تکبر باعث تنفر (1)

﴿إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌُّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر:6)
شیطان کی انسان کے خلاف چالوں، مکاریوں، قریب کاریوں اور بہت سے حیلوں اور حربوں میں سے ایک التخریش بین الناس بھی ہے، یعنی لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا اور اکسانا ، ان میں نفرت، بغض اور عداوت پیدا کرنا، اور یہ کام وہ مختلف طریقوں ترکیبوں اور تدبیروں سے کرتا ہے، غیبت کے ذریعے، عیب جوئی کے ذریعے، تجس کے ذریعے، حسد کے ذریعے، دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کے ذریعے، برے ناموں سے پکارنے کے ذریعے، نسلی، لسانی اور طبقاتی امتیاز کے ذریعے، تکبر کے ذریعے اور بہت سی دیگر بری صفات کے ذریعے، وہ لوگوں کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کے خلاف دل میں نفرت اور عداوت اور فتنہ و فساد پیدا کرتا ہے۔ اسلام لوگوں کے درمیان صلح و صفائی، الفت و محبت، بھائی چارہ، حسن سلوک، ہمدردی اور خیر خواہی کی ترغیب دیتا اور تاکید کرتا ہے، انسانوں کو آپس میں لڑانا اور اکسانا تو دور کی بات، اسلام جانوروں کو بھی آپس میں لڑانے کی اجازت نہیں دیتا، حدیث میں ہے، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ التَّحْرِيشِ بَيْنَ البَهَائِمِ)) (ابوداود:2562)
’’آپ ﷺنے جانوروں کو آپس میں بھڑ کانے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کا عام رواج ہے، کھیل کے نام پر مرنے لڑائے جاتے ہیں، باکسنگ شریعت کی روشنی میں ایک ناجائز کھیل ہے، کیونکہ اسلام میں کسی کو نقصان پہنچانا اور ضرب لگا نا منع ہے بالخصوص چہرے پر۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيَجْتَنِبِ الوَجْهَ)) (مسلم: 2612)
’’اگر تم میں سے کسی کا اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا ہو جائے تو وہ چہرے سے بچے، یعنی چہرے پر نہ مارے۔‘‘
اسی طرح ایک صحابی (حکیم بن معاویہ القشیری رضی اللہ تعالی عنہ) نے عرض کیا:
((يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ))
’’اے اللہ کے رسول (ﷺ)! ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس کے خاوند پر کیا حق ہے؟‘‘
((قَالَ: أَنْ تُطْعِمُهَا إِذَا طَعِمْتَ))
’’فرمایا: جب خود کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ۔‘‘
((وَتَكْسُوْهَا إِذَا اكْتَسَبْتَ))
’’اور جب خود پہنو تو اس کو بھی پہناؤ۔‘‘
یعنی جیسا خود کھاؤ اور پہنو، ویسا ہی اس کو بھی کھلاؤ اور پہناؤ، اس مرتبے گا۔
((وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ)) (ابو داود: 2142)
’’اور چہرے پر مت مارو، اسے یہ نہ کہو کہ تیرا برا ہو، اور اس سے الگ نہ ہو، مگر گھر کے اندر‘‘
یعنی اگر اس کی کسی بات پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے تادیب کے لیے علیحدگی اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس کو گھر سے نہ نکالو، گھر کے اندر ہی رہتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کرو، بلکہ قرآن تو کہتا ہے کہ اگر طلاق بھی دے دو تو اسے گھر سے نہ نکالو، چنانچہ قرآن پاک عورت کی تو قیر اور عزت افزائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
﴿لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوْتِهِنَّ﴾ (الطلاق:1)
’’تم انہیں ان کے گھر سے نہ نکالو۔‘‘
﴿وَلَا يَخْرُجْنَ﴾ (الطلاق:1)
’’اور انہیں بھی چاہیے کہ وہ گھر سے نہ نکلیں۔‘‘
﴿إِلَّا أَن يَّأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ﴾ (الطلاق:1)
’’الا یہ کہ وہ کوئی کھلی برائی کر بیٹھی ہوں ۔‘‘
اب قرآن پاک کے اس حکم میں کیا کیا حکمتیں ہیں، یہ ایک الگ موضوع ہے، بات ہو رہی تھی چہرے پر نہ مارنے کی اور باکسنگ میں چہرہ ہی اصل ٹارگٹ ہوتا ہے۔ تو کھیل ہو یا لڑائی جھگڑا، چہرے پر مارنا منع ہے، مگر شیطان ہر وہ کام کروانے کی کوشش کرتا ہے جو شریعت کے خلاف ہو، آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ لڑائی جھگڑے میں، قصے کی حالت میں جب تک آدمی چہرے پر نہ مارے، غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا، تسلی نہیں ہوتی ، چاہے آدمی کسی کو کتنا ہی پیٹ لے، لیکن اگر چہرے پر نہ مارے تو اک تشتقی ہی رہ جاتی ہے، اور وہ جو آئے روز تیراب پھینکنے والے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں وہ اسی تحریش بین الناس کے نتیجے میں ہی ہیں۔
اسی طرح شیطان تجسس کے ذریعے لوگوں میں غلط فہمیاں، ناراضیاں اور نفرتیں پیدا ہے۔
تجسس اور جاسوسی کرنا، چوری سے کسی کی باتیں سننا، یا اس کی تحریر پڑھنا کسی کی ٹوہ میں رہنا کہ کوئی کیا کرتا ہے، کہاں جاتا ہے، شیطانی فعل ہے، اس سے یقینًا ولوں میں نفرت اور بغض پیدا ہوتا ہے اور فتنہ و فساد تک بات پہنچتی ہے۔
اسلام نے جہاں کسی عام آدمی کی جاسوسی سے منع فرمایا ہے، وہاں خود اپنے اہل خانہ کی جاسوسی کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت جابر یہ بیان کرتے ہیں کہ
(نهَى رَسُولُ اللهِ أَنْ يَّطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلًا يَتَخَوَّنُهُمْ أَوْ يلْتَمِسُ عَثَرَاتِهِمْ)) (مسلم:715)
’’آپ ﷺنے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص سفر سے جب لوٹے تو رات کو گھر میں آئے ، کہ اپنے اہل خانہ میں خیانت کا متلاشی ہو ( کہ اس کی بیوی کہیں اس سے خیانت تو نہیں کر رہی ) یا اس میں لغزشیں ڈھونڈھتا ہو۔ یعنی گھر میں چھاپہ مارنے کے انداز سے نہ آئے ۔‘‘
تو رات کو گھر آنے کی ممانعت غالباً اس صورت میں ہے جب گھر والوں کو اپنی آمد کی اطلاع دینے کی کوئی صورت نہ ہو، آج کل چونکہ ایسے وسائل موجود ہیں کہ انہیں لمحہ بہ لمحہ کی اطلاع دی جا سکتی ہے، اس لیے اطلاع دے کر رات کو گھر آنے میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں۔ تو جس طرح خاوند کا عورت کی جاسوسی کرنا منع ہے، اسی طرح عورت کے لیے بھی خاوند کی جاسوسی کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اور اسلام کے یہ احکامات گھروں کو اجڑ نے سے اور فتنہ و فساد کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے ہیں۔
تو لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت، بغض اور عداوت کے اسباب میں سے ایک سبب تکبر بھی ہے، تکبر کے نتیجے میں انسان دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتا ہے، انہیں حقیر جانتا اور ان پر ظلم و زیادتی روا رکھتا ہے۔
تکبر بری صفات میں سے ایک بدترین صفت ہے جو کسی بھی انسان میں پائی جاتی ہو۔ تکبر کی تین قسمیں ہیں۔
(1) اللہ تعالی پر تکبر
(2) انبیاء و رسل علیہم السلام پر تکبر اور
(3) عام لوگوں پر تکبر۔
تکبر تو یقینًا ہر قسم کا ہی برا ہے، مگر تکبر کی اقسام میں سے سب سے برا تکبر، اللہ اور اللہ کے رسول عالیہ السلام پر تکبر کرنا ہے۔
فرعون نے اللہ تعالی پر تکبر کرتے ہوئے کہا:
﴿فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰیؗۖ۝۲۴﴾ (النازعات:24)
’’میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں ۔‘‘
نمرود نے یہ کہہ کر اللہ تعالی پر تکبر کیا کہ:
﴿أَنَا أُحِيْ وَأُمِيتُ﴾ (البقرة:285)
’’میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔” مشرکین مکہ نے بھی اللہ تعالی پر تکبر کیا
﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُ ۗ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًا۠﴾ (الفرقان:60)
’’ اور ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمٰن کیا ہوتا ہے ؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اس کو ہم سجدہ کرتے پھریں؟ یہ دعوت ان کی نفرت میں الٹا اور اضافہ کر دیتی ہے ۔‘‘
ایسے ہی رسولوں پر بھی تکبر کیا جاتا رہا جیسا کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے کہا:
﴿ فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَۚ۝﴾ (المؤمنون (48)
’’کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں ؟ حالانکہ ان کی قوم (بھی) ہمارے ماتحت ہے ۔‘‘
اور مشرکین مکہ نے کہا:
﴿ وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَا ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا۝﴾ ( الفرقان:21)
’’اور وہ جو ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں ہم پر فرشتے کیوں نہیں اُتارے جاتے ؟ یا پھر ہم اپنے رب کو ہی دیکھ لیں ، انھوں نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشتی کر رکھی ہے ۔‘‘
﴿ وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ۝۳۱﴾ (الزخرف:31)
’طاور کہنے لگے ، یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا۔یعنی کوئی مالدار آدمی ہوتا۔‘‘
اللہ تعالی اور انبیاء و رسل علیہم السلام پر تکبر کرنا صریح کفر ہے۔ اسی طرح دین کی دعوت دینے والوں پر تکبر کرنا، اگر ان پر تکبر کے نتیجے میں وہ دین کو ٹھکرا رہا ہو تو وہ بھی کفر ہے۔ اس کے علاوہ اگر عام لوگوں پر کسی وجہ سے تکبر کرتا ہے تو وہ بھی مذموم اور حرام ہے اور ایسا شخص جہنم کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
لوگوں پر تکبر کرنے والوں کے بارے میں قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدیں سنائی پر گئی ہیں۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((لَايَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ ))
’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا ۔‘‘
((قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَ نَعْلُهُ حَسَنَةً))
’’تو ایک شخص نے کہا کہ آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں یعنی کیا وہ بھی تکبر میں شمار ہوگا ؟‘‘
((قَالَ إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ))
’’تو فرمایا: بے شک اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے ۔‘‘
((اَلْكِبَرُ بَطَرُ الحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ)) (مسلم:91)
’’تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جانتا ہے ۔‘‘
تکبر اچھا کھانا پینا، اچھا پہننا اور اچھا رہنا سہنا نہیں بلکہ تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جانتا ہے۔ تکبر کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کی کئی شکلیں اور صورتیں ہیں، کوئی شخص مال و دولت کے بل بوتے پر تکبر کرتا ہے، کوئی عہدہ و منصب کی بناء پر تکبر کرتا ہے، کوئی حسب نسب اور قبیلہ و برادری کی وجہ سے تکبر کرتا ہے۔ تاہم تکبر کی تمام صورتیں نہایت ہی ناپسندیدہ، مذموم اور نادانی کی علامت ہیں۔ حضرت محمد بن علی رحمۃ اللہ علیہ تکبر کے بارے میں فرماتے ہیں:
((مَا دَخَلَ قَلْبَ امْرِيءٍ شَيْءٌ مِنَ الْكِبْرِ قَطُّ، إِلَّا نَقَصَ مِنْ عَقْلِهِ بِقَدْرِ مَا دَخَلَ مِنْ ذٰلِكَ قَلَّ ذٰلِكَ أَوْ كَثُرَ)) (حلية الأولياء وطبقات الاصفياء ، ج:3، ص:180)
’’جس کسی کے دل میں تکبر کا جس قدر حصہ بھی داخل ہوتا ہے اسی قدر اس کی عقل کم ہو جاتی ہے کم ہو یا زیادہ۔‘‘
اور نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ بر سر منبر فرماتے ہیں:
((إِنَّ لِلشَّيْطَانِ مَصَالِيًا وَفُخُوخاً))
’’شیطان کے یقینًا کچھ چال اور پھندے ہیں، اس کی لڑکیاں ہیں ۔‘‘
(( وَإِنَّ مَصَالِي الشَّيْطَانَ وَ فَخُوخَهُ البَطْرُ بِأَنعم الله))
’’اور اس کے جال اور پھندے اللہ تعالی کی نعمتوں پر اتراتا ہے۔‘‘
((وَالفَخْرُ بِإِعْطَاءِ اللهِ‘‘
’’اور اللہ تعالی کی عطا اور عنایت پر فخر کرنا ۔‘‘
((وَالكِبَرُ عَلٰى عِبَادِ اللهِ)) (الأدب المفرد:553)
’’اور اللہ کے بندوں پر تکبر کرتا ہے۔‘‘
تکبر کرنے والا شخص حقیقت میں کم عقل اور نادان بھی ہوتا ہے اور دھو کے اور غرور میں بھی مبتلا ہوتا ہے اور اپنی حقیقت اور اپنی اصلیت کو بھی بھولا ہوا ہوتا ہے۔
مطرف بن عبد الله بن الشخير رحمۃ اللہ علیہ نے مشہور تابعی نے مهلب بن ابی صفرة کو دیکھا کہ وہ ریشمی جبہ پہنے اکڑتے ہوئے چل رہا ہے۔
((وَيُرْوَى أَنَّ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنَ الشَّخْيْرِ رَأَى الْمُهَلَّبَ وَهُوَ يَتَبَخْتَرُ فِي حُلَّةِ خَزٍّ فَقَالَ: يَا عَبْدِ اللهِ هٰذِهِ الْمِشْيَةُ يُبْغِضُهَا اللهُ وَرَسُوله))
’’بیان کیا جاتا ہے کہ مطرف بن عبد اللہ الخیر بٹ نے مہاب بن ابی صفرہ کو ریشمی پوشاک میں اکڑ کر چلتے ہوئے دیکھا تو فرمانے لگے: اے اللہ کے بندے یہ چال اللہ تعالی اور اس کے رسول سے ہم کو سخت نا پسند ہے ۔‘‘
((فَقَالَ لَهُ الْمُهَلِّبُ: أَمَا تَعْرِفُنِي؟))
’’تو مہاب نے ان سے کہا: کیا آپ مجھے جانتے نہیں ہیں ؟‘‘
((فَقَالَ: بَلٰى أَعْرِفُكَ‘‘
’’تو انھوں نے فرمایا: ہاں میں آپ کو جانتا ہوں ۔‘‘
((أَوَّلُكَ نُطْفَةٌ مُذِرَةٌ))
’’تمہاری ابتدا ایک گندہ نطفہ ہے۔‘‘
((وَآخِرُكَ جِيْفَةٌ قَذِرَةٌ))
’’اور تیری انتہا ایک بد بودار مردار ہے۔‘‘
(( وَأَنْتَ تَحْمِلُ العَذِرَةَ))
’’اور تو اپنے اندر غلاظت اٹھائے ہوئے ہے۔‘‘
(( فَمَضَى المُهَلَّبُ وَتَرَكَ مِشْيَتَهُ)) (تنبيه الغافلين للسمر قندي، ص:185)
’’تو مہلب یہ سن کر چپ چاپ چلا گیا، اور تکبر کی چال چھوڑ دی ۔‘‘
تو تکبر انسان کو زیب نہیں دیتا، بلکہ کسی بھی مخلوق کو زیب نہیں دیتا، یہ صرف اللہ تعالی کے شایان شان ہے اور اس کا حق ہے۔ حدیث قدسی ہے، اللہ فرماتے ہیں:
((اَلْكِبَرُ رِدَائِي وَالْعَظَمَةُ إِزَارِيْ))
’’تکبر میری اور منی ہے اور عظمت میری چادر ہے‘‘
((فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا قَذَقْتُهُ فِي النَّارِ)) (ابوداود:4090)
’’جس کسی نے ان دونوں میں سے کسی ایک کو مجھ سے چھینا چاہا، میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا ۔‘‘
تو تکبر اللہ تعالی کے ہاں ایک شدید ناپسندیدہ عمل ہے جو اس کی چادر عظمت کو ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے، ایک ایسا کام کرنے کی کوشش ہے جو صرف اور صرف اللہ تعالی کے شایان شان ہے ، اس کے لائق ہے ، صرف اسی کو زیب دیتا ہے اور صرف وہی اس کا حقدار ہے، تو تکبر کرنا گویا اللہ تعالی کی شان و عظمت کی برابری کا دعوی کرنا ہے ، مگر حقیقت میں یہ انسان کی کم عقلی کی علامت ہے ، تو اندازہ کیجیے شیطان کی چالوں کی سنگینی کا کہ وہ کس آسانی کے ساتھ انسان کو ایسے گھناؤنے اور گھٹیا جرم میں پھنسا لیتا ہے، اللہ تعالی ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………