تزکیہ نفس

﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۝۹
وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۝﴾(الشمس:9،10)
’’فلاح پا گیا جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا جس نے اس کو آلودہ کر لیا۔‘‘
پاکیزگی، طہارت اور صفائی ستھرائی کی ضرورت واہمیت سے سب واقف ہیں، اور نجاست، غلاظت، گندگی اور ناپاکی کی کراہت و نا پسندیدگی بھی سب پر عیاں ہے۔ فطرت سلیمہ پاکیزگی اور طہارت کو پسند کرتی ہے اور نجاست و پلیدی سے اسے گھن آتی ہے، مگر جب کوئی کس گندگی اور غلاظت میں لتھڑ پتھڑ جاتا اور لت پت ہو جاتا ہے تو پھر وہ نجاست سے مانوس ہو جاتا ہے، اسے کراہت ونفرت نہیں ہوتی۔ طہارت و پاکیزگی کا یہ تصور انسان کی ظاہری صفائی ستھرائی کے حوالے سے ہے، جیسے۔ جسم اور لباس کی صفائی، گھر کی صفائی ستھرائی ، اور اپنے گردو پویش اور قرب وجوار کی صفائی و غیر و مگر ایک صفائی اور طہارت و پاکیزگی اور بھی ہے جس کا تعلق ایک غیر مرئی چیز سے ہے اور وہ ظاہری صفائی ستھرائی سے زیادہ اہم اور ضروری ہے اور وہ ہے نفس اور روح کی صفائی اور پاکیزگی۔
ظاہری صفائی اور پاکیزگی نہ ہونے کا نقصان زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ آدمی فوت ہو جائے ، مگر اس کے فوت ہونے کے ساتھ صفائی کا مسئلہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ مگر روح اور نفس کی صفائی نہ ہونے کا مسئلہ آدمی کے فوت ہونے کے ساتھ ختم نہیں ہوتا بلکہ شروع ہوتا ہے یعنی اس کے نتائج شروع ہوتے ہیں۔ اگر چہ روح کی صفائی نہ ہونے کے نقصانات کا انسان کو زندگی میں بھی کئی ایک اعتبار سے اور کئی ایک صورتوں میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس لیے سب سے پہلے ہم روح کی پاکیزگی اور طہارت کی ضرورت واہمیت کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
روح کی پاکیزگی کے لیے قرآن وحدیث میں ایک مخصوص اصطلاح استعمال کی گئی ہے، جسے تزکیہ نفس کہتے ہیں، قرآن پاک میں تزکیہ نفس کی اہمیت یوں بیان کی گئی ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۝وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۝﴾ (الشمس:9، 10)
’’ فلاح پا گیا وہ جس نے اس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کرلیا۔‘‘
آپ نے ملاحظہ کیا کہ تزکیہ نفس سے متعلق اللہ تعالی نے ایک بہت بڑی حقیقت واضح اور دوٹوک الفاظ میں بیان فرمادی ہے۔ اور اس کی اہمیت کا اندازہ کریں کہ یہ بات اللہ تعالی نے گیارہ قسمیں کھانے کے بعد بیان فرمائی:
﴿وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا۪ۙ۝۱﴾
’’قسم سے سورج کی اور اس کی دھوپ کی ۔‘‘(الشمس:1)
﴿وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا۪ۙ۝۲﴾
’’اور قسم ہے چاند کی جبکہ وہ اس کے پیچھے آتا ہے۔‘‘
﴿وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا۪ۙ۝۳﴾
’’اور قسم ہے دن کی جبکہ وہ سورج کو نمایاں کر دیتا ہے ۔‘‘
﴿وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىهَا۪ۙ۝۴﴾
’’اور قسم ہے رات کی جبکہ وہ سورج کو ڈھانک لیتی ہے۔‘‘
﴿وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىهَا۪ۙ۝۵﴾
’’قسم ہے آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اسے قائم کیا ۔‘‘
﴿وَ الْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا۪ۙ۝۶﴾
’’اور قسم ہے زمین کی اور اس ذات کی جس نے اسے بچھایا ۔‘‘
﴿وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا۪ۙ۝۷﴾
’’اور قسم ہے نفس انسانی کی اور اس ذات کی جس نے اسے ہموار کیا ۔‘‘
﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۝۸﴾
’’پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی ۔‘‘
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۝ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۝﴾ (الشمس:1 تا 10)
’’یقینًا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا، آلودہ کر دیا۔‘‘
ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ قرآن پاک کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف با معنی اور یا مقصد ہے، جو محض کسی خوبصورتی کے لیے کلام میں رنگ بھرنے اور وزن درست کرنے کے لیے نہیں بولا گیا ہوتا بلکہ کسی نہ کسی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے، کسی بات کی تنبیہ کے لیے، تذکیر و موعظت کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے لایا گیا ہوتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی نے یہ بیان کرنے سے پہلے کہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا وہ کامیاب ہے اور جس نے اسے آلودہ کر لیا وہ نامراد ہے۔ یہ حقیقت بھی بیان فرما دی کہ﴿﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۝۸﴾ ﴾انسان کو اس کے نفس کی بدی اور اس کی پر ہیز گاری اس پر الہام کر دی گئی ہے۔
یعنی ترکیہ نفس کے لیے خیر اور شر میں فرق و تمیز کرنا کوئی نہ سمجھ آنے والی بات نہیں ہے بلکہ نیکی اور بدی کے تصور کو غیر شعوری طور پر انسان کے دل و دماغ میں اتار دیا گیا ہے؟
﴿بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌۙ۝۱۴
وَّ لَوْ اَلْقٰى مَعَاذِیْرَهٗؕ۝﴾انسان اپنے آپ کو خوب جانتا ہے چاہے کتنی ہی معذر تیں کرے خحلے بہانے بنائے ۔‘‘
اور صرف انسان ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات کو ان کی حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے اس صلاحیت سے نواز دیا گیا ہے۔
﴿الَّذِیْۤ اَعْطٰی كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰی۝۵۰﴾ (طه:50)
’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی اور پھر اس کو راستہ بتایا ۔ ‘‘
یعنی دنیا کی ہر چیز کو کہ وہ جس کام کے لیے بھی بنتی ہے اس کی ساخت ، بناوٹ اور شکل و صورت بخشی اور پھر اس کے مطابق اس کو قوت و صلاحیت اور سنت و خاصیت سے نوازا، اور اس کی رہنمائی اس کی فطرت میں ودیعت کر دی جو اسے اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرنے کے لیے رہنمائی دیتی ہے۔
اس حقیقت کو بہت سی مثالوں کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔ مگر صرف ایک مثال عرض کروں گا جو پہلے بھی دو ایک بار عرض کر چکا ہوں کہ بلی جو اک جانور ہے، اسے اللہ تعالی نے صحیح اور غلط میں فرق و تمیز کرنے کی صلاحیت عطا کر رکھی ہے کہ اگر آپ اسے کھانے کے لیے کوئی چیز ڈالتے ہیں تو وہ آپ کے سامنے ہی کھانا شروع کر دے گی، بلا جھجک اور بلا خوف و خطر لیکن وہی بلی اگر آپ کے ہاتھ سے کچھ چھین کے لے جائے تو پھر وہ آپ کے سامنے اور آپ کے پاس نہیں بلکہ دور جا کر کھانے لگے گی کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس نے ایک غلط کام کیا ہے۔
تو جب کسی جانور کو بغیر ہدایت و رہنمائی کے نہیں چھوڑا گیا تو پھر انسان کو جو کہ اشرف المخلوقات ہے اسے کیو کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا انسان کو اس کی بدی اور اس کی نیکی الہام کر دی گئی ہے۔
﴿﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۝۸﴾ (الشمس:8)
تو ترکیہ نفس انسان کی دنیوی اور اخروی کامیابی کے لیے نہایت ہی اہم اور لازمی اور ضروری ہے۔
انسان کے لیے تزکیہ نفس کی ضرورت و اہمیت کو اک مثال کے ذریعے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان کی مثال ہونے کی ہی ہے، ہونا جب کان سے نکلتا ہے تو خاک آلود ہوتا ہے، پھرسے صاف ستھرا کیا جاتا ہے تو نظروں کو بھاتا ہے اور بازار میں قدر و قیمت پاتا ہے۔ سونا اگر چہ فی ذاتہ اک قیمتی دھات ہے مگر اسے قابل استعمال بنانے کے لیے صاف ستھرا کیا جاتا ہے، ایسے ہی انسان جو کہ فی نفسہ اشرف المخلوقات ہے، مگر پیدائشی اور فطری طور پر اس میں چند خامیاں، کوتا ہیاں اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ برائیوں کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ۔
اور اگر اس کے کمزور پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جائے ، ان کی اصلاح نہ کی جائے تو وہ اشرف المخلوقات کے درجے سے گر کر ﴿بَلْ هُمْ اَضَلُّ﴾ کے درجے پر آ جاتا ہے، یعنی جانوروں سے بھی بدترین جاتا ہے۔
مثلا: انسان کی خلقت اور ترکیب میں فطری طور پر چار صفات پائی جاتی ہے۔
(1) انسان میں درندوں کی کی صفات پائی جاتی ہیں ۔
(2) جانوروں کی کی صفات پائی جاتی ہیں ۔
(3) شیطانی صفات پائی جاتی ہیں۔
(4) اور ربانی صفات پائی جاتی ہیں۔
جب انسان پر صفت سَبُعِیَّت یعنی صفت درندگی کا غلبہ ہوتا ہے تو مار دھاڑ، چیر پھاڑ اور سب وشتم کرنے لگتا ہے وہ بغض اور دشمنی میں انتہاء کر دیتا ہے۔
اور جب اس پر صفت بہیمیت غالب آتی ہے تو وہ جانوروں کی ہی حرکات کرنے لگ جاتا ہے، جس میں بسیار خوری ، شدت حرص و لالچ و شہوت وغیرہ ہیں۔
مگر جانوروں کے اندر جو جانوروں کی صفات ہیں وہ جب کسی انسان کے اندر آتی ہیں تو زیادہ خطر ناک بن کر ظاہر ہوتی ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ جانور تو محض جانور ہوتا ہے اس میں چیزوں میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔ مگر انسان کو یہ خصوصیت حاصل ہے، وہ حیوانی خیالات میں جب عقل و دانش کی آمیزش کرتا ہے، تو پھر وہ حیلے، دھو کے مکر و فریب، اور مکاریاں اور عیاریاں کرنے لگتا ہے جو کہ شیطانی اوصاف ہیں۔
اسی طرح انسان کے اندر چوتھی چیز امر ربی کا وجود ہے، جس کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ﴾(الاسراء:85)
’’کہہ دیجیے کہ روح امر ربی ہے، میرے رب کے حکم سے ہے ۔‘‘
تو انسان کے اندر اس صفت کا وجود اسے تکبر ، غرور، نخوت اور فخر و مباحات پر ابھارتا ہے، علم و معرفت کا دعوی کرنے لگتا ہے۔ اور ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے
تو انسان کو اگر اس کی انہی صفات پر بغیر تہذیب و آراستگی اور بغیر اصلاح کے چھوڑ دیا جائے ، بغیر تزکیہ و تربیت کے چھوڑ دیا جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ انسان دنیا میں کیا تباہی و بربادی مچائے گا، اور کیا فتنہ و فساد پیدا کرے گا۔ لہٰذا قرآن وحدیث میں تزکیہ و تربیت کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی اور بہت تاکید کی گئی ہے۔
اندازہ کریں اللہ تعالی نے رسول کریم ﷺ کو مبعوث فرما کر احسان جتلاتے ہوئے، آپ ﷺ کی جن صفات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ﴿ویز کیھم﴾ کہ اللہ تعالی نے اہل ایمان پر احسان فرماتے ہوئے ان میں ایسا پیغمبر بھیجا ہے جو ان کا تزکیہ کرتا ہے۔
﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝﴾ (ال عمران:64)
’’بلا شبہ یقینًا اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں سے ایک رسول انہی میں سے بھیجا جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلا شبہ وہ اس سے پہلے یقینًا کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
اسی طرح متعدد احادیث میں بھی تزکیہ نفس کی ضرورت واہمیت بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
(ثَلَاٌث مَنْ فَعَلَهُنَّ فَقَدْ طَعِمَ طَعْمَ الإِيْمَان))
’’جس نے تین کام کیے اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔‘‘
((مَنْ عَبَدَ الله وحدَه، وَأَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا الله))
’’جس نے صرف اللہ کی عبادت کی ، اور اس عقیدہ و ایمان سے کی کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔‘‘
((وَاَعْطٰى زَكَاةَ مَالِهِ طِيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ رَافِدَةً عَلَيْهِ كُلَّ عَامٍ))
’’ہر سال دل کی خوشی سے اپنے مال کی زکاۃ ادا کرے، اس کا نفس زکاۃ ادا کرنے میں اس کی اعانت کرے۔‘‘
((وَلَا يُعْطِي الْهَرِمَةَ، وَلَا الدَّرِنَةَ، وَلَا الْمَرِيْضَةَ وَلَا الشَّرْطَ اللَّئِيْمَةَ، وَلٰكِنْ مِنْ وَسَطِ أموالِكُمْ ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَسْأَلُكُمْ خَيْره وَلَمْ يَأْمُرُكُمْ بِشَرِّهِ وَلٰكِنْ زَكَّى نَفْسَهُ))
’’بوڑھا، گندا، بیمار، گھٹیا مال نہ دے، بلکہ درمیانی قسم کا ہو کہ اللہ تعالی تم سے سب سے اچھا مال نہیں مانگتے اور نہ گھٹیا مال دینے کا حکم دیا ہے بلکہ اپنا تزکیہ کرے۔‘‘
((فَقَالَ رَجُلٌ، وَمَا تَزْكِيَةُ النفس؟))
’’ایک آدمی نے کہا۔ تزکیہ کس کیا ہے؟‘‘
((فَقَالَ: أَن يَعْلَمَ أَنَّ الله عز وجل مَعَهُ حَيْثُ كَان)) (ابو داؤد:1582، البيهقي، ج:4،95)
’’آپﷺ نے فرمایا کہ آدمی اس بات کو جان لے کہ وہ جہاں بھی ہوگا اللہ تعالی اس کے ساتھ ہے۔‘‘
یہ تو تھی قرآن وحدیث کی روشنی میں تزکیہ نفس کی ضرورت واہمیت۔
رہی بات کہ تزکیہ کیسے کیا جائے گا، تو یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے، اس کے کچھ مراحل اور درجات ہیں اس کا اک طریقہ کار ہے، اس کی شرائط اور لوازمات ہیں اس سلسلے میں چند باتیں محفوظ رکھنا ضروری ہیں۔
اپنے آپ کو سمجھنا، اپنے عیوب اور نقائص اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو سمجھنا کہ جب تک تشخیص نہیں ہوگی، اصلاح ممکن نہیں ۔
تزکیہ: بری صفات کو ختم کر کے اچھی صفات کو لانا ، آسان کام نہیں یہ کام انسان پر بہت گراں گزرتا ہے، انسان کا نفس چیختا اور چلاتا ہے، بالکل بچوں کی طرح ۔ اور کسی نے کیا خوب کیا ہے
وَالنَّفْسُ كَالطِفْلِ إِن تُهمِلْهُ شَبَّ عَلَى
حُبِّ الرَّضَاعِ وَإِن تُفْطِمْهُ يَنْفَطِمُ
’’نفس انسانی بچے کی طرح ہوتا ہے اگر آپ اسے اس کی حالت پر چھوڑے رکھیں تو دودھ کا عادی ہو جاتا ہے، لیکن اگر چھڑوا دیں تو چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
بچے کو دودھ تھیٹر وایا جائے تو روتا اور چلاتا ہے، گھر چند دن کے بعد وہ چھوڑے رکھنے کا عادی ہو جاتا ہے۔
تزکیہ کا مطلب نماز روزہ نہیں ہے اگر چہ یہ عبادات انسان کا تزکیہ کرنے میں استعمال ہوتی ہیں، مگر جب تک یہ تصور مضبوط نہیں ہوگا کہ اللہ تعالی دیکھ اور سن رہا ہے کوئی عمل کارگر نہیں ہوگا۔
اور تزکیہ کا مطلب چلّے کاٹنا نہیں ہے، اسلام ایک مکمل دین ہے اس میں خود ساختہ طریقوں کی ضرورت نہیں، اور نہ وہ اسلام کا حصہ بن سکتے ہیں، وہ یقینًا دین میں اضافہ ہی سمجھے جائیں گے۔
تزکیہ کسی معین کورس اور معین درجے کا نام نہیں بلکہ یہ سعی پیہم کا نام ہے اور جب انسان تزکیہ کی راہ پر چل پڑے تو پھر دوسرے خطر ناک مراحل شروع ہو جاتے ہیں۔ اور ان میں سے ایک اپنی ذات اور شخصیت کا تزکیہ کرنا ہے جو کہ خود ستائشی ہے، جبکہ مطلوب نفس کا تزکیہ ہے۔
یعنی ایک تزکیہ کا حکم ہے اور دوسرے تزکیہ سے منع کیا گیا ہے کہ وہ انسان کی ساری نیکیاں تباہ و بر باد کر کے رکھ دیتا ہے اور وہ تزکیہ ہے اپنے آپ کو نیک سمجھنے لگ جانا، اور اگر اس کے ساتھ دوسروں کو حقیر جاننا بھی شامل ہو جائے تو پھریقینًا سراسر تباہی ہے۔
شیطان کسی صورت پیچھا نہیں چھوڑتا۔
﴿فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ ؕ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی۠۝﴾ (النجم:32)
’’ سو تم اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہ (اللہ ) اسے زیادہ جاننے والا ہے جو اس سے ڈرتا ہے۔‘‘
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذ را بند قبا دیکھ
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ؕ وَ مَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ ؕ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰی مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۝﴾ (النور:21)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو اور جو کوئی شیطان کے قدموں کے پیچھے چلے گا تو بے شک وہ بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی ایک کبھی بھی پاک نہ رہتا اور لیکن اللہ پاک کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا سب جاکھ جاننے والا ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ انسان جو سرتا پا خطا کار ہے اسے دعوی پاکدامنی زیب نہیں دیتا، بلکہ عاجزی اور انکساری ہی حقیقت کے قریب تر ہے۔ اس سے اُس کی دانائی جھلکتی ہے، اور اس سے اس کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے، اور حقیقی کسرِ نفسی اس کی شخصیت کو محبوب و متوازن اور حقیقت پسند بناتی ہے۔ چنانچہ سلف صالحین رحمہم اللہ کے طرز عمل سے ہمیں اس کے بڑے خوبصورت نمونے ملتے ہیں۔ جیسا کہ بعض اپنی عاجزی اور انکساری کا یوں اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ
((إِنِّي لَأَجِدُ مِائَةَ خَصْلَةٍ مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ ، مَا أَعْلَمُ أَنَّ فِي نَفْسِي مِنْهَا وَاحِدَةٌ.))
’’میں خیر کی صفات و خصال میں سے (۱۰۰) سو خصلتیں جانتا ہوں، مگر میں نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی مجھ میں پائی جاتی ہے۔‘‘
اور ایک دوسرے یوں گویا ہوتے ہیں:
((لَوْ كَانَ لِلذُّنُوبِ رِيحٌ مَا قَدَرَ أَحَدٌ أَن يَجْلِسَ إِلَىِّ ..))
’’اگر گناہوں کی ہو ہوتی تو کوئی شخص میرے پاس بیٹھ نہ پاتا۔‘‘
…………..