مصائب سے نجات کا راستہ

﴿وَمَن يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا﴾ (الطلاق:2)
مصیبتوں اور پریشانیوں سے دو چار ہونا، آزمائشوں میں مبتلا ہونا، تکلیفوں سے گزرنا اس دنیا میں ہر انسان کے لیے حتمی اور لازمی ہے، تاہم مصیبتیں کچھ چھوٹی ہوتی ہیں اور کچھ بڑی، اور مصیبتوں کا چھوٹا بڑا ہونا انسان کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ بڑی مصیبتوں سے بچنے کے لیے چھوٹی مصیبتوں کو قربان کیا جاسکتا ہے، نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے یہ جاننا اور طے کرنا ضروری ہے کہ ہمارے نزدیک کونسی مصیبت چھوٹی کونسی بڑی اور کونسی سب سے بڑی ہے۔
مصیبتوں کے چھوٹا اور بڑا ہونے کا انحصار حقیقت میں آدمی کی سوچ، اس کے مزاج ، اس کے طرز زندگی ، اس کے مقصد زندگی اور اس کی منزل اور ہدف کے تعین کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلا کسی کے لیے غریب اور مفلس و نادار ہونا سب سے بڑی مصیبت اور آزمائش ہوتی ہے، کسی کے لیے بے اولاد ہونا یا نرینہ اولاد نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے، کسی کے لیے عہده و منصب سے محرومی سب سے بڑی بدنصیبی ہوتی ہے، کسی کے لیے جسمانی تکلیف سب سے بڑی مصیبت ہوتی ہے، کسی کے لیے حسن و جمال اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے، کسی کے لیے خود نمائی اور شہرت سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے، اور کسی چیز کے سب سے بڑا مسئلہ ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس سب سے بڑے مسئلے کے لیے باقی تمام چھوٹی مصیبتوں اور مسئلوں کو قربان کر سکتا ہے اور کرنے کے لیے ہمہ تن اور ہمہ وقت تیار رہتا ہے، اور اپنی ساری زندگی اپنے اس سب سے بڑے مسئلے کے حصول یا اس کے حل کے لیے گزار دیتا ہے، اس کے لیے تگ و دو اور سعی و جہد کرتے ہوئے صرف کر دیتا ہے، اور اس کے حصول کی راہ میں کوئی مشقت اور مصیبت اس کی سب سے بڑی مصیبت ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ جانتا ہوگا اور طے کرتا ہوگا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اور کیوں ہے؟
شاید اکثر لوگوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اور کیوں ہے، ذرا مشکل ہو، اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، لہٰذا لوگوں کو اس سوال کا جواب جاننے کی مشکل میں ڈالنے کے بجائے قرآن وحدیث کی روشنی میں مطلوب و مقصود بیان کیسے دیتے ہیں کہ دنیا میں انسان کی سب سے بڑی مصیبت ، اس کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہونا چاہیے۔
اس دنیا کی زندگی میں انسان کو جو مشکلیں اور مصیبتیں آتی ہیں،یقینًا ان میں کچھ بہت بڑی برای مصیبتیں بھی ہوتی ہیں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جا سکتے کیونکہ وہ ایک طویل موضوع ہے۔ مگر مصیبتوں کی شدت اور سنگینی کا اندازہ کرنے کے لیے دو ایک واقعات ذکر کرتے چلتے ہیں۔
رسول کریم ﷺکی وفات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے لیے عموماً اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہاکے لیے خصوصًا ایک بہت بڑی مصیبت اور بہت بڑا صدمہ تھی، دنیا کے لحاظ سے بھی اور دین کے لحاظ سے بھی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللهِ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ))
’’جس دن آپ ﷺمدینہ منورہ میں داخل ہوئے، اس دن وہاں کی ہر چیز روشن ہوگئی چمک اٹھی ۔‘‘
((فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ))
’’ اور جس دن آپ سے کام فوت ہوئے وہاں کی ہر چیز تاریک ہوگئی۔‘‘
((وَمَا نَفَضْنَا أَيْدِينَا مِنَ التَّرَابِ وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنكَرْنَا قُلُوبَنَا))( ابن ماجة:1631)
’’اور ابھی ہم نے آپ ﷺ کی مرقد مبارک پر مٹی ڈال کر ہاتھ نہیں جھاڑے تھے کہ ہمیں اپنے دل ہی بدلے بدلے لگنے لگے ۔‘‘
یعنی آپ ﷺ کے وجود مسعود سے دنیا میں جو خیر و برکت اور تعلیم و تربیت کا ڈائریکٹ حصول تھا اس سے محرومی کا دلوں پر ایسا اثر ہوا کہ وہ رفت، وہ تازگی اور وہ نشاط نہ رہا، ہر طرف غم کی فضا چھا گئی۔ اور اس مصیبت اور صدمے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی جو کیفیت ہوئی وہ بھی آپ کےسامنے ہے۔
اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ ﷺسے ایک خصوصی نسبت ، شرف اور تعلق حاصل تھا کہ وہ جگر گوشت رسولﷺ ہیں، لہٰذا انہیں دہر اصدمہ ہوا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے وہ کتنی بڑی مصیبت ، غم اور تکلیف تھی اور انہوں نے اپنی اس تکلیف کا اظہار کن الفاظ میں کیا ؟
حضرت انس خادم رسول اللہﷺ کو مخاطب کر کے فرماتی ہیں:
((يَا أَنسُ أَطَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ التُّرَابَ))( بخاری: 4462)
’’اے انس ! تمہارے نفسوں نے کیسے گوارا کیا کہ تم آپ ﷺ کی قبر مبارک پر مٹی ڈالو۔ کیسے حوصلہ پڑا کیسے ہمت ہوئی۔‘‘
تو بات ہو رہی تھی کہ دنیا میں انسان کو اس قدر بڑی بڑی، شدید اور سنگین آزمائشیں پیش آتی ہیں کہ آدمی اپنے غم کا اظہار یوں کرتا ہوا نظر آتا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مصیبتیں بڑی ہی ہیں، مگر حقیقت میں انسان کی سب سے بڑی مصیبت وہ ہے جو اس کو اس کے دین کے معاملے میں پیش آئے۔
دنیا کے معاملے میں کسی انسان پر بڑی سے بڑی مصیبت یہ ہو سکتی ہے کہ اس کی جان مال، اولاد سب کچھ تباہ و بر باد ہو جائے ، لیکن دین کے معاملے میں مصیبت آنے کا مطلب اس کی آخرت کی ہلاکت اور تباہی و بربادی ہے، اور کیا کوئی عقلمند آدمی آخرت کی تباہی و بربادی کے مقابلے میں دنیا کی تباہی و بربادی کو اپنی سب سے بڑی مصیبت قرار دے سکتا ہے؟
تو معنی یہ ہوا کہ انسان کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے اور ہونی چاہیے کہ اسے دین کے معاملے میں کوئی مصیبت آجائے، چنانچہ آپﷺ نے دعاء سکھلائی ہے کہ اللہ تعالی کے حضور التجا کریں اور دعا کریں کہ دین کے معاملے میں کوئی مصیبت نہ آئے۔
((وَلَا تَجْعَلْ مُصِيْبَتَنَا فِي دِيْنِنَا))
’’اور اے اللہ ! ہمارے دین کے معاملات میں ہم پر مصیبت نہ ڈالنا۔‘‘
((وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا))(ترمذی:3502)
صلاحیتیں، اور دنیا کے حصول کو ہماری سوچ اور فکر کا محور نہ بنانا کہ ہماری تمام تر اور تمام تر کوششیں صرف دنیا کے حصول کے لیے ہی صرف ہو کر رہ جائیں۔
سلف صالحین جسے دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت پر بھی اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے نظر آتے ، اس لیے کہ وہ ان کے دین کے معاملے میں نہ ہوتی۔
قاضی شریح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((إِنِّى لَأَصَابُ بِالْمُصِيبَةِ فَأَحْمَدُ اللهَ تَعَالَى عَلَيْهَا أَرْبَعَ مَرَّات.))
’’مجھ پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو میں اس پر چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں ۔‘‘
1۔ أحمد اذ لم يكن مما اعظم هي . ایک اس بات پر شکر بجالاتا ہوں کہ جو مصیبت آئی ہے اللہ تعالی نے اس سے بڑی مصیبت سے محفوظ رکھا ہے، یعنی اس سے بھی بڑی آسکتی تھی۔
2۔وأحمد اذ رزقني الصبر عليها . اور ایک بار اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے اس مصیبت پر صبر کی توفیق عطا فرمائی ہے۔
3۔ وأحمد اذ وفقني للاسترجاع لما ارجوه من الثواب . اور ایک اس لیے شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے اس پر
اِنَّا لِلهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہنے کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ جس پر میں اس سے ثواب کی امید رکھتا ہوں ۔
4۔وأحمد اذ لم يجعلها في ديني.(تاریخ دمشق، ج:23، ص:42)
’’ اور ایک اس لیے شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ مصیبت میرے دین میں نہیں ڈالی ۔‘‘
رہا یہ کہ دین میں مصیبت کا کیا مطلب ہے؟ تو دین میں مصیبت کا مطلب ہے کہ شرک اور بدعت میں مبتلا ہونا۔ دین میں مصیبت کا مطلب ہے: عبادات کو پس پشت ڈال دینا اور گناہوں میں ملوث ہونا۔ دین میں مصیبت کی کئی شکلیں اور صورتیں ہیں، ایک یہ ہے کہ رزق کے حصول کے لیے ملازمت یا کاروبار کسی ایسے کام سے وابستہ ہو کہ جو حرام ہو۔ یا ایسا ہو کہ جس میں عبادات ترک کرنا پڑتی ہوں یا ان میں تاخیر کرنا پڑتی ہو۔ عبادات میں ترک یا تاخیر سلف صالحین کے ہاں ایک بہت بڑا نقصان اور خسارا سمجھا جاتا۔
چنانچہ سلف صالحین کے ہاں اگر کسی کی تکبیر تحریمہ فوت ہو جاتی تو اس سے تین دن تک تعزیت کرتے ، اور اگر پوری نماز فوت ہو جاتی تو سات دن تک تعزیت کرتے جو کہ اس بات کی علامت تھی کہ اسے اس کے دین میں اک بہت بڑا نقصان پہنچا ہے اس لیے تعزیت کی جا کی رہی ہے۔
تو دین میں مصیبت کا مطلب ہے کہ آدمی نیکیوں کے موسموں سے استفادہ نہ کر سکے، جیسے رمضان المبارک، عاشوراء اور عشرہ ذوالحجہ کے ایام وغیرہ، یہ مبارک ایام انسان کی زندگی میں آئیں اور انسان ان سے مستفید نہ ہو سکے،یقینًا بہت بڑی مصیبت اور بہت بڑا نقصان ہے۔
دین میں مصیبت یہ ہے کہ آدمی کا نیکی کے کاموں میں جی نہ لگتا ہو، نماز کے لیے دل آمادہ نہ ہوتا ہو، اور اگر پڑھنی پڑ جائے تو بے ولی سے پڑھے، جیسا کہ قرآن پاک میں منافقین کی علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:
﴿وَ إِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوا كُسَالٰي﴾ (النساء:142)
’’وہ جب نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے ، بو جھل قدموں کے ساتھ۔‘‘
لہٰذا اس بات کی فکر کرنی چاہیے اور اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی دین کے کسی معاملے میں ہمیں مصیبت اور آزمائش میں مبتلا نہ کرے۔ آمین۔
تو اب آئے گزشتہ سے پیوستہ کے متعلق بات کرتے ہیں، گزشتہ خطبہ جمعہ المبارک میں بات ہو رہی تھی کہ زندگی کیسے گزاری جائے، جس کا مطلب عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ زندگی کو آسان کیسے بنایا جائے، چنانچہ لوگ زندگی کو آسان بنانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں اور زندگی بھر اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں حتی کہ حقیقی مشقتوں کا وقت آ پہنچتا ہے۔
انسان آسانیوں کے حصول میں جزوی یا جزوقتی کامیابی بسا اوقات حاصل کر لیتا ہے مگر وہ اس بات پر غور نہیں کرتا کہ تھوڑی سی آسانی اور آسائش حاصل کرنے کے لیے اسے کتنے گھنٹے مشقت میں گزارنے پڑتے ہیں، تب کہیں جا کر وہ تھوڑی سی آسانی اور سہولت سے محفوظ ہوتا ہے، مگر وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے، اور اس کے بعد پھر چل سو چل، اور جو حقیقی مشقت ہے اس سے بچنے کی ہرگز فکر نہیں رکھتا۔
اور یہ جسے وہ آسان زندگی سمجھتا ہے سراسر دھوکہ ہے، کیونکہ زندگی میں حقیقی معنوں میں آدمی اس وقت لطف اندوز ہوتا ہے جب اسے راحت جسم کے ساتھ ساتھ راحت نفس اور اطمینان قلب بھی حاصل ہو۔
اور اطمینان قلب اور سکون نفس جہاں وہ ڈھونڈتا ہے وہاں دستیاب ہی نہیں ہے۔ تو پر سکون زندگی گزارنے کے جو چند اصول وضوابط کا ذکر ہو رہا تھا، ان میں سے ایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں بیان ہوا کہ مصیبت کے وقت صبر کرنا اور عقیدہ و ایمان کے ساتھ انا للہ وانا الیہ راجعون کہنا۔
پر سکون زندگی گزارنے کے لیے دوسرا قاعدہ اور ضابطہ یہ ہے کہ ﴿و استعینوا بالصَّبْرِ والصَّلاة﴾’’صبر اور نماز کے ذریعے اپنے معاملات کے حل کے لیے اللہ تعالی سے مدد چاہو۔‘‘
اور معاملات دنیا کے ہوں یا آخرت کے، ہر ہر معاملے کے حل کے لیے نماز کے ذریعے اللہ تعالی سے مدد چاہو۔
مصنوعی راحت کی تلاش میں انسان ساری زندگی سرگرداں رہتا ہے اور وہ بھی میسر نہیں ہوتی ۔ جبکہ حقیقی راحت سہل الوصول بھی ہے اور قطعی الحصول بھی ہے۔
یعنی حقیقی راحت تک پہنچنے کہ یعنی حقیقی راحت تک پہنچنے کے وسائل اور ذرائع بہت آسان بھی ہیں، کہ انہیں حاصل کرنے کے لیے کوئی بہت زیادہ مشقت نہیں اٹھانا پڑتی اور جب وہ ذرائع اختیار کر لیے جائیں تو پھر ان کا حصول اللہ کے فضل سے قطعی ہو جاتا ہے۔ کبھی نہایت اطمینان کے ساتھ وضو کر کے، نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ صرف دو رکعت نماز ادا کر کے دیکھو جو لذت، جو سکون، جو راحت اور لطف حاصل ہوگا دنیا کی ساری دولت حاصل کر کے بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔
نماز میں ایک یقینی راحت ہے، نماز پر سکون زندگی کا راز ہے، نماز دنیا و آخرت کے مسائل کا حل ہے۔
چنانچہ آپ سےﷺ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کرتے تھے:
((قمْ يَا بِلالُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ)) (ابوداؤد:4986)
’’اے بلال! اٹھو اور ہمیں نماز کے ذریعے راحت حاصل کرنے کا انتظام کرو۔‘‘
یعنی اذان کہو کہ نماز پڑھ کر راحت نفس حاصل کر لیں۔
اور نماز کے بارے میں فرمایا:
((وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلاةِ)) (نسائی:3939)
’’نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دی گئی ہے۔‘‘
نماز غموں اور پریشانیوں کو دور کرنے کا سب ، نماز راحت نفسی کا ذریعہ، نماز مسائل کے حل کا نسخہ کیمیاء ہے۔
حدیث میں ہے، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔
((كَانَ النبي إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلّٰى))(ابو داؤد:1319)
’’آپ ﷺکو کوئی مسئلہ در پیش ہوتا تو نماز پڑھتے ۔‘‘
یعنی کوئی مشکل، کوئی غم ، کوئی پریشانی اور تکلیف پہنچتی تو فوراً نماز کی طرف متوجہ ہوتے۔
یوں تو مسائل کے حل کے لیے دعا بھی ہے، صدقہ و خیرات بھی ہے اور دوسرے اعمال بھی ہیں۔ مگر نماز کو ان سب پر ایک درجہ اور فضیلت اور برتری شاید اس لیے حاصل ہے کہ یہ قیامت کے دن اللہ تعالی کے حضور پیشی کا منظر پیش کرتی ہے۔
اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب نماز میں سجدے کی حالت میں حاصل ہوتا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے ، آپ ﷺنے فرمایا: ((أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ)) (مسلم:1082)
’’بندہ سب سے زیادہ جو اپنے رب کے قریب ہوتا ہے تو اس وقت جب وہ سجدے میں ہوتا ہے، پس اُس وقت کثرت سے دعا کرو۔‘‘
اور اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ﴾ (العلق:19)
’’اورسجدہ کر اور اپنے رب کا قرب حاصل کر۔‘‘
ایسے ہی نماز جنت میں آپﷺ کے قرب اور رفاقت کا ذریعہ بھی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔
((عَنْ رَبِيعَةَ بن كَعْبٍ قَالَ: كُنْتُ أَبَيْتُ مَعَ النَّبِي أَتِيهِ بِوُضُوئِهِ وَ حَاجَتِهِ))
’’حضرت ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کے ساتھ رات گزارا کرتا تھا، آپ کے لیے وضو کا پانی لاتا اور دیگر کاموں کے لیے حاضر خدمت رہتا۔‘‘
حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ اہل صفہ میں سے تھے اور آپ ﷺکے دروازے پر رات گزارا کرتے تھے کہ جو نبی آپ ﷺکو کسی کام کی ضرورت پڑے تو فوراً بجالائیں۔
چنانچہ ایک روز آپ ﷺنے ان سے فرمایا: (سَل) ما نگو! تو حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: ((فَقُلْتُ أَسْأَلُكَ مُرافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ)) ’’تو میں نے عرض کیا: جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔‘‘
(فَقَالَ: أَوَ غَيْرَ ذٰلِكَ؟) تو آپ ﷺنے فرمایا: اس کے علاوہ کوئی اور ہے؟ تو حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے کہا: (هُوَ ذَاكَ) ’’بس یہی ہے۔‘‘
تو آپ ﷺ نے فرمايا: (فَأَعِنِّى عَلٰى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ)(مسلم:489)
’’پس کثرت سجود سے میری مدد کرو۔‘‘
تو نماز خوشگوار اور پر سکون زندگی گزارنے کا ایک سب سے بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہے، تمام مسائل کا حل ہے اور تمام ضرور تھیں اور حاجتیں مانگنے کا ذریعہ ہے۔