جسمانی صحت کی اہمیت و ضرورت (حصہ دوم)

﴿وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۙ ﴾ (بنی اسرائیل:82)
’’اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا اتارتے ہیں وہ جو سراسر شفا اور رحمت ہے ایمان والون کے لیے ۔‘‘
گزشتہ خطبہ جمعہ میں جسمانی صحت کی اہمیت کی بات ہو رہی تھی کہ صحت انسان کا سب سے بنیادی اور سب سے اہم مسئلہ ہے، چنانچہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہم نے اس کی اہمیت کو جاتا۔
انسانی جسمانی صحت کا موضوعیقینًا ایک طویل موضوع ہے، جس کا دو ایک نشستوں میں احاطہ نہیں ہو سکتا، اس لیے صحت کی اہمیت کے حوالے سے چند مزید مگر چیدہ چید ہ باتوں پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔
جسمانی بیماریوں کے علاج کے حوالے سے سائنس نے اس دور میں اگر چہ بہت ترقی کی ہے، مگر اس کی بنیاد اصل میں انبیاء و رسل علیہم السلام کے ہاتھوں ہی رکھی گئی تھی۔ انبیاء و رسل علیہم السلام روحانی طبیب بھی تھے اور جسمانی طبیب بھی، دنیا میں طب و حکمت کی تمام مبادیات انہی کے ذریعے متعارف ہوئیں۔
انبیاء علیہم اسلام نے بیماریوں کے علاج کے لیے جو جو دوا ئیں اور جو جو طریقہ علاج تجویز فرمایا اور جو جو ہدایات دیں وہ عین حق اور سچ ہیں، وہ کسی اندازے، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ وحی الہی کی روشنی میں ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ تعالی عنہ یہ روایت کرتے ہیں:
((قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ إِنَّ أَخِي إِسْتَطْلَقَ بَطْنُهُ))
’’ ایک شخص آپ سے کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے بھائی کے پیٹ کو دست لگ گئے ہیں ۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ اسْقِهِ عَسَلًا))
’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اسے شہد پلاؤ۔‘‘
((ثُمَّ جَاءَهُ فَقَالَ إِنِّي سَقَيْتُهُ عَسَلًا فَلَمْ يَزِدْهُ إِلَّا اسْتِطَلاقًا))
’’ پھر وہ شخص دوبارہ حاضر ہوا، اور عرض کیا کہ میں نے اسے شہد پلایا ہے مگر اس کے دست مزید تیز ہو گئے ہیں۔‘‘
((فَقَالَ لَهُ ثَلاثَ مَرَّاتٍ))
اور یوں وہ تین بار حاضر ہوا، تینوں بار اس نے یہی کہا اور تینوں بار آپ ﷺنے یہی جواب میں فرمایا
((ثُمَّ جَاءَهُ الرَّابِعَةَ، فَقَالَ: اسْقِهِ عَسَلًا))
’’پھر چوتھی مرتبہ حاضر ہوا اور آپ ﷺنے فرمایا: کہ اسے شہد پلا۔ ‘‘
((فَقَالَ لَقَدْ سَقَيْتُهُ فَلَمْ يَزِدْهُ إِلَّا اسْتِطَلاقًا))
’’اس نے کہا: میں نے اسے پلایا ہے مگر اس کے دست تیز ہی ہوئے ہیں۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَدَقَ اللهُ وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ))
’’تو آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے اور تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ بولا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالی کا فرمان غلط نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ نے شہد کو شفا فر مایا ہے:
﴿فِيْهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ﴾ (النحل: 69)(صحیح مسلم:2217)
’’اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔‘‘
یعنی یقینًا اس میں شفا ہے، تمہارے بھائی کا پیٹ اگر ٹھیک نہیں ہو رہا تو اس کی اور وجوہات ہو سکتی ہیں۔
((اسقِهِ عَسَلًا))
’’اس کو اور شہد پلاؤ‘‘
((فَسَقَاهُ فَبَراً))(مسلم:2217)
’’اس نے پھر شہد پلایا تو وہ ٹھیک ہو گیا۔‘‘
تو گویا کہ دواء کا صحیح ہونا اپنی جگہ مگر بیماری کی نسبت سے دواء کی مقدار کا تناسب بھی ضروری ہے۔ اس حدیث میں پیٹ کی طرف جھوٹ کی نسبت مجازی ہے، جس کا مطلب ہے کہ پیٹ یہ کہہ کر جھوٹ بول رہا ہے کہ اسے شفاء نہیں ہوئی۔ اصل میں شفاء موجود ہے۔ بس پیٹ بیماری ا کے حساب سے دواء کی مناسب مقدار پوری کرے۔
تو خیر جسمانی صحت کا موضوع ایک طویل موضوع ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا، اس کی تفصیلات اور جزئیات میں جانے سے پہلے اس کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ جسمانی صحت و نیادی ضرورتوں کے لحاظ سے بہت ضروری ہے یہ تو سبھی جانتے ہیں مگر دین کے لیے کتنی ضروری ہے، شاید اکثر لوگ نہیں جانتے بلکہ اس جانب شاید انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو، جبکہ جسمانی صحت دنیا کی نسبت دین کے لیے زیادہ ضروری ہے کیونکہ ہر مسلمان اس بات سے خوب آگاہ ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے، کہ انسان کا مقصدِ تخلیق اللہ تعالی کی عبادت ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ﴾ (الذاريات:56)
’’میں نے جن وانس کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔‘‘
مضبوط اور قومی مسلمان ، اللہ تعالی کو کمزور اور ناتواں مسلمان سے زیادہ پسند ہے۔
اور عبادت یقینا صحت مند روح اور جسم کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے لہٰذا روح کی صحت و سلامتی کے ساتھ ساتھ جسم کی صحت و تندرستی بھی ضروری ٹھہرتی ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ جسم اگر تندرست و سلامت نہ ہو، چوق و چوبند نہ ہو اس میں نشاط اور چستی نہ ہو تو دین اور دنیا کا کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا، اس کی ہمت نہیں ہوتی، یا کم از کم شوق اور جذبے سے ادا نہیں کر پاتا۔
جسم کی تندرستی دین اور دنیا دونوں کے لیے ضروری ہے مگر ان دونوں میں سے زیادہ ضروری کس کے لیے ہے اندازہ کیجئے، حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ آب ﷺ نے فرمایا: جب کوئی آدمی بیمار کی تیمارداری کے لیے آئے تو ان الفاظ میں دعا کرے:
((اللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَكَ يَنْكَأُ لَكَ عَدُوًّا أَوْ يَمْشِي لَكَ إِلَى صلاة))
’’اے اللہ! اپنے بندے کو شفا دے، تاکہ تیرےلیےدشمن کا مقابلہ کرے یا تیری زضا کی خاطر نماز کے لیے جائے۔
آپ نے اندازہ کیا!کہ اس دعا میں دنیا کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تندرست ہونے کے بعد وہ دنیا کا کوئی کام نہیں کر سکتا بلکہ بتلانا مقصود یہ ہے کہ جسمانی صحت و تندرستی کا بنیادی مقصد اور مصرف کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے سب سے پہلے اپنے مقصد حیات کے حصول کے لیے استعمال میں لایا جائے۔
اسی طرج ایک حدیث میں ہے آپﷺ نے فرمایا:(( الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ))(مسلم:2664)
((وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ))
’’تاہم خیر ہر ایک میں ہے۔‘‘
یعنی مسلمان طاقتور ہو یا کمزور مسلمان ہونے کے ناطے خیر اور بھلائی بہر حال ہر ایک میں موجود ہے، مگر صحت مند، تندرست و توانا جسم کے لحاظ سے ہو، عقل و دانشمندی کے لحاظ سے ہو، علم و آگہی کے لحاظ سے ہو، وہ یقینًا اک کمزور مسلمان سے بہتر ہے اور اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہے۔ یعنی جو اسلام کے لیے مسلمانوں کے لیے، انسانیت کے لیے زیادہ مفید و نفع بخش ہے وہ اللہ تعالی کو زیادہ محبوب اور پسند ہے۔ اس حدیث میں قوت سے مراد اگر چہ ہر قسم کی قوت و صلاحیت ہے مگر ہر وہ قوت جو دین سے متعلق ہو، ورنہ وہ قوت جس کا دین کے ساتھ کوئی تعلق و واسطہ نہ ہو، وہ محمود نہیں، بلکہ مذموم ہے، جیسا کہ منافقین کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں: ﴿ وَ اِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ ؕ وَ اِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ؕ كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ﴾(المنافقون:4)
’’جب آپ انہیں دیکھیں تو ان کے جسم آپ کو بڑے خوشنما نظر آئیں، وہ بات کریں تو آپ سنتے ہی رہ جائیں۔‘‘
مگر ان کی اصلیت یہ ہے کہ ﴿ كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ؕ ﴾
’’گویا کہ وہ لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیے گئے ہوں ۔‘‘
یعنی حسن و جمال اور رونق و شادابی میں بڑے خوشنما دکھائی دیں، وہ جسم کی صحت و سلامتی اور خوبصورتی پر خوب توجہ دیتے ہیں، سینا تنا ہوا، بازوؤں کے مسلز پھولے ہوئے، زبان کی فصاحت و بلاغت اور چرب زبانی سحر آمیز – مگر ان کی حیثیت صرف اک ڈیکوریشن میں کی سی ہے جیسے لکڑی کی خوبصورت مولڈنگ دیوار پر لگا رکھی ہو۔ کیونکہ وہ کسی فائدے کے نہیں، اور قائدہ وہ ہے جو دین کے حوالے سے ہو، ورنہ تو ان کو اپنی اس جسمانی صحت کا کچھ نہ کچھ فائدہ تو ضرور ہوتا ہوگا۔
دوسری طرف اگر کوئی شخص اطاعت و فرمانبرداری میں، عزم و ارادے میں، کیفیت ایمانی میں مضبوط اور طاقت ور ہو مگر جسمانی طور پر کمز ور و ناتواں تو اس کی دو کمزوری اور فظت اس کے لیے ہرگز نقصان دہ نہیں ہوتی اور اس کی قدر و قیمت میں کوئی کمی نہیں کرتی۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حدیث میں آتا ہے، حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ بیان کرتے ہیں:
((كُنتُ أجتَبِي لِرَسُولِ الله ﷺ سَوَاكًا مِنْ الْأَرَاكِ))
’’میں آپ ﷺکے لیے (درخت پر چڑھ کر ) پیلو کی مسواک کاٹ رہا تھا ۔‘‘
((فَكَانَتِ الريحُ تَكْفَؤُهُ، وَكَانَ فِي سَاقِهِ دِقَّةٌ))
’’تیز ہوا چل رہی تھی، جو حضرت عبداللہ بن مسعود بن اللہ کے کپڑوں کو دائیں بائیں اڑا رہی تھی، اور ان کی پنڈلیوں میں پتلا پن تھا۔‘‘
((فَضَحِكَ الْقَوْمُ مِنْ دِقَّةِ سَاقَىَّ))
’’فرماتے ہیں لوگ میری پتکی پنڈلیاں دیکھ کر ہنسنے لگے۔‘‘
((فَقَالَ النَّبِيُّ مَا يُضْحِكُكُمْ ؟))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: کسی بات پر ہنس رہے ہو ؟‘‘
((قَالُوا مِنْ دِقَّةِ سَاقَيْهِ))
’’عرض کیا: اس کی پکی پنڈلیاں دیکھ کر ہنسی نکل آئی۔‘‘
((قَالَ النَّبِيُّ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ))
’’تو آپ سے ہم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔‘‘
((لَهُمَا أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانَ مِنْ أَحَدٍ))( حلية الأولياء، ج:1، ص:137، المعجم الكبير للطبرانی، ج :9، ص 78، رقم:8452)
’’اس کی وہ پنڈلیاں ترازو میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہیں۔‘‘
تو جسمانی صحت و تندرستی اور قوت و طاقت کے ساتھ اگر دین کا تعلق نہیں ہے تو ایسی صحت و تندرستی کسی کام کی نہیں اور محبوب و پسندیدہ نہیں ہے۔ جسمانی صحت و تندرستی کی اہمیت کو ایک اور پہلو سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جملہ تو آپ نے سنا ہوگا: ((العَقْلُ السَّلِيمُ فِي الجِسْمِ السَّليم))
’’عقل سلیم جسم سلیم میں ہوتی ہے۔‘‘
یوں تو یہ ایک مقولہ ہی ہے بلکہ یونانی اقوال زریں میں سے ہے، مگر ایک حد تک درست ہے۔ اس کا واضح مطلب تو یہ ہے کہ اگر آدمی جسمانی طور پر تندرست اور صحت مند ہوگا تو عقلی طور پر بھی صحت مند ہوگا، اس کی عقل صحیح کام کر رہی ہوگی۔
یہ مقولہ اس حد تک تو صحیح ہے کہ اگر آدمی جسمانی طور پر بیمار ہو، اور تکلیف میں مبتلا ہو تو اس کی سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ دماغ سطحی طور پر تو کام کر رہا ہوتا ہے، لیکن اگر کسی کام میں گہری سوچ اور غور و فکر مطلوب ہو، تو دماغ میں وہ ہمت و طاقت نہیں ہوتی کہ کوئی ایسا کام انجام دے سکے جس میں غور و فکر مطلوب ہو۔ مگر یہ مقولہ ان معنوں میں ہرگز صحیح نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص ہاتھ، پاؤں یا آنکھ اور کان وغیرہ سے معذور ہو تو اس میں عقل سلیم نہیں ہو سکتی۔ تاریخ میں ایسےیقینًا بیسیوں نام موجود ہیں کہ جو لوگ بینائی اور سماعت سے محروم تھے، چلنے پھرنے سے قاصر تھے ہاتھوں کی نعمت سے محروم تھے وہ عام انسانوں کی نسبت زیادہ عقل مند اور زیادہ کامیاب بن کر سامنے آئے۔
اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ جملہ ان معنوں میں ہرگز درست قرار نہیں پاتا اگر معقل سلیم کی تعریف اسلامی نقطہ نظر سے کی جائے جو کہ اصلی اور حقیقی تعریف ہے۔ و نیاوی لحاظ سے عقلمند اس کو سمجھا جاتا ہے جو اپنے نفع و نقصان کو خوب سمجھتا ہو، اور اپنے فائدے اور نفع پر کوئی کمپرومائز نہ کرتا ہو، چرب زبان ہو، حاضر جواب ہو، اور معقل و دانش مندی میں مشہور ہو، تو ایسے شخص کو صرف عقلمند ہی نہیں بلکہ صاحب عقل سلیم سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے عقل سلیم کی یہ ناقص اور ادھوری تعریف ہے، کیونکہ فائدے اور نفع کا معیار اس کا خود ساختہ ہے حقیقی نہیں ہے۔ حقیقی فائدہ تو وہ ہے جو سب سے بہتر بھی ہو اور سدا بھی رہے۔ فائدے کی اس تعریف کی روشنی میں ، دنیا کی کوئی ایک نعمت تو کیا پوری کی پوری دنیا بھی اگر کسی کو مل جائے مگر آخرت کے معاملے میں وہ ناکام و نامراد ہو تو وہ ناکام و نامراد ہی کہلائے گا۔
لہٰذا جو شخص اس دنیا کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دے وہ ہرگز ہرگز علقمند نہیں ہو سکتا، چہ جائیکہ اس کی عقل کو عقل سلیم کہا جائے۔
اور جب قرآن کہے کہ
﴿ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؗۖ۝وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰیؕ۝﴾(الاعلى:16۔17)
’’تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘
تو اس کا کیا ترجمہ کریں گے کیا قرآن پاک کہہ رہا ہے کہ تم بڑے عقلمند ہوا اس کا سیدھا سیدھا مفہوم یہ ہے کہ تم کتنے بے وقوف ہو چند دن کی عارضی اور ادھوری دنیا کو آخرت پر ترجیح دے رہے ہو۔
دنیا کے لحاظ سے عقلمند اس کو بھی سمجھا جاتا ہے، جو دنیاوی علوم کے کسی شعبے میں ماہر اور تعلیم یافتہ ہو۔ اگر چہ قرآن پاک ان کی Expertise کا انکار نہیں کرتا، مگر ان کی کسی مہارت کا حقیقی عقلمندی سے کیا تعلق؟
قرآن کہتا ہے۔
﴿ یَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۖۚ وَ هُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ۝﴾ (الروم:7)
’’لوگ دنیا کی زندگی کا ظاہری پہلو جانتے ہیں مگر آخرت سے تو وہ خود ہی غافل ہیں۔‘‘
حقیقی عقلمندی اور حقیقی کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے اور اس کے متعلق نہ کوئی معلومات ہی رکھتے ہیں، نہ جاننا چاہتے ہیں اور نہ کوشش کرتے ہیں، پھر ان کی تعلیم اور ان کی مہارت کس کام کی؟
بلکہ قرآن پاک تو ایسے لوگوں سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے۔ فرمایا:
﴿ فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰی ۙ۬ عَنْ ذِكْرِنَا وَ لَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؕ۝ذٰلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ﴾ (النجم:29۔30)
’’آپ اس شخص سے منہ موڑ لیں جو ہماری یاد سے منہ موڑے ہوئے ہو، اور دنیا کی زندگی کے سوا وہ کسی چیز کا خواہشمند نہ ہو، یہی ان کے علم کی انتہاء ہے ۔‘‘
تو ’’العقل السليم في الجسم السليم‘‘ والا مقولہ تو آپ نے سنا ہوگا، مگر ایک مقولہ اس کے برعکس بھی ہے، اور وہ ’’الجسم السليم في العقل السليم‘‘ ’’جسم سليم عقل سلیم میں‘‘
یہ مقولہ شاید اکثر لوگوں نے نہ سنا ہو۔ مگر اس کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اس موضوع پر اک تفصیلی گفتگو ہو سکتی ہے، مگر اس وقت صرف چند باتیں اشارہ کرتے ہیں۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح جسم اگر بیمار ہو تو آدمی کی سوچ سمجھ اور افکار پر اثر انداز ہوتا ہے، اسی طرح آدمی اگر عقلی طور پر سوچ اور فکر کے لحاظ سے بیمار ہو تو اس کا اثر انسان کے جسم پر ہوتا ہے۔
اس کی بہت کی مثالیں ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ:
﴿ وَ ابْیَضَّتْ عَیْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِیْمٌ۝﴾(يوسف:84)
’’یوسف علیہ السلام کی جدائی پر یعقوب (علیہ السلام) کی آنکھیں رنج وغم کی وجہ سے سفید ہو گئیں ۔‘‘
یعنی آنکھوں کی سیاہی مارے غم کے سفیدی میں بدل گئی، جس کا مطلب ہے کہ غم وحزن کا اثر جسم کی صحت پر واضح طور پر ظاہر ہوا۔
تو گویا کہ جسم متصل پر، اور عقل جسم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ نفسیاتی بیماریاں سوچنے سے ہوتی ہیں، جس طرح کے خیالات انسان اپنے اوپر مسلط کرے گا اسی طرح کی بیماری ظاہر ہونے لگے گی۔
جدید تحقیقات بتلاتی ہیں کہ %75 نفسیاتی بیماریاں سوچنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
اور %90 جسمانی بیماریوں کی وجہ اور سبب بھی سوچ اور فکر ہی ہوتی ہے۔ اور ان کا علاج بھی قرآن وحدیث میں موجود ہے، مگر ان کا تعلق چونکہ عقیدہ و ایمان سے ہے۔ لہٰذا لوگ اتنی توجہ نہیں دیتے۔
جسمانی بیماریوں کے حوالے سے ابھی تک اس کی اہمیت بھی پوری طرح بیان نہیں ہو سکی، اصل موضوع تو مزید وقت کا متقاضی ہے، جسمانی صحت کے لیے بہت سی ضروری باتوں اور بنیادی اصولوں میں سے اس وقت صرف ایک کا ذکر کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ شعبدہ بازوں اور عطائیوں سے بچیں، یہاں تو خیر ایسا معاملہ نہیں ہے۔ مگر ہمارے ملکوں میں یہ ایک عام کی بات ہے وہاں عطائی ڈاکٹر ز پائے جاتے ہیں اور یہ خطرناک بات ہے جو کہ اخلاقی لحاظ سے، قانونی لحاظ سے، اور شرعی لحاظ سے بھی غیر ذمہ دارانہ فعل ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ تَطَبَّبَ وَلَمْ يَعْلَمْ مِنْهُ طِبٌّ قَبْلَ ذٰلِكَ فَهُوَ ضَامِنٌ))(سنن دار قطنی، ج:4، ص: 265، رقم: 3438)
’’ جس کسی نے طبابت یعنی علاج معالجے کا کام شروع کیا، اور اس سے قبل اسے طبابت کا کام کرتے دیکھا سنا نہ گیا ہو تو وہ ذمہ دار ہے۔ ‘‘
یعنی جو شخص بغیر علم اور بغیر مہارت کے علاج معالجہ کرتا ہے تو مریض کو پہنچنے والی ہر قسم کی تکلیف اور نقصان کا وہ ذمہ دار ہوگا۔ لہٰذا اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ کام سے بچیں، اور اس قسم کے غیر ذمہ داروں سے علاج کروانے سے بھی پرہیز کریں۔
………………