دنیا کی کشش اور دین سے دوری کی روش

﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ۝﴾ (الانفطار:6)
دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کی بات ہو رہی تھی ، حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی حقیقت ہر باشعور انسان پر عیاں ہے، ہر شخص خوب جانتا ہے کہ دنیا اک عارضی اور فانی چیز ہے اگر اس کی کشش انسان کو اپنی طرف ایسا مائل کر لیتی ہے کہ پھر آدمی اس کا ہو کر رہ جاتا ہے، سب کچھ جاننے بوجھنے کے باوجود حقیقت سے آنکھیں موند لیتا ہے، آخرت سے غافل ہو جاتا ہے، اسے نظر انداز و کر دیتا ہے، لہذا دنیا سے نظریں ہٹا کر آخرت پر لگانا ایک مشکل ترین کام ہے اور اس کے متعدد اسباب ہیں:
ایک سبب یہ ہے کہ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ پرکشش چیزوں کی طرف لپکتا ہے، ایسا کہ اپنے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔
اور دوسرا سبب یہ ہے کہ دنیا کو خصوصی طور پر انسان کے لیے بطور امتحان پر کشش بنایا گیا ہے۔
اور تیسر اسب شیطان ہے کہ انسان کو دھوکے میں مبتلا کرنے میں سب سے اہم کردار اس کا ہے۔ وہ چوبیس گھنٹے اور نت نئے طریقوں اور حربوں کے ذریعے انسان کو بہکانے اور ورغلانے میں مصروف رہتا ہے۔
تو جب دنیا میں انسان کے بھٹکنے اور بہکنے کے اس قدر شدید اسباب و مواقع ہوں تو پھر بتلائیے انسان کے لیے دنیا کی کشش سے بچا کیونکر آسان ہو سکتا ہے۔
دنیا کی طرف مائل ہونا اور اس کشش میں کھو جانا اک نہایت ہی سنگین مسئلہ ہے، اس پر بہت زیاد و توجہ اور غور وفکر کی ضرورت ہے۔ ورنہ تباہی ہے اور سراسر تباہی ہے۔ اعاذنا الله منه۔
دنیا کی حقیقت کو سمجھنے سے پہلے، دنیا کی کشش کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا اپنے اندر کس قدر شدید جاذبیت رکھتی ہے کہ ہر آدمی اس کی طرف بے ساختہ کھچا چلا جاتا ہے۔
یوں تو دنیا ساری کی ساری پرکشش ہے، فریب اور دھوکہ ہے، سراب ہے، مگر کچھ چیزوں کو بالخصوص انسان کے لیے پرکشش بنایا گیا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ ؕ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۝۱۴﴾(آل عمران:14)
’’مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لیے مزین کر دی گئی ہے، جیسے: عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے ، شاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی۔ یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے۔‘‘
یہ ساری کی ساری چیزیں پرکشش اور پر فریب ہیں، ہر آدمی اس کو اچھی طرح سمجھتا ہے، مگر پھر بھی اک مثال کے ذریعے مزید سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے مزدلفہ سے منی جاتے ہوئے اپنے چچیرے بھائی الفضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھا لیا۔ عید کے روز ۔ اس سے پہلے عرفات سے مزدلفہ جاتے ہوئے آزاد کردہ غلام حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھایا تھا۔
آپﷺ کے ساتھ ایک ہی اونٹنی پر سوار ہونا یقینًا ایک بہت بڑی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے اور یقیناً ہر صحابی اس سعادت کا خواہش مند ہوگا مگر آپ ﷺ نے ایک طرف تو ایک آزاد کردہ غلام کو اپنے ساتھ بٹھایا اور دوسری طرف آل بیت میں سے کسی بڑی شخصیت اور بڑے صحابی کو نہیں بلکہ ایک نوجوان کو بٹھایا۔ اور یہ آپ کی کی انکساری اور تواضع کا مظہر ہے ، یوں تو یہ آپ ﷺ کے اخلاق کریمہ کا حصہ ہے کہ آپ ہمیشہ تواضع سے کام لیتے ، مگر حج کے دوران جبکہ آپ سب کے ہر جانب، دائیں بائیں آگے پیچھے لوگ ہی لوگ تھے مگر حدیث میں ہے کہ آپ ﷺنہایت آرام سے اور وقار سے سفر کر رہے تھے۔
((لَا ضَرَبَ وَلَا طَرَدَ وَلَا إِلَيْكَ إِلَيْكَ)) ابن ماجة ، كتاب المناسك:154)
’’ راستہ لینے کے لیے نہ کسی کو مارا، نہ کسی کو پیچھے ہٹایا نہ دھکا دیا ، نہ کہا کہ ہٹ جاؤ ہٹ جاؤ، بلکہ آرام سے چلے جا رہے تھے۔‘‘
ہاں تو آپ ﷺ نے اپنے پیچھے اونٹنی پر اپنے چچا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے الفضل کو، عبد اللہ بن عباس کے چھوٹے بھائی کو بٹھایا۔
اور حدیث میں ہے کہ الفضل بن عباس ((كَانَ رَجُلاً حَسَنَ الشَّعْرِ أَبيض وَسِيْمًا)) (مسلم ، کتاب الحج:1218)
’’فضل ایک اچھے بالوں والا ، گورا چٹا خوبصورت جوان تھا۔‘‘
((فَجَاءَتْ إِمْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ))
’’خثعم قبیلے کی ایک عورت مسئلہ پوچھنے کے لیے آئی ۔‘‘
((فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنظُرُ إِلَيْهَا وَتَنظُرُ إِلَيْهِ))
’’فضل اس عورت کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت فضل کی طرف دیکھنے لگی۔‘‘
((وَجَعَلَ النَّبِي يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشَّقِّ الآخر)) (بخاري ، كتاب الحج:1513)
’’تو آپ ﷺ فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے۔‘‘
اب اندازہ کریں، دنیا میں کسی قدر کشش ہے کہ حج کا موقع ہے، آپ ﷺموجود ہیں، بلکہ آپ ان کے ساتھ اونٹنی پر سوار ہیں، دنیا دیکھ رہی ہے، صرف احترام کی وجہ سے غالباً عورت کے چہرے کا پردہ نہیں کیا ہوگا۔ اگر چہ وہ بھی حدیث میں آتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، ((كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُحْرِمَاتٌ))
’’ہم آپ ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں ہوتیں اور لوگ ہمارے پاس سے گزرتے ۔‘‘
((فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا ، سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلٰى وَجْهِهَا))
’’جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم اپنے سرے پر وہ اپنے چہروں پر ڈال لیتیں۔‘‘
((فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ)) (ابوداود، كتاب المناسك:1833)
’’اور جب وہ گزر جاتے تو پردہ اٹھا دیتیں ۔‘‘
تو ممکن ہے اس عورت نے پردہ تو کیا ہو مگر اس کی آواز میں ہی اتنی کشش ہو کہ حضرت فضل اس کی طرف دیکھنے لگے ہوں جیسا کہ اللہ تعالی نے امہات المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہن کو مردوں سے اپنے فطری نرم لہجے میں بات کرنے سے منع فرمایا ہے۔
﴿ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ ﴾ (الاحزاب:32)
’’اور نرم لہجے میں بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی خیال کرنے لگے۔‘‘
یعنی عورت کی آواز میں فطری طور پر دلکشی اور نزاکت ہے، لہٰذا عورت کو چاہیے کہ جب وہ کسی غیر محرم سے بات کرے تو لہجے میں ذرا روکھا پن ہو، تا کہ لہجے کی نرمی سے کسی کے دل میں کوئی برا خیال پیدا نہ ہو۔
تو دنیا کی کشش ملاحظہ کیجئے کہ برائی کی راہ میں اتنے موانع، دنیا کی کشش سے بچنے کے لیے اتنی رکاوٹیں، مگر پھر بھی وہ ایک دوسرے کی طرف کھچے چلے جا رہے تھے۔ دنیا کی کشش کی اس سے بڑھ کر مثال کیا ہوگی!
اور یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں ایک طرف ، مگر عورت کی کشش ایک طرف۔
چنانچہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ من إحداكُنَّ)) (بخاري ، كتاب الزكاة: 1462)
’’میں نے تم سے زیادہ عقل و دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کسی سمجھدار اور محتاط آدمی کی مت مار دینے والی ہو ۔‘‘
عورت کی بے پردگی اور مرد و زن کا اختلاط دنیا میں کتنا بڑا فتنہ ہے، قرآن وحدیث میں بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے واقعے کی روشنی میں معلوم ہوا کہ بہت زیادہ حزم و احتیاط کے باوجود بھی دنیا کی کشش سے بچنا بہت مشکل ہے مگر اس کے برعکس اگر لڑکیوں کو سر عام نچوا کر مغرب زدہ اور دین بے زار نو جوانوں کے سامنے پیش کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ قوم کو بے غیرت اور بے حیا بنانے کا کام بڑی بے شرمی کے ساتھ منتظم طریقے سے اور اک سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔
کسی بھی قوم یا کسی بھی فرد میں جب تک حیا باقی رہے خیر باقی رہتی ہے، مگر جب حیا ختم ہو جائے تو وہ بے حیائی کی تمام حدیں پار کر جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ)) (بخاري ، كتاب الأدب:6120)
’’جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو۔‘‘
یعنی پھر انسان کے اندر اسے برائی سے روکنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ تو دنیا کی کشش کی بات ہو رہی تھی، اس سلسلہ میں حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ ایک بہت بڑی مثال ہے۔ اس حوالے سے ایک اور حدیث سنتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّمَا مَثَلِى وَمَثَلُ النَّاسِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا))
’’فرمایا: میری اور لوگوں کی مثال ایک ایسے شخص کی مثال ہے کہ جس نے آگ جلائی، تاپنے اور سینکنے کے لیے یا روشنی کے لیے ۔‘‘
((فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُ الَّتِي تَقَعُ فِي النَّارِ يَقَعْنَ فِيهَا فَجَعَلَ يَنزِعُهُنَّ وَيَغْلِبْنَهُ فَيَقْتَحِمْنَ فِيْهَا))
’’جب اس کا ارد گرد روشن ہو گیا تو منڈے تتلیاں، پروانے اور پتنگے اس میں آکر کرنے لگے اور وہ شخص انہیں روکنے لگا۔‘‘
((فَأَنَا أَخُذُ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ وَأَنتُمْ تَقْتَحِمُونَ فِيهَا)) (بخاري ، كتاب الرقاق:6483)
’’اور میں تمہیں تمہارے کمر بند سے پکڑ کر تمہیں آگ سے دور کھینچتا ہوں اور تم بزور طاقت اس میں گرنے جا رہے ہو ۔‘‘
اب اس مثال میں آپ کسی نے تین تشبیہات بیان فرمائیں ، لوگوں کو تشبیہ دی ٹڈیوں اور پتنگوں کے ساتھ، دنیا کی آگ کو تشبیہ دی آخرت کی آگ کے ساتھ اور اپنے آپ کو تشبیہ دی ایک ایسے شخص کے ساتھ کہ جو پروانوں اور پتنگوں کو آگ میں گرنے سے بچاتا ہے۔
سائنٹفکلی یہ بات معلوم شدہ ہے کہ ٹڈے، پروانے اور پتنگے کمزور ہونے یا لاعلم ہونے کی وجہ سے آگ میں نہیں کرتے ، بلکہ اس کی کشش کی وجہ سے اس کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں اور بالآخر آگ میں گر پڑتے ہیں۔ اسی طرح لوگ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے، اپنی شہوات کی تسکین کے لیے دنیا کی رونق میں کھو جاتے ہیں اور ذنوب و معاصی میں گرفتار ہو کر آگ میں جا گرتے ہیں۔ اعاذنا
الله منها .
آپﷺ نے فرمایا: میں تمہیں آگ سے بچانے کی بہت کوشش کرتا ہوں مگر تم چھوٹ چھوٹ جاتے ہو، ہر نیکی کا رستہ دکھایا، ہر برائی سے بچنے کی رہنمائی کی، اس کے انجام سے خبردار کیا اور ڈرایا ، مگر لوگ دنیا کی کشش میں اس قدر پھنتے چلے جاتے ہیں کہ بہت کوشش کے باوجود بھی اس سے باز نہیں آتے۔
آپﷺ جو دین لے کر کے آئے وہ کسی طرح انسان کو بے راہ روی اور ذنوب و معاصی کی دلدل سے بچاتا ہے، اور کسی طرح راہ راست کی رہنمائی کرتا ہے، آئیے ملاحظہ کرتے ہیں ، حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((ضَرَبَ اللهُ مثلاً صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا))
’’اللہ تعالی نے صراط مستقیم کی ایک مثال بیان فرمائی ہے ۔‘‘
((وَعَلَى جَنَبَتَيِ الصَّرَاطِ سُورانِ، فِيهِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ))
’’صراط مستقیم کے دونوں جانب دو دیواریں ہیں، ان دیواروں میں دروازے ہیں جو کہ کھلے ہوئے ہیں۔‘‘
((وَعَلَى الْأَبْوَابِ سُتُورٌ مُرْخَاةٌ))
’’مگران دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں ۔‘‘
((وَعَلَى بَابِ الصِّرَاطِ دَاعٍ يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ ادْخُلُوا الصِّرَاطَ جَمِيْعًا وَلَا تَتَعَوَّجُوا))
’’صراط مستقیم کے دروازے پر ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ لوگو! سیدھے سیدھے صراط مستقیم میں داخل ہو جاؤ اور ادھر ادھر ٹیڑھے نہ چلو۔‘‘
((وَدَاعٍ يَدْعُو مِنْ فَوْقِ الصِّرَاطِ))
’’اور ایک پکارنے والا صراط کے اوپر سے پکار رہا ہوتا ہے۔‘‘
((فَإِذَا أَرَادَ الإِنْسَانُ أَنْ يَفْتَحْ شَيْئًا مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ قَالَ: وَيْحَكَ!لَا تَفْتَحْهُ، فَإِنَّكَ إِنْ تَفْتَحْهُ تَلِجُهُ))
’’کوئی انسان جب ان دروازوں میں سے کوئی درواز کھولنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اسے کہتا ہے: افسوس! اسے مت کھولو! اگر تم نے اسے کھول دیا تو تم اندر چلے جاؤ گے۔‘‘
پھر آپ ﷺنے اس مثال کی وضاحت فرمائی ، فرمایا:
((فَالصِّرَاطُ الإِسْلَام))
’’صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے ۔‘‘
((وَالسُّورَانِ حُدُودُ اللهِ))
’’صراط مستقیم کے دائیں بائیں جو دو دیوار میں ہیں وہ حدود اللہ ہیں۔‘‘
((وَالأبْوَابُ الْمُفَتَّحَةُ مَحَارِمُ اللهِ))
’’اور وہ کھلے ہوئے دروازے محارم اللہ ہیں، اللہ تعالی کے منع کردہ اور حرام کردہ کام ہیں۔‘‘
((وَذٰلِكَ الدَّاعِي عَلٰى رَأْسِ الصِّرَاطِ ، كِتَابُ اللهِ))
’’اور صراط کے شروع میں جو پکارنے والا ہے وہ اللہ تعالی کی کتاب ہے ۔‘‘
((وَالدَّاعِي مِنْ فَوْقِ الصِّرَاطِ ، وَاعِظُ اللهِ فِي قَلْبِ كُلِّ مُسْلِمٍ)) (ترمذي:2859 ، احمد:17634)
’’اور صراط کے اوپر سے پکارنے والا، ہر مسلمان کے دل میں خیر کا داعی ہے، اس کا ضمیر ہے جو اسے متنبہ کرتا ہے۔‘‘
یہ حدیث یوں تو اپنے مفہوم میں بہت واضح ہے، ہر بات بآسانی سمجھ آرہی ہے لیکن اگر مزید اس کی تفصیل میں جائیں تو مزید بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں، مثلا سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ اس مثال میں راستے سے تشبیہ دی گئی ہے، اور صراط کی مثال دے کر یہ چلایا گیا ہے کہ یہ دنیا اک رہگیر اور مسافر خانہ ہے، اور راستے کے دونوں جانب جو دروازے ہیں وہ کھلے ہوئے ہیں، یعنی فتنوں میں مبتلا ہونا کسی گناہ اور معصیت میں گرفتار ہونا بہت آسان اور سہل ہے۔ صرف پردہ ہٹانے کی دیر ہے اور آدمی اس فتنے میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو کسی طرح فتنے منہ کھولے کھڑے ہیں اور لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر خیر کا کام سمجھ کر دھڑا دھڑ ان فتنوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ان فتنوں میں مبتلا ہونا ان کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے، حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((كُلُّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ)) (بخاري:7551)
’’ہر آدمی جس ٹھکانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اس کے لیے اس کے اسباب مہیا کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘
یعنی اگر جنت کے لیے پیدا کیا گیا ہے تو اس کے اسباب مہیا کر دیئے جاتے ہیں اور اگر جہنم کے لیے پیدا کیا گیا ہے تو اس کے لیے اس کے اسباب مہیا کر دیئے جاتے ہیں۔ تو اگر کسی کو یہ جاننے کی فکر لاحق ہو کہ وہ کون سی منزل کی طرف گامزن ہے تو یہ جاننا چنداں مشکل نہیں ہے اگر اس کے لیے سب سے پہلے اپنے تمام جذبات سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ اور یہ بات بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ صرف اور صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی جانا جاسکتا ہے کہ آدمی راہ است پر ہے یا راہ جذبات پر ہے۔ اور قرآن و حدیث کا مفہوم بھی وہی قابل قبول ہوگا جو علماء کرام بیان فرمائیں گے نہ کہ ناچنے گانے والے لوگ۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اپنی فکر کریں، مگر اس کے برعکس ہم میں سے بہت سے لوگوں کو عوام کا غم کھائے جا رہا ہے، ان کی اصلاح اور خیر خواہی کی فکر ہے۔
اور اپنا حال یہ ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:
((حِيفَة بِاللَّيْلِ حِمَارٍ بِالنَّهَارِ ، عَالِمٍ بِأَمْرِ الدُّنْيَا جَاهِلِ بِأَمْرِ الآخرة)) (صحيح ابن حبان:72)
’’کہ رات کو مردارون کو حمار یعنی گدھا، دنیا کی بہت خبر مگر آخرت سے بے خبر ‘‘
یعنی رات کو مردار کی طرح سو یا پڑا رہتا ہے نہ فرائض کی کوئی فکر اور نہ نوافل کا کوئی شوق اور دن کو حقوق اللہ سے بے نیاز گدھوں کی طرح کام میں لگا رہتا ہے۔
اس دنیا میں انسان کو بہت سے غم لاحق ہوتے ہیں، بہت سے کاموں کی فکر ہوتی ہے، بہت سے مقاصد کے لیے بے چین و بے قرار ہوتا ہے اور ہر غم ایسا ہوتا کہ اس پر دم نکلے۔ گویا آدمی غموں کی وادی میں بھٹکا ہوا ہے اور کوئی رہبر و رہنما نہیں ہے، کوئی بتلانے والا نہیں ہے کہ کدھر جائیں اور کیا کریں ! حالانکہ اس کا بہت آسان حل اور نسخہ کیمیا، اسلام نے بیان کر رکھا ہے ۔ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمَّا وَاحِدًا، هَمَّ آخِرَتِهِ ، كَفَاهُ اللهُ هُمَّ دُنْيَاه))
’’جو شخص اپنے تمام غموں ، فکروں اور سوچوں کو ایک ہی غم میں سمو دیتا ہے اور وہ ہے آخرت کا غم اور فکر، تو اللہ تعالی اس کے دنیا کے غموں سے اس کو کفایت کر دیتا ہے، یعنی وہ کام خود ہی نمٹا دیتا ہے۔‘‘
((وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا، لَمْ يُبَالِ اللهُ فِي أَيّ﷭ أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ)) (ابن ماجة ، كتاب المقدمة: 257)
’’اور جو شخص دنیا کے غموں میں الجھا ہوا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ ان میں سے کسی وادی میں ہلاک ہوتا ہے۔‘‘
دنیا کی حقیقت جاننے کے حوالے سے بات ہو رہی تھی، تو اس حوالے سے یہ جانا بہت اہم ہے کہ دنیا بڑی ہی پرکشش ہے اور اس کی کشش سے بچا نہایت مشکل ہے ، اور کشش اللہ تعالٰی سے بے رخی کا ایک بڑا سبب ہے ، اللہ تعالی ہمیں اس سے محفوظ فرمائے ، آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

……………