جشنِ سال نو اسلام کی نظر میں

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً ۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۲۰۸﴾ (البقرة:208)
’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو بلا شبہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ ‘‘
اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، اس کے افضل واشرف ہونے کے متعدد دلائل و اسباب ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں کہ اللہ تعالی کا انسان کو اپنے ہاتھوں سے تخلیق فرمانا ، فرشتوں سے سجدہ کروانا اور عقل سے نوازنا ۔ عقل انسان میں ایک ایسی صفت، اپنی قوت اور ایسا جوہر ہے کہ جو اسے دیگر تمام مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے، یوں تو دیگر جاندار مخلوقات کو بھی اللہ تعالی نے قمل سے نواز رکھا ہے مگر ان کی عقل ان کی ضروریات زندگی اور ان کی رغبات وخواہشات تک محدود ہے۔ جانوروں کو اپنے بقا اور اپنے دفاع کے لیے اور رزق کی تلاش کے لیے عقل اور دیگر قوتیں حاصل ہیں، اور ان میں وہ بسا اوقات انسان سے کہیں زیاد و قوت و طاقت، عقل وفہم اور استعداد و صلاحیت رکھتے ہیں۔
مثلاً انہیں خوب معلوم ہے کہ رزق کہاں سے حاصل کرنا ہے، پرندے سردیوں کے موسم میں گرم علاقوں کی طرف اور گرمیوں کے موسم میں سرد علاقوں کی طرف سفر کرتے ہیں اور ہزاروں میل لمبا سفر کرتے ہیں، مگر بغیر کسی رہنمائی کے، بغیر کسی نقشہ اور بغیر کسی GPS کے سید ھے اس جگہ جا کر گھونسلہ بناتے ہیں جہاں گزشتہ موسم میں ڈیرے ڈالے تھے، ان کا سفر عموماً رات کو ہوتا ہے پھر کہیں بادل ہوتے ہیں، کہیں دھند ہوتی ہے، مگر وہ راستہ نہیں بھولتے، لیکن انسان چند میل کا سفر بغیر رہنمائی کے نہیں کر سکتا۔ اسی طرح بعض جانوروں کو انسان کے مقابلے میں حیران کن حد تک جسمانی قوت حاصل ہوتی ہے، جیسے کبوتر اور باز وغیرہ انسان سے آٹھ گنا زیادہ دور تک دیکھ سکتے ہیں اور چیونٹی اپنے جسم سے دس گناہ زیادہ وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے، جبکہ انسان اپنے جسم کے برابر بھی وزن نہیں اٹھا سکتا۔ اسی طرح بعض دوسرے جانوروں کو بعض دوسری صلاحیتیں بھی حاصل ہیں، مگر ان کی عقل اور دوسری صلاحیتوں کا دائرہ کار محدود ہے۔
جبکہ انسان اپنی ضروریات زندگی سے باہر بھی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ حالات و واقعات کا تجزیہ وتحلیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ مخلوقات کی ماہیت جاننے اور کیوں اور کیسے کا جواب جاننے کے لیے غور و فکر کرتا ہے اور عقل کو استعمال میں لاتا ہے، سیب اگر درخت سے گرتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ سیب اوپر سے نیچے کی طرف ہی کیوں گرتا ہے نیچے سے اوپر کی طرف کیوں نہیں جاتا اگر جانور صرف اتنا سوچتا ہے کہ یہ اس کے کھانے کی چیز ہے یا نہیں۔
تو انسان کو دیگر مخلوقات پر جن وجوہات کی بناء پر برتری اور فوقیت اور خاص امتیاز حاصل ہے ان میں سے ایک عقل بھی ہے، عقل انسان کا ایک قیمتی اثاثہ اور متاع گراں قدر ہے، اس کے ذریعے وہ سمندر کی گہرائیوں میں اتر کر لعل و گہر ڈھونڈ کے لاتا ہے اور فضاؤں میں اڑتا ہے۔ مگر ان تمام صلاحیتوں کے باوجود انسان کو اس دنیا میں زندگی گزارنے ہی نہیں بلکہ اسے با مقصد اور بامراد بنانے کے لیے ہدایت و رہنمائی کی ضرورت ہے، صرف عقل پر انحصار نہیں کیا جا سکتا، اور وہ ہدایت و رہنمائی وحی الہی کی صورت میں ہے۔
عقل اور وحی الہی کی مثال آنکھ اور روشنی کی ہے کہ آنکھ کی حیثیت اور اس کی افادیت مسلم ہے، صحیح سلامت ہونے کی صورت میں آنکھ اشیاء کو ان کی اصلی حالت میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، مگر اس کے لیے روشنی کا ہونا بھی ضروری ہے وہ اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتی۔ انسان کو جس قدر بھی عقلی حاصل ہے، وہ اس سے دنیا کی سہولتیں اور فوائد تو حاصل کر سکتا ہے مگر بخیر و عافیت اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے دنیا میں کسی طرح زندگی گزارنا ہے، عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔
چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں بھیجتے ہوئے ہدایت ورہنمائی کا بھی وعدہ فرمایا جس کی انسان کو دنیا میں ضرورت ہے۔
فرمايا:
﴿قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا﴾
’’ہم نے کیا۔ تم سب یہاں سے اتر جاؤ‘‘
﴿فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝﴾ (البقرہ:38)
’’پھر میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں جو اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم سب کے سب یہاں سے اتر جاؤ تو اس کے مخاطبین کون ہیں؟
اس کے مخاطبین آدم و حواء علیما السلام اور تمام انسان ہیں۔ اصل خطاب تو آدم و حوا علیہما السلام اور ابلیس سے ہی ہے۔ مگر چونکہ ہم لوگ بھی آدم علیہ السلام کی پشت میں ہی تھے اس لیے معناً ہمیں بھی مخاطب کیا گیا، جیسا کہ فرشتوں سے سجدہ کرواتے وقت بھی آدم علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ہم بھی مراد تھے جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ﴾(الاعراف: 11)
’’ہم نے تم سب کی تخلیق فرمائی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔‘‘
تو معنی یہ ہوا کہ فرشتوں کو جو حکم دیا گیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں تو اس سے مراد نوع انسانی ہے، اور آدم علیہ السلام ان کے نمائندہ ہیں۔
تو انسان عقل کی تمام تر خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوجود دنیا میں درست سمت، امن و امان والی اور کامیابی و کامرانی والی زندگی گزارنے کے لیے اس خصوصی ہدایت و رہنمائی کا محتاج ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا ہم اسی ہدایت و رہنمائی کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں کہ جو اللہ تعالی نے بھیجی ہے یا اپنی عقل، اپنی خواہشات اور اپنے جذبات کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔
تو حقیقت یہ ہے اور جیسا کہ ہم سب کا مشاہدہ ہے، ہم اپنے گرد و پیش اور اپنے ماحول کو دیکھتے ہیں، اپنے گھروں اور بازاروں کو دیکھتے ہیں، اپنے سکولوں اور کالجوں کو دیکھتے ہیں۔ اپنے صحافتی اداروں اور ایوانوں کو دیکھتے ہیں، اپنے لین دین اور تجارت کو دیکھتے ہیں، اپنی رشتہ داریوں اور تعلقات کو دیکھتے ہیں اور اپنی خوشی اورغمی کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ہم اس ہدایت سے کوسوں دور ہیں۔
یہ جاننے کے لیے کہ کوئی کس طرح کی زندگی گزار رہا ہے قرآن پاک نے اک قاعدہ بیان فرما دیا ہے، کہ زندگی دو ہی طرح کی ہے یا ہدایت کے مطابق یا اپنی خواہشات کے مطابق، تیسری کوئی صورت، کوئی حالت اور کوئی راستہ نہیں ہے، چاہے کتنا ہی چونکہ چنانچہ کہہ لیں، حیلے اور بہانے گھڑ لیں حقیقت یہی رہے گی ۔ فرمایا:
﴿فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ ؕ﴾ (القصص:50)
’’ اگر یہ آپ کی بات نہیں مانتے تو اے پیغمبر سمجھ لیں کہ یہ صرف اپنی خواہشات کے تابعداری کر رہے ہیں‘‘
﴿وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًی مِّنَ اللّٰهِ ؕ﴾ (القصص:50)
’’اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مقابل اپنی خواہش کی پیروی کرے۔‘‘
زندگی ہدایت کے مطابق گزارنے کا مطلب ایک ایک لمحہ ہدایت کے مطابق گزارنا ہے، سونا جاگنا ، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، لین دین، کاروبار، معاملات ، شادی بیاہ، خوشی غمی یعنی ہر چیز ہدایت کے مطابق ہو۔
ان بہت سے معاملات میں جو ہم ہدایت کے برعکس اپنی خواہشات کے مطابق گزارتے ہیں اک تہوار منانا بھی ہے۔
لوگوں نے اپنے اپنے خیالات و نظریات کے مطابق اپنی خوشی اور مسرت کے اعتبار کے لیے بہت سے تہوار مقرر کر رکھے ہیں ان تہواروں کو منانے کا انداز بھی اک خاص طرز کا اپنا رکھا ہے۔
انہی تہواروں میں ایک تہوار سال نو کا ہے۔ سال نو کے موقع پر بہت سی قومیں خوشی مناتی ہیں ، جس میں اچھل کود، ہلا غلا، شور شرابا اور بہت سے بے راہ روی کے کام کرتے ہیں۔
جہاں تک سال نو کے منانے کے انداز کی بات ہے تو اس پر تو کسی تبصرے کی ضرورت ہی نہیں کہ کوئی بھی سلیم الفطرت انسان اس کو پسند نہیں کرتا۔
مگر جہاں تک سال تو منانے کا تعلق ہے یہ بات اگر ان قوموں کے حوالے سے ہو کہ مجن پر اللہ کا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے ، یا جو بت پرستی یا صورت پرستی میں مبتلا ہیں تو پھر کوئی اچنپے کی بات نہیں۔
مگر وہ قوم کہ جس کے فرائض منصبی میں لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے، اور اسے منتخب امت قرار دیا گیا ہے۔
﴿كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ (ال عمران:110)
’’تم کا ئنات کی سب سے بہترین امت ہو جسے لوگوں کی رہنمائی کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘
وہ قوم اگر ان بھٹکی ہوئی قوموں کے ساتھ بھٹک جائے، ان کے ساتھ ان کی جاہلانہ اور احمقانہ خوشیوں میں شریک ہو جائے، ان کے ساتھ گانے اور ناچنے لگ جائے اور اچھل کود شروع کر دے تو پھریقینًا افسوس بھی ہوتا ہے اور شرمندگی بھی۔ اور مزید برآں ایسی خوشیاں اور ایسے تہوار جہاں ہدایت الہی کے سراسر منافی اور مخالف ہوتے ہیں وہاں عقل و دانش بھی ان کا منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔
سال نو کی آمد کسی انسان کے لیے دین کے بغیر کسی طرح خوشی کا باعث ہو سکتی ہے، کوئی مسلمان اسے کسی طرح Justify کر سکتا ہے، بجا اور روا ثابت کر سکتا ہے، سمجھ نہیں آتی۔
حدیث میں ہے کہ:
((خَيْرُ النَّاسِ مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلهُ))
’’سب سے بہتر آدمی وہ ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھے ہوں ۔‘‘
((وَشَرُّ النَّاسِ مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَسَاءَ عَمَلَهُ)).(ترمذی:2329)
’’اور سب سے برا آدمی وہ ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برے ہوں ۔‘‘
اب جو شخص بدعت کا ارتکاب کر کے اور ناچ ناچ کے خوشیاں منا رہا ہو کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کے عمل اچھے ہیں ؟
اور پھر جس کے عمل واقعتا اچھے ہوں اسے دل میں اچھے عمل کی توفیق پر اگر کوئی مسرت ہو بھی رہی ہو تو دوسری طرف اسے قبولیت کی فکر دامن گیر ہو جاتی ہے اسے اچھل کو دکہاں سوجھتی ہے۔
اور پھر مسلمانوں کے تو صرف دو ہی تہوار ہیں اور ان کے منانے کے انداز بھی آپ کو معلوم ہے کہ تشکر کے طور پر ہوتے ہیں اور عبادت کی صورت میں ہوتے ہیں۔
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((قَدِمَ رَسُولُ اللهﷺ الْمَدِيْنَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُوْنَ فِيْهِمَا))
’’رسول اللہ ﷺمدینہ تشریف لائے اور ان لوگوں کے ہاں دو دن تھے کہ وہ ان میں کھیل کو د کیا کرتے تھے ۔‘‘
((فَقَالَ: مَا هٰذَانِ الْيَوْمَانِ))
’’آپ سے ہم نے پوچھا یہ دو دن کیا ہیں ۔‘‘
((قَالُوا كُنَّا نَلْعَبُ فِيْهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ))
’’انہوں نے کہا کہ ہم دور جاہلیت میں ان دنوں میں کھیل کو د کیا کرتے تھے۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ: إِنَّ الله تَعَالٰى قَدْ اَبْدَلَكُم بِهِمَا خيرًا مِّنْهُمَا))
’’تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی نے تمہیں ان کے بدلے میں ان سے اچھے دن دیے ہیں ۔‘‘
((يَوْمَ الْأَضْحٰى وَيَوْمَ الْفِطْر))(ابوداؤد:1135))
’’قربانی کا دن اور فطر کا دن ۔‘‘
آپ غور کریں کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کر دہ تہواروں کو باقی تہواروں سے بدل دیا گیا ہے اور وہ ان سے بہتر بھی ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ عقتل اگر دین کے تابع نہ ہو، وحی الہی کے مطابق نہ ہو تو اس میں کجی پیدا ہو جاتی ہے، پھر نہ صرف یہ کہ وہ کام نہیں کرتی بلکہ تباہی مچاتی ہے، آدمی اگر خوشبو اور بدبو میں فرق نہ کر سکے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آدمی بیمار ہے، اس کی قوت شامہ کام نہیں کر رہی، لیکن اگر بدبو کو خوشبو سمجھنے لگ جائے تو پھر اس کا مطلب ہوگا کہ خوشبو اور بدید پر کھنے کا معیار ہی الٹ گیا ہے۔
کوئی مسلمان اچھے اور برے میں، صحیح اور غلط میں، حیا اور بے حیائی میں، دین اور بے دینی میں فرق نہ کر سکے بلکہ بے دینی اور بے حیائی کی باتوں پر کمپرومائز کرنے لگ جائے اور انہیں جسٹیفائی کرنے لگ جائے تو پھر اس سے بڑھ کر تباہی کیا ہوگی۔ جب انسان دین کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو پھر اس کی سوچ ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔
اب دیکھئے سال نو کے موقع پر سوچنے کی بات تو یہ ہو سکتی ہے کہ گزشتہ سال ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ نئے سال کی آمد پر آدمی کو فکر تو یہ ہونی چاہیے کہ عمر مقررہ سے ایک سال کم ہو گیا، چہ جائیکہ آدمی اس پر خوش ہو۔ لیکن یہ مگر اس لیے پیدا نہیں ہوتی کہ آخرت کی فکر نہیں ہے، حساب کی فکر نہیں ہے کہ گزشتہ سالوں میں کیے گئے اعمال کا حساب دینا ہے۔
یہ حقیقت اس کی نظروں سے اوجھل ہے جس میں آپ ﷺنے فرمایا:
((لَا تَزُوْلُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتّٰى يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ))
’’قیامت کے دن انسان کے قدم (بارگا و الہی میں ) برابر جمے رہیں گے، یہاں تک کہ چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے ۔‘‘
((عَنْ عُمُرِهِ فِيْمَا أَفْنَاه))
’’اس کی عمر کے متعلق کہ اس نے اسے کن کاموں میں ختم کیا ۔‘‘
((وَعَنْ شَبَابِهِ فِيْمَا أَبْلَاهُ))
’’اس کی جوانی کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں ضائع کیا ۔‘‘
((وَعَنْ مَالِهِ مِنْ اَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيْمَا اَنْفَقَهُ))
’’اس کے مال کے متعلق کہ اس نے کہاں سے کھایا اور اسے کن مصارف میں خرچ کیا۔‘‘
((وَعَنْ عِلمِهِ مِاذِا عَمِلَ فِيْهِ)) (صحيح الترغيب والترهيب، ج:3، ص 320)
’’اور اپنے علم کے مطاق کتنا عمل کیا۔‘‘
اگر ان باتوں پر آدمی کا دل سے یقین ہو تو کیا وہ سال نو منا سکتا ہے اور اس پر اچھل کود کر سکتا ہے، ایسا کوئی ٹیڑھی سوچ رکھنے والا ہی کر سکتا ہے آخرت پر یقین رکھنے والا شخص نہیں کر سکتا۔ عقل سلیم رکھنے والا کوئی شخص اگر دنیا کی حقیقت پر غور کر لے، اور اپنی عمر کی حقیقت کو سمجھ لے تو اسے یہ اٹکھیلیاں سوجھتی ہی نہیں ۔
جیسا کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((الدُّنْيَا ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ))
’’دنیا تین دن کی ہے۔‘‘
((أَمَّا أَمْسِ فَقَدْ ذَهَبَ بِمَا فِيْهِ))
’’ایک گزرا ہوا دن ہے اس میں جو کیا وہ گزر گیا ۔‘‘
((وأما غَدًا فَلَعَلَّكَ لَا تُدْرِكْهُ))
’’اور ایک آئندہ آنے والا دن ہے شاید کہ وہ تم دیکھ ہی نہ سکو۔‘‘
((وأما الْيَوْمَ فَلَكَ فَاعْمَلْ فِيهِ)) (الزهد الكبير للبيهقي، ص:196، رقم:477)
’’اور آج کا دن وہ تمہارے لیے ہے، پس اس میں عمل کرلو۔‘‘
لہٰذا اگر صرف اپنے آج کی فکر اور قدر کرلی جائے تو اس میں ماضی بھی کور ہو جاتا اور وہ انسان کو مستقبل کی فکر سے بھی بے نیاز کر دیتا ہے۔
((قال ابن مسعود ما نَدِمْتُ عَلٰى غَرَبَتْ شَمْسُهُ، نَقَصَ فِيْهِ أَجَلِى وَلَمْ يَزْدَدْ فِيْهِ عَمَلِي)) (قيمة الزمن عند العلماء للشيخ أبي غُدّة ، ص:281)
’’سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: مجھے کسی چیز پر اس دن سے زیادہ پشیمانی نہیں ہوتی جس کا سورج غروب ہو جائے، اس میں میری عمر تو کم ہو جائے مگر میرا عمل زیادہ نہ ہوا ہو۔‘‘
اور حقیقت یہ ہے کہ یہی دانشمندی ہے، یہی اعتدال اور یہی نجات کی راہ ہے، ورنہ ڈر یہ ہے کہ کہیں قیامت کے دن ہمارا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جائے جن کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ۙ۬ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَةٍ ؕ كَذٰلِكَ كَانُوْا یُؤْفَكُوْنَ۝﴾ (الروم:55)
’’اور قیامت کے دن مجرم لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ وہ ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے ہیں اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے۔‘‘
……………