شرم وحیا

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۝۹
وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۝﴾ (الشمس:9، 10)
’’یقینًا وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا۔ اور وہ شخص جس نے اسے آلودہ کر لیا وہ نا کام ہوا۔‘‘
اخلاق انسانی معاشرے کے لیے اک نہایت ہی اہم ، ضروری اور ناگز مری ضابطہ اور قاعدہ ہے، اخلاق انسان کو جینے کے سلیقے سکھاتے ہیں، زندگی گزارنے کے طریقے بتلاتے ہیں، عدل و انصاف اور امن وامان کا ماحول پیدا کرتے ہیں اور ایثار و قربانی کی ترغیب دیتے ہیں۔ اور اخلاق انسان کو ظلم و نا انصافی ، دھوکہ، فریب ، خود غرضی، بے حیائی، فحاشی اور بدکاری سے روکتے اور بچاتے ہیں، اور اخلاق انسان اور حیوان میں فرق و تمیز پیدا کرتے ہیں ۔
آپ نےیقینًا ملاحظہ کیا ہوگا کہ انسان اخلاق و آداب سے چاہے کتنا ہی بے نیاز اور بے پروا واقع کیوں نہ ہوا ہو اس میں شرم و حیاء کی کچھ نہ کچھ رمق ضرور موجود ہوتی ہے، جس کے سبب وہ بہت سے کام لوگوں کی موجودگی میں کرنے کی ہرگز جرأت نہیں کر پاتا، جبکہ اس کے برعکس حیوان تمام تر اخلاقی پابندیوں سے بے پروا اور شرم وحیاء سے بے نیاز ہو کر کسی کی موجودگی کا لحاظ کیے بغیر سر عام وہ کام کرنے میں قطعًا کوئی باک اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
چنانچہ انسان اور حیوان میں اس قدر واضح نمایاں اور بڑے فرق کی وجہ اخلاق ہی ہیں۔ لہٰذا اخلاق انسان اور حیوان میں فرق کرتے ہیں۔
اخلاق کی ضرورت کو تمام ادیان عالم تسلیم کرتے اور اسے لازم قرار دیتے ہیں، اگر چہ اسلام کے سوا دیگر ادیان و مذاہب کے نزدیک اخلاق محدود معنوں میں سمجھے جاتے ہیں۔ مگر اسلام میں اخلاق وسیع معنوں میں استعمال ہوتے ہیں بلکہ پورے دین کو مشتمل ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے، جس میں آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْاَخْلَاقِ))(البيهقي،ج:10، ص:191)
’’میں اخلاق کریمہ کی تکمیل اور اتمام کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘
تو اخلاق کریمہ انسان کی ایسی صفات حمیدہ میں جو اس کی زندگی کو منظم کرنے، خوش اسلوبی کے ساتھ اور امن وامان اورہم دردی اور خیر خواہی کے ساتھ گزارنے میں مدد دیتے ہیں۔ بلکہ گام زن کر دیتے ہیں ۔
اور تمام اخلاق کریمہ کا لب لباب اور خلاصہ جیسا کہ گزشتہ خطبہ جمعۃ المبارک میں عرض کیا گیا تھا حیاہ قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ آپﷺ کا فرمان ہے۔
((إِنَّ لِكُلِّ دِينِ خُلُقًا، وخُلُقُ الْإِسْلَامِ الحَيَاءُ.)) (ابن ماجة:4181)
’’ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے، اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔‘‘
حیا کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں گزشتہ جمعہ چند باتیں عرض کی تھیں، آج چند مزید باتیں جاننے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ
حیا کا معنی عمومًا یہ سمجھا جاتا ہے کہ حیا مند ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو خاموش طبع ہو، شرمیلا ہو، نظریں جھکائے بیٹھا رہتا ہو، فضول گفتگو سے اجتناب کرتا ہو، اور عورت ہو تو پردے میں رہنے والی ہو، حیا کا یہ مفہوم بھی اپنی جگہ درست ہے مگر حقیقت میں حیا کا لفظ اس سے وسیع تر معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
حیا شکر گزاری اور احسان مندی کا نام ہے، حیا سچ کا دامن تھامے رکھنے اور جھوٹ سے اجتناب کرنے کو کہتے ہیں۔ حیا عریاں لباس اور عریاں گفتگو سے پر چیز کو کہتے ہیں، حیا ناچنے گانے سے نفرت کرنے کو کہتے ہیں، حیا بری مجلسوں سے دور رہنے کا نام ہے، لفظ حیا اپنے اندر بہت وسیع معانی رکھتا ہے۔
کسی کی نیکی اور احسان کے جواب میں کم از کم اس کا احسان مند اور شکر گزار ہونا حیا کہلاتا ہے، اگر چہ کسی کے احسان کے بدلے میں اس سے بڑھ کر اچھائی کرنے کا حکم ہے؟
جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا۝﴾ (النساء:86)
’’ اور جب کوئی تمہیں تحیہ سلام پیش کرے تو تم اسے اس سے بہتر طریقے سے جواب دو، یا کم از کم اسی طرح، اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے ۔‘‘
یعنی اگر کوئی السلام علیکم کہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہا جائے ، اور اگر وہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمة اللہ و برکاتہ کہا جائے۔ یا کم از کم انہی الفاظ سے جواب دیا جائے۔
اسی طرح کسی کی نیکی اور احسان کا بدلہ اس سے بہتر طور سے دیا جانا چاہیے یا کم از کم اس جیسا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوه))
’’جو کوئی تم سے نیکی کرے، تو اس کو اس کا صلہ دو۔‘‘
((فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تَكَافِئُونَهُ فَادْعُوا لَهُ ، حَتّٰى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كافَأْتُموه)). (ابو داود:1972)
’’ اور اگر تم اس کا بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اس کے لیے دعا کر دو حتی کہ تم سمجھو کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے، حق ادا کر دیا ہے ۔‘‘
یعنی سرسری الفاظ میں دعا نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے اس کے لیے دعا کرو کہ تمہارا دل گواہی دے کہ تم نے احسان مندی کا حق ادا کر دیا ہے۔ اگر چہ ایک حدیث میں کسی کی نیکی کے جواب میں (جزاک الله خیرًا) کہنا بھی انتہاء درجے کا شکریہ ادا کرنا قراردیا گیا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ جَزَاكَ اللهُ خَيْرًا، فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنُاء))
’’جس کسی کے ساتھ نیکی کی جائے اور وہ نیکی کرنے والے کو جزاک اللہ خیرا کہیے تو اس نے شکریہ ادا کرنے میں انتہاء کر دی ۔‘‘
معنی یہ ہے کہ اس نے اس کی نیکی کا اعتراف کیا، مگر چونکہ وہ اس کا بدلہ چکانے کی استطاعت نہیں رکھتا، چنانچہ اس نے اس کی نیکی کا بدلہ اللہ تعالی کے سپرد کر دیا اور اللہ تعالی سے بہتر بدلہ اور جزاء تویقینًا کوئی نہیں دے سکتا، اس لیے فرمایا:
((فَقَدْ اَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ)) (ترمذی:2035)

’’اس نے شکریہ ادا کرنے میں انتہاء کر دی ۔‘‘
یہاں ایک مسئلہ قابل توجہ ہے، اس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، کیونکہ بہت سے فاعلین خیر، نیکی کرنے والے حضرات جنہیں اللہ تعالی نے نیکی کی توفیق دے رکھی ہے، اگر چہ ان کے خلوص میں شک نہیں کیا جا سکتا، مگر وہ لا علمی کی وجہ سے نیکی کا ایسا طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ نیکی کا اجر ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ نیکی کرنے والے حضرات نیکی کرتے وقت کہتے ہیں کہ بس ہمارے لیے دعا کر دینا۔
اس میں دو چیزیں ہیں: ایک تو یہ کہ انہوں نے جب دعا کا کہہ دیا تو گویا انہوں نے اپنی نیکی کا بدلہ مانگ لیا۔ وہ اپنے طور پر یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ نیکی کا بدلہ تو وہ ہوتا ہے جو اس جیسا ہو، اسی ویلیو کا ہو، مادی ہو، یعنی چیز کے بدلے میں چیز، پیسے کے بدلے میں پیسے، اور دعا تو بس دعا ہے، اس کی اسے کوئی قیمت تو نہیں ادا کرنی پڑی۔ کہیں سے خرید کے تو نہیں لایا، حالانکہ وہ یا اس کی نیکی سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہوتی ہے۔
نیکی اس نیت اور اس جذبے سے کی جانی چاہیے جسے اللہ تعالی نے نیک لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ذکر فرمایا ہے: ﴿ وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا۝﴾(الدهر:8)
’’وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔‘‘
اور کہتے ہیں:
﴿ اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا۝﴾(الدهر:9)
’’اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔‘‘
﴿ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا۝﴾(الدهر:10)
’’ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔‘‘
﴿ فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ وَ لَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّ سُرُوْرًاۚ۝﴾ (الدهر:11)
’’پس اللہ تعالی انہیں اس دن کے شر سے بچالے گا اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا۔‘‘
تو نیکی بغیر کسی طمع اور لالچ کے محض اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے لیے، اور آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہوئے کی جانی چاہیے۔
﴿ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا۝﴾ (الدهر:9)
’’ ہم تم سے نیکی کا بدلہ نہیں چاہتے، نہ تمہارا شکر یہ چاہتے ہیں، صرف اللہ تعالی سے اس کا بدلہ چاہتے ہیں۔‘‘
اور اگر کوئی شکریہ ادا کرے تو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں آتا ہے کہ:
((إِذَا أَرْسَلَتْ إِلٰى قَوْمٍ بِصَدَقَةٍ تَقُولُ لِلرَّسُولِ ، إِسْمَعْ مَا يَدْعُونَ بِهِ لَنَا))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا جب کسی ایلچی کے ہاتھ لوگوں کو صدقے کے طور پر کوئی چیز بھیجتیں تو اپنے ایلچی سے کہتیں کہ ذرا غور سے سننا وہ ہمیں کن الفاظ سے دعا دیتے ہیں۔‘‘
((حَتّٰى نَدْعُولَهُمْ بِمِثْلِ مَا دَعَوْا لَنَا، وَيَبْقَى أَجْرُنَا عَلَى اللهِ))
’’تا کہ ہم بھی انہیں اسی طرح دعا دیں جس طرح انہوں نے ہمیں دعا دی اور ہمار ا اجر اللہ تعالی کے ذمے ہی رہے۔‘‘
چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
((من طلب من الفقراء الدعاء أو الثناء، خرج من هذه الآية: ﴿إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ …﴾ (مجموع الفتاوی: 11/111)
’’جس نے دعا کے لیے صدقہ کیا وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جن کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں۔ وَإِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ﴾
’’جو کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ تعالی کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں۔ ‘‘
بات اصل میں یہ ہو رہی تھی کہ حیا کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے محسن کا احسان مند اور شکر گزار ہو، اور جو اپنے محسن کا احسان مند نہیں ہوتا اسے قطعًا حیا والا نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اسے جن جن القاب سے نوازا جاتا ہے ان میں سے ایک احسان فراموش بھی ہے۔ جو حیا والا ہوتا ہے وہ اپنے محسن کے احسان کے بوجھ تلے دب جاتا ہے، وہ گویا آنکھوں سے بھی اس کا شکر گزار ہوتا ہے، زبان سے بھی شکر گزار ہوتا ہے اور دل سے بھی اس کا ممنون اور احسان مند ہوتا ہے۔ تو نیکی کر کے دعا کے لیے کہنا ایک تو اس سے اپنی نیکی کا اجر مانگ لیتا ہے اور دوسری بات یہ کہ یہ اسے احساس دلانا ہوتا ہے کہ میں تم سے نیکی کر رہا ہوں او تم اس کے بدلے میں میرے لیے دعا کرو تو یہ گویا اس پر احسان جتلانا اور اسے شرمندہ کرنا ہوتا ہے۔ اور کسی کو شرمندگی سے بچانا حیا کا ایک بہت بلند مقام ہے۔ اس پر امیہ بن صلت نے ایسے خوبصورت اشعار کہتے ہیں کہ جو سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں۔ یہ اشعار اس نے اگر چہ عبداللہ بن جُدعان کے بارے میں اس کی تعریف کرتے ہوئے کہے تھے، مگر حقیقت میں یہ صرف اللہ تعالی کے شایان شان ہیں۔
عبد الله بن جدعان اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں قریش کے سرداروں میں سے ایک تھا، بہت زیادہ سخی تھا، حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے والد ابو قحافہ کا چچا زاد تھا۔ شروع میں تو وہ بہت غریب اور فقیر تھا اور برے کاموں میں سب سے بڑھ چڑھ کر تھا۔
اس کے قبیلے برادری والے سب اس کو نا پسند کرتے تھے حتی کہ اس کا والد بھی اس سے بہت تنگ تھا۔ پھر اس کے ساتھ ایک ایسا اتفاق ہوا کہ وہ بھی اپنے قبیلے برادری اور اپنے گھر والوں کی نفرت اور ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آکر پہاڑوں کی طرف نکل گیا کہ اس زندگی سے بہتر تو ہے کہ خودکشی ہی کرلے۔ ایک پہاڑ پر چڑھا، دیکھا کہ ایک غار نما جگہ ہے اور اس کے منہ پر اک سانپ ہے کبھی قریب ہو بھی پیچھے ہٹے، سانپ میں حرکت نہ ہوئی۔ پھر قریب ہوا، دیکھا تو وہ سونے کا سانپ تھا اس کی آنکھیں ہیروں کی تھیں، اس کو توڑا اندر داخل ہوا تو بادشاہوں کی قبریں تھیں۔
مختصر یہ کہ وہاں سے کچھ سونا اٹھا کر لے آیا اور غار پر نشان لگا دیا تا کہ بھول نہ جائے۔ واپس آکر لوگوں میں سخاوت کرنے لگا، کھانا کھلانے لگا، جب وہ ختم ہو جاتا تو پھر غار سے اور سونا لے آتا، اس طرح ہر جگہ اس کی سخاوت کے چرچے ہونے لگے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس کے بارے میں آپ ﷺسے دریافت کیا:
((يَا رَسُولَ اللهِ ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِم وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟))
’’ اللہ کے رسول ! ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکین کو کھانا کھلاتا تھا کیا اسے اس کا نفع ہوگا ؟‘‘
((قَالَ: لَا يَنْفَعُهُ إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا، رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيْئَتِي يَومَ الدين )) (مسلم، رقم: 214)
’’آپ ﷺنے فرمایا: اسے فائدہ نہ ہوگا کیوں کہ اس نے ایک دن بھی یہ نہ کہا: اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرما دینا۔‘‘
تو شاعر امیہ بن صلت اس کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہتا ہے:
أَأَذْكُرُ حَاجَتِي أَمْ قَدْ كَفَانِي
حَيَاؤُكَ إِنَّ شِيْمَتَكَ الْحَيَاءُ
’’کیا میں اپنی حاجت اور ضرورت کا ذکر کروں، یا میرے لیے تمہاری حیا ہی کافی ہے کہ تیرے اخلاق حیا ہیں ۔‘‘
إِذَا أَثْنٰى عَلَيْكَ الْمَرْءُ يَوْمًا
كَفَاهُ مِنْ تَعَرُّضِهِ الثَّنَاءُ
’’جب کبھی کوئی تمہاری تعریف کرتا ہے تو اسے اپنا مدعا بیان کرنے سے تیری مدح سرائی ہی کافی ہوتی ہے۔‘‘
یعنی جب کوئی تمہارے پاس اپنی غرض اور طلب لے کر آتا ہے اور وہ تمہاری تعریف ہی کرتا ہے تو تم سمجھ جاتے ہو کہ یہ ضرورت مند ہے تو تم یہ نہیں کہتے کہ سیدھی بات کرو کیا چاہتے ہو؟ بلکہ تم اتنے حیادار ہو کہ اسے سوال کرنے کی شرمندگی سے بچانے کے لیے بغیر سوال کیسے ہی دے دیتے ہو۔
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ، امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمہم اللہ کے استاذ سے کسی نے پوچھا کہ یہ دعا جسے دعاء الكرب، بے قراری کی دعا کہا جاتا ہے:
لَا إِلٰهَ إِلَّا الله الحَلِيمُ الكَرِيمُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْم.
’’یہ دعا، دعا تو نہیں ہے یہ توثناء ہے محض اللہ تعالی کی تعریف ہے، پھر اسے دعا کیوں کہا تو فرمایا: ہاں یہ واقعی ثناءہے دعا نہیں ہے، اور پھر امیہ بن الصلت کے یہی شعر پڑھے:
أَأَذْكُرُ حَاجَتِي أَمْ قَدْ كَفَانِي
حَيَاؤُكَ إِنَّ شِيْمَتَكَ الْحَيَاءُ
إِذَا أَثْنٰى عَلَيْكَ الْمَرْءُ يَوْمًا
كَفَاهُ مِنْ تَعَرُّضِهِ الثَّنَاءُ
کہا جب ایک انسان اتنا حیاء دار ہے کہ وہ تعریف کرنے والے کو سوال کرنے کی شرمندگی سے دو چار نہیں کرنا چاہتا تو اللہ تعالی تو سب سے زیادہ حیاء کرنے والا ہے۔
حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللَّهَ حَبِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدِيْهِ إِلَيْهِ ، أَنْ يَّرُدَّهُمَا صِفْرًا)) (ابو داود: 1488
’’یقینًا اللہ تعالی بہت حیا والا ، عزت والا ہے، وہ اپنے بندے سے حیا کرتا ہے جب وہ اس کی طرف ہاتھ بلند کرتا ہے کہ وہ ان ہاتھوں کو خالی لوٹائے ۔‘‘
عرفہ کے میدان میں کی جانے والی دعا جس کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا:
((خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمَ عَرَفَةَ، وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))
’’سب سے بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کی:
لا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)) (ترمذی:3585)
اس میں بھی صرف ثناء ہے۔
لہٰذا حیا انسان کی سب سے خوبصورت صفت ہے، اور حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔
إِنَّ الْحَيَاءَ وَالْإِيْمَانَ قُرَنُاءُ جَمِيْعًا.
’’حیا اور ایمان دونوں اکٹھے ہیں ۔‘‘
((فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُهُمَا رُفِعَ الآخر)) (مستدرك للحاكم، ج:1، ص:73 ، رقم: 58)
’’جب ان میں سے ایک اُٹھا لیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔‘‘
آج کل ہمارے مسلم معاشرے میں حیاء کا کیا عالم ہے، سب جانتے ہیں، نہ مردوں میں رہی نہ عورتوں میں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حیا کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا، کہ انہیں زندگی تو زندگی رہی اپنی موت کے بعد حیا کی فکر بھی تھی ۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حیا کا عالم ملاحظہ کیجیے، فرماتی ہیں:
((كُنْتُ أَدْخُلُ بَيْتِي الَّذِي دُفِنَ فِيهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأَبِي فَأَضَعُ ثَوْبِي، وَأَقُولُ: إِنَّمَا هُوَ زَوْجِي وَأَبِي۔))
’’کہ میں اپنے اس گھر میں داخل ہوتی رہتی تھی جس میں رسول اللﷺ اور میرے والد مدفون تھے میں وہاں کپڑا بھی اتار لیتی تھی اور کہتی تھی ایک میرے شوہر ہیں اور دوسرے میرے والد۔‘‘
((فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ رضي الله تعالي عنه مَعَهُمْ وَاللهِ مَا دَخَلْتُهُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُودَةٌ عَلَىَّ ثِيَابِي حَيَاءً مِّنْ عُمَرَ رضي الله تعالي عنه ..)) (مسند احمد ج:1، ص:202، 25701)
’’لیکن اللہ کی قسم ! جب عمر رضی اللہ تعالی عنہ دفن کیے گئے تو میں ان سے حیا کرتے ہوئے اپنے اوپر کپڑے لپیٹ کر داخل ہوتی تھی ۔‘‘
…………………