کی محمّدﷺ سے وفا تُو نے

نحمده ونصلي على رسوله الكريم اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله اما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ [التوبہ: 24]

کی محمّدﷺسے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

ذی وقار سامعین!

       ایک مومن اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے کریں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ”اور وہ لوگ جو ایمان لائے، اللہ سے محبت میں کہیں زیادہ ہیں۔“ [البقرہ: 165]

اسی طرح ہمارا فرض بنتا ہےکہ ہم اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ محبت نبی کریمﷺ سے کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

”کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“[التوبہ: 24]

محبتِ رسولﷺکی فرضیت

❄ سیدنا انس﷜سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا:

لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ

”تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔“ [بخاری: 15]

❄     نبی کریمﷺسیدنا عمر﷜کا ہاتھ پکڑے چل رہے تھے تو سیدنا عمر فاروق﷜نے کہا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي

"یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوائے میری اپنی جان کے۔”

تو نبی ﷺ نے فرمایا؛

 لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْآنَ يَا عُمَرُ

”نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔“ عمر ﷜نے عرض کیا: ”پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔“ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔“ [صحیح بخاری: 6632]

رسول اللہﷺسے ہی سب سے زیادہ محبت کیوں۔۔۔؟

       کسی شخص سے بھی محبت تین اسباب میں سے کسی ایک سبب کی وجہ سے کی جاتی ہے ، وہ تین أسباب یہ ہیں:

1۔ محبوب کا احسان            2۔ محبوب کا کردار     3۔ محبوب کا حسن وجمال

       نبی مکرمﷺسے ہی سب سے زیادہ محبت اس لئے کرنی ہے کیونکہ نبیﷺمیں یہ تینوں باتیں بدرجہ اتم موجود ہیں:

       اگر احسان کو دیکھا جائے تو نبیﷺکے امت پر بہت سارے احسانات ہیں ، نبیﷺاس  لئے پریشان رہتے تھے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔۔؟  اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں:  لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ "شاید تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہے، اس لیے کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔” [الشعراء: 3]

سیدنا ابو ہریرہ﷜کہتے ہیں کہ آقا﷤نے فرمایا:

إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ أُمَّتِي كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا، فَجَعَلَتِ الدَّوَابُّ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيهِ، فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ وَأَنْتُمْ تَقَحَّمُونَ فِيهِ "میری اور میری امت کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو حشرات الارض اور پتنگے اس آگ میں گرنے لگے۔تو میں تم کو کمر سے پکڑ کر روکنے والا ہوں اور تم زبردستی اس میں گرتے جارہے ہو۔” [صحیح مسلم: 5955]

احسان کا ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیے ، سیدہ عائشہ ﷞نے نے نبی کریمﷺسے پوچھا:

هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ، قَالَ: لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ مَا لَقِيتُ، وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ العَقَبَةِ، إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ، فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ، فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي، فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي، فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ، فَنَادَانِي فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ، وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ، وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ، فَنَادَانِي مَلَكُ الجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ، ذَلِكَ فِيمَا شِئْتَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الأَخْشَبَيْنِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا

کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپﷺنے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم ( قریش ) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا ، یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار) کنانہ ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ لیکن اس نے ( اسلام کو قبول نہیں کیا اور ) میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا ۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا ، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا ، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں ، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا ۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں ۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی ، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمدﷺ ! پھر انہں نے بھی وہی بات کہی ، آپ جو چاہیں ( اس کا مجھے حکم فرمائیں ) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں ( جن سے وہ چکنا چور ہوجائیں ) نبی کریمﷺ نے فرمایا ، مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔ [صحیح بخاری: 3231]

       اگر کردار کو دیکھا جائے تو جیسا کردار آقائے کائناتﷺکا تھا ، ویسا کسی کا کردار نہیں،کردار ایسا تھا کہ مشرکینِ مکہ نبیﷺکو صادق و امین کے لقب سے پکارتے تھے ، کردار ایسا تھا کہ دشمن بھی إقرار کرتے تھے کہ آپ کو ہم نے کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا ، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس﷟ کہتے ہیں:

        لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ وَرَهْطَكَ مِنْهُمْ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ فَقَالُوا مَنْ هَذَا فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ فَقَالَ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ قَالُوا مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا قَالَ فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ قَالَ أَبُو لَهَبٍ تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا ثُمَّ قَامَ فَنَزَلَتْ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ وَقَدْ تَبَّ

       جب یہ آیت نازل ہوئی ۔ ” آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں “ تو رسول اللہﷺصفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا ”یاصباحاہ‘ ‘ قریش نے کہا یہ کون ہے! پھر وہاں سب آکر جمع ہوگئے ، آنحضرتﷺنے ان سے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے ، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے ، تو کیا تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے۔ آنحضرت نے فرمایا پھر میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آرہا ہے۔ یہ سن کرابو لہب بولا تو تباہ ہو۔ کیا تو نے ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا؟ پھر آنحضرت ﷺوہاں سے چلے آئے اور آپ پر یہ سورت نازل ہوئی۔ تبت یدا ابی لھب وتب الخ یعنی دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابو لہب کے اور وہ برباد ہوگیا۔ [صحیح بخاری: 164]

       کردار ایسا تھا کہ نبیﷺاخلاق  میں سب سے اونچے درجے پر فائز تھے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ

”اور بلاشبہ یقیناً تو ایک بڑے خلق پر ہے۔“ [القلم: 4]

اخلاق اتنا بلند تھا کہ سیدنا ثمامہ بن اثال﷜تین دن قیدی بن کر مسجد نبوی میں گزارنے کے بعد کہتے ہیں:

يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ

”اے محمد! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لئے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لئے محبوب نہیں ہے۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے۔ اللہ کی قسم ! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میر ا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔“  [صحیح بخاری: 4372]

       کردار میں اگر بہادری کو دیکھا جائے تو نبیﷺسب سے زیادہ بہادر تھے ، اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

❄  جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:

أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِﷺ قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَفَلَ مَعَهُ، فَأَدْرَكَتْهُمُ القَائِلَةُ فِي وَادٍ كَثِيرِ العِضَاهِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺتَحْتَ سَمُرَةٍ وَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ، وَنِمْنَا نَوْمَةً، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدْعُونَا، وَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ:  إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ عَلَيَّ سَيْفِي، وَأَنَا نَائِمٌ، فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ صَلْتًا، فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ فَقُلْتُ: اللَّهُ، – ثَلاَثًا – وَلَمْ يُعَاقِبْهُ وَجَلَسَ

وہ نبی کریمﷺکے ساتھ نجد کے اطراف میں ایک غزوہ میں شریک تھے ۔ جب حضور اکرمﷺجہاد سے واپس ہوئے تو آپ کے ساتھ یہ بھی واپس ہوئے۔ راستے میں قیلولہ کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں ببول کے درخت بکثرت تھے۔ آنحضرتﷺنے اس وادی میں پڑاو کیا اور صحابہ پوری وادی میں (درخت کے سائے کے لیے) پھیل گئے۔ آپ ﷺنے بھی ایک ببول کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکادی ۔ ہم سب سوگئے تھے کہ آں حضرتﷺکے پکارنے کی آواز سنائی دی ، دیکھا گیا تو ایک بدوی آپﷺکے پاس تھا۔ آنحضرتﷺنے فرمایا کہ اس نے غفلت میں میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور میں سویا ہوا تھا ، جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے کہا مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ ! تین مرتبہ (میں نے اسی طرح کہا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی) حضور اکرم ﷺ نے اعرابی کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ آپ ﷺ بیٹھ گئے۔  ]بخاری: 2910[

❄  سیدنا انس﷜سے روایت ہے:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، قَالَ: وَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ المَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا، قَالَ: فَتَلَقَّاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ، وَهُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَهُ، فَقَالَ: «لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا»

رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ حسین‘ سب سے زیادہ سخی اورسب سے زیادہ بہادر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رات کے وقت اہل مدینہ گھبرا گئے تھے‘ کیونکہ ایک آواز سنائی دی تھی ۔ پھر ابو طلحہ﷜کے ایک گھوڑے پر جس کی پیٹھ ننگی تھی رسول کریم ﷺ حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے تنہا اطراف مدینہ میں سب سے آگے تشریف لے گئے۔ پھر آپ ﷺ واپس آ کر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملے تو تلوار آپ ﷺ کی گردن میں لٹک رہی تھی اور آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ‘ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ] بخاری: 3040 [

اگر حسن و جمال دیکھا جائے توآقائے کائناتﷺجیسا حسین اس دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا ، سیدنا انس بن مالک﷜کہتے ہیں:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ

”نبی کریمﷺسب سے زیادہ حسین ( خوبصورت ) تھے۔“  ] بخاری: 2820 [

سیدنا براء بن عازب﷜کہتے ہیں:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْبُوعًا بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ لَهُ شَعَرٌ يَبْلُغُ شَحْمَةَ أُذُنِهِ رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ لَمْ أَرَ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ

”رسول اللہﷺدرمیانہ قد کے تھے ۔ آپ کا سینہ بہت کشادہ اور کھلا ہوا تھا۔ آپﷺکے (سر کے) بال کانوں کی لوتک لٹکتے رہتے تھے ۔ میں نے آنحضرتﷺکو ایک مرتبہ ایک سرخ جوڑے میں دیکھا۔ میں نے آپ سے بڑھ کر حسین کسی کونہیں دیکھا تھا۔“ ] بخاری: 3551 [

سیدنا انس بن مالک﷜کہتے ہیں:

مَا مَسِسْتُ حَرِيرًا وَلَا دِيبَاجًا أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا شَمِمْتُ رِيحًا قَطُّ أَوْ عَرْفًا قَطُّ أَطْيَبَ مِنْ رِيحِ أَوْ عَرْفِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

”نہ تو نبی کریمﷺکی ہتھیلی سے زیادہ نزم ونازک کوئی حریر و دیباج میرے ہاتھوں نے کبھی چھوا اورنہ میں نے رسول اللہﷺکی خوشبو سے زیادہ بہتر اور پاکیزہ کوئی خوشبو یا عطر سونگھا۔“  ] بخاری: 3561 [

کسی شاعر نے نبیﷺکے بارے میں کیا خوب کہا ہے:

وأَحسنُ مِنكَ لم ترَ قطُّ عيني
وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ
خُلِقتَ مُبَرَّأً منْ كلِّ عَيبٍ
كأَنَّكَ قدْ خُلِقتَ كما تشاءُ​

”آپﷺسے زیادہ حسین میری آنکھ نے نہ دیکھا

آپﷺسے زیادہ جمیل کسی خاتون نے جنانہیں

آپﷺکی پیدائش ہرقسم کے عیوب سے اس طرح پاک ہے

کہ لگتاہے آپﷺاپنی خواہش کے مطابق پیداکئے گئے ہیں۔​“

محبتِ رسولﷺپر چند واقعات

صحابہ کرام﷢نے نبی مکرمﷺسے محبت کرکے ہمیں بتایا کہ محبت ایسے کی جاتی ہے ، چند نمونے پیشِ خدمت ہیں:

بٹن کھلے ہوتے:

  جناب معاویہ بن قرہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ  میں قبیلہ مزینہ کی جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ۔ ہم نے آپ کے ساتھ بیعت کی جبکہ آپ کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے ۔ کہتے ہیں کہ ہم نے بھی آپ سے بیعت کی ۔ پھر میں نے اپنا ہاتھ آپ کی قمیص کے دامن میں ڈال دیا اور مہر نبوت کو چھوا ۔ عروہ کہتے ہیں:

فَمَا رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ وَلَا ابْنَهُ قَطُّ إِلَّا مُطْلِقَيْ أَزْرَارِهِمَا فِي شِتَاءٍ وَلَا حَرٍّ وَلَا يُزَرِّرَانِ أَزْرَارَهُمَا أَبَدًا

”بعد میں نے معاویہ اور ان کے صاحبزادے کو جب بھی دیکھا سردی ہوتی یا گرمی ان کی قمیصوں کے بٹن کھلے ہوئے ہوتے اور وہ انہیں کبھی بند نہ کرتے تھے۔“ [ابوداؤد: 4082 صححہ الالبانی]

اس حدیث کے تحت سنن ابی داؤد کے شارح لکھتے ہیں:

1۔  بٹن کھے رکھنا اگر بطور تواضع اور اتباع نبیﷺہو تو مستحب اور باعث اجر ہے مگر ہمارے ہاں بعض علاقوں میں  یہ عمل بطور تکبربھی ہوتا ہے جس میں یہ لوگ ابنا گریبان بھی کھلا رکھتے ہیں ،لہذاان کی مشابہت سے بچنا ضروری ہے ۔

2۔ صحابہ کرام﷢رسولﷺکی عادات کو بھی اپنے عمل کا حصہ بنا لیتے تھے جو یقینامحبت کا اظہار ہوتا تھا۔

جو آپ کو ناپسند ہے وہ مجھے بھی ناپسند ہے۔

سیدناابو ایوب انصاری ﷜ کہتے ہیں :

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِطَعَامٍ أَكَلَ مِنْهُ وَبَعَثَ بِفَضْلِهِ إِلَيَّ وَإِنَّهُ بَعَثَ إِلَيَّ يَوْمًا بِفَضْلَةٍ لَمْ يَأْكُلْ مِنْهَا لِأَنَّ فِيهَا ثُومًا فَسَأَلْتُهُ أَحَرَامٌ هُوَ قَالَ لَا وَلَكِنِّي أَكْرَهُهُ مِنْ أَجْلِ رِيحِهِ قَالَ فَإِنِّي أَكْرَهُ مَا كَرِهْتَ

”جب رسول اللہ  ﷺ  کے پاس کو ئی کھا نا لا یا جا تا تو آپ اس میں سے تناول فرماتے اور جو بچ جا تا اسے میرے پاس بھیج دیتے ایک دن آپ نے میرے پاس بچا ہوا کھا نا بھیجا جس میں سے آپ نے خود کچھ نہیں کھا یا تھا کیونکہ  اس میں (کچا)لہسن تھا میں نے آپﷺ سے پو چھا : کیا یہ حرام ہے ؟ آپ نے فرما یا :”نہیں لیکن میں اس کی بد بو کی وجہ سے اسے ناپسند کرتا ہوں ۔”میں نے عرض کی: جو آپ کو ناپسند ہے وہ مجھے بھی ناپسند ہے۔“  [صحیح مسلم: 5356]

مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ۔۔۔:

جب کفارِ مکہ نے سیدنا خبیب بن عدی﷜کو سولی پر چڑھایا اور تیر برسانے لگے تو کسی نے آواز لگائی: ”خبیب! اب تو دل کرتا ہو گا کہ کاش میری جگہ محمد (ﷺ) ہوتا!“ خبیب نے جواب دیا : ”عظمتوں والے رب کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ مجھے چبھنے والا کوئی کانٹا انہیں چبھ جائے۔“ [المعجم الكبير للطبراني : ٥٢٨٤، والقصة رواها البخاري]

مجھے بدلہ دیجئے:

سیدنا اسید بن حضیرانصاری﷜کہتے ہیں:

بَيْنَمَا هُوَ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ وَكَانَ فِيهِ مِزَاحٌ بَيْنَا يُضْحِكُهُمْ فَطَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَاصِرَتِهِ بِعُودٍ فَقَالَ أَصْبِرْنِي فَقَالَ اصْطَبِرْ قَالَ إِنَّ عَلَيْكَ قَمِيصًا وَلَيْسَ عَلَيَّ قَمِيصٌ فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَمِيصِهِ فَاحْتَضَنَهُ وَجَعَلَ يُقَبِّلُ كَشْحَهُ قَالَ إِنَّمَا أَرَدْتُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ

”وہ ایک دفعہ اپنی قوم سے باتیں کر رہے تھے۔ مزاحیہ آدمی تھے اور انہیں ہنسا رہے تھے کہ نبی کریمﷺنے ان کی کوکھ میں ایک لکڑی چبھو دی ۔ تو انہوں نے (اسید بن حضیر نے) کہا : مجھے بدلہ دیجئیے۔ آپﷺنے فرمایا ” لے لو۔ “ انہوں نے کہا : آپ پر تو قمیص ہے اور مجھ پر قمیص نہیں تھی۔ تو نبی کریم ﷺ نے اپنی قمیص اوپر کر دی۔ تو اسید﷜ نے آپ ﷺ کو اپنے بازؤوں میں لے لیا اور آپ ﷺ کے پہلو پر بوسے دینے لگے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! میری یہی نیت تھی۔“ [ابوداؤد: 5224 صححہ الالبانی]

کدّو سے محبت:

سیدنا انس﷜بیان کرتے ہیں:

إِنَّ خَيَّاطًا دَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَهُ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فَذَهَبْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ذَلِكَ الطَّعَامِ فَقَرَّبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزًا وَمَرَقًا فِيهِ دُبَّاءٌ وَقَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوَالَيْ الْقَصْعَةِ قَالَ فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ مِنْ يَوْمِئِذٍ

ایک درزی نے رسول اللہﷺکو کھانے پر بلایا۔ انس بن مالک﷜نے کہا میں بھی اس دعوت میں رسول اللہﷺکے ساتھ گیا۔ اس درزی نے روٹی اور شوربا جس میں کدو اور بھنا ہوا گوشت تھا، رسول اللہﷺکے سامنے پیش کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺکدو کے ٹکڑے پیالے میں تلاش کر رہے تھے۔ اسی دن سے میں بھی برابر کدو کو پسند کرتا ہوں۔ [صحیح بخاری: 2092]

جنت میں آپ کا ساتھ چاہئے:

سیدنا ربیعہ بن کعب (بن مالک) اسلمی﷜ کہتے ہیں:

كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي: «سَلْ» فَقُلْتُ: أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ. قَالَ: «أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ» قُلْتُ: هُوَ ذَاكَ. قَالَ: «فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ

ترجمہ : حضرت ربیعہ بن کعب (بن مالک) اسلمی﷜ نے کہا: میں (خدمت کے لیے) رسول اللہﷺ کے ساتھ (صفہ میں آپ کے قریب) رات گزارا کرتا تھا، (جب آپ تہجد کے لیے اٹھتے تو) میں وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ (ایک مرتبہ) آپ نے مجھے فرمایا: ’’ (کچھ) مانگو۔‘‘ تو میں نے عرض کی: میں آپ سے یہ چاہتا ہوں کہ جنت میں بھی آپ کی رفاقت نصیب ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’یا اس کے سوا کچھ اور؟‘‘ میں نے عرض کی: بس یہی۔ تو آپ ﷺ  نے فرمایا: ’’تم اپنے معاملے میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔‘‘  [مسلم: 1094]

اے امیر المؤمنین! آپ کس بات پر ہنسے ہیں۔۔؟:

جناب علی بن ربیعہ کہتے ہیں:

شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِي اللَّهُ عَنْهُ -وَأُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَهَا-، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الرِّكَابِ، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ-ثَلَاثَ مَرَّاتٍ-، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ -ثَلَاثَ مَرَّاتٍ-، ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي, فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقِيلَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَمَا فَعَلْتُ، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ؟ قَالَ: إِنَّ رَبَّكَ يَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ: اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرِي.

”میں سیدنا علی بن ابی طالب ﷜ کے ہاں حاضر تھا کہ سوار ہونے کے لیے آپ کے سامنے سواری لائی گئی ۔ آپ نے جب اپنا پاؤں رکاب میں ڈال لیا تو کہا : «بسم الله» پھر جب ٹھیک طرح سے اس پر بیٹھ گئے تو کہا : «الحمد الله» پھر کہا : « سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ » ” پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے تابع کیا اور ہم از خود اس کو اپنا تابع نہ بنا سکتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔ “ پھر کہا: «الحمدلله» تین بار ۔ پھر کہا : «الله اكبر» تین بار ۔ پھر کہا : « سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي, فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ » ” اے اﷲ ! تو پاک ہے میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے تو مجھے معاف فر دے ‘ بلاشبہ تیرے سوا اور کوئی نہیں جو گناہوں کو بخش سکے ۔ “ پھر آپ ہنسے۔ آپ سے کہا گیا : امیر المؤمنین ! آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا کہ آپ ﷺ نے ایسے ہی کیا تھا جیسے کہ میں نے کیا ہے اور آپ ﷺ ہنسے ( بھی ) تھے ‘ تو میں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا تھا: اے اﷲ کے رسول! آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ” بلاشبہ تیرے رب کو اپنے بندے پر تعجب آتا ہے جب وہ کہتا ہے (الٰہی !) میرے گناہ بخش دے ‘ بندہ جانتا ہے کہ تیرے سوا گناہوں کو کوئی بخش نہیں سکتا۔“

 [ابوداؤد: 2602 صححہ الالبانی]

 یہ لوگ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں:

ایک مسلمان اور مومن جتنا بھی گنہگار اور سیاہ کار ہو ، رسول اللہﷺسے اس کی محبت بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ رسول اللہﷺکے بارے میں بہت زیادہ جذباتی ہوتا ہے۔

اختر شیرانی اردو زبان کے بڑے شاعروں میں سے تھے، رومان اور شباب کے شاعر تھے اور بلانوش تھے۔ آغا شورش کاشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ایک بار عرب ہوٹل میں محفل جمی ہوئی تھی، اختر شیرانی مرحوم شراب کی دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اور ہوش قائم نہ رہا تھا، تمام بدن پر رعشہ طاری تھا حتیٰ کہ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے، ادھر ان کا شروع سے یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے۔ اس دوران مختلف شخصیات کے بارے میں ان سے دریافت کیا جاتا رہا اور وہ اپنے ذوق کے مطابق جواب دیتے رہے۔ اس موقع پر ایک نوجوان نے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوال کر دیا کہ آپ کا حضرت محمدﷺکے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس سے آگے آغا شورش کاشمیری کے قلم سے ہی ملاحظہ کیجئے:

’’اللہ اللہ! ایک شرابی، جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا۔ کہنے لگے، بدبخت! ایک عاصی سے سوال کرتا ہے۔ ایک سیہ رو سے پوچھتا ہے۔ ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟ تمام جسم کانپ رہا تھا، ایکا ایکی رونا شروع کیا گھگھی بندھ گئی۔ پھر فرمایا بدبخت! تم نے اس حال میں یہ نام کیوں لیا، تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی؟ گستاخ، بے ادب! باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار! اس شریر سوال پر توبہ کرو، میں تمہارا خبث باطن سمجھتا ہوں۔ خود قہر و غضب کی تصویر ہوگئے، اس نوجوان کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس نے بات کو موڑنا چاہا مگر اختر کہاں سنتے تھے، اسے مجلس سے اٹھوا دیا، پھر خود اٹھ کر چلے گئے۔ تمام رات روتے رہے، کہتے تھے کہ یہ لوگ اتنے نڈر ہوگئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنانا چاہتا ہے۔‘‘

محبتِ رسولﷺکے فوائد و ثمرات

نبی مکرمﷺکا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان کو شان ، عظمت اور بلندی سے نوازا ہے ، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم رسول اللہﷺسے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ، اس محبت کے چند فائدے ملاحظہ فرمائیں؛

1۔ لذّتِ ایمان کا حصول:

سیدنا انس﷜بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:

ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لاَ يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ، بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ، مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ

”جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا، ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوں اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور تیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے۔“ [صحیح بخاری: 21]

2۔ آخرت میں محبوب نبیﷺکا ساتھ:

سیدنا انس﷜بیان کرتے ہیں:

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى السَّاعَةُ قَالَ وَمَا أَعْدَدْتَ لِلسَّاعَةِ قَالَ حُبَّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ قَالَ فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ قَالَ أَنَسٌ فَمَا فَرِحْنَا بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَرَحًا أَشَدَّ مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ قَالَ أَنَسٌ فَأَنَا أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِأَعْمَالِهِمْ

”ایک شخص رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! قیامت کب ہو گی؟ آپ نے فرمایا: "تم نے اس کے لیے کیا تیار کیا ہے؟” اس نے کہا: اللہ اور اس کے رسولﷺکی محبت۔ آپﷺنے فرمایا: "تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم کو محبت ہو گی۔” حضرت انس﷜نے کہا: اسلام قبول کرنے کے بعد ہمیں نبیﷺکے اس ارشاد سے بڑھ کر اور کسی بات سے اتنی خوشی نہیں ہوئی: "تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے تم کو محبت ہو گی۔” حضرت انس﷜نے کہا: میں اللہ اور اس کے رسولﷺاور ابوبکر اور عمر ﷠سے محبت کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں ان کے ساتھ ہوں گا، اگر چہ میں نے ان کی طرح عمل نہیں کیے۔ “  [صحیح مسلم: 6713]

❄❄❄❄❄