دنیا سے محبت اور آخرت سے غفلت
﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ۶﴾ (الانفطار :6)
دنیا کی حقیقت کا ذکر ہو رہا تھا، کہ دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اگر چہ بہت سے عقلی ، شرعی، اور مشاہداتی دلائل اور شہادتیں موجود ہیں، مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں لوگ دنیا کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں، یا سمجھتا ہی نہیں چاہتے، یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں، یعنی جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے ہیں، کیونکہ دنیا کی حقیقت کے تقاضوں کے برعکس وہ دنیا میں اور اس کی رنگینوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ دنیا میں کس قدر شدید کشش پائی جاتی ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھنے کے باوجود انسان اس کی طرف بے ساختہ کھچا چلا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انسان کی اک فطری کمزوری ہے کہ وہ دنیا کی چمک دمک کی طرف طبعی میلان اور رحجان رکھتا ہے اور اگر با قاعدہ تہذیب اخلاق اور تزکیہ نفس نہ کی جائے تو انسان بہت شدت سے اس کی طرف لپکتا ہے اور اس کی شدید خواہش رکھتا ہے۔
﴿وَإِنَّهُ لِحُبِِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ﴾ (العاديات:8)
’’اور وہ مال کی محبت میں بہت ہی سخت ہے۔‘‘
دنیا کی کشش کے حوالے سے ہمارے جیسے عام لوگوں کی حیثیت کیا ہوگی ، وہ ہستیاں کہ جن کا ذکر قرآن پاک اور گذشتہ آسمانی صحیفوں میں ہوا، جو افضل الخلق بعد الانبیاء قرار پائے، جن کا ایمان ہمارے لیے معیار قرار دیا گیا یعنی صحابہ کرام ، اسلام کے ابتدائی ایام میں ان میں سے بھی بہت سے لوگوں کے ساتھ ایک بار کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا کہ وہ بے اختیار دنیا کی طرف لپک گئے۔
آپ ﷺخطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ شام سے آنے والے ایک تجارتی قافلے کے پہنچنے کی خبر ملی، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم خبر ملتے ہی اس قافلے کی طرف نکل کھڑے ہوئے ، اس ڈر ہے کہ کہیں سارا مال ختم ہی نہ ہو جائے۔
قرآن پاک نے اس واقعے کی یوں منظر کشی کی ہے کہ:
﴿وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَا ِ۟انْفَضُّوْۤا اِلَیْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىِٕمًا ؕ﴾ (الجمعه:11)
’’اور جب کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ‘‘
اندازہ کریں کہ دنیا کی کیسی شدید کشش یا معاشی ضرورت اور مجبوری تھی کہ تقریبا سارے کے سارے صحابہ کرام اٹھ کر چلے گئے ، صرف بارہ (12) لوگ موجود رہے، جن میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی تھے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔
یہ واقعہ اصل میں ہجرت کے ابتدائی ایام کا ہے، جبکہ صحابہ کرام جمعہ کے آداب و احکام سے واقف نہ تھے، ورنہ جہاں قرآن پاک یا آپ ﷺ کا واضح حکم آجاتا اس سے سرمو انحراف نہ کرتے۔
تو بات ہو رہی تھی کہ دنیا کی طرف مائل ہونا انسان کی اک فطری کمزوری ہے، مگر دینی تزکیہ و تربیت سے اس کمزوری پر قابو پایا جا سکتا ہے، اور دین سے اگر رہنمائی نہ لی جائے تو انسان دنیا میں کھو جاتا ہے اور دنیا اس کے دل و دماغ میں گھر کر لیتی ہے، اور رچ بس جاتی ہے پھر دنیا کی حقیقت سمجھ ہی نہیں آتی ، یا سمجھ کر بھی انسان نا سمجھ بن جاتا ہے۔ تو دنیا کی حقیقت سمجھ نہ آنے کا بنیادی سبب دین سے دوری ہے، اگر چہ اس کے دیگر فرقی اسباب بھی ہیں۔ مثلا انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ دل کو لبھانے والی چیزوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
﴿وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ﴾ (العاديات:8)
دوسرے یہ کہ اس دنیا کو امتحان کے طور پر انسان کے لیے پرکشش بنا دیا گیا ہے۔
﴿زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ ؕ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ﴾(آل عمران:14)
’’لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، بیٹے سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں مزین کر دی گئی ہیں، انہیں پرکشش بنا دیا گیا ہے۔‘‘
اور اسی طرح حدیث میں ہے کہ:
((إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ)) (مسلم ، كتاب الرقاق:2742)
’’دنیا میٹھی اور سرسبز ہے۔‘‘
٭……..اور پھر شیطان کی چالیں اور اس کا ورغلانا بھی دنیا کی حقیقت کو سمجھنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
٭….ایسے ہی نفس امارہ کی خواہشات ، اس کی تمنا میں اور آرزوئیں ہیں۔
٭….. اور آخرت سے غفلت اور اعراض بھی دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کے درمیان حائل ہے۔
٭….اور مال و دولت کی ایسی رغبت اور ہوس کہ آدمی اس کا غلام بن کر رہ جائے ، کہ جس کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا:
((تَعِسَ عَبْدُ الدِّيْنَارِ وَالدِّرْهَمِ)) (بخاري ، كتاب الرقاق:6435)
’’دینار و درہم کا بندہ تباہ و برباد ہو گیا ۔‘‘
٭…. اور دنیا کے حصول میں اور آپس کے فخر و مباہات میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کرنا، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ ؕ ﴾(الحديد:20)
’’دنیا کی زندگی تو بس کھیل تماشا ہے، سامان زیب وزینت ہے، آپس میں فخر و مباہات ہے اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاتا ہے۔‘‘
تو اس تنافس اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش نے انسان کو اندھا اور بہرہ کر دیا ہے۔ اب اسے کوئی خیر کی بات سنائی نہیں دیتی، کوئی حقیقت پسندی کی بات نظر نہیں آتی ، اب وہ کوتاہ نظر ہو چکا ہے، سریع المنفعت چیزوں کو حقیقت سمجھ بیٹھا ہے۔ دنیا کی حقیقت کے ضمن میں یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے تا کہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ جب دنیا سے بچنے کی بات ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ کھانا پینا چھوڑ دیا جائے، تجرد کی زندگی اپنا لی جائے یعنی شادی بیاہ نہ کیا جائے، کسب معاش کو ترک کر دیا جائے اور رہبانیت اختیار کر لی جائے۔ بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ زہد کی زندگی اختیار کی جائے اور زہد یہ ہے کہ ہر اس چیز سے اجتناب کیا جائے جو انسان کو اللہ تعالی سے غافل کر دے، تمام حرام کام تو یقینا اس میں شامل ہیں، مگر ساتھ ہی ہر وہ جائز اور حلال کام بھی ترک کر دیا جائے جو اسے اللہ تعالی سے اور آخرت سے غافل کر دینے والا ہو۔ اس فانی اور عارضی دنیا کی زندگی کو آخرت کی دائی اور بہتر زندگی پر ترجیح دینا یقینًا عقلمندی نہیں ہوگا۔ اسلام دنیا سے بالکلیہ منع نہیں کرتا بلکہ:
((كُلُوا وَاشْرَبُوا وَتَصَدَّقُوا وَالْبَسُوا فِي غَيْرِ إِسْرَافِ وَلَا مَخِيْلَةٍ)) (الجامع الصغير:6384)
’’کھاؤ پیو، صدقہ کرو اور پہنو بغیر اسراف اور عجب و خود پسندی کے ۔‘‘
تو کھانے پینے سے اور دنیا کی نعمتوں سے متمتع ہونے سے ہر گز منع نہیں کیا گیا ، بلکہ دنیا کے استعمال سے ایک ایسی کیفیت میں گرفتار ہو جانے سے منع کیا گیا ہے جو انسان کو عجب و غرور اور خود بینی میں مبتلا کر دے ، اور آخرت سے غافل کر دے ، لہذا دنیا کی نعمتوں سے بے شک لطف انداز ہوں مگر زہد کی زندگی جی کر، اور زہد کی زندگی کیسے حاصل ہوتی ہے؟
آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
یوں تو زہد کا خلاصہ ہم نے جان لیا کہ ہر اس چیز سے اجتناب کرنا جو اللہ تعالی اور یوم آخرت سے غافل کر دینے والا ہو زہد کہلاتا ہے مگر کیا کیا عقیدہ اور کیا کیا عمل اس کی راہ ہموار کرتا ہے، سلف صالحین کی زندگیوں کے مطالعے سے معلوم کرتے ہیں:
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور دریافت کیا۔
(ما سِرُّ زهدك في الدنيا)
’’فرمائیے کہ دنیا میں آپ کے زہد کا راز کیا ہے؟‘‘
((فَقَالَ: أَرْبَعَةُ أَشْيَاءٍ))
’’تو فرمایا: کہ چار چیزیں ہیں ۔‘‘
1۔ ((عَلِمْتُ أَنَّ رِزْقِي لَا يَأْخُذْهُ غَيْرِي فَاطْمَأَنَّ قَلْبِي))
’’پہلی بات یہ کہ میں نے جان رکھا ہے کہ میرا رزق میرے سوا کوئی اور نہیں لے سکتا، چنانچہ میرا دل مطمئن رہتا ہے۔‘‘
یعنی رزق کے حصول کے لیے جھوٹ نہیں بولتا، ہیرا پھیری اور فراڈ نہیں کرتا، حرام نہیں کماتا ، فرائض سے غفلت اور کوتاہی نہیں برتا۔
2- ((وَ عَلِمْتُ أَنَّ عَمَلِي لَا يَقُومُ بِهِ غَيْرِي فَاشْتَغَلْتُ بِهِ))
’’اور دوسری چیز یہ کہ مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے ذمے کا جو کام ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا، چنانچہ میں اس میں مشغول رہتا ہوں، یعنی اپنے فرائض و واجبات میں سستی اور کوتاہی نہیں کرتا، تا خیر نہیں کرتا ۔‘‘
دنیا میں یہ حکم ہے کہ:
﴿وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ) (الحشر:18)
’’ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ اس نے آگے کیا بھیجا ہے ۔‘‘
اور آخرت میں:
﴿یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ۳۴
وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ۳۵
وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ﴾ (عبس:34 تا 36)
اس روز ہر آدمی اپنے بھائی ، اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ اس دن ہر شخص دور بھاگے گا حتی کہ وہ لوگ بھی کہ جن پر دنیا میں تکلیہ کیا جاتا تھا ان کو کچھ دینا نہ پڑ جائے یا وہ کوئی دعوی نہ کر دیں۔ یعنی آخرت میں جو ہوگا وہ تو ہوگا ہی ، دنیا میں بھی اپنا کام خود ہی کرتا ہے۔ اس لیے اپنا کام خود ہی کرنا ہے، چنانچہ میں اس میں مصروف رہتا ہوں۔
3۔ (( وَعَلِمْتُ أَنَّ اللهَ مُطَّلِعُ عَلَيَّ فَاسْتَحْيِيتُ أَنْ يَرَانِي عَلَى مَعْصِيَةٍ))
’’ اور تیسری بات یہ ہے کہ مجھے علم یقین حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہر حرکت اور ہر سکون پر مطلع ہے، لہذا مجھے شرم آتی ہے کہ اللہ تعالی مجھے کوئی گناہ کرتا ہوا دیکھیں۔ چنانچہ میں معصیتوں سے اجتناب کرتا ہوں۔‘‘
4۔ ((وَعَلِمْتُ أَنَّ الْمَوْتَ ينتظرُنِي ، فَأَعْدَدْتُ الزَّادَ لِلقَاءِ رَبِّ العالمين)) (إحياء علوم الدين: 4 /345)
’’اور چوتھی بات یہ ہے کہ میرا ایمان ہے کہ موت میرے انتظار میں ہے، لہذا میں اللہ رب العالمین سے ملاقات کے لیے زاد راہ کی تیاری میں مصروف عمل رہتا ہوں۔‘‘
تو یہ باتیں انسان کے لیے زہد کی راہ ہموار کرتی ہیں، ہمیں ان میں سے کون کون سی چیز حاصل ہے، غور و فکر کی ضرورت ہے۔
حرام کام فکر آخرت اور دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں یہ تو سب کو معلوم ہے مگر جائز اور حلال کام کیونکر انسان کو آخرت سے غافل کرتے ہیں، شاید بہت سے لوگ اسے سمجھنے سے قاصر ہوں۔
یوں تو اس کی بہت سی مثالیں ہیں ، مگر دو ایک کا ذکر کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا:
((الْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ))
گھوڑا تین قسم کے لوگوں کے لیے ہے۔
یعنی گھوڑے پالنے والے تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔
((لِرَجُلٍ أَجْرٌ))
’’ان میں سے ایک شخص تو ایسا ہوتا ہے کہ اسے گھوڑا رکھنے کا ثواب ہوتا ہے۔‘‘
((وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ))
’’اور ایک کے لیے پردہ پوشی، یعنی نہ ثواب نہ عذاب ‘‘
((وَعَلٰى رَجُلٍ وِزْرٌ))
’’اور تیسرے کے لیے گناہ اور وبال جان ہوتا ہے ۔‘‘
((فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ))
’’وہ شخص کہ جس ۔ کے لیے گھوڑا رکھنا باعث اجر ہوتا ہے۔‘‘
((فَرَجُلٌ رَبِّطَهَا فِي سَبِيلِ اللهِ))
’’و وہ شخص ہے جس نے اسے اللہ کے لیے باندھ رکھا ہو۔‘‘
((فَأَطَالَ لَهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ))
’’اور اس کی ری چراگاہ میں دراز کر رکھی ہو۔‘‘
((وَمَا أَصَابَتْ فِي طِيلِهَا مِنَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ كَانَتْ لَهُ حَسَنَاتٌ))
’’وہ گھوڑا جتنی دور تک چرا گاہ گھوم کر چرے کا مالک کو اتنی ہی نیکیاں ملیں گی۔‘‘
((وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِیَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ أَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ))
’’اور اگر وہ رہی تڑوا کر ایک دو ٹیلوں پر چڑھ گیا، تو وہ جہاں جہاں تک گیا، تو اس کی لید کا بھی اسے اجر و ثواب ملے گا۔‘‘
((وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهْرٍ فَشَرِبَتْ وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيهَا كَانَ ذَلِكَ لَهُ حَسَنَاتٌ))
’’اور اگر گھوڑا کسی نہر کے پاس سے گزرا اور اس نے اس شہر میں سے پانی پی لیا، چاہے مالک نے اسے پانی پلانے کا ارادہ بھی نہ کیا ہو، تو مالک کو اس کا بھی ثواب ملے گا‘‘
(وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا وَتَعَفُّفًا ، لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللهِ فِي رِقَابِهَا وَ ظُهُورِهَا فَهِيَ لَهُ كَذَلِكَ سِتْرٌ))
’’اور وہ شخص جو سفید پوش ہو اور دست سؤال دراز کرنے سے بچنے کے لیے گھوڑا پالتا ہے یعنی گھوڑے پر مزدوری کرتا ہو، یا گھوڑے بیچ کر اپنا گزارہ کرتا ہوتا کہ کسی سے مانگنا نہ پڑے اور گھوڑے کی پشت اور گردان کے حق کو بھی نہ بھولتا ہو یعنی اس کی زکاۃ ادا کرتا ہے تو اس کے لیے گھوڑا رکھنا ثواب ہے نہ گناہ ۔‘‘
((وَرَجُلٌ رَبَعَهَا فَخْرًا وَرِيَاء وَنِوَاءً لِأَهْلِ الْإِسْلامِ فَهِيَ وِزْرٌ))
’’ اور تیسرا شخص کہ جس نے گھوڑا محض فخر ور یا کاری اور چودھراہٹ کے لیے رکھا ہو، اور اہل اسلام کی دشمنی کے لیے پالا ہو تو وہ گھوڑا اس کے لیے باعث گناہ اور وبال جان ہے۔‘‘
((وَسُئِلَ رَسُولُ اللهِ عَنِ الْحُمُرِ))
’’آپ ﷺسے گدھوں کے متعلق سوال کیا گیا ، کہ گدھے رکھنے کا کیا حکم ہے؟‘‘
((فَقَالَ مَا أُنْزِلَ عَلَىَّ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا هٰذِهِ الْآيَةُ الْجَامِعَةُ الْفَادَةُ ﴿فَمَن يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًا يّرَه﴾ (بخاري ، كتاب المناقب:3646)
’’تو آپ ﷺ نے فرمایا: مجھ پر اس بارے میں اس نادر اور جامع آیت کے سوا اور کچھ نازل نہیں ہوا اور وہ یہ آیت ہے:
﴿فَمَن يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًا يّرَه﴾ (الزلزال:7 اور8)
’’تو جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔ اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا ۔‘‘
یعنی گدھے پالنے کا کوئی الگ سے حکم نازل نہیں ہوا البتہ اس آیت کریمہ کے مفہوم میں شامل ہے، گویا کہ جس طرح گھوڑے پالنے کے حساب سے ثواب و عقاب ہے اسی طرح گدھے پالنے کا بھی حکم ہے۔ دنیا کی حقیقت کے حوالے سے گذشتہ جمعے بات ہو رہی تھی کہ دنیا میں انسان کی ساری عمر کی کمائی میں سے اس کے حصے میں صرف ایک کفن آتا ہے، اس ایک کفن کے لیے آخرت داؤ پر لگا دینا کیا دانشمندی کہلائے گا، اور اس کفن کی حیثیت بھی سلف صالحین کے نزدیک کیا تھی؟ ملاحظہ کیجئے ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ وقتِ وفات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرماتے ہیں:
((أَنْظُرُوا ثَوْبَيَّ هَذَيْنِ ، فَاغْسِلُوهُمَا، وَكَفِّنُونِي فِيهِمَا فَإِنَّ الْحَيَّ أَحْوَجُ بِالْجَدِيدِ مِنَ الْمَيِّتِ)) (المحتضرين لابن ابی الدنيا ، ص:51)
’’میرے ان دو کپڑوں کو دھو کر مجھے ان میں دفنا دیتا کہ مردہ کی نسبت زندہ کو نئے کپڑوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ ‘‘
تو گویا پوری دنیا کی حیثیت ایک کفن کے برابر بھی نہیں ہے، لہذا عقلمندی یہی ہے کہ اس سے بس ضرورت کے مطابق ہی تعلق رکھا جائے کیوں کہ اس سے گہر ا قلبی تعلق انسان کو دین سے اور آخرت سے بہت دور لے جاتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
………………..