روزے کی قدر و منزلت کو جانیے

﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾ (البقرة:185)
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔‘‘
روز ہ فرض عبادات میں سے سب سے بلند مرتبہ فريضہ ہے، اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک ہے، اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے ایک نہایت ہی اہم عبادت ہے اور ایسی پوشید ہ عبادت ہے کہ جس میں ریا کاری کا ڈر ہے، نہ نمود و نمائش کا خدشہ اور نہ شہرت کا اندیشہ۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں شوخی اور چلبا اپن نہیں، دھوم دھام اور شور شرابہ نہیں، بلکہ سکون اور قرار ہے، خاموشی ہے، متانت اور سنجیدگی ہے۔ یوں تو اسلام میں تمام عبادات ہی پر وقار اور سنجیدہ قسم کی ہیں، مگر کچھ لوگوں نے محض جذبات کی رو میں بہہ کر اور اغیار کے طریقہ عبادت اور دین کے ساتھ ان کی عقیدت تعلق اور وابستگی کے اظہار کے انداز اپناتے ہوئے اسلام میں بھی بہت سے ایسے طریقے ایجاد کر رکھتے ہیں کہ جن میں شوخی ہے، شور شرابہ ہے، بلا گلا ہے، دھوم دھام ہے جشن اور میلے کا سما کمال ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسے امور اسلام کی روح سے متصادم اور منافی ہیں، اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق اور واسطہ نہیں، کہ وہ خود ساختہ ہیں۔ تو روزہ پوشیدہ اور خاموش عبادت ہونے کے اعتبار سے اسلام کی تمام عبادات میں سرفہرست ہے، ریا کاری سے دوری اور بعد کے لحاظ سے بھی سب پر مقدم ہے۔ اب اس وقت جتنے لوگ مسجد میں موجود ہیں سب کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ نماز کی ادائیگی کے لیے آئے ہیں، مگر ان میں کتنے لوگ روزے سے ہیں اور کتنے لوگ کسی عذر کی بنا پر روزے سے نہیں ہیں، کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح دیگر عبادات بھی ہیں، زکاۃ ہو، حج ہو، صدقہ خیرات ہو، ان عبادات کی ایک ظاہری شکل ہوتی ہے، لہٰذا وہ دیکھی بھی جا سکتی ہیں اور ان میں ریا کاری کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ مگر روزے کی ظاہری شکل میں ریا کاری کا کوئی خطرہ اور کوئی امکان نہیں ہے، ہاں اگر کوئی اپنی زبان سے اور الفاظ کے ذریعے ریا کاری کرنا چاہے تو وہ ممکن ہے اور وہ بھی نفلی روزے میں، کیونکہ فرض روزے کے بارے میں تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ کوئی روزے سے ہے کیونکہ ہر آدمی روزے سے ہوتا ہے۔
چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ صَامَ يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ))(شعب الإيمان للبيهقي ، ج:9، ص:165، رقم:6427)
’’جس نے دکھلاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا ۔‘‘
لیکن جہاں تک روزے کی ظاہری شکل کا تعلق ہے، تو اس میں ریا کاری کا کوئی شائبہ نہیں ہو سکتا، چنانچہ روزے کی شاید اسی خصوصیت ، انفرادیت و اہمیت اور وصف و خوبی کی بنا پر اللہ فرماتے ہیں:
((كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ ، إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِى به))(بخاری:5927)
’’آدمی کا ہر عمل اس کے لیے ہے، سوائے روزے کے، کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘
روزے کے سوا آدمی کا ہر عمل اس کے لیے ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی کا ہر عمل اس کے لیے کفارہ ہو سکتا ہے، سوائے روزے کے۔
(( لِكُلِّ عَمَلٍ كَفَّارَةٌ، وَالصُّوْمُ لِي ، وَأَنَا أَجْزِى به))(بخاری:7538)
’’ہر عمل کا کفارہ ہوتا ہے مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے:
كُلُّ عَمَل ابنِ آدَمَ لَهُ كَفَّارَةٌ إِلَّا الصَّوْمَ ، وَالصُّوْمُ لِي وَأَنَا اَجْزِیْ بِهِ))( الخلفيات لأبي الحسن الخلعي ج:2، ص:34)
’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کفارو ہوتا ہے، سوائے روزے کے، روزو میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘
اور ہر عمل کے کفارہ ہونے کا مطلب ہے کہ قیامت کے دن آدمی کا اگر کسی دوسرے شخص کے ساتھ کوئی معاملہ ہے، کوئی لین دین ہے، کوئی گالی گلوچ اور کوئی ظلم و زیادتی ہے تو اس کا قصاص ہوگا، جیسا کہ حدیث میں ہے: آپ ﷺنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے دریافت فرمایا:
((اَتَدْرُوْنَ مَنِ الْمُفْلِسُ))
’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس (غریب ) کون ہے ؟‘‘
((قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ! المُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعٌ))
’’عرض کیا: ہمارے ہاں مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں، مال و متاع نہ ہو، یعنی کنگال ہو۔‘‘
فَقَالَ: ((إِنَّ الْمُفْلِس مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَزَكَاةٍ، وَصِيَامٍ وَحَجٍّ))
’’فرمایا: میری امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، زکاۃ، روزہ اور حج جیسے اعمال لے کر آئے گا ۔‘‘
وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هٰذَا وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هٰذَا، وَضَرَبَ هٰذَا، وَسَفَكَ دَمَ هٰذَا))
’’اور یوں بھی آئے گا کہ کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر بہتان لگایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہو گا کسی کو مارا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا۔‘‘
((فَيُعْطٰى هٰذَا مِن حَسَنَاتِهِ، وَهٰذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ))
’’اس ظلم و زیادتی کے بدلے کفارے کے طور پر ان کو اس کی نیکیاں دی جائیں گی۔‘‘
((فَإِن فَنِيتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضٰی مَا عَلَيْهِ ، أَحَدٌ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطَرِحَتْ عَلَيْهِ))
’’اگر تمام مظالم کا فیصلہ ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں، تو پھر ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے۔‘‘
((ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ))(مسلم: 2571)
’’اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ‘‘ اعاذنا الله منه
تو یوں آدمی کی نیکیاں اس کے لیے کفار و بن سکتی ہیں مگر روزے کو اللہ تعالی محفوظ رکھے گا، اس کے گناہوں اور اس کے مظالم کے بدلے کفارہ نہیں بنے دے گا۔
رہا آپ ﷺ کا یہ فرمان:
((وَ الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي به ))(بخاری: 7538)
’’کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں ہی دوں گا ۔‘‘
تو اس کے ائمہ کرام رحمہم اللہ نے متعدد مفہوم بیان کیے ہیں:
٭ ایک یہ کہ روزہ واحد وہ عبادت ہے جو صرف اور صرف اللہ تعالی کے لیے کی جاتی ہے کہ مشرکین بھی اپنے جھوٹے خداؤں کا قرب حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرتے مگر روز ہ نہیں رکھتے تھے۔
٭ ایک مفہوم یہ ہے کہ چونکہ روز ہ خفیہ اور پوشیدہ عبادت ہے، جس میں ریا کاری کا خدشہ نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالی نے اس کی اپنی طرف نسبت کی ہے کہ روزہ میرے لیے ہے۔
٭ اور ایک مفہوم یہ ہے کہ اس میں روزے دار کا کوئی ظاہری فائدہ نہیں ہے۔ جیسے کوئی لذت ہو، کوئی سکون اور کسی خواہش کی تشفی اور تسلی اور تحصیل ہوتی ہو۔
٭ اور ایک مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس عبادت کو شرف اور مقام دینے کے لیے اپنی طرف نسبت کی ہے۔
تاہم ان میں سے کوئی ایک مفہوم بھی ہو سکتا ہے اور سارے بھی ہو سکتے ہیں تو روزہ تقرب الی اللہ کے لیے سب سے اہم عبادت ہے، اور اس عبادت کی بڑی خوبی اس کا خفیہ اور پوشیدہ ہوتا ہے، مگر پوشیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک اجتماعی عبادت بھی ہے کہ سب لوگ ایک ساتھ روزے رکھ رہے ہیں۔ مگر اجتماعی ہونے کے باوجود بھی پوشیدہ ہی رہتی ہے۔
اور کسی عبادت کے اجتماعی ہونے میں یقینًا بہت سی حکمتیں ہوں گی، جن میں سے اس عبادت کے لیے لوگوں میں شوق اور جذبہ پیدا کرنا، ایمان بڑھانا، اور شوکت اسلام کا اظہار وغیرہ ہو سکتی ہیں۔
تا ہم خوش ہونا چاہیے اس عبادت کی توفیق پر اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے ایک بار پھر زندگی میں ہمیں اس سے مستفید ہونے کا موقعہ عنایت فرمایا ورنہ ہم میں سے کتنے ہیں جو گزشتہ سال ہم میں موجود تھے اور اس مبارک مہینے کی برکتوں سے مستفید ہو رہے تھے مگر آج وہ اس سے مستفید نہیں ہو سکتے، اپنے اعمال نامے میں ایک نیکی کا اضافہ بھی نہیں کر سکتے۔
اور آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کسی فوت شدہ شخص کی کیا تمنا ہو سکتی ہے، بالخصوص ہمارے جیسے کسی شخص کی کہ جس نے نیکیاں جمع کرنے میں سستی اور کاہلی اور بے توجہی سے کام لیا اور ان قیمتی لمحات سے صحیح معنوں میں مستفید نہ ہوا بلکہ بائیس گھنٹے دنیا کے لیے مخصوص کیے اور صرف دو گھنٹے اپنی آخرت کے لیے؟
حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
((أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَرَّ بِقَبْرٍ فَقَالَ: ((مَنْ صَاحِبُ هَذَا الْقَبْرِ))
’’آپﷺ کا گزر ایک قبر کے پاس سے ہوا تو فرمایا: اس قبر والا کون ہے؟‘‘
فَقَالُوا: فُلَانٌ))
’’لوگوں نے کہا: فلاں شخص ۔ یعنی اس کا نام لیا۔‘‘
((فَقَالَ: رَكْعَتَانَ أَحَبُّ إِلَى هٰذَا مِنْ بَقِيَّةِ دُنْيَاكُمْ ..))( المعجم الأوسط للطبراني ، ج:1، ص:282، رقم:920)
’’فرمایا: اس شخص کے نزد یک دور کعتیں تمہاری باقی تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہیں ۔‘‘
اس لیے آئیے اس موقع کو غنیمت جانیں اور اس سے مستفید ہونے کی کوشش کریں۔
امام ابن جوزی رحمہ اللہ ہمارے جیسے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے اپنی طویل گفتگو میں یوں مخاطب ہوتے ہیں، جس کے چند الفاظ یہ ہیں:
((يَا مَنْ عُمْرُهُ كُلَّمَا زَادَ نَقَصَ .))
’’اے وہ انسان کہ جس کی عمر جوں جوں بڑھتی جاتی ہے، توں توں گھٹتی جاتی ہے۔‘‘
((يَا مَائِلًا إِلَى الدُّنْيَا هَلْ سَلِمْتَ مِنَ النَّقْصِ))
’’اے دنیا کی طرف جھکاؤ رکھنے والے! کیا اس گھانے اور نقصان سے تم محفوظ ہو؟
((يَا مُفْرِطًا في عمرهِ! هَلْ بَادَرْتَ الْفُرَصْ)) (التبصرة لابن الجوزي، ص:397)
’’اے اپنی عمر کے معاملے میں افراط سے کام لینے والے ۔‘‘
اُسے فضولیات میں ضائع کر دینے والے، کیا تو نے موقعوں اور فرصتوں سے مستفید ہونے کے لیے عجبات و مستعدی سے کام لیا۔ کیا ان کی طرف لپکا اور دوڑا اور مسابقت اور مسارعت کی کوشش کی؟ یا اردو کے محاورے کے مطابق زمین جدید نہ جنبد گل محمد کہ زمین اپنی جگہ سے ہل سکتی ہے مگر گل محمد اپنی جگہ سے نہیں مل سکتا والا معاملہ ہے؟
کیا ان قیمتی لمحات سے مستفید ہونے کی کوشش کر رہے ہو یا اس بدنصیبی اور بدبختی کا شکار ہو رہے ہو جس کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں: میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ ؕ ﴾ (التوبة:38)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا جاتا ہے تو تم زمین سے چمٹ کے رہ جاتے ہو ۔‘‘
﴿ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ۝ ﴾(التوبة:38)
’’کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا ؟ یاد رکھو! یہ متاع حیات دنیا آخرت میں بہت کم نکلے گا۔‘‘
یا کہیں اس شخص کی طرح تو نہیں ہو گئے ؟ جس کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں: ﴿ وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَ لٰكِنَّهٗۤ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ یَلْهَثْ ؕ ﴾ (الاعراف:176)
’’اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے بلندی عطا کرتے مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا۔ اور اپنی خواہش نفس کے پیچھے پڑا رہا۔ اس کی حالت اس کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے ہانپتا رہے، اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے ہانپتا رہے۔ ‘‘
یہ دنیا کی چہل پہل اور رونق ایک دھوکہ ہے، ایک دلدل ہے اگر ہم خواہش کریں گے تو اللہ کے فضل سے اس سے نکل پائیں گے، ورنہ اس دلدل میں دھنستے ہی چلے جائیں گے۔ اعاذنا الله منها.
جسے دنیا کی رونق اور چمک دمک نے ڈھیر کر رکھا ہے اسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اس حکیمانہ قول اور مثال پر غور کرنا چاہیے، شاید افاقہ ہو۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((لَوْ أَنَّ الدُّنْيَا مِنْ أَوَّلِهَا إِلٰى آخِرِهَا أُوتِيَهَا رَجُلٌ وَاحِدٌ))
’’یہ دنیا شروع سے لے کر آخر تک، ساری کی ساری اگر کسی ایک شخص کو دے دی جائے۔‘‘
((ثُمَّ جَاءَهُ الْمَوْتُ))
’’اور پھر اسے موت آجائے۔‘‘
((لكَانَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ رَأَى فِي مَنَامِهِ مَا يَسُرُّهُ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فَإِذَا لَيْسَ فِي يَدَهِ شَيْءٌ)) (مدارج السالكين لابن القيم، ج:3، ص:93)
’’ تو وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے اک نہایت ہی خوش کن خواب دیکھا، پھر آنکھ کھلی تو اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ تھا۔‘‘
بس اتنی سی ہے دنیا کی حقیقت۔
اس لیے جائیں ! ہوش میں آئیں، اس موقعہ قیمت سے مستفید ہوتے ہوئے ، اس شرمندگی اور ندامت اور افسوس اور پشیمانی سے بچ جائیں کہ جس سے اللہ تعالی نے خبر دار کر رکھا ہے۔ فرمایا:
﴿وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیْبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝﴾(المنافقون: 10)
’’اور جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کر و قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے، اور اس وقت وہ کہے کہ اے میرے رب ! کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا ۔‘‘
روزہ ایک بہت ہی عظیم عبادت ہے، اس کے دنیوی اور اخروی بہت زیادہ فوائد ہیں۔ اس سے جسمانی طور پر صحت و تندرستی ملتی ہے، اخلاقیات درست ہوتی ہیں اور آخرت بنتی ہے۔ روز و سے تزکیہ و تربیت نفس ہوتا ہے، انسان صحیح معنوں میں انسان بن جاتا ہے، اس کی حیوانی خواہشات اور بری صفات کی جگہ اچھی صفات لے لیتی ہیں۔ اور انسان کی دنیا میں حیثیت ، اس کا مقام و مرتبہ اس کی صفات حمیدہ کے لحاظ سے ہی ہوتا ہے۔
یوں تو ہر خوبی کا اپنا ایک فائدہ ہے، اپنی ایک حیثیت ہے، اور ہر صفت و خوبی کے حساب سے لوگ اسے عزت و احترام دیتے ہیں۔
٭ مثلًا اگر کسی کی آواز اچھی ہو تو عقیدت مندوں اور چاہنے والوں کا اور قدردانوں کا اس کے گرد ایک حلقہ بن جاتا ہے۔
٭ خوش اخلاق و خوش گفتار ہو تو لوگ اس کے قریب ہوتے ہیں، اس کی بات غور سے سنتے ہیں اور لوگ اس کے گرد جمع ہوتے ہیں۔
اس خوبی کی کیا قیمت ہے، اندازہ کیجیے اللہ تعالی آپﷺ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
﴿وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۪﴾(آل عمران:159)
’’اور اے پیغمبر! اگر آپ تک خو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے ۔‘‘
اور آپ ﷺ تو مجموعہ خصال حمیدہ تھے، شاعر مولانا عبد الرحمن جامی نے آپ کی مدح میں کیا خوب کہا ہے:
حسین یوسف دم عیسی ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
’’ جس جس پیغمبر میں کوئی خاص خوبی تھی اور وہ سب کی سب تنہا آپ ﷺ میں موجود ہیں۔‘‘
ایک خوبی سخاوت ہے، اس کی اہمیت کا سنتے چلیں۔ اس خوبی میں ایک خوبی یہ ہے کہ آدمی کی تمام خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا:
وَإِن كَثرَتْ عُيُوبُكَ في البرايا
وَسَرَّكَ أَنْ يَكُونَ لَهَا غِطَاءُ
’’ اگر تمہارے عیوب معاشرے میں بہت ہو جا ئیں، اور تم چاہو کہ ان کی پردہ پوشی ہو۔‘‘
تَسَتَّر بِالسَّحَاءِ فَكُلُّ عَيْبٍ
يُغَطِّيْهِ كَمَا قِيلَ السَّخَاءُ
’’تو سخاوت سے ان کی پردہ پوشی کرو کہ سخاوت ہر عیب کو ڈھانپ دیتی ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے‘‘
………………………..