دو رفتن میں انسانیت کے رہنما

﴿وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً ۚ ﴾ (الانفال:25)
اللہ تعالی کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں نعمت اسلام سے نوازا، ہدایت نصیب فرمائی، اور وہ ہدایت یقینًا اس کی خصوصی عنایت اور فضل و کرم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
﴿وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ۚ ﴾ (الاعراف:43)
’’اور اگر اللہ نے ہدایت نہ دی ہوتی تو ہم ہرگز ہدایت نہ پاتے ۔‘‘
اللہ تعالی نے انسان کو ہدایت کے فطری اسباب بھی میسر فرمائے مگر ان کے ساتھ ساتھ ایک خصوصی انعام بھی فرمایا کہ انبیاء رسل علیہم السلام کو وحی الہی کے ساتھ عملی نمونہ بھی بنا کر بھیجا۔ انبیاء و رسل کے بعد بھی اللہ تعالی کی عنایتوں اور نوازشوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور قیامت تک جاری رہے گا اور وہ یوں کہ اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کے ان کے اپنے اپنے ادوار میں اور رسول کریم ﷺ کی میراث کے بالخصوص وارث مقرر فرما دیئے جو قیامت تک لوگوں کی اقدام مقرر کی رہنمائی کرتے رہیں گے اور ان تک پیغام دین پہنچاتے رہیں گے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ
((وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثةُ الأَنْبِيَاءِ)) (ابو داود:3641)
’’اور بے شک علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔‘‘
وارثان دین ہونے کا اعزاز اور منصب انبیاء و رسل علیہم السلام کے بعد یقینًا کائنات میں سب سے بڑا منصب اور اعزاز ہے۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں جابجا اور بہت وضاحت کے ساتھ علماء کرام کی فضیلت اور ان کا مقام بیان کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالی نے اپنے اللہ ہونے کی خود گواہی دینے کے ساتھ ساتھ فرشتوں اور علماء کی گواہی کا بھی ذکر فرمایا ہے۔
فرمایا:﴿ شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۙ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ۝۱۸﴾(آل عمران:18)
’’اللہ نے خود گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے اور یہی گواہی فرشتوں اور اہل علم نے بھی دی ہے ۔‘‘
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کریمہ کی روشنی میں علماء کرام کی فضیلت کی دس تو جیہیں بیان فرمائی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمام مخلوقات میں سے صرف علماء کرام کو اپنے اللہ ہونے کی گواہی کے لیے منتخب فرمایا۔
اسی طرح اک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۚ وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ۝۴۳﴾ (العنكبوت:43)
’’اور ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں، انہیں صرف علم والے ہی جانتے ہیں۔‘‘
اسی طرح اور آیات بھی ہیں، اور بہت سی احادیث بھی ہیں۔
ایک حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ يُّرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُّفَقَهُهُ فِي الدِّينِ)) (بخارى ، كتاب العلم:71)
’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں ۔‘‘
ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَّطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا ، سَلَكَ اللهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طرق الْجَنَّةِ))
’’ جو شخص علم حاصل کرنے کے راستے پر چلا، اللہ تعالی اسے اس کے ذریعے جنتمیں جانے والے راستوں میں سے اک راستے پر چلا دیتے ہیں۔‘‘
((وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ))
’’اور فرشتے دین کا علم حاصل کرنے والے کی خوشنودی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔‘
((وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ))
’’اور ایک عالم کے لیے زمین و آسمان کی ہر چیز حتی کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی بخشش و مغفرت کی دعا میں کرتی ہیں۔‘‘
((وَ إِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ))
’’اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے، جیسے چودہویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر‘‘
((وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ)) (ابوداود، كتاب العلم:3641)
’’اور علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں ۔‘‘
علماء کرام کے مقام و مرتبے اور فضیلت کے حوالے سے آیات و احادیث تو بہت ہیں لیکن اگر اس ایک حدیث پر ہی غور کریں تو ان کی فضیلت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اندازہ کریں، اگر کسی شخص کو یہ بتایا جائے کہ اس مسجد میں جتنے لوگ ہیں وہ سب کے سب آپ کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعاء کرتے ہیں تو وہ شخص پھولے نہ سمائے ، اس کی خوشی کی انتہاء نہ رہے اور یہ بات یقینًا اس کی عزت افزائی اور لوگوں کے نزدیک اس کےادب و احترام کی کھلی دلیل ہوگی۔
مگر ایک ایسا شخص کہ جس کے لیے کائنات کی ہر چیز ، زمین و آسماں کی تمام مخلوقات حتی کہ سمندر کی گہرائیوں میں بسنے والی مچھلیاں بھی دعاء کرتی ہوں اور انہیں اللہ تعالی نے مقرر کر رکھا ہواس کے مقام و مرتبے کا انداز و لگانا کیا مشکل رہ جاتا ہے۔
قرآن و حدیث میں علماء کرام کی فضیلت بیان کرنے والے دلائل کا اک ذخیرہ ہے، مگر یہ ہمارا موضوع نہیں ہے، یہ چند باتیں اس لیے عرض کی گئی ہیں تا کہ معاشرے میں علماء کرام کی حیثیت ، ان کی ذمہ داریاں اور فرائض جان سکیں ، ان کے وجود کی ضرورت و اہمیت جان سکیں اور ان کے فقدان پر نقصانات کا اندازہ لگا سکیں۔
نارمل حالات میں بھی یہ علماء کرام ہی کے اختیارات اور فرائض و واجبات میں شامل ہے کہ وہ لوگوں کی ہر معاملے میں (یعنی دین اور دنیا کے معاملات میں) رہنمائی کریں اور جائز اور ناجائز ، حلال اور حرام اور صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں لوگوں کو چلا ئیں اور انہی کی بات فیصلہ کن ہو جبکہ فتنوں کے دور میں تو ان کی اہمیت اور ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے، اور فتنے کا مطلب ہوتا ہے آزمائش، امتحان اور ایسی گھمبیر صورت حال کہ جس میں آدمی کو ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنا مشکل ہو کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ؟ چنانچہ جب پہلے ہی فتنہ اور امتحان ہو اور پھر اوپر سے ایسا شدید ہو کہ جسے آپ ﷺنے تاریک رات کے ٹکڑوں سے تشبیہ دی ہو، جیسا کہ فرمایا: ((فِتَنًا كَقَطْعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ)) (مسلم ، كتاب الإيمان:118)
’’وہ فتنے تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے۔‘‘
اور جب شدید تاریک رات ہو تو اس میں تو آدمی کو اپنے پاؤس کی جگہ بھی نظر نہیں آتی دور کی چیز وہ کیا دیکھ سکے گا اور ایسے فتنوں میں آدمی کی کیفیت کیا ہوگی ؟ فرمایا:
((يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ کافرًا)) (مسلم:118)
’’آدمی کی ایمانی کیفیت بار بار بدل رہی ہوگی ، صبح اگر مومن ہو تو شام کو کافر اور شام کو اگر مومن ہے صبح کو کافر ‘‘
یعنی بات صرف گناہوں تک محدود نہیں رہی بلکہ ایسے شدید فتنے ہوں گے کہ وہ اس کےلیے کفر اور اسلام کا مسئلہ بن جائیں گے، اگر کوئی شخص تاریک راہوں میں راستہ کھو جائے تو وہاں سے نکلنے کے لیے اسے سب سے پہلا کام کیا کرنا ہوگا ؟ روشنی لائی ہوگی کہ جس سے اندھیرے چھٹ جائیں اور راستہ واضح ہو جائے، اور فتنوں سے نکلنے کے لیے کون سی روشنی کی ضرورت ہے؟ نور نبوت کی ، وحی الہی کی ، قرآن وحدیث کی۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((فَإِذَا انْقَطَعَ عَنِ النَّاسِ نُورُ النُّبُوَّةِ وَقَعُوا فِي ظُلْمَةِ الْفِتَنِ))
’’جب لوگوں سے نور نبوت کٹ جائے تو وہ فتنوں کی تاریکیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔‘‘
((وَحدَثَتِ الْبِدَعُ والفُجُورُ، وَوَقَعَ الشَّر بَيْنَهُمْ)) (مجموع الفتاوى ، ج:17، ص:310)
’’وہاں بدعتیں شروع ہو جاتی ہیں، فسق و فجور چھا جاتا ہے اور ان میں شر اور فساد جنم لیتا ہے‘‘
تو ایسے میں علماء کرام کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے؟ ان کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ایمانداری سے قرآن وحدیث کی روشنی میں لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کریں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ علماء کرام کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے یقینًا مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ نصیحت و موعظت اور تبلیغ دین کا اک لازمی نتیجہ ہے کہ عام حالات میں لوگوں کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ نصیحت کو نا پسند کرتے ہیں، اور بعض تو ایسا سخت نا پسند کرتے ہیں کہ:
﴿كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌۙ۝فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍؕ۝۵۱﴾ (المدثر:50 اور 51)
’’وہ گویا خوف زدہ گدھے ہیں جو شیر کے ڈر سے بھاگ رہے ہیں ۔‘‘
نصیحت کے حوالے سے لوگوں کا عمومی مزاج کیا ہوتا ہے، وہ اس وقت تک تو وہ بات سن لیتے ہیں جب تک ان کے خیالات اور جذبات اور پسند نا پسند کے خلاف نہ ہو اور اگر کوئی نصیحت مزاج کے خلاف ہو جائے تو فورا تنقید شروع کر دیتے ہیں
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نصیحت اکثر حالات میں اکثر لوگوں کے خلاف ہی ہوتی ہے، اگر تو کوئی شخص اپنی اصلاح کی غرض سے سننے کے لیے آتا ہے تو اس کے لیے خطبہ جمعہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
اور اگر اک عادت کے مطابق چلا آتا ہے اور دل میں نصیحت سننے کی خواہش نہیں ہوتی اور برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی تو قرآن وحدیث کی یہ باتیں اس کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوتیں کیونکہ ہدایت کے لیے اللہ تعالی کے ہاں اک مسلمہ اصول ہے کہ:
﴿اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ۝﴾ (هود:28)
’’کیا ہم زبردستی اسے تم پر تھوپ دیں جب کہ تم اسے نا پسند کرتے ہو، یہ نہیں ہو سکتا ۔‘‘
افسوس آج مسلمانوں کا مجموعی مزاج کچھ ایسا ہی بن چکا ہے کہ اگر سود کی بات کریں تو ناگواری کا اظہار کرتے ہیں۔ لالو اور بیٹر کی خرید و فروخت پر بات کریں تو اس پر ناراض ہو جاتے ہیں، ڈاڑھی پر بات کریں تو کہنے لگتے ہیں کہ بھلا یہ بھی کوئی کرنے کی باتیں ہیں، کیاسارا اسلام ڈاڑھی میں آگیا ہے، بے حیائی اور فحاشی پر بات کریں تو وہ بھی انہیں برا لگتا ہے۔ ہماری مثال کچھ اس شخص کی سی ہے جو بازو پر ٹیٹو بنوانے کے لیے گیا اور کہا کہ شیر بنا دو، جب کچھ درد ہوئی تو پوچھنے لگا: کیا بنا رہے ہو؟ کیا شیر کی دم بنانے لگا ہوں، کہا: دم کے بغیر ہی بنا دو، پھر شروع کیا، درد ہوئی تو پوچھا کہ اب کیا بنا رہے ہو، کہا سر بنانے لگا ہوں، کہا: رہنے دو سر کے بغیر ہی بنا دو، بالآخر شیر کا سٹکر لگوا کر چلا گیا، کچھ ایسے ہی ہمارا حال بھی ہے ، ہم کہتے ہیں کہ اسلام کی بات نہ ہو مگر اس کا لیبل ضرور رہنا چاہیے ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں جو اللہ تعالی کے ہاں ایک ائل اصول ہے، اور وہ یہ کہ خیر اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی خواہش رکھنے والے کو بڑے بڑے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰهِ ؕ ﴾ (البقرة:214)
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم یونہی جنت میں چلے جاؤ گے، حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو پہلے لوگوں پر آئے تھے کہ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور جھنجھوڑ دیئے گئے حتی کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ۔‘‘
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ہماری یہ کیفیت کیوں ہے کہ ہم اپنے جذبات اور اپنی خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کو اپنی خواہشات کے تابع کرنا چاہتے ہیں؟
اس کی بہت سے وجوہات ہیں، ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ بنیادی عقیدہ درست نہیں ہے۔ ہم معاذ اللہ دین کو تمام مسائل کا حل نہیں سمجھتے ، اگر چہ زبان سے نہیں کہتے مگر ہمارا طرز عمل کچھ ایسا ہی ہے، ہم ایک عالم کا کام صرف نماز جمعہ پڑھانے اور نماز روزے کے مسائل بتانے تک محدود سمجھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر عالم ہماری خواہشات کے مطابق خطبہ دے میٹھی میٹھی اور لوریاں دے کر سلانے والی باتیں کرے۔
ہمیں شاید ہدایت کی قدر نہیں ہے، اس دور میں جب کہ اکثر جگہ قصے کہانیاں سنائے جاتے ہیں، کوئی ایسی باتیں جو خالص قرآن وحدیث سے ماخوذ ہوں ہماری طبع نازک پر گراں گزرتی ہیں۔
ہم اگر وین کے تمام مسائل کا حل ہونے پر ایمان رکھیں اور اس کے لیے علماء کرام کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت کو تسلیم کر لیں اور فتنوں کی حقیقت اور سنگینی کو اور ان سے بچنے کی اہمیت کو سمجھ جائیں اور علماء کرام کو اتنی اہمیت ہی دے دیں جو کسی ڈاکٹر کو دیتے ہیں تو ہمارے تمام مسائل اللہ کے فضل سے حل ہو سکتے ہیں۔ مگر ہم ڈاکٹر کے بارے میں تو سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتا ہے اور عالم کے بارے میں سمجھتے ہیں وہ بھی بس اتنا ہی جانتا ہے جتنا ہم جانتے ہیں۔ تبھی آپ نے دیکھا کہ کوئی مریض کسی ڈاکٹر سے بحث نہیں کرتا کہ جی فلاں شخص کو بھی وہی بیماری تھی مگر آپ نے اس کو دوسری دوائی دی اور مجھے یہ کیوں دی۔ اسی طرح مسائل میں بسا اوقات کیس کچھ ہوتا ہے مگر فتوی کچھ اور ، خواب ایک جیسا ہے ہوتا ہے مگر آدمی کے چال چلن اور طرز عمل کے حساب سے تعبیر دوسرے سے مختلف، اسی طرح کسی مسئلے میں مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے خاموشی اور کسی میں وضاحت۔ فتنوں کے بارے میں اتنی بات جان لیں ، ہماری تو کیا حیثیت ہے، کیا پدی اور کیا پدی کا شور با، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ ہم کو بھی بسا اوقات ان کا سمجھنا مشکل ہو جاتا، چنانچہ آپ ﷺنے ہمیں فتنوں سے بہت زیادہ خبردار کیا۔ اس کی مثالیں بہت ہیں مگر صرف اسی ایک مثال پر غور کریں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر الزام لگتا ہے، لگانے والے منافق تھے، مگر اس میں سچے مسلمان بھی مبتلا ہو گئے، اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت پر ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عُکَیم الجہنی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
((لَا أعينُ عَلٰى دَم خَلِيفَةِ أَبَدًا بَعْدَ عُثْمَانَ))
’’میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد کسی خلیفہ کے قتل پر کبھی کسی کی مدد نہیں کروں گا۔‘‘
((فَقِيلَ لَهُ: يَا أَبا مَعْبَد! أَوَ أَعْنْتَ عَلَيْهِ))
’’ان سے پوچھا گیا کہ اے ابو معبد ! کیا آپ نے ان کے خون پر کسی کی مدد کی ؟‘‘
((قَالَ: كُنتُ أَعُدَّ ذِكْرَ مَسَاوِيْهِ عَوْنًا عَلٰى دَمِهِ))(طبقات ابن سعد ، ج :8، ص:235)
’’کہا: میں ان کی لغزشوں کے ذکر کو ( جو حضرت عبداللہ بن عکیم رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر میں تھیں) ان کے قتل پر اعانت شمار کرتا تھا۔‘‘
اور فتنے کے دور میں بالخصوص بسا اوقات کوئی معمولی سی بات کسی کے قتل کی وجہ بن جاتی ہے۔
……………..