ظلم کی سنگینی اور چند صورتیں

﴿وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ۝۴۲ مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَ اَفْـِٕدَتُهُمْ هَوَآءٌ﴾ (ابراهيم:42۔ 43)
جیسا کہ گزشتہ خطبوں میں ہم نے جانا کہ ظلم انسان کی فطرت میں ہے۔
﴿إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُوْلًا﴾ (الاحزاب:72)
’’انسان قطرة ظالم اور جاہل ہے‘‘
اور ایسے ہی فرشتوں کا بھی انسان کے بارے میں اللہ تعالی سے یہ عرض کرنا کہ:
﴿ اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ ۚ﴾
’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس میں فساد بر پا کر دے اور خونریزیاں کرے۔‘‘
اور یہ شاید انہوں نے انسان کے عناصر ترکیبی کی خاصیتوں کو جانتے ہوئے انداز ہ لگایا ہوگا۔ تا ہم ظلم کا مادہ اس کے جذبات اور احساسات انسان کی فطرت اور اس کے خمیر میں موجود ہیں، انکار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ انسان اگر اپنی کسی فطری کمزوری پر قابو پانا چاہے تو اس کی کوششیں بار آور ہو سکتی ہیں، بلکہ اگر وو اپنی کسی فطری کمزوری پر قابو پانے کی کوشش نہ کرے تزکیہ اور تہذیب نفس نہ کرے تو ماحول کی آلودگی سے اس میں مزید بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے، جیسا کہ ظلم کے معاملے میں ہے۔
انسان جب لوگوں کے ساتھ گھل مل کے رہتا ہے۔ اور یہ بھی اس کی فطری کمزوری اورمجبوری ہے کہ وہ لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر نہیں رہ سکتا۔ تو اس کا اپنی ضرورتوں اور مفادات کے معاملے میں دوسروں کے ساتھ ٹکراؤ پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں علم کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ مثلا ، جب کچھ لوگ کسی چیز میں کسی معاملے میں باہم شریک ہوتے ہیں، جیسا کہ کسی کاروبار یا جائیداد میں شریک ہوتے ہیں تو اپنا حق لیتے وقت عموماً ان کا میلان اور رجحان ظلم کی جانب ہوتا ہے۔
اس حقیقت کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں یوں بیان فرمایا ہے۔
﴿وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَیَبْغِیْ بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ قَلِیْلٌ مَّا هُمْ ؕ﴾ (ص:24)
’’اور مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتیاں کرتے رہتے ہیں، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں ۔‘‘
تو گویا کہ لوگوں کی اکثریت تظلم کی طرف میلان رکھتی ہے، اور اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اس کی فطرت میں تعلیم کا مادہ موجود ہے، پھر شیطان کا ور غلانا اور ظلم و زیادتی پر ابھارنا اور برانگیختہ کرتا، اور تیسرے یہ کہ مل جل کر رہتے وقت ان مسائل کا پیدا ہوتا بھی ایک طبعی بات ہے، کیونکہ اس میں اپنے حقوق کے لیے کھینچا تانی اور چھینا جھپٹی کی نوبت بھی آتی ہے، لیکن لوگ اپنے حقوق کے مطالبے اور اس کے حصول میں اکثر حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اور ظلم و زیادتی پر اتر آتے ہیں۔ لیکن ایمان اور عمل صالح والے اس بری صفت سے بچے رہتے ہیں۔ اور انسان میں علم کا رجحان کسی قدر شدید ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب کوئی دو آدمی کسی کا روبار میں پارٹنر شپ اور شراکت کرتے ہیں تو اس وقت ان کا آپس میں ایک دوسرے سے دوستی یاری، پیار محبت اور اعتماد کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا ہے اور جذ به همدردی و خیر خواہی عروج پر ہوتا ہے، مگر اس سب کچھ کے باوجود اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان کا وہ اعتماد اور پیار محبت ، حقد ، حسد، کینہ و بغض نفرت اور ظلم و زیادتی میں بدل جاتا ہے اور اس اور کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب وہی فطرت میں ظلم کے مادے کا وجود ہے کہ جس کو نظر انداز کیا گیا، جس کی اصلاح کی اور اس پر قابو پانے کی کوشش نہ کی گئی۔
انسانی فطرت میں موجود ظلم کے مادے کے حوالے سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ فطرت میں موجود ظلم کے جذبات ایک چنگاری کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ چنگاری بجھائی بھی جا سکتی ہے مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔
البتہ اسی چنگاری کو شعلہ جوالہ بنانے میں زیادہ محنت درکار نہیں ہوتی ، صرف ہوا کا ایک جھونکا ہی چاہیے ہوتا ہے اور اگر اس کو آگ کا الاؤ بنانا ہو تو اس کے لیے بھی ایند حسن مختلف صورتوں میں وافر مقدار میں دستیاب ہوتا ہے۔
تو معنی یہ ہوا کہ معاشرے میں ظلم کے امکانات بہت زیادہ ہیں لہٰذا اس موضوع کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اسے موضوع سخن بنائے بغیر چارہ نہیں ہے، بالخصوص جب یہ موضوع دنیا و آخرت میں خوفناک نتائج کا حامل بھی ہو۔
اسلام انسان کو ظلم کے انجام سے خبر دار کرتا ہے، اور ظلم سے باز رہنے کی تدابیر بتلاتا ہے اور ظالم کا ہاتھ بھی روکتا ہے، ایک حد تک تو اللہ تعالی ظالم کو ڈھیل دیتا ہے اور اس کی رسی دراز کیے رکھتا ہے، لیکن جب رسی کھینچتا ہے تو پھر بھاگنے کا موقع نہیں دیتا، جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ ، حَتّٰى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتُهُ .)) (بخاری:4686)
’’اللہ تعالی ظالم کو ڈھیل دیتا ہے مگر جب وہ اس کی گرفت کرتا ہے نکلنے کا راستہ نہیں دیتا۔‘‘
ثُمَّ قَرَأَ: ﴿وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰی وَ هِیَ ظَالِمَةٌ ؕ اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ۝۱۰﴾ الِيم شَدِيدٌ ، (هود:102)
اور پھر آپ ﷺنے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ” اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے،یقینًا اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوتی ہے ۔‘‘
اللہ تعالی کسی کی پکڑ کیسے کرتا ہے؟ اللہ تعالی کے ہاں ظالموں کی گرفت کے مختلف انداز اور طریقے ہیں اور ان کی مختلف حکمتیں ہیں۔
مثلا ایک انداز یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی کو کسی فتنے اور آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے اور اس میں حکمتیں یہ ہوتی ہیں کہ انسان تو بہ واستغفار کر کے اللہ کی طرف لوٹ آئے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ۝۱۲۶﴾ (التوبة:126)
’’کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، مگر اس پر بھی نہ تو یہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں۔‘‘
اسی طرح گرفت کا ایک انداز یہ ہوتا ہے کہ کسی قوم پر کوئی عذاب نازل کر دیا جاتا ہے، اور ایسا بہت سی قوموں کے ساتھ ہوا جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا ۙ وَ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ مَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ۝۱۳﴾(یونس:13)
’’اور تم سے پہلے کی قوموں کو، جو اپنے زمانے میں بر سر عروج تھیں، ہم نے بلاک کر دیا، جب انہوں نے ظلم کیا اور ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے اور دو ایسے کب تھے کہ ایمان لے آتے ۔‘‘
اور اس سے اگلی آیت میں فرمایا:
﴿ ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰٓىِٕفَ فِی الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۝﴾ (یونس:14)
’’اب ان کے بعد ہم نے تم کو زمین میں جگہ دی ہے، تاکہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘
اور اللہ تعالی کی گرفت کا ایک انداز یہ ہے، اور ظلم کو روکنے کا ایک انداز یہ ہے کہ ظالم کو اس سے زیادہ طاقتور ظالم سے ٹکرا دیتا ہے۔
﴿ وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۠۝﴾(الانعام:129)
’’اس طرح ہم بعض ظالموں کو بعض ظالموں پر مسلط کر دیتے ہیں ان کے اعمال کے سبب۔‘‘
تاریخ انسانی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ ایک ظالم کو دوسرے ظالم کے سامنے سرنگوں کرنا پڑا اور ذلت و رسوائی اٹھانا پڑی۔
يقول عبد الملك بن عمير رأيتُ عجبًا، رأيتُ رأسَ الحسين بن علي بن (حین قتل مظلوما) أتي به حتى وضع بين يدى این زیاد (في قصره في الكوفة)
’’عبد الملک بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے ایک عجیب ماجرا دیکھا، میں نے دیکھا کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کا سر زیاد کے سامنے (کوفہ میں اس کے محل میں) لا کے رکھا گیا (جب وہ ظلما قتل کیے گئے تھے )۔
(ثم رايت رأس ابن زياد أتي به حتى وضع بين يدى المختار)
’’پھر دیکھا کہ ابن زیاد کا سر مختار کے سامنے لا کے رکھا گیا ۔‘‘
(ثم رايت راس المختار أتي به حتى وضع بين يدى مصعب)
’’پھر دیکھا کہ مختار کا سر مصعب کے سامنے لا کے رکھا گیا ۔‘‘
(ثم أتي برأس مصعب حتى وضع بين يدي الحجاج)
’’اور پھر مصعب کا سرحجاج کے سامنے لا کے رکھا گیا ۔‘‘
(فقيل له كم كان بين الرؤوس من الزمن)
’’پوچھا گیا یہ سب کچھ کتنے عرصے میں ہوا؟‘‘
(فقال إثنا عشر عاما) (الثقات للعجلي ، ج:1، ص:311، رقم:1035)

’’تو کہا: بارہ سال میں۔‘‘
اور ظالموں کو ظالموں کے ہاتھوں اور بعض دفعہ نیک لوگوں کے ہاتھوں سبق سکھانے میں حکمت کیا ہے؟
زمین کو فتنہ و فساد سے پاک کرتا جبکہ نیک لوگوں کے ظلماً قتل کیے جانے میں الگ حکمتیں ہیں جن میں ایک ان کے رفع درجات کا باعث ہوتا بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم ظالموں کو ظالموں کے ہاتھوں سبق سکھانے میں حکمت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۝﴾ (البقرة:251)
’’اور اگر اللہ تعالی انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑ جاتا، زمین فتنہ وفساد سے بھر جاتی ۔‘‘
﴿ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۝۲۵۱﴾
’’مگر اللہ تعالی کا دنیا کے لوگوں پر بڑا ہی فضل ہے۔‘‘
یعنی اس طرح ان سے دفع فساد کا انتظام کرتا ہے ۔‘‘
انسان ظلم کیوں کرتا ہے؟ اس کے بنیادی اسباب کا ذکر تو گزشتہ خطبات میں ہو چکا، مگر اس کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ مگر خلاصہ یہی ہے کہ جب انسان طاقت کے نشے میں مخمور اور سرشار ہو جاتا ہے تو پھر بہک جاتا ہے، جب اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں سے محفوظ ہونے کی حدوں سے تجاوز کر جاتا ہے تو پھر اس کے دل میں بچوں یا دیگرے نیست کا احساس ابھر نے لگتا ہے کہ میرے جیسا کوئی اور نہیں ہے۔ اور وہ چیزیں جو بظاہر ظلم کا باعث معلوم نہیں ہوتیں وہی اس کی خشت اول ثابت ہوتی ہیں۔
شراب کا نشہ تو ہم نے سن رکھا ہے مگر وہ اتنا خطر ناک نہیں ہے جتنا طاقت کا نشہ، حکمرانی کا نشہ، دولت کا نشہ علم کا نشہ اور نیکی کا نشہ ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک چیز کا نشہ بھی انسان کو ہو جائے تو اس کی چال ڈھال، اس کی گفتگو اور اس کے میل ملاقات کے انداز ہی بدل جاتے ہیں۔ وہاں عاجزی، انکساری اور تواضع برقرار رکھنا نہایت مشکل ہوتا ہے، اور جب آدمی کی چال ڈھال بدلتی ہے اس کے انداز بدلتے ہیں تو وہ اس کے مزاج کا پر تو ہوتا ہے، اس کے خیالات کا عکس ہوتا ہے۔ آدمی کو جتنا بڑا مقام حاصل ہو اس نسبت سے تواضع بھی بڑی ہونی چاہیے۔
آپ ﷺکے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور گفتگو فرمانے کے انداز ملاحظہ کریں تو آپﷺ کی شان اور عظمت اور نکھر کر سامنے آجاتی ہیں۔
((لَا أٰكِلُ مُتَّكِئًا))(بخاری:5398)
’’کہ میں ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھاتا ۔‘‘
((إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ أَكُلُ كَمَا يَأْكُلُ الْعَبْدُ، وَأَجْلِسُ كَمَا يَجْلِسُ العَبدُ)) (مسند ابو یعلی، ج:8، ص:318، رقم:4920)

’’میں تو ایک بندہ ہوں، اس طرح کھاتا ہوں جس طرح اللہ کا بندہ کھانا کھاتا ہے اور میں اس طرح بیٹھتا ہوں جیسے اللہ کا بندہ بیٹھتا ہے۔‘‘
خیر یہ اک دوسرا موضوع ہے، اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا اختصار کے ساتھ انسانی معاشرے میں پائی جانے والی ظلم کی چند صورتوں کا ذکر کرتا ہوں۔
غلاموں پر ظلم کرنا تو آپ جانتے ہی ہیں کہ گذشتہ زمانوں میں غلاموں پر ظلم کیا جاتا تھا، آج کل غلام تو نہیں پائے جاتے مگر ان سے ملتا جلتا اک طبقہ موجود ہے، جو ہر زمانے میں رہا ہے اور وہ ہے ملازمین اور نوکر چاکر کا ۔
ملازموں پر ظلم کرنا آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی پایا جاتا ہے، البتہ شکلیں مختلف ہیں۔ زر خرید غلام اور ملازم میں فرق ہے، مگر لوگ پھر بھی ان پر اپنا ایسا ہی حق سمجھتے ہیں جیسا غلاموں پر ہوتا تھا۔
غلاموں کو مارنے اور اذیت دینے سے متعلق گزشتہ خطبات میں آپ نے سنا کہ کسی خوفناک نتائج کا حامل ہے کہ ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا انجام معلوم ہونے پر فورا اپنے غلام کو آزاد کر دیا۔
ہمارے ہاں مار پیٹ کو ہی ظلم سمجھا جاتا ہے، مگر ظلم صرف مار پیٹ ہی نہیں ہے بلکہ ظلم کسی کی دل آزاری بھی ہے، کسی کا مذاق اڑانا ، حقیر جاننا، گھٹیا اور کمتر سمجھنا، طعنے دینا، گالی دیتا وغیرہ بھی ہے۔ اسلام نے کمزور طبقے کے حقوق خوب بیان فرمائے اور ان کے حقوق کی پامالی کی قباحت و شناعت بھی بیان فرمائی اور اس کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی کے معاملے کی ترغیب دی ، جیسا کہ حدیث میں ہے:
((قَالَ الْمَعْرُورُ بن سويد (التابعي) قَالَ رأيت أباذَرٍّالْغِفَارِي وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ وَعَلٰى غُلَامِهِ حُلَّةٌ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ))
’’معرور بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے اور ان کے غلام نے ایک جیسی پوشاک زیب تن کر رکھی تھی میں نے اس کے متعلق پوچھا۔‘‘
کیونکہ یہ رواج نہیں تھا کہ آقا اور غلام کسی صورت بھی برابر ہوں۔
((فقَالَ: إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا فَشَكَانِي إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لِي النَّبِي أعَيَّرْتَهُ بِأَمِّهِ إِنَّكَ امْرُءٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ إِخْوَانَكُمْ خَوَلُكُمْ ، جَعَلَهُمُ اللهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ ، فَمَنْ كَانَ اَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسَهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّقْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ)) (بخاری:2545)

’’تو انھوں نے جواب دیا: میں نے ایک شخص کو گالی دی اس نے آپ سے کام کے ہاں میری شکایت کر دی تو نبی ﷺنے مجھ سے فرمایا: تو نے اسے ماں کی عار دلائی ہے؟ ابھی تک تجھ میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ پھر فرمایا: کہ یقینًا تمھارے غلام تمھارے بھائی ہیں، انھیں اللہ تعالی نے تمھارے تصرف میں رکھا ہے، چنانچہ جس آدمی کا بھائی اس کے ماتحت ہو اسے چاہیے کہ وہ چیز اسے کھلائے جو خود کھائے اور اسے وہ پہنائے جو خود پہنتا ہے اور ان سے وہ کام مت لو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ اور اگر ایسے کام کی زحمت دو تو خود بھی ان کا ہاتھ بٹاؤ۔‘‘
اب اس حدیث سے جو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ غلاموں کو حقیر جانا ظلم اور زیادتی ہے، انہیں طعنہ دینا حرام ہے۔ ان پر سختی کرنا منع کرنا ہے۔
اب جب زرخرید غلام کے ساتھ بدسلوکی کرنا منع ہے تو بیوی جو کہ شریک حیات ہوتی ہے جیون ساتھی ہوتی ہے برابری کا رشتہ ہوتا ہے اس کے ساتھ ایسی بداخلاقی کتنا بڑا جرم ہو گی!
بیوی پر ظلم جسے ظلم نہیں سمجھا جاتا، اس کا الگ ان شاء اللہ ذکر ہوگا۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماتحت کو حقیر اور کمتر سمجھتا ہے اور اسی تناظر میں اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ برتری کا احساس اور شعور انسان کو مسحور کر دیتا ہے۔ اور استغنا کا احساس دلاتا ہے، اور استغنا آپ جانتے ہیں کہ ظلم پر آمادہ کرتا ہے۔
﴿ كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤیۙ۝۶
اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰیؕ۝۷﴾ (العلق:6۔7)
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی آپﷺ نے خصوصی وصیت فرمائی، آپﷺ کی آخری وصیت نماز اور عورتوں کے ساتھ نرمی کرنے کی تھی۔ جیسا کہ فرمان رسول ﷺہے۔
((اِسْتَوْصَوا بِالنِّسَاءِ خيْرًا فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوانٌ)) (ابن ماجة:1851)

’’عورتوں کے بارے میں وصیت کو قبول کرو، کیونکہ وہ تمھارے پاس قیدی ہیں۔‘‘
ظلم کے بارے میں ایک غلط فہمی کا شکار اکثر لوگ ہوتے ہیں، کہ بعض قسم کے ظلموں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، مگر حقیقت میں ظلم ظلم ہے چاہے کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔
ظلم عموماً معاشرے کے کمزور افراد پر ہی ہوتا ہے، مگر عورتیں ان کمزور افراد میں سے بھی کمز ورترین طبقہ ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ خصوصی نرمی اور خیر خواہی کا معاملہ کرنے کا حکم ہے، حتی کہ ان کے متعلق دل میں بغض رکھنے سے بھی منع فرمایا، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((لا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً إِن كَرِهَ مِنْهَا خُلْقًا رَضِيَ مِنْهَا آخر))( مسلم:1469)
’’کوئی مومن شخص کسی ایمان دار عورت سے بغض نہ رکھے اگر اس سے ایک عادت نا پسند ہو گی تو دوسری پسند بھی ہوگی۔‘‘
کسی کو حق تلفی کے حوالے سے ظلم کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
((مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِي مُسلِم بِيَمِينِهِ فَقَدْ أَوْجَبَ اللهُ لَهُ النَّارَ ، وَ حَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ)) فَقَالَ رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رَسُولَ اللهِ ؟ فَقَالَ: ((وَإِنْ كَانَ قَضِيْبًا مِنْ أَرَاكِ)) (مسلم:137)
’’جو شخص جھوٹی قسم کے ساتھ کسی مسلمان کا حق مارے، تو اللہ تعالی نے اس کے لیے جہنم واجب کردی اور جنت حرام کر دی ۔ ایک شخص کہنے لگا اے اللہ کے رسول ! اگر ذراسی بھی چیز ہو؟ آپ ﷺنے فرمایا ” چاہے وہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہو۔‘‘
ظلم ہر طبقے میں ہوتا ہے۔
ملازموں پر ظلم کی ایک شکل تنخواہ میں تاخیر کرنا بھی ہے۔
جیسا کہ فرمان مصطفی ﷺہے۔
((مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ))( بخاری:2287، مسلم:1564)
’’مال دار آدمی کا ٹال مٹول کرنا ایک ظلم ہے ۔‘‘
تو معاشرے میں پھیلی ہوئی ظلم کی بہت سی صورتوں میں سے یہ چند صورتیں ہیں، اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کے ظلم سے محفوظ فرمائے۔ آمین
…………….