عید الاضحیٰ

﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝لَا شَرِیْكَ لَهٗ ۚ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۝﴾ (الانعام:162، 163)
الله اكبر، الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر كبيرا والحمد لله كثيرا وسبحان الله بكرة واصيلا۔
کل خطبہ جمعہ میں خطبہ حجۃ الوداع کی اہمیت کا ذکر ہو رہا تھا، آج اس کے چند مندرجات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
حجتہ الوداع کا خطاب جو کہ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے، حقیقت میں وہ کوئی ایک خطبہ نہیں بلکہ متعدد خطبات ہیں، جو کہ مختلف دنوں میں اور مختلف مقامات پر ارشاد فرمائے گئے ، کوئی عرفہ کے دن میدان عرفات میں، کوئی قربانی کے دن منی میں اور کوئی جمرات کے پاس۔ ان تمام خطبات کا احاطہ کرنا اس مختصر سے وقت میں تو مشکل ہے، البتہ ان میں سے ایک خطبے کا ان شاء اللہ مختصر سا ذکر کریں گے۔
آج یہاں یہ عید کا دن ہے اور مکتہ المکرمہ میں حجاج کرام کے لیے یہ یوم النحر یعنی قربانی کا دن کہلاتا ہے۔ یوم النحر کے روز بھی آپ ﷺنے منی میں خطبہ ارشاد فرمایا، لہذا ہم اسی مناسبت سے یوم النحر کا خطبہ سنتے ہیں۔
حدیث میں ہے آپ ﷺ نے اپنے خطاب میں فرمایا:
(الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمَاوَاتِ والأرض))
’’فرمایا: زمانہ پھر پھرا کر اسی حالت پر آ گیا ہے جس حالت پر اس روز تھا جس روز اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا۔‘‘
((السَّنَةُ إِثْنَا عَشَرَ شَهْراً))
’’ایک سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے۔‘‘
((منها أربعة حرم))
’’ان میں سے چار حرمت والے ہیں ۔‘‘
((ثَلَاثُ مُتَوَالِيَاتٌ))
’’تین پے درپے ہیں ۔‘‘
((ذُو القَعْدَةِ، وَذُو الحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مَضَرَ الَّذِي بَينَ جمادَی و شعبان))
ذوالقعدہ ، ذوالحجۃ ، محرم اور چوتھا رجب مضر کا، جو کہ جمادی الآخرۃ اور شعبان کےدرمیان پڑتا ہے۔‘‘
((أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟))
’’دریافت فرمایا، یہ کون سا مہینہ ہے ؟‘‘
((قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ))
’’ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول علی کی اہم بہتر جانتے ہیں‘‘
((فَسَكَتَ حَتّٰى ظَنَنَّاأَنَّهُ سَیُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ))
’’تو آپ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کو کوئی اور نام دیں گے۔‘‘
((قَالَ: أَلَيْسَ ذَالْحِجَّةِ ؟))
’’فرمایا کیا یہ ذو الحجہ نہیں ہے ؟‘‘
((قُلْنَا: بَلَى))
’’ہم نے کہا: کیوں نہیں!‘‘
((قَالَ: أَيُّ بَلَدٍ هٰذَا))
’’فرمایا: یہ کون سا شہر ہے ؟‘‘
((قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ))
’’ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺبہتر جانتے ہیں‘‘
((فَسَكَتَ، حَتّٰى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ إِسْمِهِ))
’’آپ ﷺنے سکوت فرمایا حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ ہم اسے کوئی اورنام دیں گے ۔‘‘
((قَالَ: أَلَيْسَ الْبَلْدَة))
’’فرمایا: کیا یہ شہر مکہ نہیں ہے ؟‘‘
((قُلْنَا: بَلٰى))
’’ہم نے کہا: کیوں نہیں ؟‘‘
((قَالَ: فَأَيُّ يَوْمٍ هٰذَا؟))
’’فرمایا: یہ کون سا دن ہے ؟‘‘
((قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ))
’’ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کا یہ بہتر جانتے ہیں ۔‘‘
((قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ))
’’آپ ﷺخاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے سمجھا کہ آپﷺ اس کو کوئی نیا نام دیں گے۔‘‘
((قَالَ: أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ ؟))
’’فرمایا: کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟‘‘
((قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ))
’’ہم نے کہا: کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول ﷺ!‘‘
((قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَ كُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحَرُمَةِ يَوْمِكُمْ هٰذَا، فِي بَلَدِكُمْ هٰذَا، فِي شَهْرِكُمْ هٰذَا))
’’ فرمایا: تمہارے خون ، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں، جس طرح تمھارے آج کے اس دن کی تمھارے اس شہر کی ، اور تمھارے اس مہینے کی حرمت ہے ۔‘‘
((وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ))
’’ اور یاد رکھو! عن قریب تم لوگ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہو اور تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا۔‘‘
((فَلَا تَرْجِعُنَّ بَعْدِي كُفَّارًا أَوْ ضَلَالًا – يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رَقَابَ بَعْضٍ))
’’خبردار! میری وفات کے بعد کافر یا گمراہ نہ ہو جاتا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگ جاؤ۔‘‘
((أَلَا لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَلَعَلَّ بَعْضٍ مَنْ يُبْلَّغَهُ يَكُونُ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ))
’’پس جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان تک یہ پیغام پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں، بعض اوقات پیغام پہنچائے گئے لوگ بعض سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ: أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ))
(مسلم ، كتاب القسامة والمحاربين:1679)
’’پھر فرمایا: خبردار! کیا میں نے پہنچا دیا ہے؟‘‘
یہ تھا آپﷺ کا خطاب، جو کہ آپ نے دیکھا کہ نہایت مختصر تھا اور آپﷺ کے تقریبا تمام ہی خطبات ایسے مختصر ہوتے تھے، اور گفتگو کے متعلق قاعدہ اور دستور یہ ہے کہ وہ مختصر اور جامع ہو
"خَيْرُ الْكَلَامِ مَا قَلَّ وَ دَلَّ‘‘
’’بہترین کلام وہ ہوتا ہے جو مختصر اور مدلل ہو۔‘‘
اس کے برعکس اکثر اوقات یہی گفتگو معنی و مفہوم اور قائدے کے لحاظ سے بہت کم ہوتی ہے، اور آپ ﷺکو دیگر انبیاء علیہم السلام پر جو فضیلتیں حاصل ہیں، ان میں سے ایک جوامع الکلم عطا کیا جاتا بھی ہے۔ حدیث میں ہے آپ ﷺنے فرمایا:
((فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِستٍّ))
’’میں ان انبیاء علیہم السلام پر چھ چیزوں میں قطع فضیلت دیا گیا ہوں ۔‘‘
((أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ))
’’جوامع الحکم عطا کیا گیا ہوں ۔‘‘
((وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ))
’’رعب و دبدبہ کے ساتھ مدد دیا گیا ہوں ۔‘‘
((وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ))
’’اور مال غنیمت میرے لیے حلال کیا گیا ہے ۔‘‘
((وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا))
’’اور زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاک بنا دی گئی ہے ۔‘‘
((وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً))
’’اور تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔‘‘
((وَخُتِمَ بِي النبيون)) (مسلم ، كتاب المساجد:523)
’’اور میرے ساتھ نبیوں (علیہم السلام) کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ۔‘‘
تو جوامع الکلم یہ ہوتے ہیں کہ الفاظ کم ہوں اور معنی واضح اور وسیع ہو۔
آپ ﷺکا یہ خطبہ بلکہ تمام ہی خطبات اور تمام گفتگو جوامع الکلم ہی کی مثال ہے۔اس مختصر سے خطبے کی تشریح کرنا چاہیں تو یقینا اس کے لیے اک طویل وقت درکار ہوگا۔
اس خطبے کے اکثر نکات تو واضح اور عام فہم ہیں، اگر چہ کچھ تفصیل طلب ہیں، مگر ایک بات شاید بعض لوگوں کو سمجھ نہ آئی ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ایک خاص پس منظر ہے اور وہ یہ کہ وہ جو آپ ﷺ نے فرمایا: زمانہ پھر پھر اگر اسی حالت پر آ گیا ہے جس حالت پر اس روز تھا جس روز اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا۔ تو اس کا پس منظر یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد اور ان کی حلت و حرمت اللہ تعالی نے اس دن سے مقرر فرما رکھی ہے جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا۔ مشرکین مکہ مہینوں کی اس تعداد کو بھی مانتے تھے کہ بارہ ہیں اور ان میں سے جو چار حرمت والے ہیں ان کی حرمت کے بھی قائل تھے کہ حرمت والے مہینوں میں، ان میں سے کسی کے باپ کا قاتل بھی اگر سامنے آجاتا تو اس کی طرف آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھتے تھے چہ جائیکہ اس کو کوئی نقصان پہنچا ئیں یا بدلہ لیں ، مگر وہ مہینوں کو آگے پیچھے کرنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے تھے، انہیں اگر کسی سے جنگ و جدال کرنا ہوتا تو اس حساب سے حرمت والے مہینوں کو آگے پیچھے کر لیتے۔ قرآن پاک نے ان کے اس طرز عمل کو کفر میں زیادتی سے تعبیر کیا ہے کہ اس کی یہ حرکت کفر میں مزید ایک کافرانہ حرکت ہے۔ مثلاً: محرم میں جو کہ حرمت والا مہینہ ہے، اس میں اگر لڑائی اور غارت گری کرنا ہوتی تو محرم کو صفر بنا دیتے اور صفر کو محرم ۔ تو یوں انہوں نے مہینوں کو خلط ملط کر دیا، مگر جب آپ ملا ہم نے حج کیا، بلکہ اس سے ایک سال پہلے جب حضرت ابوبکر بی ان کو حج کے لیے بھیجا تو اس وقت یہ مہینے گھوم پھر کر پھر سے اپنی اسی حالت پر آگئے جس پر اس روز تھے، جس روز اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔
یہ اس پہلے خطبے کی مختصری وضاحت ہے، باقی جو خطبے کی دوسری باتیں ہیں اور جو دیگر خطبات میں بیان ہوئی ہیں، ان کا ذکر ان شاء اللہ پھر کسی وقت کریں گے۔
اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………