رمضان کا آغاز ، اخلاص نیت اور توبہ کے ساتھ

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝﴾ (البقرة:183)
رمضان المبارک کی وہ بابرکت اور با سعادت گھڑیاں کہ جن کا انتظار تھا بالآخر قریب آتی گئیں اور نیکیوں کا موسم بہار کہ جس کے لیے اہل ایمان بے تابی و بے قراری سے منتظر تھے سایت تمکن ہونے کو ہے، آج شام یا کل شام وہ مبارک لمحات ان شاء اللہ شروع ہو جائیں گے۔ تو آئیے ان قیمتی لمحات سے مستفید ہونے کے لیے ہم اپنا پروگرام ترتیب دیں، اور لائحہ عمل تیار کریں۔
ب سے پہلے ایک بار پھر ان مبارک لمحات کی قدر و قیمت اور اہمیت کو ذہنوں میں تازو کر لیں کہ گذشتہ خطبات میں جن کے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، کیونکہ جب تک ذہنی طور پر کوئی شخص کسی چیز سے مطمئن اور ولی طور پر اس کا قائل نہیں ہو جاتا عملی طور پر اس کا اس میں شریک ہونا بے معنی ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی حرکات و سکنات کہ جس میں آدمی کا دل و دماغ شریک نہ ہو، بخش اک مشینی حرکات و سکنات ہوتی ہیں، جو وہ بے دلی سے کر رہا ہوتا ہے، بغیر کسی نظریے اور سوچی اور بغیر کسی عقیدے اور ہدف کے کر رہا ہوتا ہے، اس میں نہ تو وہ لذت پاتا ہے اور نہ اجر و ثواب ۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں بہت واضح الفاظ کے ساتھ اعمال کی قبولیت کو ایمان و احتساب کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ سلام نے فرمایا:
((مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ)) (بخاري:1901)
’’جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھا، اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔‘‘
یہاں ایمان سے مراد رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا عقیدہ اور ایمان رکھنا اور احتساب کا مطلب اجر وثواب کی نیت اور امید رکھنا ہے۔
تو جو مسلمان رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے کا عقیدہ و ایمان رکھتے ہوئے اور اجر و ثواب کی طلب اور امید رکھتے ہوئے روزے رکھے گا اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
اس لیے رمضان المبارک کی برکات سے مستفید ہونے کے لیے اس احساس وشعور کو، اس عقیدے اور ایمان کو ذہن میں متحضر کرنا اور پھر اس پر اللہ تعالی سے اجر و ثواب پانے کی نیت اور امید رکھنا شرط لازم ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ صرف روزے ہی نہیں بلکہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، مگر یہاں روزوں کے اجر وثواب کا ذکر کرتے ہوئے بالخصوص نیت کا ذکر کیا گیا ہے، کہ اللہ تعالی سے اجر و ثواب پانے کی نیت بھی ہو، شاید اس لیے کہ یہ ایک بہت بڑا اجر ہے اور ایسا نہ ہو کہ لوگ لاعلمی کی وجہ سے اس سے محروم رہ جائیں۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ کوئی نیک عمل کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کی کوئی نیت نہیں ہوتی ، بس یونہی ماحول سے متاثر ہو کر، یا شرم و حیاء کی وجہ سے وہ دن بھر کچھ کھاتے پیتے نہیں اور پھر سوچتے ہیں کہ جب کچھ کھانا پینا ہی نہیں تو چلو روزے ہی رکھ لیتے ہیں۔ تو ایسے روزے جو بغیر ثواب کی نیت کے رکھے گئے ہوں ان کی کوئی حیثیت نہیں، لہٰذا نیت ہونا ضروری ہے اور رمضان المبارک کے فرض روزوں کی نیت کے ساتھ تو اک خصوصی معاملہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی نیت فجر سے پہلے ہونا ضروری ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((مَن لَّمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ)) (ابو داود:2454)
’’جس نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ۔‘‘
اور نیت کے زبان سے ادا کرنے کے لیے کوئی الفاظ نہیں، نیت دل میں ہوتی ہے، البتہ کچھ لوگوں نے اپنی طرف سے نیت کرنے کے عربی زبان میں الفاظ گھر لیے ہیں۔ یہ دین میں اضافہ ہے اس سے ضرور بچنا چاہیے۔
تو رمضان المبارک کے فرض روزوں کی نیت یعنی پختہ ارادہ فجر سے پہلے ہونا ضروری ہے، مگر نفلی روزوں کے لیے ضروری نہیں نفلی روزے کے لیے فجر کے بعد بھی زوال سے پہلے پہلے کسی بھی وقت روزے کی نیت کر سکتے ہیں بشرطیکہ فجر کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
((دَخَلَ عَلَىَّ النَّبِيُّ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ فَقُلْنَا لَا قَالَ فَإِنِّي إِذَا صَائِمٌ)) (مسلم: 1154)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بار آپ ﷺ جب گھر تشریف لائے تو پوچھا کہ تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ ہم نے کہا نہیں، تو فرمایا: اچھا تو پھر میرا روزہ ہی ہے۔
تو رمضان المبارک کے روزوں سے مستفید ہونے کے لیے سب سے پہلی اور لازمی چیز رمضان کے روزے فرض ہونے کا ایمان اور ثواب کی نیت ہے۔
اس حدیث میں روزوں کا جو اجر و ثواب بتایا گیا ہے اس کی وضاحت معلوم کرتے چلیں، آپﷺ کے فرمان:
((مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ)) (بخاري:1901)
’’جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔‘‘
اس میں گذشتہ تمام گناہوں کی معافی کا مفہوم کیا ہے؟ کیا صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں یا کبیر ہ بھی معاف ہو جاتے ہیں؟
گذشتہ تمام گناہوں کی معافی یقینًا ایک بہت بڑا اجر اور انعام ہے، مگر جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ صغیرہ معاف ہوتے ہیں یا کبیرہ، تو اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ صرف صغیرہ گناہ ہی معاف ہوتے ہیں، کبیرہ گناہ صرف تو بہ سے ہی معاف ہوتے ہیں ، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ ﴾ (النساء:31)
’’اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پر ہیز کرتے رہے جن سے تمھیں منع کیا گیا ہے تو تمہارے چھوٹے گناہ ہم دور کر دیں گے۔‘‘
اور حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ)) (مسلم:233)
’’پانچ نمازیں، جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک، رمضان سے لے کر دوسرے رمضان تک ، اپنے اپنے درمیانی وقفوں کے لیے کفارہ ہوتے ہیں، بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کرتا ہو۔‘‘
تو رمضان المبارک کے روزے رکھنے سے گذشتہ تمام صغیر و گناہ معاف ہو جاتے ہیں، البتہ کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے تو یہ کرنا ضروری ہے۔
رہی بات کہ کبیرہ گناہ کیا ہیں جن کی معافی کے لیے تو بہ کرنا ضروری ہے؟ تو یوں تو کبیرہ گناہوں کی کوئی باقاعدہ فہرست نہیں دی گئی ، البتہ بعض احادیث میں چند گناہوں کا نام لے کر انہیں کبیرہ بتلایا گیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((أَلا أَنبِئُكُمْ بِأكْبَرِ الْكَبَائِرِ – ثَلَاثًا -))
’’آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا: کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ نہ بتا دوں؟ آپ ﷺنے یہ بات تین بار فرمائی ۔‘‘
((قُلْنَا بَلٰى يَا رَسُولَ اللهِ))
’’ہم نے عرض کیا، ضرور اللہ کے رسول ﷺ!‘‘
((قَالَ اَلْإِشْرَاكَ بِاللهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ))
’’ تو آپ سلام نے فرمایا اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کے کرنا۔‘‘
((وَكَانَ مُتَّكِنًا فَجَلَسَ فَقَالَ أَلَا وَ قَولُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّور، أَلَا وَقُولُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ))
’’آپ ﷺلگائے ہوئے تھے، اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا اور خبردار ہو جاؤ! جھوٹی گواہی اور جھوٹ بولنا بھی جھوٹی گواہی اور جھوٹ بولنا بھی ۔‘‘
((فَمَا زَالَ يَقُولُهَا حَتّٰى قُلْتُ لَا يَسْكُتُ)) (بخاري:5986)
’’آپ ﷺیہ بات بار بار دہراتے جا رہے تھے حتی کہ میں نے دل میں کہا لگتا ہے کہ آپ خاموشی اختیار نہیں فرمائیں گے۔‘‘
اور ایک حدیث میں سات تباہ کن گناہوں کا ذکر فرمایا کہ جن سے مراد کبیرہ گناہ ہیں،آپ ﷺنے فرمایا:
((اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ))
’’سات تباہ کن گناہوں سے بچو!‘‘
(قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا هُنَّ ؟))
’’صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول سیم اور وہ کون کون سے ہیں؟‘‘
((قَالَ الشِّرْكُ باللهِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَكُلُ مَالِ الْيَتِيمِ وَأَكُلُ الرِّبَا وَالتَّوَلِّى يَوْمَ الزَّحْفِ وَقَدْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ)) (مسلم:89)
’’فرمایا: اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، جادو کرنا ، جس جان کو اللہ تعالی نے حرام ٹھہرایا ہے اسے ناحق قتل کرنا، یتیم کا مال کھاتا، سود کھانا، جنگ سے فرار ہونا۔پاک دامن ، سیدھی سادھی مؤمن خواتین پر بدکاری کا الزام لگانا۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ:
((أَنَّ رَجُلاً قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ مَا الْكَبَائِرُ))
’’ایک شخص نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول ﷺکبائر کیا ہیں ؟‘‘
((قَالَ: هُنَّ سَبْعٌ ، أَعْظَمُهُنَّ ، إِشْرَاكٌ بِاللهِ))
’’فرمایا: وہ سات ہیں ، ان میں سے سب سے بڑا گناہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے ۔‘‘ (صحیح النسائي:4012) تو رمضان المبارک کی برکتوں سے صحیح معنوں میں مستفید ہونے کے لیے سب سے پہلے رمضان کے روزوں کی فرضیت کا عقیدہ رکھتے ہوئے خالص نیت کرنا اور پھر تمام صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بچی تو یہ کرنا اور پھر دیگر اعمال صالحہ بجالاتا ہے۔
رمضان المبارک صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بخشش حاصل کرنے کا اک سنہری موقع ہے، آپ خود ہی غور کریں کہ کیسا عجیب لگے گا اگر کوئی شخص مہینہ بھر بھوک اور پیاس برداشت کرے، فرائض کی پابندی کرے اور نوافل، صدقات و خیرات اور تلاوت قرآن پاک اور دیگر نیک اعمال کا اہتمام کرے، صرف صغیر و گناہ بخشوانے کے لیے اور کبیرہ کو ایسے ہی چھوڑ دے، ان سے تو بہ واستغفار نہ کرے۔ تعجب ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان اتنا دلیر اور جراتمند ہو جائے کہ کبیرہ گناہوں پر اصرار کرے اور ڈٹا رہے، ان کی تمام تر سنگینی اور شدت کے باوجود! مثلاً سود ہی کو لیجیے کہ جس پر اس قدر شدید وعید ہے کہ اس کے مرتکب کے خلاف:
٭ اللہ اور اس کے رسول مہم کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ۚ ﴾(البقره:278، 279)
’’اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر واقعی تم ایمان لائے ہو، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف سے تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے۔‘‘
٭ اور اس پر اللہ کی لعنت ہے، جیسا کہ آپ ملﷺ نے فرمایا:
((لَعَنَ رَسُولُ اللهِ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ)) (مسلم:1598)
’’آپ ﷺنے اللہ تعالی کی لعنت بھیجی سود کھانے والے پر کھلانے والے پر اس کے لکھنے والے پر اور اس کے دونوں گواہوں پر اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں۔‘‘
٭… اور اس کا سب سے ہلکا گناہ ، اپنی والدہ سے بدکاری کرنے کے گناہ کی شدت کے برابر قرار دیا ، فرمایا:
((الرِّبَا ثَلَاثَةٌ وَسَبْعُونَ باباً ، وَ أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ اُمَّهُ)) (صحيح الجامع:3539)
’’سود تہتر قسم کا ہے اور سب سے معمولی قسم کے سود کا گناہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنی والدہ سے زنا کرے ۔‘‘
اسی طرح سودی معاملہ کرنے والے کے لیے، مزید کئی وعیدیں ہیں ممکن ہے یہ باتیں سن کر کچھ لوگ خفا ہو جائیں، مگر یہ باتیں میری تو نہیں ہیں ، یہ فرامین تو ان کے ہیں جن پر آپ ایمان لانے کا دعوی کرتے ہیں، میں تو صرف بیان کرنے والا ہوں اور میں اگر بیان نہ بھی کروں تو یہ سنگینی تو اپنی جگہ برقرار رہے گی۔
تعجب ہے کہ سود کے گھر میں رہ کر ہم سکون اور اطمینان اور خوشی محسوس کریں اور ہمیں اپنے چاروں طرف بھڑکتی ہوئی آگ نظر نہ آئے، یہ ایمان کے دیوالیہ پن کی علامت ہے۔
ہم کیسے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم کبیرہ گناہوں پر مصر ہیں، ٹس سے مس نہ ہوں اور اللہ تعالی ہم سے راضی بھی ہو!
امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((خَالَفَ مُوسَى الْخَضِرَ فِي طَرِيقِ الصُّحْبَةِ ثَلَاثَ مَرَاتً، فَقَالَ لَهُ هٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَ بَيْنَكَ))
’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے رفاقت سفر میں تین بار اختلاف کیا تو خضر علیہ السلام نے ان سے کہہ دیا۔﴿هٰذَا فَرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ﴾ ( الكهف:78)
’’بس اب میرا اور تیرا ساتھ ختم ہوا۔‘‘
((وَأَنتَ تُخَالِفُ اللهَ فِي اليَومِ مَرَاتٍ))
’’اور تو دن میں کئی بار اللہ تعالی کے حکم کی مخالفت کرتا ہے ۔‘‘
((أَلَا تَخْشَى أَنْ يَقُولَ لَكَ هٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ)) (المدهش لابن الجوزي ، ص:490)
’’تو ڈرتا نہیں کہ وہ تجھ سے کہہ دے کہ بس اب میرے اور تیرے درمیان علیحدگی ہے۔‘‘
صغیرہ گناہوں پر مصر رہنا بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ہوتا ہے چہ جائیکہ کوئی کبیرہ گناہوں پر اڑا رہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا ڈر اور خوف بھی نہ ہو۔
گناہوں پر اصرار کے جو نقصانات ہو سکتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی عبادت کی لذت سے محروم ہو جاتا ہے جیسا کہ امام وھیب ابن الورد رحمہ اللہ سے جب پوچھا گیا کہ:
(أ يجد طعم العبادة من يعصي الله)
’’جو آدمی گناہ کرتا ہے کیا وہ عبادت کی لذت پاتا ہے؟‘‘
(قَالَ: لاَ وَلَا مَنْ هَمَّ بِمَعْصِيَة)) (حلية الأولياء وطبقات الاصفياء ، ج: 8، ص:144)
’’تو فرمایا: نہیں ! جو صرف معصیت کا ارادہ بھی کرتا ہے، عبادت کی لذت نہیں پاسکتا۔‘‘
اور یہ سزا ہمیں شاید بہت ہلکی محسوس ہوتی ہو بلکہ سرے سے اس کا احساس ہی نہ ہو مگر حقیقت میں یہ ایک بڑی سزا ہے لیکن کیا کیا جائے بہت سے لوگ اس سے بھی بڑی سزاؤں کا اور اک نہیں رکھتے۔ مثلاً اللہ تعالی نے بعض گناہوں پر لعنت کی وعید سنائی ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے گناہوں کے مرتکب ہیں کہ جن پر لعنت کی گئی ہے، مگر انہیں کبھی اس کا شاید احساس بھی نہ ہوا ہو۔
لعنت کا سیدھا سا مفہوم تو یہ ہے کہ خیر اور بھلائی سے دور ہونا ، اور بعض سلف صالحین نے اس کا مفہوم یوں بیان کیا کہ:
((ليست اللعنة بسوادِ الْوَجْهِ، وَلَا بِنَقْصِ الْمَالِ))
’’لعنت کوئی روسیاہی اور مالی نقصان کا نام نہیں۔‘‘
وَلٰكِنْ إِنَّمَا اللَّعْنَةُ أَنْ لَا تَخْرُجَ مِنْ ذَنْبٍ إِلَّا وَقَعْتَ فِي ذَنْبٍ))
(المجالسة وجواهر العلم ، ج 3، ص:136)
’’بلکہ لعنت یہ ہے کہ تو ایک گناہ سے نکلے تو ایک دوسرے گناہ میں پھنس جائے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اگر چہ یہ باتیں ہمیں کڑوی لگتی ہیں، طبیعت پر ناگوار گزرتی ہیں مگر ان سے اعراض اور چشم پوشی اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔
میٹھی میٹھی باتیں کرنے والے، لوگوں کو خوش فہمیوں میں جتلا کرنے والے اور عوام کو فتنوں اور فسادات میں جھونکنے والے اس دور میں بہت نظر آئیں گے۔ مگر بیماری کی تشخیص کر کے صحیح دوا تجویز کرنے والے، امت مسلمہ کے زوال اور انحطاط کے اسباب بتانے والے بہت کم نظر آئیں گے ہمیں اگر اپنی اصلاح کی فکر ہو تو یہ کڑوی باتیں ہمیں لگانا ہوں گی اور اپنے رویوں اور طرز عمل میں تبدیلی لانا ہوگی۔
یہ دنیا بہت بڑا دھوکہ ہے، قرآن وحدیث میں اس سے بہت زیادہ خبردار کیا گیا ہے۔ سمجھانے کے لیے متعدد مثالیں اور تشبیبات دی گئی ہیں، مگر لگتا ہے کہ کوئی سننا چاہتا ہی نہیں اور سن لے تو عمل نہیں کرنا چاہتا۔
دنیا کی حقیقت اور مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ ؕ﴾ (الحديد:20)
’’جان لو! کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا، زینت اور آپس میں فخر و غرور اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتا ہے۔‘‘
﴿كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًا ؕ﴾ (الحديد:20)
’’جیسے بارش اور اس کی پیدوار انسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن جب وہ خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ دینے لگتی ہے پھر وہ بالکل چورا چورا ہو جاتی ہے۔‘‘
﴿وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ۙ وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌ ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝۲۰﴾( الحديد:20)
’’اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ تعالی کی مغفرت اور رضامندی ہے، اور دنیا کی زندگی سوائے دھو کے کے اسباب کے اور کچھ بھی نہیں ۔‘‘
دنیا کی زندگی کو سرعت زوال میں کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح کھیتی جب شاداب ہوتی ہے تو بڑی اچھی لگتی ہے۔ کاشتکار اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ لیکن وہ بہت جلد خشک اور زرد ہو کر چور و چورہ ہو جاتی ہے۔
اور حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ))
’’ یقینًا یہ دنیا بہت میٹھی اور سرسبز و شاداب ہے۔‘‘
((وَإِنَّ اللهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَيَنظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ))
’’اور یقینًا اللہ تعالی تمہیں اس دنیا میں اقتدار بخشنے والا ہے اور دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟‘‘
لہٰذا دنیا کی کشش، اس کے فتنوں اور آزمائشوں کو سمجھیں اور ان سے بچیں۔ رمضان المبارک کو موقع غنیمت جانتے ہوئے اس سے استفادے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور خالص توبہ کے ساتھ رمضان المبارک میں داخل ہوں۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………….