تکبر کا شرار اخوت کا ادبار

﴿إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر:6)
’’گذشتہ خطبوں سے شیطان کی ایک چال تحريش بين الناس کا ذکر ہو رہا ہے، تحريش بين الناس کا مطلب جیسا کہ آپ جانتے ہیں لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانا، بھڑ کا نا، برانگیختہ کرنا، ان کے دلوں میں نفرت، بغض اور عداوت ڈالنا، ان کے مابین فتنہ و فساد پیدا کرتا ہے اور اس کے لیے وہ طرح طرح کے حربے اور ہتھکنڈے اختیار کرتا ہے، ان میں سے ایک لوگوں کو اپنے اپنے قبیلہ و برادری پر فخر و تکبر کرنے پر ابھارنا اور دوسروں کو کم تر اور حقیر خیال کرواتا ہے اور یہ کسی قدر قبیح و شنیع حماقت و نادانی پر مبنی اور انسانی معاشرے کے لیے مہلک و تباہ کن فعل ہے گذشتہ جمعے اس کی قباحت و شناعت، حماقت و کم عقلی اور اس کی تباہ کاریوں کا کچھ ذکر ہوا، مگر اس بارے میں ابھی اور بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ حقیقت میں نسلی فخر و غرور آدمی کے ایمان کے لیے، اخوت و محبت کے لیے اور امن و امان کے لیے اک نہایت ہی تباہ کن سوچ اور طرز عمل ہے۔ ایمان کے لیے یوں تباہ کن ہے کہ ایسے دل کو سر بمہر کر دیا جاتا ہے جس میں تکبر ہو۔
﴿كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبَر جَبَّارٍ﴾ (غافر:35)
’’اسی طرح اللہ تعالی ہر متکبر و جبار کے دل پر ٹھپے لگا دیتا ہے۔‘‘
قرآن پاک میں ایسے نو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے دل پر مہر لگا کر سیل بند کر دیا جاتا ہے، پھر انھیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی ، ان میں سے ایک متکبر و جبار قسم کا انسان بھی ہے۔
اور تکبر کی تعریف آپﷺ نے یہ بیان فرمائی کہ:
((بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ))
’’حق کا استخفاف و انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جانتا۔‘‘
اور تکبر انسان کے لیے یوں بھی سم قاتل ہے کہ حدیث میں ہے کہ:
((لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ))
’’جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر بھی ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘(مسلم:91)
اور تکبر اخوت و محبت کو چکنا چور اور پاش پاش کر دینے والی خصلت ہے۔
((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلَا تُؤْمِنُواحَتّٰى تَحَابُّوا )) (ابوداود:5193)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک ایمان نہ لاؤ اور اس وقت تک ایمان نہیں لا سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ رکھو۔‘‘
اور تکبر فکر پس ماندہ جاہلیت ہے، جاہلیت کے بچے کھچے افکار میں سے ہے۔
حضرت معرور بن سويد رحمۃ اللہ علیہ (التابعی) بیان کرتے ہیں کہ:
((لَقِيتُ أَبَا ذَرَ بِالرَّبَدَةِ وَعَلَيْهِ حُلَةٌ وَعَلَى غُلَامِهِ حُلَةٌ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذٰلِكَ))
’’ربزہ کے مقام پر میری حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات ہوئی، میں نے دیکھا کہ انہوں نے ایک پوشاک پہن رکھی تھی اور ان کے غلام نے بھی پوشاک زیب تن کر رکھی تھی، تو میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا ۔‘‘
یعنی امام معرور بن سوید رحمۃ اللہ علیہ کو یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ آدمی اور اس کے غلام کا ایک جیسا لباس ؟ آقا اور غلام ، چوہدری اور کمی، سیٹھ اور مزدور، جاگیردار اور کسان میں کوئی فرق و امتیاز نہ ہوا تعجب ہوا۔
لہٰذا اور یافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
(( فَقَالَ إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا ))
’’تو فرمایا: میری ایک شخص سے تو تو میں میں ہوئی۔‘‘
(( فَعَيَّرْتُهُ بِأَمِّهِ))
’’تو میں نے اسے ماں کا طعنہ دیا۔‘‘
(ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے اسے یا ابن السوداء) کہا، کہ اے کلو کے بیٹے! انہوں نے آپ ﷺ سے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کی شکایت کی۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
((فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا ذَرَ أَعَيَّرَتَهُ بِأُمِّهِ إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّة))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: اے ابو ذر کیا تو نے اسے ماں کا طعنہ دیا ہے، تم ایسے شخص ہو کہ جس میں جاہلیت ہے، یعنی کسی کو طعنہ دیتا اور عار دلانا جاہلیت کی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے۔‘‘
((إِخْوَانُكُمْ خَولُكُمْ))
’’تمہارے بھائی تمہارے خدمت گزار ہیں ۔‘‘
((جَعَلَهُمُ اللهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ))
’’اللہ تعالی نے انہیں تمہارے ماتحت بنا دیا ہے ۔‘‘
((فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلَيُلْبِسَهُ مِمَّا يَلْبِسُ))
’’تو جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو، وہ اسے وہی کچھ کھلائے جو خود کھائے، اور وہی کچھ پہنائے جو خود پہنے۔‘‘
((وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ عَلَيْهِ))
(مسلم:1661)
’’ا نہیں کسی ایسے کام کا مکلف نہ ٹھہراؤ، کسی ایسے کام کی ذمہ داری نہ لگاؤ جو انہیں مغلوب کر دے، بے بس کر دے اور اگر کسی ایسے کام پر لگاتا ہی ہو تو پھر ان کی مدد کرو، اور اس پر ان کا ہاتھ بٹاؤ۔‘‘
تو قبیلے اور برادری پر فخر و غرور اور تکبر لوگوں میں اختلاف و افتراق پیدا کرتا ہے، انہیں لوگوں کی تحقیر پر برانگیختہ کرتا ہے، ظلم و زیادتی پر ابھارتا ہے، ذلیل و رسوا کرنے پر اکساتا ہے۔ قبیلے برادری پر فخر کرتے ہوئے دوسرے قبیلوں اور برادریوں کو کم تر اور حقیر سمجھنا اسلامی تعلیمات کی سراسر نفی اور انکار ہے۔ اسلام تو کہتا ہے کہ ((الْمُسْلِمُ أَخُو المُسلِم)) (مسلم:2580)
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔‘‘
اور ہم کسی غریب، فقیر اور کمی کو بھائی کہتے ہوئے شرم اور تو ہین محسوس کریں! یہ کون سا اسلام ہے اسلا تو کہتا ہے کہ:
((لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰى يُحِبُّ لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ)) (بخاری:13)
’’اس وقت تک تم میں سے کوئی شخص کامل مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ
((اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ)) (مسلم:2580)
’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے کسی کے حوالے کرتا ہے کہ وہ اس پر ظلم کرے۔‘‘
انسان اپنے لیے کیا پسند کرتا ہے؟ دنیا و آخرت کی بھلائیاں! کیا وہ دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بھی یہی کچھ پسند کرتا ہے؟ انسان اپنے لیے پسند کرتا ہے کہ اسے عزت سے بلایا جائے ، اس کا احترام کیا جائے، کیا وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی یہی کچھ پسند کرتا ہے؟
انسان اپنے لیے پسند کرتا ہے کہ اسے کوئی طعنہ نہ دے، اس کی کوئی غیبت نہ کرے، اسے کوئی شرمندہ نہ کرے، ذلیل و رسوا نہ کرے، کیا دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے بھی یہی کچھ پسند اگر دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہ وہی کچھ پسند کرتا ہے جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے، تو ممکن نہیں کہ وہ اس سے حسد کرے، اسے حقیر جانے والے ذلیل و رسوا کرے، اس کی غیبت کرے، اس پر بہتان لگائے اور اسے کسی کے حوالے کر دے کہ وہ اس پر ظلم و زیادتی کرے، بلکہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا دفاع کرتا ہوا نظر آئے گا۔
((الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ))
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔‘‘
((لَا يَظْلِمُهُ))
’’وہ اس پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘
((وَلا يُسْلِمُه))
’’اور وہ اسے کسی کے حوالے بھی نہیں کرتا کہ کوئی اس پر ظلم کرے۔‘‘
اور تیسری چیز:
((وَمَنْ كَانَ في حاجة أخيه كانَ اللهُ فِي حَاجَتِهِ))
’’جو اپنے مسلمان بھائی کے کام میں رہتا ہے، اللہ تعالی اس کے کام میں رہتا ہے۔‘‘
((وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ بِهَا كُرْبَةً مِنْ كُرْبٍ يِومِ القِيَامَةِ))
’’جو کسی مسلمان کی تکی تکلیف اور پریشانی دور کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے ذریعے قیامت کے دن کی تنگیوں میں سے اس کی تنگی اور تکلیف دور کرے گا۔‘‘
((وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) (مسلم:2580)
’’ اور جو کوئی کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘
مگر افسوس کہ آج بہت سے مسلمان ہونے کے دعویداروں کا محبوب مشغلہ لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا، انہیں بد نام کرنا اور ذلیل و رسوا کرنا ہے۔ اور وہ اپنے تئیں یہ کہہ کر اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جی ہم کون سی غلط بات کر رہے ہیں یہ بات تو اس میں واقعی پائی جاتی ہے۔ حالانکہ پردہ پوشی کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی کی خامی اور کوتاہی پر پردہ ڈالا جائے، اسے شرمندہ نہ کیا جائے ، اس کے گناہ کو اُچھالا نہ جائے، یہ شیطانی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے جس سے وہ اپنے ماننے والوں کو مطمئن کرتا ہے کہ اس میں کون سی برائی ہے، یہ خامی تو واقعی اس میں پائی جاتی ہے۔
تو مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر ظلم نہیں کرتا، کسی کو بھی اس پر ظلم نہیں کرنے دیتا اور خیر کے کاموں میں اس کا تعاون بھی کرتا ہے اور اس کی پردہ پوشی بھی کرتا ہے۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ:
((وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يَحْقِرُهَ)) (مسلم:2524)
’’کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اسے ذلیل نہیں کرتا اور اسے حقیر نہیں جانتا ۔‘‘
تو مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنے کی اور ایک دوسرے کی ہمدردی اور خیر خواہی کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے، ان کے ایک دوسرے پر حقوق مقرر کیے گئے ہیں۔ اور حقوق کا مطلب ہے کہ وہ ادا کرنا لازم ہے، انہیں ترک نہیں کر سکتے۔
((حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ رَدُّ السَّلَامِ وَعِیَادَةُ الْمَرِيضِ وَاتَّبَاعُ الْجَنَائِزِ وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ))
’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں ۔ سلام کا جواب دینا ، مریض کی عیادت کرنا ، جنازے کے ساتھ چلتا ، دعوت قبول کرنا اور چھینکنے والے کا جواب دینا ( کہ چھینکنے پر جب وہ الحمد للہ کہے تو اس کے جواب میں يرحمك اللہ کہنا ۔‘‘
مگر نسلی تعصب رکھنے والا شخص ، اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنے والا شخص ، اپنے قبیلے اور برادری پر تکبر کرنے والا شخص ان حقوق کی ادائیگی کو اپنی شان کے منافی سمجھتا ہے۔
آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ کوئی غریب آدمی کسی مالدار کو اور بڑے آدمی کو سلام کرے تو وہ جواب میں کہتا ہے: ہاں ٹھیک ہے، کیا بات ہے؟ اسی طرح دوسرے حقوق ہیں۔
آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی بڑا آدمی کبھی کسی غریب آدمی کے جنازے پر گیا ہو وہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں الا ما شاء اللہ ۔ اسی طرح غریب آدمی کی دعوت قبول کرنا یا اس کی چھینک کا جواب دینا اگر وہ الحمد للہ کہے تو ۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنے قبیلے برادری کی برتری کا دعوی کرنا، دلوں میں نفرت کا بیج ہونا ہے معاشرے کو تباہ و برباد کرنا ہے، ظلم و نا انصافی کی داغ بیل ڈالتا ہے۔ اور تکبر کی شکل میں بھی ہو وہ معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ تکبر کی دو صورتوں میں تو کچھ نہ کچھ اس کا باعث اور سبب بھی ہوتا ہے، مال و دولت کی وجہ سے ، عہدہ و منصب کی وجہ سے، جسمانی قدرت و طاقت کی وجہ سے یا کوئی اور ۔ مگر نسلی تکبر تو جس کو آپ حقیر اور کم تر سمجھ رہے ہیں، اس کے جد امجد بھی وہی ہیں جو آپ کے ہیں۔ آپ بھی اسی طرح پیدا ہوئے ہیں جس طرح وہ دوسرا شخص جسے آپ حقیر سمجھتے ہیں، پیدا ہوا ہے۔
تو اپنے قبیلے اور برادری پر فخر کرنا انتہائی گھٹیا قسم کا تکبر ہے۔ ہاں قبیلوں کا وجود اپنی جگہ ایک حقیقت ہے، اس کے اپنے فوائد اور ضرورتیں ہیں، ان کے وجود کی اپنی حکمتیں ہیں۔ ایک بنیادی حکمت جو قرآن پاک نے بیان فرمائی ہے، وہ ہے آپس میں تعارف اور پہچان۔
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۝﴾(الحجرات:13)
’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قو میں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ، در حقیقت اللہ تعالی کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہپر ہیز گار ہے ، یقینًا اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے ۔‘‘
قبیلوں کے وجود کی حکمتیں اور ضرور تیں ان شاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کریں گے۔
اللہ تعالی سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم نے ان تمام ضرورتوں اور فائدوں اور حکمتوں کو نظر انداز کر کے ایک بس فخر و مباہات کا ذریعہ بنا لیا ہے اور یہ چیز زمانہ جاہلیت کی عادات و اطوار میں سے ایک ہے، اور اس بناء پر انہوں نے کچھ اصول بھی مقرر کر رکھے ہیں، مثلاً
((أُنصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا))
’’اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو چاہے مظلوم ‘‘
یعنی اپنا برادری بھائی صحیح ہو یا غلط ہر حال میں اس کی مدد کرو۔
اور یہ کس قدر ظلم و نا انصافی پر مبنی اصول ہے، مگر اسلام نے آکر اس جملے کو برقرار رکھا البتہ مفہوم بدل دیا، حدیث میں ہے آپ ﷺنے فرمایا ((أَنْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا))
’’اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ‘‘
((فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا أَفَرَأَيْتَ إِذَا كَانَ ظَالِمًا كَيْفَ أَنْصُرُهُ))
’’تو ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ملایم ! اگر وہ مظلوم ہو تو مدد کروں گا لیکن اگر وہ ظالم ہو تو کیسے مدد کروں؟‘‘
((قَالَ تَحْجُزُهُ أَوْ تَمْنَعُهُ مِنَ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذٰلِكَ نَصْرُهُ)) (بخاری:6952)
’’تو آپﷺ نے فرمایا: تم اسے ظلم سے روکو اور منع کرو ، یہی اس کی مدد کرنا ہے۔‘‘
مگر ہم اپنے برادری بھائی کی جائز و نا جائز مدد کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ہدایت دے اور اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………