حق کی تعیین بذریعہ خواہش نفس یا دین متین؟

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۝۴۱(الروم:41)
اللہ تعالی کے انسان پر بے شمار اور لاتعداد انعامات واحسانات میں سے ایک بہت بڑا احسان یہ بھی ہے کہ اس نے انسان کو دنیا میں بھیجنے کے بعد یونہی ہے توجہ اور بے یارو مددگار نہیں چھوڑا، نظر انداز نہیں کیا، بلکہ اس کی ہدایت ورہنمائی کے مکمل انتظامات فرمائے۔ ان انتظامات میں سے ایک تو یہ ہے کہ اسے عقل سے نوازا، صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی فطری صلاحیت عطا فرمائی، انبیاء و رسل علیہم السلام کو وحی الہی دے کر قولی اور عملی تشریح کے لیے مبعوث فرمایا اور مسلمانوں کے لیے خصوصی طور پر خطبہ جمعہ کی صورت میں نصیحت و موعظت کا اہتمام فرمایا اور آخر میں ہر مسلمان پر یہ لازم قرار دیا کہ وہ دن اور رات میں کم از کم سترہ بار اللہ تعالی سے ہدایت کی دعاء مانگیں۔
ہدایت و رہنمائی کی انسان کو ہر وقت ضرورت رہتی ہے، کیونکہ زندگی میں انسان کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ان میں سے بہت سے ایسے مختلف فیہ مسائل ہوتے ہیں کہ جن میں ہر فریق اپنے آپ کو حق پر سمجھ رہا ہوتا ہے۔
ایسے میں یہ جانتا کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر ، اس کا فیصلہ یقینًا بہت مشکل ہوتا ہے، اگر چہ عدالت بھی کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ دے دے پھر بھی ضروری نہیں ہوتا کہ وہی فریق حق پر ہو، کیونکہ فیصلہ ظاہری دلائل پر ہوتا ہے اور اس میں کسی کی چرب زبانی بھی کام دکھا سکتی ہے کوئی شخص یا اس کا وکیل اپنا مدعا اور اپنا موقف بہترین طریقے سے، پرکشش الفاظ میں اور Convincing انداز میں پیش کر سکتا ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہی حق پر ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ ، وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ اَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ))
’’میں انسان ہوں اور تم اپنے جھگڑوں کے فیصلوں کے لیے میرے پاس آتے ہو اور کبھی تم میں سے کسی کو اپنا مدعا پیش کرنے کے لیے دوسرے فریق کی نسبت قوت بیانی حاصل ہوتی ہے یعنی اپنا موقف اور مدعا دوسرے شخص سے زیادہ بہتر انداز میں بیان کر سکتا ہے۔‘‘
((وَ أَقْضِي لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ))
’’اور میں جو کچھ سنتا ہوں اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں ۔‘‘
((فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قطْعَةً مِنَ النَّارِ)) ( بخاري:6968)
’’پس میں اگر کسی کے لیے اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کردوں تو وہ اسے ہرگز نہ لے، کیونکہ در حقیقت میں اس کو آگ کا ٹکڑا کاٹ کے دے رہا ہوں گا۔‘‘
آپ ﷺ چاہتے تو آپ کو اللہ کی طرف سے سے جو کسی کے حق پر ہونے کا علم ہوتا تو اس کے مطابق فیصلہ فرماتے مگر آپﷺ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آپﷺ کے دور مبارک میں تو یہ ممکن تھا، مگر بعد کے ادوار میں کیا ہوتا ؟ یقینًا ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو جاتا، ایک بہت بڑی مشکل کھڑی ہو جاتی۔ چنانچہ آپﷺ نے ظاہری دلائل کے مطابق فیصلہ کرنے کا طریقہ مقرر فرما دیا اور حقیقی فیصلے اللہ تعالی کی عدالت میں قیامت کے دن پر چھوڑ دیئے۔ چنانچہ اسی طریقے پر مسلمان عدالتوں میں فیصلے ہوتے چلے آئے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔
قاضوں اور ججوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اس طریقے پر فیصلے کریں اور عوام پر بھی لازم ہے کہ وہ ہر صورت میں قاضی کا فیصلہ تسلیم کریں چاہے حق پر ہوتے ہوئے بھی اس کے خلاف ہو، ورنہ دنیا میں خونریزی اور فتنوں کا اک طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ فریقین کے مابین فیصلہ کرنے کے بعد اگر یہ محسوس کرتے کہ جس کے حق میں فیصلہ دیا ہے وہ اس کا حقدار ہے یا نہیں تو فرمایا کرتے:
((يَا عَبْدَ اللهِ وَاللهِ إِنِّي لَأَقْضِي لَكَ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ ظَالِمًا))
’’اے اللہ کے بندے! اللہ کی قسم میں اگر چہ تمہارے حق میں فیصلہ دے رہا ہوں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ تم ہی ظالم ہو۔‘‘
((وَلٰكِنِّي لَسْتُ أَقْضِي بِالظَّنِّ))
’’مگر میں محض کسی ظن و گمان اور خیال سے فیصلہ نہیں کر رہا۔‘‘
((وَلَكِنْ أَقْضِي بِمَا أُحْضِرَنِي‘‘
’’بلکہ میرے سامنے جو دلائل پیش کیے گئے ہیں ان کے مطابق فیصلہ کر رہا ہوں ۔‘‘
(( وَإِنَّ قَضَائِي لَا يَحِلُّ لَكَ مَا حُرِّمَ عَلَيْكَ)) (مصنف ابن شيبة ، ج:4، ص:542)
’’اور میرا فیصلہ تمہارے لیے ہرگز وہ چیز حلال نہیں کرتا جو تمہارے لیے حرام کی گئی ہے۔‘‘
یہ موضوع تو یقینًا اک طویل موضوع ہے، جو مستقل کئی ایک خطبوں کا متقاضی ہے، لیکن اگر ہم اس ایک حدیث پر بھی غور کریں تو ہمیں اپنے اختلافات دور کرنے اور اپنے مسائل حل کرنے میں واضح طور پر رہنمائی مل سکتی ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آج ہمارے ہاں اک رواج چل نکلا ہے۔ فیصلوں کے حوالے سے۔ کہ ہم لوگ اس فیصلے کو حق اور سچ پر مبنی فیصلہ تسلیم کرتے ہیں جو ہماری امنگوں کے مطابق ہو، ہمارے حق میں ہو اور ہمارے مقرر کردہ وقت کے اندر اندر ہو اور اگر کوئی فیصلہ ہماری امنگوں کے مطابق نہ ہو تو اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں، اس قاضی کو بکا ہوا قرار دیتے ہیں ، خود سوزی کرنے کھڑے ہو جاتے ہیں، سڑکوں پر نکل آتے ہیں، توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور اک طوفان کھڑا کر دیتے ہیں اور ہمارے نام نہاد دانشور ٹاک شوز میں تبصرے کر رہے ہوتے ہیں کہ انصاف ہونا بھی چاہیے اور انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا اور یہیں بس نہیں کہ قاضی اورجج کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے بلکہ اگر کوئی شخص قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کرے اور طریقہ کار بیان کرے تو اس سے خفا ہو جاتے ہیں اور اس پر کسی ایک پارٹی کی طرف داری کا التزام داغ دیتے ہیں۔ یہ سوچ اور یہ انداز فکر نہایت ہی خطرناک ہے، ایسا انداز فکر کہ جس میں انصاف کا مطلب یہ ہو کہ اگر حق میں فیصلہ آئے تو انصاف اور اگر مخالف ہو تو نا انصافی اور پھر اپنے حق میں فیصلہ لینے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا، ایسا انداز فکر قوموں کے زوال و انحطاط اور تباہی وبر بادی کی نوید لایا کرتا ہے۔ اس حقیقت سے یقینًا کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ انسان جو کچھ بھی اس دنیا میں کرتا ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سوچ اور فکر ضرور کار فرما ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی عقیدہ اور نظریہ ضرور موجود ہوتا ہے حتی کہ عقیدہ نہ ہونا بھی اک عقیدہ ہے، اور ہر عقیدہ اور نظریہ اور ہر سوچ اور فکر انسان کی اس دنیا کی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور آخرت کی زندگی پر بھی۔ دہ سوچ اور فکر اگر سلیم ہوگی، وہعقیدہ اور نظریہ اگر درست ہوگا تو اس کے نتائج بھی مثبت ہوں گے، دنیا میں امن وامان ہوگا، برکتیں ہوں گی ، خوشحالی ہوگی۔ اور دو عقیدہ اور نظریہ اگر درست نہ ہوگا، فکر اگر ٹیڑھی ہوگی تو اس کے نتائج بھی منفی ہوں گے، مصیبتیں، پریشانیاں اور بیماریاں ہوں گی ، ڈر اور خوف ہوگا، بدامنی ہوگی، بے حیائی اور فحاشی ہو گی قتل و خونریزی ہوگی ، فتنہ و فساد ہوگا، تنگدستی اور قحط سالی ہوگی۔ ٹیڑھی سوچ اور ٹیڑھی فکر کے نقصانات میں سے اک بہت بڑا اور ناقابل تلافی نقصان یہ ہے کہ ٹیڑھی سوچ اور ٹیڑھے طرز عمل کے نتیجے میں سزا کے طور پر دل ٹیڑھے کر دیئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۝﴾(الصف:5)
’’پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ تعالی نے ان کے دل ٹیڑ ھے کر دیئے ، اور اللہ تعالی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
اندازہ کریں ٹیڑھی روش کا کس قدر سنگین اور بدبختی پر مبنی انجام ہے۔ دل ٹیڑھے کر دیئے جانے کا مطلب ہدایت کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔ اعاذنا الله منه۔
اللہ تعالی ہمیں ایسی بدبختی سے محفوظ فرمائے ، آمین۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اک عام گناہ میں اور سوچ اور فکر کے ٹیڑھا ہونے کے نتیجے میں کیے گئے گناہ میں بہت فرق ہے۔ اک عام گناہ تو عموماً انسان جذبات سے مغلوب ہو کر، دنیا کی کشش میں کھو کر کرتا ہے، پھر اس پر اصرار نہیں کرتا، بلکہ اپنے کیے پر شرمندہ بھی ہوتا ہے، وہ گناہ کو گناہ ہی سمجھتا ہے اور شرم و حیاء کے باعث لوگوں سے چھپ چھپا کر کرتا ہے۔ جبکہ ٹیڑھی سوچ اور ٹیڑھی روش کے نتیجے میں جو گناہ کرتا ہے وہ شرم و حیاء محسوس کیے بغیر بے دھڑک کرتا ہے، سر عام کرتا ہے، علی الاعلان کرتا ہے اور اس گناہ کے جواز پر کٹ حجتیاں پیش کرتا ہے اور اسے جسٹی فائی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلا یہ کہنا کہ یہ تو سب کرتے ہیں اور یہ کہ پہلے کون سے لوگ تہجد گزار ہیں وغیرہ۔
جو باتیں ٹیڑھی روش کی علامات ہیں ان پر غور کریں تو وہ تمام باتیں ایک سے بڑھ کر ایک خطرناک ہیں، مثلاً شرم و حیاء کا فقدان کسی قدر خطرناک ہوتا ہے، حدیث میں ہے،
آپﷺ نے فرمایا:
((إِذَا لَمْ تَسْتَحِي فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ)) (بخاري:6120)
’’جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو۔‘‘
یعنی شرم و حیاء گناہ کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے اور اگر کسی شخص میں حیا ختم ہو جائے تو اس میں گناہ کے لیے اتنی دلیری آجاتی ہے کہ وہ کسی بھی گناہ کے ارتکاب کی جرات کر سکتا ہے۔
اسی طرح سر عام برائی کرنا، یا اپنے گناہ کی تشہیر کرنا ، لوگوں سے اس کا ذکر کرنا بھی خوفناک نتائج کا حامل ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ))
’’میری امت کے تمام لوگوں سے درگزر کیا جاتا ہے سوائے علانیہ گناہ کرنے والوں کے ‘‘
((وَإِنَّ مِنَ الْمُجَاهَرَةِ أَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ عَمَلًا ثُمَّ يُصْبِحَ وقَدْ سَتَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ فَيَقُولَ يَا فُلَانُ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَاوَقَدْ بَات يَسْتُرُهُ رُبُّهُ وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللهِ عَنْهُ))(بخاري:6069)
’’اور علانیہ گناہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی رات کی تاریکی میں کوئی گناو کرتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالی نے اس کی پردہ پوشی کر رکھی ہوتی ہے، مگر وہ خود اپنا پر دو چاک کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے فلاں میں نے رات میں ایسا ایسا کیا، جبکہ اللہ تعالی نے رات بھر اس کی پردہ پوشی کر رکھی ہوتی ہے مگر جب صبح ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالی کی طرف سے کی گئی پردہ پوشی کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ ‘‘
تو ایسا شخص کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے احسان، اس کی مہربانی اور Favour کو ٹھکرا دیا۔ اس کے عفو و درگزر اور اس کی پردہ پوشی کی قدر نہ کی اور مزید یہ کہ برائی کو ظاہر کر کے معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کا سبب بنا و و اس قابل نہیں رہا کہ اس سے درگزر کیا جائے ۔ چنانچہ اسے ذلیل و رسوا کر دیا جاتا ہے۔
﴿وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَا ۙ وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ؕ﴾ (یونس:27)
’’اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں، وہ ویسا ہی بدلہ پائیں گے جیسی ان کی برائیاں ہیں اور ذلت ان پر مسلط ہو گی ۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ؕ ﴾ (النور:19)
’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے ۔‘‘
تو جس قوم اور جس معاشرے میں کھلے عام اور علانیہ طور پر برائیوں کا ارتکاب ہونے لگ جاتا ہے تو پھر وہاں طرح طرح کی آفتیں اور مصیبتیں آیا کرتی ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا
((لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتّٰى يُعْلِنُوا بِهَا إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُوْنُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوا)) (ابن ماجة:4019)
’’جس قوم میں فحاشی پھیل جائے حتی کہ وہ اسے علی الاعلان کرنے لگ جائیں تو وہ طاعون اور ایسی ایسی بیماریوں میں مبتلا کر دیئے جاتے ہیں جو ان کے اسلاف اور آباد واجداد میں نہیں پائی جاتی تھیں ۔‘‘
تو فکر کی بھی اور سوچ کا ٹیڑھ پن قوموں کی ہلاکت اور تباہی و بربادی کا واضح پیغام ہوتا ہے، اس کا اک تاریک اور خوفناک پہلو یہ ہے کہ سوچ کی تبدیلی کا احساس نہیں ہوتا۔ اس کو پتا ہی نہیں چلتا کہ اس کی سوچی تبدیل ہو چکی ہے، وہ اپنے آپ کو بدستور درست سمت پر سمجھ رہا ہوتا ہے۔
﴿وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۝۱۰۴﴾ ( الكهف:104)
’’وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں صحیح کر رہے ہیں۔‘‘
اس کی مثالیں تو بہت ہیں مگر ایک دو مثالیں عرض کرتا ہوں، حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے ایک شخص کو لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہنے فرمایا: اس کو چالیس (۴۰) کوڑے لگاؤ، تو وہ شخص شراب کے جواز کی تاویلیں کرنے لگا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو اسی (۸۰) کوڑے لگانے کا حکم دیا ، چالیس شراب پینے کے اور چالیس اللہ تعالی پر بہتان باندھنے کے۔ ‘‘ (السنن الكبرى (السنن الكبير) للبيهقي:17543)
گویا کہ اس کا شراب پینا محض ایک گناہ نہیں تھا بلکہ بگڑی ہوئی سوچ کے نتیجے میں سرزد ہونے والا گناہ تھا۔ اسی طرح پرسوں ترسوں کی بات ہے، جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں میں لڑکیاں نچھانے جیسے قبیح کاموں کی بات ہو رہی تھی، مسجد میں بیٹھا ایک شخص کہنے لگا: اگر کوئی لڑکیاں نچواتا ہے تو تمہیں کیا تکلیف ہے؟ غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے دو تین بار اس نے یہ الفاظ دہرائے۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ تمہیں کیوں تکلیف نہیں ہے، ہر وہ شخص کہ جس میں ایمان ہو، جس میں غیرت ہو، اسے تکلیف ہونی چاہیے، حیا کا فقدان قوموں کی پستی کی ابتداء نہیں انتہاء ہے، ماں، بہن اور بیٹی کہ جس کی عزت کے لیے ایک غیرت مند انسان اپنی جان بھی قربان کر دینے پر فخر محسوس کرتا ہے اور جو شخص قوم کی بہنوں اور بیٹیوں کو سر بازار نچوائے، آپ ایسے شخص کو اسلامی مملکت کا سربراہ بنانا چاہیں! تف ہے ایسی سوچ پر اور افسوس ہے ایسی ترقی اور روشن خیالی پر۔
تعجب ہے کہ آدمی مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرے اور بے حیائی اور فحاشی کا علمبردار یا بے حیائی پھیلانے والے کا ہم خیال بھی ہو، حیاء تو ایمان کا ایک جزو، اس کا حصہ اور شعبہ ہے،((وَالحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِّنَ الْإِيْمَان)) (بخاري:9)
’’اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔‘‘
حیا انسان کے اندر فطرنا موجود ہوتی ہے اور مسلمان کی تو خصوصی صفات میں سے ہے۔ یقین نہیں آتا کہ آج کے مسلمان اس رسول اعظمﷺ کے ماننے والے ہیں جن کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ:
((كَانَ النَّبِيُّ أَشَدَّ حَيَاءً مِّنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا))(بخاري:6119)
’’آپ ﷺپردے میں رہنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔‘‘
مگر آج ہمارا طرز عمل فکر کی کبھی اور سوچ کا ٹیڑھا پن نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ اس قوم کو کیا ہو گیا ہے، اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ آج مسلمانوں کو جس ذلت و رسوائی کا سامنا ہے اس کا سبب معاشی بد حالی نہیں بلکہ اخلاقی گراوٹ اور پستی ہے۔ مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ کو بھی معمولی سمجھے چہ جائیکہ اتنی بڑی بداخلاقی اور بے حیائی ہو۔
حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں،
((إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عليه))
’’مؤمن اپنے گناہوں کو یوں دیکھتا ہے گویا وہ کسی پہاڑ کے دامن میں بیٹھا ہوا ہو اور ڈرتا ہو کہ کہیں پہاڑ اس کے اوپر نہ آگرے۔‘‘
((وَإِنَّ الْفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ فَقَالَ بِهِ هَكَذَا))(بخاري:6308)
’’اور فاسق و فاجر انسان اپنے گناہوں کو ایک مکھی کی طرح دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر بیٹھ گئی ہو اور ہاتھ سے اسے اڑا دیتا ہو۔‘‘
آج ہم گناہوں کی پاداش سے اس قدر بے خوف کیوں ہو گئے ہیں، گناہوں کو اس قدر ہلکا کیوں جاننے لگے ہیں، وہ گناہ جو کل صحابہ کرام اپنے دور میں جنہیں تباہ کن تصور کرتے تھے، آج ہم انہیں آنکھ کا تنکا بھی سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((إِنَّكُمْ لَتَعْمَلُونَ أَعْمَالًا هِيَ أَدَقُّ فِي أَعْيُنِكُمْ مِنَ الشَّعَرِ إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّهَا عَلٰى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُوبِقَاتِ))(بخاري:6492)
’’آج تم ایسے ایسے کام کر رہے ہو جو تمہاری نظروں میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں، جبکہ ہم انہیں رسول کریم ﷺکے زمانے میں تباہ کن اور مہلک ترین شمار کرتے تھے۔‘‘
آج ہم جن گناہوں کو ہلکا جان کر ان کی سزاؤں سے بے خوف ہوئے بیٹھے ہیں بلکہ مرے سے انھیں گناہ ہی نہیں سمجھتے ، ان پر تو قرآن و حدیث میں شدید وعید سنائی گئی ہے، جن میں سے دو ایک گناہوں کی سزاؤں کی شدت کا اندازہ کیجیے۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((لَیَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا))
’’میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے لیکن اس کا کوئی دوسرا نام رکھ کر۔‘‘
((يُعزَفُ عَلٰى رُءُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ))
’’اور ان محفلوں میں باجے بجیں گے اور گانے والیاں گائیں گی۔‘‘
((يَخْسِفُ اللهُ بِهِمُ الأَرْضِ ، وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَة وَالْخَنازير)) (ابن ماجة:4020)
’’ اللہ تعالی انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔‘‘
تو اب بتلائیے! کیا معاذ اللہ آپ اللہ کی پیش گوئی پر یقین نہیں ہے، یا زمین میں دھنسنے اور بندر و خنزیر بننے کے لیے تیار ہیں؟
یا درکھو! جو لوگ ایسی محفلوں میں اگر چہ بنفس نفیس موجود تو نہیں ہوتے مگر ایسے لوگوں کے ہم خیال ہوتے ہیں وہ انہیں میں سے ہوتے ہیں، قرآن و حدیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
سمجھ نہیں آتا کہ آپ دین کہاں سے لیتے ہیں؟ اس کا سورس اور مصدر کیا ہے؟ کیا ایسے ہی لوگوں سے لیتے ہیں یا آپ خودعالم ہیں، یا علماء سے اس طرح کا دین لیتے ہیں۔ حالانکہ علماء کرام تو بہت دور کی بات ہے کوئی عقل و شعور رکھنے والا عالمی بھی ایسے کاموں کو جائز قرار نہیں دے سکتا۔
اگر علماء کرام سے دین نہیں لیتے تو پھر جان لو کہ یہ سراسر اتباع الھوٰی ہے، خواہشات کی پیروی ہے۔
آخر میں بس اتناہی عرض کرنا چاہوں گا کہ اُس دن سے ڈرو کہ جب لوگوں کو ان کے گرو ہوں اور ساتھیوں کے ساتھ جمع کیا جائے گا، حکم ہوگا:
﴿اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَ اَزْوَاجَهُمْ وَ مَا كَانُوْا یَعْبُدُوْنَۙ۝۲۲مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾(الصافات:22۔ 23)
’’گھیر لاؤ ان ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو اور ان معبودوں کو کہ وہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر جن کی بندگی کیا کرتے تھے۔‘‘
اور فرمایا جائے گا۔
﴿وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ۝۵۹﴾ (یسین:59)
’’اور اسے مجرمو! آج تم چھٹ کر الگ ہو جاؤ ۔‘‘
تو کیا ہم میں سے کوئی چاہے گا کہ قیامت کے دن اس کا حشر ان لوگوں کے ساتھ جو جو دنیا میں ناچ گانا کرتے اور فحاشی پھیلاتے ہیں؟ یقینًا کوئی نہیں چاہے گا، تو پھر اب سے اپنے اور ان کے درمیان فاصلہ رکھنا ہوگا اور اس کے ساتھ کم از کم جو بات ہم سے مطلوب ہے وہ یہ کہ دل سے ان کے اس فعل کو بُرا جائیں ۔
با تیں تو بہت ہیں اور جی چاہتا ہے کہ اپنی اصلاح کے لیے چند جمعے اور اسی موضوع پر گفتگو کروں مگر حج کا موسم قریب ہے، اس بارے میں بھی ہمیں یاد دہانی کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………….