رمضان کی برکات، ضائع نہ ہونے پائیں

﴿ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ۝۳۲﴾ (فاطر:32)
اللہ تعالی کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک کی برکتوں اور سعادتوں سے مستفید ہونے کا موقع عطا فرمایا، اللہ تعالی کا یہ احسان خاص امت محمد یہ ان پر ہے، یہ سعادت کسی اور قوم کو حاصل نہیں ہے۔ اگر چہ آپ کا قیام کی امت میں ایک لحاظ سے تمام لوگ ہی شامل ہیں جس میں یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ مت اور دیگر تمام اقوام و ملل ہیں، کیونکہ امت دو قسم کی ہے۔ ایک امت دعوت کہ جس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جن کی طرف آپﷺ کو مبعوث فرمایا گیا، اس میں بلاشک تمام لوگ اور تمام اقوام عالم شامل ہیں۔
دوسری امت، امتِ اجابت ہے، جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو آپ ﷺپر ایمان لائے اور آپ کی دعوت اسلام کو قبول کیا۔
تو اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی انعام و احسان صرف امت اجابت پر ہے، مسلمانوں پر ہے۔ امت اجابت کو یعنی امت مسلمہ کو دیگر تمام امتوں پر بہت سی خصوصیات حاصل ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تھوڑے عمل پر بہت زیادہ اجر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اپنی صحیح بخاری میں نقل کیا ہے.
آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَا سَلَفَ قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ))
’’دنیا میں تمہاری موجود گی تم سے گذشتہ قوموں کے لحاظ سے ایسے ہے جیسے نماز عصر سے نماز مغرب تک کا درمیانی عرصہ‘‘ ((أُوتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ فَعَمِلُوا حَتّٰى إِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطَا))
’’اہل تو رات کو تو رات دی گئی ، انہوں نے اس کے مطابق نصف النہار تک کام کیا، پھر عاجز آگئے۔ پس انہیں ایک ایک قیراط معاوضہ دیا گیا۔‘‘
((ثُمَّ أُوتِي أَهْلُ الإنْجِيْلِ الإنجِيلَ فَعَمِلُوا إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ ثُمَّ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا))
’’ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گی ، انہوں نے اس کے مطابق عصر کی نماز تک کام کیا اور پھر عاجز آگے، انہیں ایک ایک قیراط دیا گیا۔‘‘
اور قیراط کسی چیز کا چوبیسواں حصہ ہوتا ہے، یا درہم کا چھٹا حصہ۔
((ثُمَّ أُوتِينَا الْقُرْآنَ فَعَمِلْنَا إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ فَأُعْطِينَا قِيْرَاطَيْنِ قِيْرَاطَيْنِ))
’’پھر ہمیں قرآن دیا گیا ہم نے اس کے مطابق غروب آفتاب تک کام کیا پس ہمیں دو دو قیراط دیئے گئے ۔‘‘
((فَقَالَ أَهْلُ الْكِتَابَينِ))
’’تو اس پر ان دونوں کتاب والوں نے کہا‘‘
((أَي رَبَّنَا أَعْطَيْتَ هُوَ لاءِ قِيْرَاطَيْنِ قِيْرَاطَيْنِ، وَأَعْطَيْتَنَا قِيْرَاطًاقِيْرَاطًا، وَنَحْنُ كُنَّا أَكْثَرَ عَمَلًا))
’’اے ہمارے رب! ان لوگوں کو ( یعنی مسلمانوں کو ) تو نے دو دو قیراط دیے ہیں اور ہمیں ایک ایک قیراط دیا ہے جب کہ کام ہمارا زیادہ تھا۔‘‘
(( قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ أَجْرِكُمْ مِنْ شَيْءٍ))
’’اور اللہ تعالی نے فرمایا: کیا میں نے تمہارے اجر میں سے تمہیں کچھ کم دیا ہے ؟‘‘
((قَالُوا: لَا))
’’انہوں نے کہا :نہیں۔‘‘
((قَالَ فَهُوَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ)) (بخاري:557)
’’فرمایا تو پھر وہ میر افضل ہے میں جسے چاہوں عطا کروں ۔‘‘
اس حدیث کی تشریح کے لیے کم از کم ایک خطبے کا وقت درکار ہے، جو کہ ان شاء اللہ مستقل طور پر کسی خطبے میں بیان کی جائے گی۔ یہاں اس حدیث سے صرف یہ بتانا مقصود تھا که امت مسلمہ کو دوسری امتوں پر بہت سی فضیلتیں اور خصوصیتیں حاصل ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔
چنانچہ بہت سے آسان آسان کاموں پر بہت زیادہ اجر دیا جاتا ہے اور بہت ساری مشقتوں سے نجات دی گئی ہے جو گذشتہ قوموں پر ڈالی گئی تھیں۔
تو امت مسلمہ کو دوسری امتوں پر جو خصوصیتیں حاصل ہیں جن میں سے ایک کہ جس کا خصوصی طور پر آج کے خطبے میں ذکر کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ امت مسلمہ پوری نوع انسانی میں سے منتخب، چُنی ہوئی اور چھانٹ کر نکالی گئی امت ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ۝۳۲﴾ (فاطر:32)
’’پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا۔‘‘
﴿ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ﴾(فاطر:32)
’’اب کوئی تو ان سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے۔‘‘
﴿ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ﴾(فاطر:32)
’’اور کوئی متوسط درجے کا ہے۔‘‘
﴿ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ﴾ (فاطر:32)
’’اور کوئی اللہ کے اذن اور اس کی توفیق سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے ۔‘‘
یعنی قرآن پاک کی وراثت کے لیے اللہ تعالی نے جن لوگوں کو پوری نوع انسانی میں سے چن رکھا ہے، وہ تین طبقوں میں تقسیم ہیں، یعنی اس کتاب کے ساتھ تعلق کے حوالے سے اور اس کی وراثت کا حق ادا کرنے کے لحاظ سے ان کی تین قسمیں ہیں۔ ان میں سے ایک طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو اپنی جانوں پر ظلم کرنے والا ہے۔ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے لوگوں سے مراد ایسے لوگ ہیں، جو یوں تو مسلمان ہیں، اللہ کی کتاب کو دل سے مانتے ہیں، مگر عملاً کوتاہیوں کا شکار ہیں، وہ فرائض و واجبات کو ترک کرتے ہوئے اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو درمیانی راہ اختیار کیے ہوئے ہیں، یعنی بہت زیادہ نیک و پارسا اور متقی بھی نہیں ہیں، مگر کم از کم فرائض و واجبات کی ادائیگی ضرور کرتے ہیں اور حرام کاموں سے بھی بچتے ہیں، البتہ وہ مستحبات کو ترک کرتے رہتے ہیں اور خطائیں بھی ان سے سرزد ہوتی رہتی ہیں، یعنی ان کے ملے جلے عمل ہوتے ہیں۔
تیسر اطبقہ:
﴿ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ (فاطر:32)
’’اللہ کے حکم سے نیکیوں میں سب سے سبقت لے جانے والے ہیں۔‘‘
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو فرائض و واجبات بھی ادا کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مستحبات و نوافل کا بھی اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح وہ حرام سے بھی بچتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مکروہ کاموں سے بھی اجتناب کرتے ہیں، حتی کہ بعض جائز اور مباح کاموں سے بھی احتراز کرتے ہیں۔
اب ہم اس آیت کریمہ کی روشنی میں اگر اپنا اپنا مقام اور اپنا اپنا طبقہ معلوم کرنا چاہیں کہ ہمارا شمار کسی طبقے میں ہوتا ہے تو مشکل نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ہر شخص اپنے بارے میں خوب جانتا ہے۔
اور اگر آخرت کی تھوڑی سی بھی فکر ہو تو ہم میں سے ہر ایک کو اپنا درجہ، اپنا طبقہ اور اپنی حیثیت ضرور جاننے کی کوشش کرنی چاہیے، مگر اس کوشش سے پہلے یہ ضرور معلوم کرتے جائیے گا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نزدیک اس آیت کریمہ کا کیا مفہوم ہے تا کہ ہم انجانے میں کسی غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار نہ ہو جا ئیں ۔
حضرت عقبہ بن صهبان الهنائي رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ:
((سَأَلْتُ عَائِشَةَ مَا عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿ ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ﴾
’’میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے آیت: ﴿ ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ﴾ کے بارے میں دریافت کیا۔‘‘
((فَقَالَتْ))
’’تو فرمایا:‘‘
((يَا بُنَيَّ هٰؤُلَاءِ فِي الْجَنَّةِ))
’’بیٹا! یہ سارے انجام کار جنت میں جائیں گے ۔‘‘
((أَمَّا السَّابِقُ بِالْخَيْرَاتِ))
’’البتہ جو نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔‘‘
((فَمَنْ مَضٰى عَلٰى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ))
’’تو یہ وہ لوگ ہیں جو نبی کریم سلام کے دور میں گزر چکے ہیں ۔‘‘
((شَهِدَ لَهُ رَسُولُ اللهِﷺ بِالحَيَاةِ وَالرِّزْقِ))
’’جن کی زندگی اور رزق کی آپ ﷺنے گواہی دی ہے۔‘‘
یعنی شہداء ہیں اور آپ ﷺنے جنہیں جنت کی بشارت دی ہے۔
((وَأَمَّا الْمُقْتَصِدُ))
’’اور جو درمیانے اور متوسط درجے کے ہیں۔‘‘
((فَمَنِ اتَّبَعَ اثَرَهُ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتّٰى لَحِقَ بِهِ))
’’تو وہ وہ ہیں آپ کے صحابہ میں سے جو آپ کے نقش قدم پر چلے حتی کہ اس پر ان کا اختتام ہوا۔
((وَأَما الظَّالِمُ لِنَفْسِهِ فَمِثْلِي وَمِثْلُكُمْ)) (تفسیر ابن کثیر (ابو داود، طيالسي))
’’اور جو اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں، وہ میرے اور تمہارے جیسے ہیں۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے آپ کو اپنی جانوں پر ظلم کرنے والوں میں شمار کرتی ہیں، تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ پھر ہماری حیثیت کیا ہوگی ۔ یقینًا یہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی کسر نفسی ہے، مگر ہماری تو یہ کیفیت نہیں ، ہماری لغزشیں اور خطائیں، ہماری کوتاہیاں اور غفلتیں اور ہماری کر تو تھیں ہمارے طبقے کے تعین کا ببانگ دہل اعلان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ رمضان المبارک میں ٹوٹی پھوٹی عبادت کر کے کہیں ہم اترانے تو نہیں لگ گئے ؟ کہیں ہم غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار تو نہیں ہو گئے ، کہیں ہم یہ تو نہیں سمجھ بیٹھے کہ اب معاملہ قیامت کے دن یقینًا خیر کا ہی ہوگا کہ ہم نے بہت سی نیکیاں جمع کر لی ہیں۔
یہ انداز فکر، تباہی و بربادی کی نوید لاتا ہے، یہ شیطان کی چالوں میں سے اک نہایت ہی خطر ناک چال ہے۔
چنانچہ قرآن پاک نے اس سے منع کر رکھا ہے کہ:
﴿فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ ؕ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی۠۝۳﴾ (النجم: 32)
’’اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو وہ خوب جانتا ہے کہ حقیقت میں متقی کون ہے۔‘‘
ہاں اللہ تعالی کی رحمت کی امید ضرور رکھنی چاہیے کہ اس کی رحمت کی امید رکھنا ایمان کا اک لازمی جزو ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ یہ آیت کریمہ کہ جس میں مسلمانوں کے تین طبقوں کی تقسیم بتلائی گئی ہے، ہمیں اللہ تعالی کی رحمت کی امید بھی دلاتی ہے اور خوشخبری بھی سناتی ہے۔
علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ امت مسلمہ کے یہ تینوں طبقے کتاب اللہ کی وراثت کے لیے منتخب کیے گئے بندوں میں بھی شامل ہیں اور جنت میں بھی جائیں گے البتہ ان میں ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ مقصد اور سابق با خیرات تو ان شاء اللہ سید ھے جنت میں جائیں گے، یعنی بغیر حساب کتاب کے ، اور بعض بغیر عذاب و عقاب کے اور بعض آسان حساب کے ساتھ اور اخیر عذاب و عقاب کے۔ مگر جو ظالم نہ ہیں، جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہوگا، وہ پاک و صاف ہوئے کے بعد جنت میں جاسکیں گے، وہ آپ سٹیڈیم کی شفاعت کے بعد یا اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جائیں گے۔
اور اصل کا میابی آپ کو معلوم ہے کہ قرآن پاک نے یہ بتلائی ہے کہ:
﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ؕ ﴾ (آل عمران:185)
’’پس جو جہنم سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہ کامیاب ہو گیا ۔‘‘
اس لیے اس بات کو نظر انداز کرنا یقینًا یقینًا نادانی ہے۔ آخر میں ہم سب کے لیے بالعموم اور اُن لوگوں کے لیے بالخصوص کہ جو نماز نہیں پڑھتے المحہ فکریہ کے طور پر ایک حدیث پیش کرتا ہوں۔
حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
((أَنَّ رَسُولَ اللهِﷺ أَتَى الْمَقْبَرَةَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لاحِقُونَ))
’آپ ﷺقبرستان تشریف لائے تو فرمایا: سلام ہو تم پر مسلمانوں کے گھر کے رہائشیوں پر، اور ہم بھی اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں ۔‘‘
((وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَيْنَا إِخْوَانَنَا))
’’میری خواہش ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو دیکھا ہوتا ۔‘‘
((قَالُوا أَوَلَسْنَا إِخْوَانَكَ يَا رَسُولَ اللهِﷺ))
’’صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا: ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں اے اللہ کے رسول۔‘‘
((قَالَ أَنتُمْ أَصْحَابِي))
’’فرمایا: تم میرے اصحاب ہو۔‘‘
((وَإِخْوَانُنَا الَّذِينَ لَمْ يَأْتُوا بَعْدُ))
’’اور ہمارے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی دنیا میں نہیں آئے ۔‘‘
((فَقَالُوا كَيْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَّمْ يَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِكَ يَا رَسُولَ الله))
’’صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو کیسے پہچانیں گے جو ابھی تک آئے ہی نہیں ۔‘‘
((فَقَالَ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَهُ خَيْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَةٌ بَيْنَ ظَهرَي خَيْلٍ دهْمٍ بُهْمٍ أَلا يَعْرِفُ خَيْله))
’’تو فرمایا: بھلا کوئی ایسا شخص کہ جس کے پاس سیاہ مشکی گھوڑوں میں سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والے گھوڑے ہوں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو نہیں پہچانے گا ؟‘‘
((قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ))
’’عرض کیا، جی ہاں! کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ‘‘
((قَالَ فَإِنَّهُمْ يَأْتُونَ غُرَّا مُحَّجَّلِينَ مِنَ الْوُضُوءِ))
’’فرمایا تو وہ لوگ سفید منہ اور سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے وضوء کے سبب‘‘
((وَأَنَا فَرَطْهُمْ عَلَى الْحَوْضِ))
’’اور میں ان کے آنے سے پہلے حوض کوثر پر ان کا منتظر ہوں گا۔‘‘
((أَلَا لَيُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِي كَمَا يُذَادُ الْبَعِيرُ الضَّالُ))
’’خبردار رہو کہ بعض لوگ میرے حوض پر سے ہٹا دیے جائیں گے جیسے بھٹکا ہوا اونٹ ہنکایا جاتا ہے ۔‘‘
((أُنَادِيهِمْ أَلَا هَلْمَّ))
’’میں انھیں پکاروں گا کہ آؤ !‘‘
((فَيُقَالُ إِنَّهُمْ قَدْ بَدَّلُوا بَعْدَكَ))
’’تو کیا جائے گا: انھوں نے آپﷺ کے بعد بدل دیا تھا ۔‘‘
((فَأَقُولُ سُحْقًا سُحْقًا)) (مسلم:249)
’’تو میں کہوں گا: دور ہو، دور ہو۔‘‘
لمحۂ فکر یہ یہ ہے کہ کیا ہم نے دین میں کوئی بدعتیں تو نہیں ایجاد کر رکھیں! اور دوسری بات کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے پوچھا کہ آپ ﷺان لوگوں کو کیسے پہنچا ئیں گے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ وضوء سے ان کے اعضائے وضو چمک رہے ہوں گے۔ کیا ہم وضوء کرتے ہیں، یعنی کیا ہم نما ز پڑھتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کیا ہوگا۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ:
((هَذِهِ صِفَةُ الْمُصَلِّينَ فَبِم يُعرَفُ غَيْرُهُمْ مِنَ الْمُكَلِّفِينَ التَّارِكِينَ وَالصِّبْيَانِ))
’’یہ تو نمازیوں کی علامت ہے (کہ وہ وضوء کی وجہ سے پہچانے جائیں گے ) تو ان کے علاوہ دوسرے لوگ: مکلفین میں سے بے نماز یا بچے کیسے پہچانے جائیں گے ؟‘‘
((أَمَّا الْأَطْفَالُ فَهُمْ تَبَعٌ لِلرِّجَالِ‘‘
’’تو فرمایا: بچے تو مردوں کے تابع ہوں گے یعنی ان کی پہچان کے ساتھ پہنچانے جائیں گے ۔‘‘
وَأَمَّا مَنْ لَمْ يَتَوَضَّأُ قَط وَلَمْ يُصَلِّ فَإِنَّهُ دَلِيلٌ عَلٰى أَنَّهُ لَا يُعْرَفُ يَوْمَ القِيَامَة)) (مجموع الفتاوى ، ج:21، ص:171)
’’اور جس نے کبھی وضوہ نہیں کیا، کبھی نماز نہیں پڑھی ، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قیامت کے روز پہچانا نہیں جائے گا ۔‘‘
رمضان المبارک میں حاصل ہونے والی تربیت کے نتیجے میں اگر ہم نے نمازوں کی پابندی ہی سیکھ لی ہو تو یہ بھی ایک بہت بڑی سعادت و خوش بختی کی بات ہوگی اور رمضان المبارک سے استفادے کے حوالے سے ہماری سنجیدگی کی علامت ہوگی ، اگر چہ رمضان المبارک کے روزوں کے نتیجے میں ہم سے مطلوب تقوی کا حصول ہے، اللہ تعالی اپنے فضل خاص سے ہمارا وہ مطلوب ہمارے لیے آسان بنا دے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………..