہیں کرتے اور پھر جو نماز با جماعت کی پابندی کرتے ہیں، ان میں کئی ایسے ہیں جو اس اہمیت کے ساتھ نماز باجماعت کی پابندی نہیں کرتے کہ اس پہلی جماعت میں شامل ہونا اس طرح ضروری سمجھتے ہوں کہ انہیں اگر لوگوں کے کندھوں کے سہارے بھی چل کر آنا پڑے یا اپنا ضروری کام بھی چھوڑ کر آنا پڑے تو ضرور آئیں۔ بلکہ ان کا انداز یہ ہوتا ہے کہ اگر تھوڑا سا بھی کوئی کام پڑ جائے تو کہتے ہیں، چلو کوئی بات نہیں دوسری جماعت کرالیں گے۔ نماز میں کوتاہی کی یہ تمام صورتیں متعدد وجوہات کی بنا پر ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ نماز کی اس قدر اہمیت سے آگاہی نہیں رکھتے ۔ تو بات ہورہی تھی کہ آدمی جب دشمن سے غافل ہو جائے تو دشمن کے حملے کا وہ بہترین موقع ہوتا ہے، چنانچہ صلاۃ الخوف کا حکم اور تعلیم دینے کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَ اَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً ﴾ (النساء:102)
’’کفار اس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں ۔‘‘
اس لیے شیطان کے نظر نہ آنے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگ اس سے غافل ہو جاتے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ حالانکہ شیطان اگر چہ نظر نہیں آتا ، مگر اس کی کاروائیوں اور کارستانیوں کے نتیجے ضرور نظر آتے ہیں اس کا فتنہ و فساد نظر آتا ہے، اس کی شرارتیں اور خباشتیں نظر آتی ہیں، اس کے فتنوں کے گھائل لوگ نظر آتے ہیں، اس کی مچائی ہوئی تباہی و بربادی نظر آتی ہے، اس کی موجودگی کے ڈھیروں نشانات اور آثار موجود ہیں، مگر کوئی چشم بینا نہیں ہے۔
شیطان موجود ہے اور وہ ہمہ وقت اپنی کاروائیوں اور کارستانیوں ، اپنے حربوں اور اپنی چالوں میں مصروف رہتا ہے، اس کے حربوں میں سے ایک بنیادی حربے تحریش بین الناس کا ذکر ہو رہا تھا کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانا اور برانگیختہ کرنا، ان میں تفریق، بغض اور نفرت پیدا کرنا؛ اور یہ کام کئی طریقوں سے ہوتا ہے، ان میں سے ایک غیبت بھی ہے جس کا گذشتہ جمعے ذکر ہو رہا تھا۔
غیبت سے لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف نفرت، بغض اور عداوت پیدا ہوتی ہے، اور یہ چیز لوگوں میں بکثرت پائی جاتی ہے، یہ کسی ایک فرد یا ایک قوم کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ تقریبًا ہر شخص میں پائی جاتی ہے، کسی میں کم اور کسی میں زیادہ، الا ما شاء اللہ وہ خوش قسمت لوگ جو اس بری خصلت سے بچے ہوئے ہوں، اور ایسے لوگ شاید انگلیوں پر گنے جاسکتے ہوں ۔
اصل بات یہ نہیں ہے کہ کس میں پائی جاتی ہے اور کس میں نہیں ! اصل بات یہ ہے کہ کس کو اپنی اصلاح کی فکر ہے اور کسی کو نہیں، اور اصلاح کی جانب پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ آدمی Realize کرے کہ اسے اصلاح کی ضرورت ہے، اپنے اندر خامی اور کوتاہی کو تسلیم کرے۔ اور پھر اس کے بعد عملی پیش قدمی کرے، زبانی جمع خرچ سے اصلاح نہیں ہوتی کہ آدمی یہ کہنے پر اکتفا کر لے کہ ہاں جی بری عادت ہے اس سے بچنا چاہیے، بلکہ اس کو چھوڑنے کے لیے مخلصانہ کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
امام ابن وہب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار یہ کوتاہی محسوس کی تو فوراً اس کے علاج کی فکر ہوئی۔ تب انہوں نے تہیہ کر لیا کہ آئندہ جب بھی ان سے کوئی کوتاہی ہوگی تو اس پر وہ ایک روزہ رکھیں گے، چنانچہ جب بھی کوئی کوتاہی ہوتی تو ایک روز و رکھتے۔ مگر بتقاضائے بشریت پھر بھی کوئی کوتاہی سرزد ہو جاتی، تو پھر انہوں نے ایک دوسرا طریقہ علاج ڈھونڈ نکالا کہ اب جب بھی کوتاہی ہوگئی تو میں ایک درہم صدقہ کروں گا اور یوں آہستہ آہستہ ان کوتاہیوں سے نجات مل گئی ۔ (سیر اعلام النبلاء: 228/9)
تو آدمی اگر واقعی سنجیدہ ہو، اپنی غلطی کو محسوس کرے اور اس کی اصلاح کی مخلصانہ کوششیں کرے تو اللہ تعالی کے فضل سے اصلاح ہو جاتی ہے۔
دوسری چیز جو لوگوں میں نفرت، بغض اور عداوت کا باعث بنتی ہے، وہ ہے تکبر اور حسد، تمبر اک نہایت ہی مذموم خصلت ہے، تکبر یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو اپنے سے کمتر اور حقیر جائے۔
تکبر کے متعدد اسباب ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی سبب درست اور حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔
مثلا: آدمی مال و دولت کی فراوانی کے باعث تکبر کرتے ہوئے دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ مگر اس میں تکبر کرنے والی کون سی بات ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس میں تمہارا اپنا کوئی کمال نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے، اللہ تعالی کسی کو دولت کی کمی سے آزماتا ہے، تو کسی کو فراوانی ہے، ایک کے لیے غربت آزمائش ہے تو دوسرے کے لیے دولت کی کثرت۔
دونوں برابر ہیں بلکہ فراوانی والا زیادہ خطرے میں ہے کہ دنیا میں جس قدر برائیاں ہیں ،وہ زیادہ تر دولت کے بل بوتے پر ہوتی ہیں، پھر قوموں کی تباہی کے اسباب میں بھی ایک بنیادی سبب یہی بتلایا گیا ہے۔
جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا۝﴾ (الاسراء:16)
’’جب ہم کسی بستی کو بلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بہتی پر چسپاں ہو جاتا ہے، اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں ۔‘‘
معاشرے میں جس قدر بھی فحاشی اور بے حیائی ہے علم و نا انصافی ہے، دولت والوں ہی کی بدولت ہے، وہ یا تو خود کرتے ہیں، یا ان کی اجازت سے ہوتا ہے اور ان کی زیر نگرانی ہوتا ہے، اگر پیسے والے لوگ چاہیں کہ معاشرے میں برائی نہ پھلے تو ہرگز نہ پھیلے، غریب لوگوں کی کیا مجال کہ وہ دولت مندوں کی مرضی کے خلاف کوئی کام کر جائیں غریب لوگ چوری چکاری اور لوٹ مار تو کر سکتے ہیں مگر علی الاعلان فحاشی نہیں پھیلا سکتے، امیر لوگوں کی رضا مندی کے بغیر ۔
اور پھر دولت پر فخر اور اس کی وجہ سے تکبر کسی لحاظ سے بھی نہیں بنتا۔ کیوں کہ دولت نہ سکون نہیں دے سکتی ، نہ موت سے بچا سکتی اور نہ آخرت کے عذاب سے بچا سکتی ۔ ایسے ہی تکبر کے دیگر اسباب بھی ہیں جیسے نسلی، لسانی یا علاقائی برتری سمجھتے ہوئے تکبر کرنا وغیرہ، مگر یہ سب بالکل بے معنی اور مہمل سی باتیں ہیں، اللہ تعالی ہمیں ان سے محفوظ فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………….