تکبر باعث تنفر (۲)

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ شیطان پوری سنجیدگی اور دلجمعی سے، تمام تر قوت و طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے انسان کے خلاف برسر پیکار ہے اور وہ انسان دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ مگر انسان یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی بخوشی اور برضا و رغبت اس کی چالوں اور قریب کاریوں کا شکار ہوتا ہے۔ اس کا سبب کیا ہے! اس پر تو پھر بھی بات ہوگی ان شاء اللہ۔ اس وقت گذشتہ جمعے ہونے والی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔
گفتہ جمعے بات ہو رہی تھی کہ شیطان اپنے حربے تحریش بین الناس کی تعمیل کے لیے مختلف اسباب و ذرائع اور مختلف ترکیبیں اور تدبیریں استعمال میں لاتا ہے، ان میں سے ایک تکبر بھی ہے۔
تکبر بظاہر اک انفرادی عمل لگتا ہے کہ جس کا اثر خود اس شخص تک محدود ہو، مگر حقیقت میں یہ ایک ایسا مہلک اور وبائی مرض ہے کہ جو سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
تکبر کے نتیجے میں لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت و عداوت پیدا ہوتی ہے اور تکبر کے اسباب ور واقع میں مختلف محرکات ہیں، ان میں سے ایک علم بھی ہے، وہ علم دین کا ہو یا دنیا کا اکثر و بیشتر جب انسان کے پاس علم آتا ہے تو ساتھ تکبر بھی آتا ہے الا ماشاء اللہ ، انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتا ہے بلکہ بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے، اور پھر اس پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو حقیر اور کمتر بھی سمجھنے لگتا ہے ۔ یہ ایک الگ اور مستقل موضوع ہے۔ تکبر کے محرکات میں ایک عمل صالح بھی ہے، عمل صالح کی توفیق اور سعادت ایک بہت بڑی نعمت اور اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے، لیکن انسان اگر شیطان کی فریب کاری کا شکار ہو جائے تو پھر اپنے عمل پر اترانے لگتا ہے اور دوسروں کو اپنے سے کمتر جاننے لگتا ہے بلکہ اگر کوئی آدمی نیا نیا دین کی طرف راغب ہوا ہو تو اس کا مذاق اڑاتا ہے، اسی طرح تکبر کے اسباب میں ایک بہت مشہور و معروف سبب مال و دولت کی فراوانی ہے، مال و دولت کے سبب لوگوں کو کمتر اور حقیر جاننا بہت عام ہے، کسی پر مخفی نہیں۔ اور تکبر کے اسباب میں سے ایک قوت و طاقت بھی ہے، جسمانی قوت و طاقت کے نشے میں بھی لوگ تکبر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور لوگوں کے ساتھ خواہ مخواہ الجھنا اور چھیٹر چھاڑ کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی تکبر کے اسباب میں سے حسن و جمال پر اترانا بھی ایک واضح حقیقت ہے۔ ای طرح تکبر کے اسباب میں ارادت مندوں اور چاہنے والوں کا ہجوم اور جم غفیر اور وسیع حلقہ آدمی میں تکبر اور غرور پیدا کر دیتا ہے۔ اور تکبر کا ایک سبب کہ جس کا ذکر ہم آج کی گفتگو میں کرنا چاہتے ہیں، وہ ہے حسب و نسب پر اترانا اور قبیلہ و برادری پر فخر کرنا۔ حسب و نسب پر اترانا، آباء و اجداد پر فخر کرنا اور دوسرے قبیلوں اور ہر اور یوں کو حقیر سمجھنا جہاں کم عقلی اور نادانی کی علامت ہے، وہاں ایمان کی کمزوری اور افکار و عقائدِ جاہلیت سے محبت کی نشانی بھی ہے۔ اپنے قبیلے اور برادری کو برتر سمجھتا اور دوسری براور یوں کو کمتر سمجھنا تکبر کی گھٹیا قسموں میں سے ایک ہے۔ اپنے قبیلے پر فخر کرنے والے شاید کبھی غور نہیں کرتے کہ ان کے فخر کا سبب کیا ہے؟ کیا وہ کسی دوسری مخلوق سے ہیں، کیا وہ آدم و حواء علیم کی اولاد میں سے نہیں ہیں۔ کیا ان کی پیدائش کسی دوسرے طریقے سے ہوئی ہے، کیا ان کے عناصر ترکیبی دوسروں سے مختلف ؟ کیا ان کے افضل و برتر ہونے کی کوئی وی آئی ہے؟ آخر فضیلت و برتری کی بنیادی کیا ہے؟
اپنی برادری کو دوسروں سے بہتر اور برتر سمجھنا اک نہایت بد بودار سوچ اور فکر ہے، ایک نهایت گندہ عقیدہ اور ذہنیت ہے۔ آپﷺ نے ایسے شخص کو کہ جو اپنے آباء واجداد پر فخر کرتا ہے، ایک گندے کپڑے سے تشبیہ دی ہے۔
((لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَفْتَخِرُونَ بِآبَائِهِمُ الَّذِينَ مَاتُوا))
’’ جو لوگ اپنے گزرے ہوئے آباؤ اجداد پر فخر کرتے ہیں، انہیں باز آجانا چاہیے۔ جو جاہلیت میں مر گئے ۔‘‘
((إِنَّمَا هُمْ فَحْمُ جَهَنَّمَ))
’’وہ تو جہنم کا کوئلہ ہیں۔‘‘
اب ہر برادری کے آباؤ واجداد میں کہیں نہ کہیں ، کوئی نہ کوئی کافر و مشرک اور ہندو اور سکھ وغیرہ ہوتا ہی ہے، تو جب آپ اپنی برادری پر فخر کرتے ہیں تو ان مشرکوں پر فخر کرتے ہیں جو جہنم کا کوئلہ بنے ہوئے ہیں۔
تو فرمایا
((أَوْ لَيَكُونَنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللهِ مِنَ الجُعَلِ الَّذِي يُدَهْدِهُ الْخِرَاءَ بِأَنْفِهِ))
’’اگر وہ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنے سے باز نہیں آتا تو پھر جان لے کہ ایسا شخص اللہ تعالی کے ہاں گوبر کے اس کیڑے سے بھی زیادہ حقیر ہے جو اپنی ناک سے گندگی اور غلاظت کو ادھر ادھر کر رہا ہوتا ہے۔‘‘
((إِنَّ اللهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ))
’’اللہ تعالی نے تم سے جاہلیت کے اس تکبر و نخوت کو ختم کر دیا ہے۔‘‘
((إِنَّمَا هُوَ مُؤْمِنٌ تَقِىٌّ ، وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ ))
’’انسان صرف دو ہی طرح کے ہیں، یا تو دو مؤمن منتقلی سے یا فاجر بد بخت ہے۔‘‘
((كُلُّهُمْ بَنُو آدَم))
’’سارے کے سارے اولاد آدم ہیں ۔‘‘
((وَآدَم خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ)) (ترمذی:3955)
’’اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔‘‘
اسلام آباء واجداد پر فخر کرنے کو سخت نا پسند کرتا ہے، ایسے انتماء اور انتساب کو بد بودار اور ایسی آواز کو جاہلیت کی پکار قرار دیتا ہے اور ایسے شخص کو سخت وعید سناتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ:
((إِنْتَسَبَ رَجُلانِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ))
’’آپ ﷩ﷺکے عہد مبارک میں دو آدمیوں میں حسب و نسب کا ذکر ہوا۔‘‘
((فَقَالَ أَحَدُهُمَا: أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ فَمَنْ أَنتَ لَا أُمَّ لَكَ))
’’ان میں سے ایک نے کہا: میں فلاں بن فلاں بن فلاں ہوں، تم کون ہو،تمہاری ماں نہ ہو۔‘‘
یہ ایک جملہ ہے جو بسا اوقات حقارت کے لیے بولا جاتا ہے۔
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنْتَسَب رَجُلَانَ عَلٰى عَهْدِ مُوسَى))
’’تو آپﷺ نے فرمایا: موسیٰ علیہ کے دور میں دو آدمی اپنے اپنے نسب کا ذکر کرنے لگے۔‘‘
((فَقَالَ أَحَدُهُمَا أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ حَتَّي عَدَّ تِسْعَةً: فَمَنْ أَنْتَ لَا أُمَّ لَكَ))
’’ان میں سے ایک نے کہا، میں فلاں ابن فلاں ہوں اور نو پشتوں تک اپنے آباؤ اجداد کے نام گنوائے اور کہا کہ تمہاری ماں نہ ہو تم کون ہو ۔‘‘
((قَالَ: أَنَا فُلانُ بْنُ فُلَانُ ابنُ الإسلامِ))
’’تو دوسرے نے کہا میں فلاں ابن فلاں ہوں اسلام کا بیٹا ۔‘‘
((قال))
’’فرمایا‘‘
((فَأَوْحَى اللهِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنَّ هَذَيْنِ الْمُنْتَسِبَيْنِ))
’’تو اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ کی طرف وحی کی کہ یہ جو دو اپنے اپنے خاندان کا ذکر کر رہے ہیں ، ان سے کہہ دو ؟‘‘
(( أَمَّا أَنْتَ أَيُّهَا المُنْتَمِي أو المُنتَسِبُ إِلَى تِسْعَةِ فِي النَّارِ فَأَنْتَ عَاشِرُهُمْ ))
’’اے تو جو نو آدمیوں کی طرف اپنی نسبت کر رہا ہے ، جہنم میں ہیں، تو ان کا دسواں ہے، یعنی تو بھی اس فخر کے سبب ان کے ساتھ ہی جہنم میں ہوگا۔‘‘
((وَأَمَّا أَنْتَ يَا هَذَا الْمُنتَسِبُ إِلَى اثْنَيْنِ فِي الْجَنَّةِ فَأَنْتَ ثَالِثُهُمَا فِي الْجَنَّةِ)) (مسند احمد:21178)
’’اور تو جو دو لوگوں کی طرف اپنی نسبت کر رہا ہے، جنت میں ہیں اور تو ان کا تیسرا ہے، جنت میں ہو۔‘‘
اندازہ کریں کہ اپنے آباؤ اجداد اور قبیلے برادری پر فخر کرنا اللہ تعالی کے ہاں کسی قدر مکرود، مذموم اور نا پسندیدہ فعل ہے۔
اور کیوں نہ ہو ! اس سے دلوں میں بغض، نفرت اور عداوت پیدا ہوتی ہے، فتنہ و فساد رونما ہوتا ہے، اور یہ ایسی نادانی کی حرکت ہے کہ اپنے ہی بھائی کو اپنے سے کمتر سمجھتا ہے۔ اور یہ بیماری اور بری خصلت آج سے نہیں، بہت پہلے سے ہے، آدم علیہ السلام کی پہلی پشت سے چلی آرہی ہے۔ ہائیل اور قابیل کا قصہ تو آپ نے سنا ہوگا، قابیل نے اپنے بھائی ہائیں کو قتل کیا، تو اس برتری کے زعم میں ہی قتل کیا اور حسد کرتے ہوئے قتل کیا، قرآن کہتا ہے ان کا قصہ لوگوں کو سناؤ، یہودیوں کو اور ان جیسوں کو
﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْني اٰدَمَ بِالْحَقِّ)) (المائدة:27)
’’ذرا انہیں آدم کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ تو سنا دو۔‘‘
﴿ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ؕ﴾ (المائده:27)
’’جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ کی گئی ۔‘‘
﴿ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ﴾ (المائدة:27)
’’اس نے کہا میں تجھے قتل کروں گا۔‘‘
﴿ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۝۲۷﴾(المائده:27)
’’اس نے جواب دیا کہ اللہ تعالی تو متقیوں کی قربانی ہی قبول کرتا ہے۔‘‘
قصے کی تفصیلات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک بات کا ذکر کرتے ہیں کہ قابیل نے اپنے اور اپنی بہن کے بارے میں کہا جیسا کہ تفاسیر میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ:
((نَحْنُ مِنْ وَلَادَةِ الْجَنَّةِ))
’’ہم جنت کے پیدائشی ہیں ۔‘‘
(( وَهُمَا مِنْ وَلَادَةِ الْأَرْضِ))
’’جبکہ ہائیل اور اس کی ہمشیرہ زمین کے پیدائشی ہیں ۔‘‘
اس لیے میں اپنی بہن کی شادی اس سے نہیں کر سکتا، یعنی وہ اپنے آپ کو اس سے بہتر سمجھتا تھا مگر قربانی قبول ہونے سے ثابت ہو گیا کہ بہتری اور برتری کا معیار صرف اور صرف تقوی ہے۔ آج جو لوگ نسلی برتری کے قائل ہیں اور اس پر لڑتے اور جھگڑتے ہیں اور اس بنیاد پر لوگوں کو حقیر جانتے ہیں۔ وہ فیصلہ کر لیں کہ دو حائیل کے طرف دار ہیں یا قابیل کے، وہ قابیل کی صف میں کھڑے ہیں یا قائیل کی۔
اور اگر قابیل کی صف میں کھڑے ہیں تو پھر جان لیں کہ آپ ﷺنے فرمایا ہے۔
((لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا وَذٰلِكَ لأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ)) (بخاری:3335)
’’دنیا میں جو بھی انسان ظلما قتل کیا جاتا ہے، اس کا بوجھ آدم کے پہلے بیٹے پر بھی ہوگا کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ ایجاد کیا ہے۔‘‘
تو حسب و نسب پر اترانا اور فخر کر تا فتنہ و فساد کا باعث اور قتل و غارت گری کا موجب اور تشفت و تفرق کا سبب ہے، اسلام نے اس قبیح سوچ اور فکر کا قلع قمع کرنے کے لیے متعدد احکامات صادر فرمائے اور صیحتیں کی ہیں، جن میں سے ایک اپنی پیدائش پر غور و فکر کرنا ہے۔
﴿ فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَؕ۝﴾ (الطارق:5)
’’پھر چاہیے کہ انسان ذرا دیکھ ہی لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ۔‘‘
اور برتری کا ایک معیار مقرر فرمایا،
﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ اَتْقٰكُمْ﴾ (الحجرات:13)
’’تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ تعالی کے ہاں وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ پر ہیز گار ہے ۔‘‘
اور متعدد آیات اور احادیث میں تکبر کے انجام سے خبردار کیا، جیسا کہ حدیث میں ہے:
((مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَّتَمَثَّلَ لَهُ النَّاسُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأُ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ)) (ترمذی:2755)
’’ جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے سامنے با ادب کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے ۔‘‘
بہر حال تکبر شیطان کی ایک خطرناک چال ہے ، ایک سنگین جرم ہے اور ایک احمقانہ سوچ ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
……………..