ماہ رمضان کی آمد پر حمد الہی

﴿ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا ۫ وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ۚ ﴾(الاعراف:43)
’’سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ہدایت دی اس کی اور ہم بھی ہدایت نہ پاتے اگر اللہ نے ہمیں ہدایت نہ دی ہوتی ۔ ‘‘
اللہ تعالی کا بہت بڑا فضل، اس کا کرم اور احسان ہے کہ اس نے ایک بار پھر ہمیں زندگی میں رمضان المبارک نصیب فرمایا، اور اس سے مستفید ہونے کی توفیق بخشی۔ اس پر اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف و توصیف اور مدح و ثنا بیان کی جائے کم ہے، اور پھر اس حمد وثنا کی توفیق پر اس کی جتنی بھی حمد وثنا بیان کی جائے کم ہے اور حق تو یہ ہےکہ حق ادا نہ ہوا۔
﴿وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا ۫ وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ۚ ﴾(الاعراف:43)
اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اس کی تعریف و توصیف اور اس کی سپاس گزاری کی توف یقیقینًا ایک بہت بڑی نعمت، بہت بڑی سعادت اور اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے۔
ہر قسم کی حمد وثنا کا حقیقی حق دار اس دنیا میں بھی اور آخرت میں صرف اور صرف اللہ ہی ہے۔
﴿لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰی وَ الْاٰخِرَةِ ؗ وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۷۰﴾(القصص:70)
’’اسی کے لیے حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، فرماں روائی اس کی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو ۔‘‘
اور اس آیت کریمہ کا ایک مفہوم مفسرین نے یہ بیان کیا ہے ﴿لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰی﴾ اس کے لیے حمد ہے پہلے میں بھی، ﴿ وَ الْاٰخِرَةِ ؗ﴾ اور بعد میں بھی۔
اور پہلے سے مراد: انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے، اور اس کا مطلب ہے کہ انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے اللہ تعالی نے اس کے استقبال کے لیے جو تیاریاں کیں: چاند. سورج، ستارے، زمین اور آسمان پہاڑ، درخت، ہوا اور پانی وغیرہ کا انتظام کیا کہ زمین پر ایک خلیفہ اور اللہ تعالی کی تخلیق کا شاہ کار آ رہا ہے، جسے اللہ تعالی نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق فرمایا ہے۔
تو انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے اللہ تعالی نے اس کے لیے جو انتظامات فرمائے اس پر وہ حمد وثنا اور شکر و سپاس گزاری کا حق ہے، کہ یہ تمام چیزیں اس نے انسان کی خدمت کے لیے بنا ئیں، انسان نے ان کی کوئی قیمت تو نہیں ادا کی ، نہ اس کی ملکیت ہے، اور نہ اس میں اتنی قدرت و طاقت ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز بنا سکے جو ہزاروں اور لاکھوں سال مسلسل چلتی رہے مگر اس میں کوئی خرابی پیدا ہو، نہ تعطل ، نہ اس کی ٹائمنگ میں کوئی فرق آئے اور نہ اس کی پر فارمنس میں، نہ اس کے سپئیر پارٹس کی ضرورت پڑے اور نہ ٹیکنیشنز کی خدمات مطلوب ہوں ۔ تو یہ سب کچھ اسے حمد وثنا کا مستحق ٹھہراتا ہے، اور انسان پر حمد وثنا کو اخلاقی ، شرعی، قانونی اور عقلی طور پر فرض اور لازم کرتا ہے۔
اسی طرح (فِی وَ الْاٰخِرَةِ ؗ)آخر میں بھی یعنی قیامت کے دن بھی۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْ ۚ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ﴾(یونس:9)
’’جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے، انہیں ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے سیدھی راہ چلائے گا، نعمت بھری جنتوں میں ، ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ۔‘‘
﴿ دَعْوٰىهُمْ فِیْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَ تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ﴾(یونس:10)
’’ان کی صدا یہ ہوگی کہ پاک ہے تو اے اللہ ! اور ان کا خیر مقدمی کلام ہوگا کہ سلامتی ہو۔ یعنی السلام علیکم۔‘‘
﴿ وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠۝﴾ (يونس: 10)
اور ان کی ہر بات کا اختتامی جملہ ہوگا۔ الحمد لله رب العالمین تو آخرت میں بھی اس کی حمد ہوگی، اور آخرت میں اس کی حمد ہونے کا مطلب ہے کہ دنیا میں ایک وقت مقرر تک اس نے بے شمار نعمتوں سے نوازا، اور انسان کی حیثیت کے مطابق بلکہ اس کی حیثیت سے زیادہ نوازا، مگر آخرت میں وہ ایک غیر معینہ مدت کے لیے نوازتا ہے اور اپنی شان اور عظمت و جلال کے مطابق نوازتا ہے، اور ایسا نوازتا ہے کہ اللہ فرماتے ہیں:
((أَعْدَدتُّ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَاعَينٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلٰى قَلْبِ بَشَرٍ))(البخاري:3244)
’’ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے کہ جو کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کان نے سنا ہے اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا کوئی خیال بھی گزرا ہے۔‘‘
اور ایک ایسی جنت کہ جس کا ایک ہلکا سانگارہ ایسا ہو جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:
((وَمَوْضِعُ سَوْطِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا))(بخاري:2892)
’’جنت میں تمہاری چھڑی رکھنے کی جگہ دنیا و ما علیہا سے بہتر ہے۔‘‘
اور ایک ایسی جنت کہ جس کی کم سے کم وسعت اتنی ہو کہ آدمی کو یقین نہ آئے۔
حدیث میں ہے کہ سب سے آخری شخص جو جنت میں جائے گا جب جہنم سے اپنی سزا بھگت کر نکلے گا، تو اللہ تعالی اس سے فرمائیں گے:
((أَيُرْضِيْكَ أنْ أُعْطِيَكَ الدُّنْيَا وَمِثْلَهَا مَعَهَا))
’’کیا تم اس پر خوش ہو کہ میں تمہیں پوری دنیا کے برابر اور مزید اس جیسی ایک جنت دے دوں ؟‘‘
((فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَتَسْتَهْزِي بِي وَاَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ))
’’تو وہ بندہ کہے گا اے میرے رب ! تو رب العالمین ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے ؟‘‘
((قَالَ فَضَحِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ))
’’انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہ راوی کہتے ہیں، ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ یہ حدیث بیان کر کے ہنس دیئے۔‘‘
((وَقَالَ: أَلَا تَسْأَلُونِي مِمَّا أَضْحَكُ))
’’اور فرمایا: تم پوچھنا نہیں چاہو گے کہ میں کیوں ہنسا ہوں ؟‘‘
((فَقَالُوا مِمَّا تَضْحَكُ؟))
’’انہوں نے پوچھا آپ کیوں ہنسے ہیں؟‘‘
((قَالَ: هٰكَذَا ضَحِكَ رَسُولُ اللهِ))
’’کہا کہ آپ سے اس پر ایسے ہی ہنسے تھے۔‘‘
((فقال:)) ’’ اور آپ ﷺنے صحابہ سے فرمایا:‘‘
((أَلَا تَسْأَلُونِي مِمَّ ضَحِكْتُ؟))
’’کیا تم لوگ پوچھو گے نہیں کہ میں کیوں ہنسا ہوں؟‘‘
((فَقَالُوا مِمَّا تَضْحَكُ يَا رَسُولَ اللهِ))
’’صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ آپ کیوں منسے ہیں؟‘‘
((قَالَ: ((مِنْ ضَحِكِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، حِينَ قَالَ لَهُ أَتَسْتَهْزِئُ بِي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ))
’’فرمایا: اللہ رب العالمین کے بننے پر جب بندے نے کہا کہ اے میرے رب! تو رب العالمین ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟‘‘
تو اللہ تعالی نے فرمایا ((مَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ وَلَكِنِّي عَلَى مَا أَشَاءُ قَادِرٌ)) (مسلم:186۔ 187)
’’میں تم سے مذاق نہیں کرتا ، بلکہ میں جو چاہوں کرنے پر قادر ہوں ۔‘‘
((أُدْخَلِ الْجنَّةَ وَلَكَ عَشْرَةُ أَمْثَالِهَا))(بخاري:6571)
’’جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ اور تمہارے لیے اس جیسی دس گنا جنت ہے۔‘‘
تو ایسے رحیم و کریم، حنان ومنان اور مشفق و مہربان رب کی حمد و ثنا تو ہر دم ورد زبان رہنی چاہیے، اور حقیقت یہ ہے کہ اس کی حمد کا اس سے بھی حق ادا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی کے مقدس فرشتے جو ہر دم اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں، جس کے بارے اللہ تعالی فرماتے ہیں:
((يُسَبِّحُونَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتَرُوْنَ) (الانبياء:20)
’’وہ دن رات تسبیح بیان کرتےتھکتے نہیں ہیں۔‘‘
وہ قیامت کے دن کہتے ہوئے نظر آئیں گے؟
((سُبْحَانَكَ مَا عَبَدْنَاكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ))(المعجم الأوسط للطبراني ، ج:1 ، ص:44 ، رقم:3568)
’’پاک ہے تو ، ہم نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا۔‘‘
اور اس کی عبادت کا حق ادا ہو بھی کیسے سکتا ہے، اس کی تو شان ہی بڑی عظیم ہے، کوئی اس کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔
﴿ ؕ كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍۚ۝﴾ (الرحمن:29)
’’اس کی تو ہر روز ایک نرالی شان ہوتی ہے ۔‘‘
اس لیے کوئی مخلوق کوئی انسان کما حقہ اس کی شان بیان کر ہی نہیں سکتا، چنانچہ آپ ﷺنے اللہ تعالی کی شان بیان کرنے کے حوالے سے ہمیں جو دعا سکھلائی ہے اس میں اسی بات کا اعتراف موجود ہے کہ:
((لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا اثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ))(مسلم:486)
’’میں تیری ثنا کا احاطہ اور شمار نہیں کر سکتا ، تیری شان اور تیری ثنا وہی ہے جو تو نے خود اپنی بیان کی ہے۔‘‘
تو ہم اللہ تعالی کی بے شمار اور ان گنت نعمتوں پر اس کے حمد گو اور ثنا خواں ہیں۔ اس کے شکرگزار اور احسان مند ہیں، اس کے ممنون و مشکور ہیں، اور اس کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے رمضان المبارک کی صورت میں ہمیں مغفرت و بخشش حاصل کرنے کا ایک عظیم موقع عطا فر مایا کہ جس میں ایک رات ہزار مہینے سے بہتر قرار دی، اور جس کا اجر و ثواب یہ کہہ کر بیان فرمایا کہ ((اَلصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ))(بخاري:7492، مسلم: 1151)
’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں ہی دوں گا۔‘‘
جو کہ ایک بہت بڑے سر پرائز کی طرف اشارہ ہے اور اجر عظیم کی نوید ہے۔ اور اس پر بھی اس کے ستائش گو ہیں کہ اس نے ہمیں اپنی حمد وثنا کی توفیق بخشی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کے فضل و کرم اور اس کے انعام واحسان کے بغیر کوئی نیکی پایہ تحمیل کو پہنچ ہی نہیں سکتی ، اس کا اتمام ممکن ہی نہیں ہے۔
حدیث میں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں:
((كَانَ رَسُولُ اللهِ إِذَا رَأَى مَا يُحِبُّ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُ الصَّالِحَاتُ))(ابن ماجه:3803)
’’جب آپ ﷺکوئی پسندیدہ اور خوشی کا معاملہ دیکھتے تو فرماتے: (الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُ الصَّالِحَاتُ) ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ جس کی نعمت اور فضل و کرم سے نیکیوں کا اتمام ہوتا ہے۔‘‘
((وَإِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ، قَالَ: ((الْحَمْدُ لِلهِ عَلَى كُلِّ حَالِ))(ابن ماجه:3803)
’’اور جب کوئی نا پسندیدہ معاملہ پیش آتا تو فرماتے: ((الْحَمْدُ لِلهِ عَلَى كُلِّ حَالِ))
’’ ہر حال میں اللہ تعالی کی حمد اور تعریف ہے، اس کا شکر ہے۔‘‘
کسی نعمت پر اللہ تعالی کی حمد اور تعریف کرنا تو سب سمجھتے ہیں مگر کسی تکلیف تنگی اور پریشانی پر اس کی تعریف کرنا شاید سب کو یہ بات سمجھ نہ آتی ہو۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ ہر حال میں تعریف کا حق دار ہے، خوشی ہو یا تھی ، خوشحالی ہو یا تنگدستی، صحت و تندرستی ہو یا بیماری اور تکلیف ہو، وہ ہر حال میں حمد وثنا کا حق ہے۔
مگر تنگی اور تکلیف، اور مصیبت و پریشانی میں اس کی تعریف کرنا اور حمد وثنا بیان کرتا ۔ جو کہ بہت سے لوگوں کو سجھ نہیں آتا۔ وہ بھی حق ہے، اور اس کا حق ہے، اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جس کی ایک لمبی تفصیل ہے، مگر اس وقت صرف ایک وجہ اور سبب کا ذکر کروں گا، اور وہ یہ ہے کہ کوئی تکلیف، جو ظاہر میں تو تکلیف ہی ہوتی ہے مگر حقیقت میں وہ انسان کے لیے کتنی فائدہ مند ہوتی ہے اور رحمت بن کر آتی ہے، اس بات کا لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ اندازہ، اس لیے دو اس تکلیف کو محض تکلیف ہی سمجھتے ہیں، حالانکہ شاعر بھی کسی ایسی تنگی اور تکلیف اور کسی ایسی رکاوٹ کو باعث رحمت سمجھتے ہوئے کہتا ہے کہ
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اللہ اور بندے کے تعلق کے حوالے سے، انسانوں کے آپس کے معاملات کے حوالے سے یا انسان کے اپنے نفس کے ساتھ افہام و تنظیم اور اصلاح و نصیحت کے حوالے سے جو بنیادی اصول اور قواعد بیان کیے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ
﴿وَ عَسٰۤی اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ۚ وَ عَسٰۤی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠۝﴾(البقرة:216)
’’ممکن ہے کوئی چیز تمہیں ناگوار گزرتی ہو، جبکہ حقیقت میں وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور کوئی چیز تمہیں پسند ہو جبکہ دو تمہارے لیے بری ہو، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘
اس کی تشریح اور تفسیر میں تو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر صرف ایک واقعے کی طرف اشارہ کروں گا۔ واقعہ افک کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا، یعنی وہ واقعہ جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر بہتان لگایا گیا تھا، اس واقعے کا ذکر قرآن پاک میں ہے اور بخاری شریف میں بھی۔
اختصار کے ساتھ واقعہ یوں ہے کہ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر قافلے نے ایک جگہ ، نے پڑاؤ ڈالا ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا رفع حاجت کے لیے گئیں تو انہیں محسوس ہوا کہ ان کا ہار کہیں ٹوٹ کر گر گیا ہے وہ ہار کی تلاش میں مصروف ہوئیں، جب واپس لوٹیں تو اتنے میں قافلہ وہاں سے کوچ کر چکا تھا، وہیں بیٹھ گئیں کہ جب انہیں میری غیر موجودگی کا علم ہوگا تو آپ ﷺکسی کو بھیج دیں گے۔ اور قافلہ اس لیے روانہ ہو گیا کہ انہوں نے سمجھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے ہودج میں موجود ہیں، انہوں نے ہودج اٹھایا اور چل دیے۔
اسی دوران حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالی عنہ جو قافلے کے پیچھے چلتے ہوئے گمشدہ اشیاء کی بازیابی پر مامور تھے، انہوں نے چادر میں لپٹی ہوئی کوئی چیز دیکھی سمجھ گئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں، انہوں نے انا لله وانا اليه راجعون پڑھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اونٹ پر سوار کرایا، اور خود اونٹ کی مہار پکڑ کر پیدل چلنے لگے، تھوڑی ہی دیر میں قافلے کو جالیا۔ جب عبداللہ بن ابی نے یہ منظر دیکھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں بدگمانی کا اظہار کیا اور بہتان طرازی کرنے لگا۔ اس بہتان طرازی پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ان کے والدین کو اور آپ سے کو سخت صدمہ ہوا اور شدید تکلیف پہنچی، اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حال تو یہ رہا کہ مہینہ بھر روتی رہیں۔
پھر جب ان کی براءت کی آیات نازل ہو ئیں تو ان میں چند الفاظ یہ تھے:
﴿وَلَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ (النور:11)
’’ تم اس واقعے کو اپنے لیے برا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘
اب انسانی عقل کیسے سوچ سکتی ہے کہ اس بہتان اور بدنامی میں کوئی خیر بھی ہو سکتی ہے، یا انجام کار بہتری ہوگی اور اگر ہوگی تو کسی طرح ہوگی؟
اس کی تفصیل میں نہیں جاتے کہ یہ واقعہ کسی طرح ان کے لیے خیر ثابت ہوا، صرف اتنا ہی کافی ہے، کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاکی براءت کا اعلان ہمیشہ ہوتا رہے گا اور کوئی مسلمان اس وقت مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک ان آیات سمیت پورے قرآن پر ایمان نہیں لے آتا۔ یہ کتنا بڑا اعزاز ہے۔
تو بات ہو رہی تھی کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی حمد و ثنا لازم ہے، خوشی کا موقعہ ہو یا رنج و غم گا۔ اور صرف یہی نہیں کہ غم اور مصیبت پر بھی اس کا ثناخواں رہنا ہے بلکہ ادب کا لحاظ بھی رکھنا ہے، اب اس حدیث پر غور فرمائیے کہ کسی تکلیف دو اور نا پسندیدہ چیز پر آپﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اس تکلیف پر بھی اللہ تعالی کا شکر اور اس کی تعریف ہے، بلکہ اس کے بجائے فرمایا:
((الْحَمْدُ لِلهِ عَلَى كُلِّ حَالِ))
’’ہر حال میں اس کی تعریف ہے۔‘‘
یعنی تکلیف کی نسبت بھی اللہ تعالی کی طرف کرنا پسند نہیں فرمایا اور جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپﷺ نماز شروع کرنے سے پہلے جو دعاء استفتاح فرماتے اس کے الفاظ ہیں:
لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إليك))(مسلم:771)
’’اے اللہ! میں تیری اطاعت و فرمانبرداری کے لیے حاضر ہوں ، ہر قسم کی خیر تیرے ہاتھوں میں ہے اور شر کی نسبت تیری طرف نہیں ہے ۔‘‘
حالانکہ خیر اور شر کا خالق اللہ ہی ہے مگر ادب کا تقاضا ہے کہ شر کی نسبت اللہ تعالی کی طرف نہ کی جائے۔
اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے خداؤں سے براءت کا اظہار کرنے کے بعد جب فرمایا:
﴿ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ۝﴾ (الشعراء:78)
’’جس نے مجھے پیدا کیا ہے پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔‘‘
﴿ وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِۙ۝﴾ (الشعراء:79)
’’وہی ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘
ہدایت و رہنمائی کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی کھلانے پلانے کی نسبت بھی اس کی طرف کی مگر جب بیماری کا ذکر کیا تو فرمایا:
﴿وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ۪ۙ۝﴾(الشعراء:80)
’’اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔‘‘
یہ نہیں فرمایا کہ جب وہ مجھے بیمار کرتا ہے تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔
خیر یہ باتیں تو تھیں اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور اس کی شکر گزاری کے حوالے سے اس نعمت پر کہ جو اس نے رمضان المبارک کی صورت میں ہم پر فرمائی۔
آخری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ رمضان المبارک جو کہ تزکیہ وتربیت کا مہینہ ہے کیا ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں ہماری کچھ تربیت ہوئی، تہیں دنوں کی مسلسل مشق اور ٹرینگ سے ہم میں کوئی تبدیلی آئی اور نمازوں کی پابندی کی عادت پڑی؟
اتنے دنوں کی ٹریننگ سے تو سب سے کند ترین دماغ والا جانور کہ جس کا نام حماقت کی تشبیہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی گدھا، وہ بھی کچھ نہ کچھ سیکھ جاتا ہے اور اتنے دنوں کی مشق کے بعد کسی کام کا خوگر ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بہادری کی مثال کے لیے شیر ہے، گندگی اور ناپاکی کے لیے کتا اور خنزیر اور حماقت کے لیے گدھا اور اسی طرح دوسرے جانور بھی مختلف صفات کے لیے مشہور ہیں۔
اسود عنسی نامی شخص جھوٹا مدعی نبوت گزرا ہے، اس کا لقب تھا: ذو الحمار۔ گدھے والا۔ اور اس لقب سے وہ اس لیے مشہور ہے، کہتے ہیں کہ اس کے پاس ایک گدھا تھا، اس نے گدھے پر اتنی محنت کی، اسے اتنی ٹریننگ کرائی کہ وہ اسے کہتا کہ جھک جا، تو وہ جھک جاتا، وہ اسے کہتا کہ سجدہ کر تو وہ سجدہ بھی کرتا اور ہم تو انسان ہیں، تیس دنوں کی تربیت ہمارے لیے کافی ہونی چاہیے۔
………………….