ظلم کی سنگینی
﴿وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ۴۲
مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَ اَفْـِٕدَتُهُمْ هَوَآءٌ﴾ (ابراهيم:42۔ 43)
’’اور تو اللہ تعالی کو ہرگز غافل گمان نہ کر اس سے جو ظالم لوگ کر رہے ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ انھیں اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے کہ اس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی اس حال میں کہ اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے تیز دوڑنے والے ہوں گے، ان کی نگاہ ان کی طرف نہیں لوٹے گی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔‘‘
گزشتہ جمعے ظلم کے بارے میں بات ہو رہی تھی، ظلم کا معنی و مفہوم بیان ہوا، ظلم کی اقسام ظلم کی قباحت و شناعت، ظلم کی شدت و سنگینی ظلم کے انجام اور ظلم سے بچنے کی ترغیب و تاکید کا ذکر ہوا۔
ظلم کسی قدر گھناؤنا اور سنگین جرم ہے، کس قدر خوفناک اور تباہ کن عمل ہے، اس کی کیا کیا شکلیں اور صورتیں ہو سکتی ہیں، آج کچھ انہی باتوں کے جاننے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ ظلم ایک ایسی آفت اور مصیبت ہے، ایسا فتنہ اور آشوب ہے جو جس قوم پر واقع ہوتا ہے اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے اسے ملیا میٹ اور نہس نہس کر دیتا ہے۔
اس سے پہلے کہ جرم ظلم و عدوان کی تباہ کاریوں کا ذکر کریں، اس کے مخفی پہلوؤں اور زاویوں کا ذکر کریں، مخفی پہلوؤں سے مراد: ظلم کے وہ انداز، دو صورتیں اور شکلیں ہیں کہ جنہیں عمومًا ظلم نہیں سمجھا جاتا بلکہ اپنا حق سمجھا جاتا ہے، یا قوت و طاقت کے نشے میں انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے، خاطر میں نہیں لایا جاتا اور کسی نہ کسی طرح ان کا جواز مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ان کا ذکر کرنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ظلم کے اسباب کیا ہیں؟ کونسی چیز انسان کو ظلم پر ابھارتی اور براہینہ کرتی ہے؟
یوں تو ظلم کے بیسیوں اسباب ہیں جیسا کہ شیطان کا انسان کو ظلم و زیادتی پر اکسانا نفس امارہ کا دل میں انگیخت اور اشتعال پیدا کرنا، جہالت اور لاعلمی کا ہونا وغیر ہ یہ مگر قرآن وحدیث نے ظلم کے چند بنیادی اسباب کا بطور خاص ذکر کیا ہے جو ظلم کا مرکز و محور ہیں جن کا تعلق اس سوچ اور فکر سے ہے جو انسان کو ظلم پر ابھارتی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے:
﴿كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤیۙ۶ اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰیؕ۷﴾ (العلق:6۔7)
’’یقینًا انسان سرکشی کرتا ہے، اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے۔‘‘
جب انسان اپنے آپ کو کسی بھی معاملے میں، زندگی کے کسی بھی شعبے میں بے نیاز سمجھنے لگ جاتا ہے، کسی کسی یا عطائی نعمت و سہولت پر اترانے لگتا ہے، اس کے غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو اس کی وہ فکر بے نیازی اسے علم پر آمادہ کرنے لگتی ہے۔ جب وہ اپنے آپ کو اللہ تعالی کی نعمتوں کا مستحق سمجھنے لگتا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو نیک و پارسا سمجھنے لگتا ہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اللہ تعالی اس پر راضی اور خوش ہے اس لیے اپنی نعمتیں دے رہا ہے۔ یا ان نعمتوں کو اپنے کمال علم کا نتیجہ سمجھنے لگتا ہے کہ:
﴿ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ﴾ (القصص:78)
جب وہ پکار اٹھتا ہے کہ یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے، جو مجھ کو حاصل ہے تو پھر اس میں غرور پیدا ہو جاتا ہے پھر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا، سب کو ہیچ اور حقیر جاننے لگتا ہے، ان کے کسی حق کو حق نہیں سمجھتا ، وہ چاہنے لگتا ہے کہ اس کی پجارو جب روڈ پر نکلے تو سب گاڑیاں رک جائیں اور اس کو رستہ دیں، اس کا کاروبار اگر ترقی کرنے لگے تو پڑوسیوں کے تمام حقوق کو جوتے کی نوک پر رکھ دیتا ہے، ان کا جینا حرام کر دیتا ہے، ان کی تاک میں دم کر دیتا ہے۔
جب وہ کہتا ہے کہ﴿ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ﴾یہ سب کچھ تو مجھے میرے کمال ہنر کے نتیجے میں ملا ہے۔ تو اللہ فرماتے ہیں:
﴿اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًا ؕ وَ لَا یُسْـَٔلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ۷۸﴾ (القصص: 78)
’’کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ تعالی اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو بلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے، اور مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے ۔‘‘
یعنی ان کی جب گرفت ہوتی ہے تو ان سے پوچھ کر نہیں ہوتی کہ کیا تم نے یہ گناہ کیا ہے، اگر کیا ہے تو تمہیں گرفتار کریں، کوئی مجرم اپنے گناہ مانتا ہی کب ہے؟
اب غور فرمائیں اس آیت کریمہ میں یہ نہیں کہا گیا کہ قارون نے ظلم کیا تو اللہ تعالی نے اس کی سرزنش کی اور اسے خبردار کیا، بلکہ اس کی محض اس سوچ اور فکر پر اسے متنبہ کیا گیا کہ جس کا طبعی نتیجہ ظلم و نا انصافی ہوتا ہے، ہر ظلم کے پیچھے کچھ ایسی ہی سوچ اور فکر کار فرما ہوتی ہے۔
جب انسان اپنے آپ کو بے نیاز سمجھے لگتا ہے، مال و دولت، کاروبار، گاڑیاں، کوٹھیاں نوکر چاکر ، وزیروں اور مشیروں سے جان پہچان حکومتی عہدے داروں سے واقفیت، پولیس اور فوج میں واسطہ اور سفارش ، سول سوسائٹی میں اثر و رسوخ ۔ جب اس قدر کسی انسان کو قوت و طاقت حاصل ہوتی ہے تو اس کی چال ڈھال بدل جاتی ہے، اس کے اٹھنے بیٹھنے اور رہنے سہنے کے طور طریقے بدل جاتے ہیں، اس کی گفتگو کا انداز بدل جاتا ہے اور پھر وہ اپنی اس حیثیت کو منوانے اور قائم رکھنے کے لیے ظلم کرنا گویا لازم سمجھتا ہے۔
﴿كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤیۙ۶ اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰیؕ۷﴾ (العلق:6۔7)
’’یقینًا انسان سرشی کرتا ہے، اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے۔‘‘
یہ ضروری نہیں کہ مال و دولت، قوت و طاقت اور اثر و رسوخ رکھنے والا ہر شخص سرکشی کرنے لگتا ہو، بلکہ یقینًا ایسے لوگ بھی موجود رہے ہیں اور رہیں گے کہ جوں جوں ان کی قوت و طاقت میں نعمتوں اور خوشحالیوں میں اور عزت و افتخار میں اضافہ ہوتا ہے، ان کی عاجزی وانکساری میں اضافہ ہوتا ہے، اور ان کے سر فہرست سید الاولین والآخرین، سرور کائناتﷺ ہیں۔
ملاحظہ کیجیے، حدیث میں ہے۔
((أَتَى النَّبِيُّ رَجُلٌ ، فَكَلَّمَهُ، فَجَعَلَ تُرْعَدُ فَرَائِصُهُ، فَقَالَ لَهُ: هَوِّنْ عَلَيْكَ ، فَإِنِّي لَسْتُ بِمَلِكٍ ، إِنَّمَا أَنَا ابْنُ إِمْرَأَةِ تَأْكُلُ الْقَدِيْدَ)) (ابن ماجة:3312)
’’ایک شخص آپﷺ کے پاس حاضر ہوا، آپ نے اس سے بات کی تو اس پر کپکپی طاری ہوگئی تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: سکون رکھو! میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں ایک عورت کا بیٹا ہوں جو قدید (نمک لگا کر دھوپ میں سوکھایا ہوا گوشت ) کھاتی تھی۔‘‘
اور فتح مکہ جو آپﷺ کو حاصل ہوئی، ایک عظیم فتح تھی، بے شمار تکلیفوں، اذیتوں اور مصیبتوں سے گزرنے کے بعد، تبلیغ دین کے لیے محنت شاقہ کے بعد، جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
(( مَكَثَ رَسُولُ اللهِ عَشْرَ سِنِينَ يتبع النَّاس، في مَنَازِلِهِمْ بعُكَازٍ ومَجَنَّةٍ، وَفِي الْمَوسمِ بمنًى))
’’آپ ﷺ مسلسل دس سال تک عکاز اور مجریہ کے بازاروں میں اور حج کے موسم میں منی میں ان کے خیموں میں لوگوں کے پیچھے پیچھے پھرتے اور فرماتے:‘‘
((من يؤويني، من ينصرني))
’’ہے کوئی جو مجھے پناہ دے، میری مدد کرے۔‘‘
((حتَّى أُبَلِّغَ رِسَالَةَ رَبِّي وَلَهُ الْجَنَّةُ )) (مسند احمد، ج :3، ص:322، رقم: 14496)
’’حتی کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا دوں ، اور اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘
اور جب فتح حاصل ہوئی تو آپ سےﷺ اس شان سے مکہ میں داخل ہوئے کہ آپ ﷺ اپنی اونٹنی قصوئی پر سوار تھے اور فرط تواضع سے اپنا سر مبارک اتنا جھوکا رکھا تھا قریب تھا کہ ڈاڑھی کے بال کجاوے کی لکڑی کو چھونے لگیں ۔ (الرحيق المختوم، ص:548)
تو بات ہو رہی تھی تواضع اور انکساری کی کہ مال و دولت اور قوت و طاقت سے اور عزت و افتخار سے ضروری نہیں کہ انسان میں سرکشی پیدا ہو، بہت سے ایسے لوگ بھی یقینًا دنیا میں موجود ہیں جو دولت حاصل ہونے کے باوجود عاجزی اور انکساری کرتے ہیں بلکہ دولت کے اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی انکساری میں اضافہ ہوتا ہے امت محمدیہ (على صاحبها الصلاة والسلام) میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں، اور کائنات میں سب سے بڑھ کر اللہ کے حضور تواضع کرنے والے آپ سے کم ہیں۔
بغاوت ، سرکشی، فخر و غرور اور تکبر ایک احساس اور شعور ہے، ایک فکر اور سوچ ہے جو کچھ کمزور ایمان والوں پر طاری ہو جاتی ہے، جب وہ اس قدر نعمتیں پاتے ہیں۔
جیسا کہ ایک شخص کی مثال بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ﴾ (الكهف:32)
’’اے پیغمبر سے ہم ان کے سامنے ایک مثال پیش کرو، دو شخص تھے، ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگائی ، اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی ۔‘‘
﴿ كِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ اٰتَتْ اُكُلَهَا وَ لَمْ تَظْلِمْ مِّنْهُ شَیْـًٔا ۙ وَّ فَجَّرْنَا خِلٰلَهُمَا نَهَرًاۙ﴾ (الكهف:33)
’’دونوں باغ خوب پھلے پھولے، اور بار آور ہونے میں انہوں نے کوئی کسر بھی نہ چھوڑی، ان باتوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کر دی۔‘‘
﴿ وَّ كَانَ لَهٗ ثَمَرٌ ۚ فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا﴾(الكهف:34)
’’یہ کچھ پا کر ایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولا: میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقت ور نفری رکھتا ہوں ۔‘‘
﴿ وَ دَخَلَ جَنَّتَهٗ وَ هُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰذِهٖۤ اَبَدًاۙ﴾ (الكهف:35)
’’پھر وہ اپنے باغ میں داخل ہوا، اپنے نفس پر ظالم بن کر اور کہنے لگا: میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہو جائے گی ۔‘‘
﴿ وَ دَخَلَ جَنَّتَهٗ وَ هُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰذِهٖۤ اَبَدًاۙ﴾(الكهف:36)
’’اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی، تاہم اگر کبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹا یا بھی گیا تو ضرور اس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا۔‘‘
تو جس طرح اس شخص کی مثال بیان کی گئی اور اس کی سوچ کا بتلایا گیا، یہی بنیادی سوچ ہر ظالم، سرکش اور متکبر انسان کی ہوتی ہے، جس کی قرآن وحدیث میں متعدد مثالیں ہیں، اور تاریخ بھری پڑی ہے ایسی ذہنیت رکھنے والوں سے۔
تو ظلم کے اسباب میں سے یہ ایک سبب ہے کہ انسان کو جب نعمتیں حاصل ہوتی ہیں تو وہ سرکشی پر اتر آتا ہے، حد سے تجاوز کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح کچھ اسی سے ملتا جلتا دوسرا سبب بیان کیا گیا حدیث میں ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
((اِتَّقُوا الظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))
’’ظلم سے بچھو کہ ظلم قیامت کے دن ظلمات ہوں گے۔‘‘
اور ((وَاتَّقُوا الشُّحَّ)) ’’اور بخیلی سے بچو۔‘‘
((فَإِنَّ الشَّحْ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ))
’’بے شک بخیلی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔‘‘
((حَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا دِمَاءَ هُمْ وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ )) (مسلم:2579)
’’بخیلی نے انہیں خونریزی اور حرمتوں کو پامال کرنے پر آمادہ کیا۔‘‘
شح: شدید حرص، دوسرے کے مال میں طمع اور بخل اپنے مال میں طمع کرنے کو کہا جاتا ہے، تو مال کی حرص انسان کی ذہنیت یہ بنا دیتی ہے کہ جائز اور ناجائز ، حلال اور حرام جس طرح بھی مال آتا ہے، آنے دو، اور جب یہ سوچ ہوتی ہے تو پھر خون خرابے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
تو ظلم کی کئی صورتیں ہیں اور ان صورتوں میں جہاں علم کے اسباب میں فراوانی رزق ایک سبب ہے تو وہاں دوسری طرف مال میں بخل اور حرص بھی اس کا ایک سبب ہے تو گویا ظلم کرنے سے بچنے کا ایک ذریعہ بخیلی سے بچنا بھی ہے، چنانچہ قرآن پاک میں اس کو فلاح قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ﴾ (الحشر:9)
’’جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘
……………….