موسم حج کو غنیمت جانو

﴿وَالْفَجْرِ۔ وَلَيَالٍ عَشْرِ﴾ (الفحر:1۔2)
’’قسم ہے فجر کی ۔ اور دس راتوں کی ۔‘‘
موسم حج قریب آپہنچا ہے، سعادت مند اور خوش بخت و خوش نصیب لوگ حج کی تیاریوں میں مصروف، حج کی سعادت حاصل کرنے جا رہے ہیں اور کچھ جا چکے ہیں۔ فریضہ حج ایک بہت بڑی نیکی، بہت بڑی سعادت اور بخشش و مغفرت حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا موقع اور ذریعہ ہے۔
نیکی کے مواقع انسان کی زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں، کچھ ان میں سے تصادفی اور اتفاقیہ ہوتے ہیں یعنی بغیر کسی تعیین و ترتیب کے آتے ہیں، اور کچھ منظم و منسّق اور معّین و مرتب ہوتے ہیں یعنی ہر سال معین تاریخوں، معین مہینوں، اور معین ایام میں آتے ہیں۔ کچھ فرائض کی صورت میں ہوتے ہیں اور کچھ نوافل کی شکل میں۔
تا ہم وہ سب عبادات کے مواقع ہی ہوتے ہیں۔ عبادات میں خلوص نیت کے بعد جو سب سے اہم ، لازمی ، ضروری اور حتمی بات ہے وہ یہ کہ عبادات میں کسی انسان کو رد و بدل اور ترمیم و اضافے کا اختیار نہیں ہے، اپنی مرضی اور پسند سے اور اپنے من پسند طریقے سے ادا کرنے کا اختیار نہیں ہے، حتی کہ ایک لفظ بھی آگے پیچھے اور تبدیل و تحویل نہیں کر سکتے ، چاہے وہ لفظ اپنی دانست میں کتنا ہی برگل، موزوں مناسب اور خوشنما کیوں نہ نظر آتا ہو۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت براء بن عازب بھی کہ روایت کرتے ہیں کہ کہ:
قَالَ النَّبِيِّ ﷺ ((إِذَا آتَيْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّاْ وُضُوءَ كَ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ اضْطَجَعْ عَلٰى شِقِّكَ الْاَيْمَنَ ثُمَّ قُلْ:))
’’رات کو جب سونے کا ارادہ ہو، تو پہلے نماز والا وضو کرو اور پھر دائیں پہلو پر لیٹ جاؤ اور یہ دعا پڑھو:
((أَللّٰهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَوَجَّهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ ، لَا مَلْجَاَ وَلَا مَنْجَاَ مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ))
’’اے اللہ ! میں نے اپنا نفس تیرے تابع کر دیا اور اپنا معاملہ تجھے سونپ دیا، اور میں نے اپنا چہرہ تیری طرف متوجہ کیا اور اپنی پشت تیری طرف جھکائی ۔ ثواب کی رغبت کرتے ہوئے اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے، تیری بارگاہ کے سوا کوئی پناہ گاہ ہے نہ جائے نجات، میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جسے تو نے نازل فرمایا اور اس نبی پر جسے تو نے ہماری طرف بھیجا۔‘‘
یہ دعا سکھلانے کے بعد فرمایا:
((فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ ، فَأَنتَ عَلَى الْفِطْرَةِ وَإِنْ أَصبَحْتَ أَصَبْتَ خيرًا، وَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَتَكَلَّمُ بِهِ))
’’پھر اگر تو اسی رات فوت ہو گیا تو تیری موت فطرت پر ہوگی ، یعنی دین پر ہوگی اور اگر صبح بیدار ہو گیا تو تو نے خیر پائی اور یہ کلمات سوتے وقت ترکی زبان پر آخری کلمات ہونے چاہئیں ۔‘‘
((قَالَ: فَرَدَّدْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ))
’’حضرت براہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے وہ الفاظ آپﷺ کے سامنے دہرائے۔‘‘
((فَلَمَّا بَلَغْتُ: اللّٰهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي اَرْسَلْتَ، قُلْتُ: وَ رَسُولِكَ))
پس جب میں ان الفاظ پر پہنچا:
((اللّٰهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي اَرْسَلْتَ، قُلْتُ: وَ رَسُولِكَ))
تو میں نے کہا:
((وَرَسُوْلِكَ))
’’یعنی لفظ نبيك كى جگہ رسولك كہا۔‘‘
تو آپ ﷺنے فرمایا:
((لَا))
’’ایسے نہیں ۔‘‘
((وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ))
’’بلکہ کہو ((وَنَبِيِّكَ الَّذِي اَرْسَلْتَ))(بخاري:247)
آپ ﷺنے جو دعا سکھلائی اس میں (وَنَبِيِّكَ) کا لفظ تھا، حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی جگہ (وَرَسُوْلِكَ)کا لفظ بول دیا، تو آپ ﷺنے اصلاح فرمائی کہ نہیں بلکہ (وَنَبِيِّكَ) كا لفظ ہی کہو۔
آپ سب کو معلوم ہے کہ اس دعا میں نبی اور رسول سے مراد آپ ﷺ ہی ہیں اور آپ ﷺ نبی بھی ہیں اور رسول بھی۔ اور پھر (ور سولک الذی ارسلت ) زبان پر زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے پھر اس میں ردم (Rhythm) بھی ہے اور ہم آہنگی بھی اور ترنم بھی اور اس سے مجموعی طور پر معنی و مفہوم میں بھی کوئی فرق نہیں آتا۔ لیکن پھر بھی وہی، بعینہ وہی لفظ ادا کرنے کا حکم فرمایا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عبادات میں سنت کی متابعت ضروری ہے، جو کہ قبولیت عمل کی دو بنیادی اور لازمی شرطوں میں سے ایک ہے۔
رہی یہ بات کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ آپﷺ نے ونبیک کا لفظ ہی ادا کرنے کی تاکید فرمائی ؟ اس کی علماء کرام رحمہم اللہ نے متعدد حکمتیں بیان کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول سے مراد کوئی فرشتہ، بالخصوص جبریل علیہ السلام بھی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ:
﴿ اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍۙ۝۱۹ ذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَكِیْنٍۙ۝۲۰﴾ (التكوير:19۔20)
’’یقینًا یہ ایک بزرگ رسول کا کلام ہے، جو قوت والا ہے، عرش والے کے نزدیک ڈی عزت اور بلند مرتبہ ہے۔‘‘
﴿ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍؕ﴾ (التكوير:21)
’’جس کی وہاں آسمانوں میں اطاعت کی جاتی ہے، وہ امین ہے۔‘‘
تو یہاں ﴿ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍۙ﴾ سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں، اور اگر و نبيك کا لفظ استعمال کیا جائے تو نبی صرف انسانوں میں ہی ہوتے ہیں، چنانچہ اس سے خاص آپﷺ ہی مراد ہوسکتے ہیں۔
یہاں سوتے وقت کی دعا کا جو ذکر ہوا تو چلتے چلتے اس حوالے سے اس کے بعض فوائد کا ذکر بھی کرتے چلیں۔ اس دعا میں سونے سے پہلے وضو کرنے کا حکم ہے، اور وضو کا فائدہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔
((لا تَنَامَنَّ إِلَّا عَلَى وُضُوءٍ))
’’وضو کے بغیر رات کو نہ سو۔‘‘
((فَإِنَّ الْأَرْوَاحَ تُبْعَثُ عَلٰى مَا قُبِضَتْ عَلَيْهِ)) (مصنف عبد الرزاق ، ج:11، ص:39، رقم: 19844)
’’کہ روحیں جس حالت میں قبض ہوتی ہیں ، اسی حالت میں اٹھائی جائیں گی ۔‘‘
اور پاکیزگی کی حالت میں فوت ہونا تفاؤل خیر یعنی نیک فال اور اچھا شگون ہے۔ جیسا کہ حاجی اگر حالت احرام میں فوت ہو جائے تو اسے اس کے احرام کی چادروں میں ہی دفنانے کا حکم ہے اور یہ کہ اس کا سر نہ ڈھانپا جائے اور فرمایا کہ قیامت کے دن وہ تلبیہ پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا۔
رات کو وضو کر کے سونے کے علماء کرام نے متعدد دیگر فوائد بھی اخذ کیے ہیں ایک یہ کہ برے شیطانی خوابوں کے امکانات کم ہو جاتے ہیں اور سچے خوابوں کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔
تو خیر نیکی کے اضافی مواقع کا ذکر ہو رہا تھا کہ نیکی کے اضافی مواقع انسان کی زندگی میں وقفے وقفے سے اور بدل بدل کر آتے رہتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے، نیکی کے مواقع اس پیٹرن، اور اس ترتیب سے ہی کیوں آتے ہیں، کسی ایک مستقل طرز پر کیوں نہیں آتے؟
تو اس کے یوں تو متعدد اسباب و وجوہات ہیں، مگر ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ کسی ایک پیرن، کسی ایک طرزہ اور کسی ایک حالت سے اکتا جاتا، یعنی یکسانیت سے اکتا جانا انسان کی قطری کمزوری ہے، اور انسان جب کسی چیز سے اکتا جاتا ہے تو کچھ دیر کے لیے وہ اس سے فاصلہ پیدا کر لیتا ہے، دوری اختیار کر لیتا ہے، یا کم از کم وہ کام بے دلی سے کرنے لگتا ہے، وہ کام محض اک عادت کے طور پر کر رہا ہوتا ہے، وہ کام اگر عبادت ہو تو اس کی روح مفقود ہو جاتی ہے، وہ صرف اک عادت کی رو جاتی ہے، نماز کی حرکات و سکنات، قیام اور رکوع و سجود تو کر رہا ہوتا ہے مگر اس میں خشوع و خضوع نہیں ہوتا، وہ پوری نماز پڑھ لیتا ہے مگر اسے کچھ پتا نہیں ہوتا کہ اس نے کیا پڑھا ہے۔
تو ایسے میں اسے تذکیر و موعظت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے دل میں پھر سے وہ ذوق اور شوق اور جوش و جذبہ پیدا کرتا ہوتا ہے، وہ چاہت اور لگن پیدا کرنی ہوتی ہے، حدیث میں اس عمل کو تجدید ایمان کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ الإِيمَانَ لَيَخْلَقُ فِي جَوْفِ أَحَدِكُمْ كَمَا يَخْلَقُ الثَّوْبُ فَاسْئَلُوا اللهَ تَعَالَى أَنْ يُجَدِّدَ الإِيْمَانَ فِي قُلُوبِكُمْ)).( مستدرك الحاكم، ج:1، ص:45، رقم:5)
’’ایمان تمہارے سینوں میں یوں بوسیدہ ہوتا ہے جیسے کپڑا بوسیدہ ہو جاتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی سے دعا کرو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کی تجدید فرما دے۔‘‘
مطلب یہ کہ ایمان ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا، بلکہ (یزید و ینقص) پڑھتا اور گھٹتا ہے، لہٰذا ہمیشہ اس کی تجدید کی ضرورت رہتی ہے۔
اور تجدید ایمان کے لیے سب سے پہلا کرنے کا کام یہ ہے کہ اللہ تعالی سے تجدید ایمان کی التجا کی جائے ، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((فَاسْئَلُوا اللهَ تعالى أّن يُّجَدِّدَ الْإِيمَانَ فِي قُلُوبِكُمْ))
’’اللہ تعالی سے دعا کرو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کی تجدید کر دے۔‘‘
گویا کہ یہ سنجیدگی کی علامت ہے، اور پھر تجدید ایمان کی دعا کے بعد عملی میدان میں کرنے کے کام یہ ہیں کہ نیکی کے موقعوں سے مستفید ہوں، اور خوب مستفید ہوں ۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ آدمی کا ایمان ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، کبھی جوش و جذبہ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہوتا ہے اور کبھی جذبات ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، ذوق اور شوق ماند پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں سب سے پہلا کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ فرائض کو مضبوطی سے تھام لیں۔ کیونکہ آدمی کی ایمانی حالت جب کرتی ہے تو پھر معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں جاکے رکے گی۔ آپ جانتے ہیں کہ ابلیس پہلے ایک انتہا پر تھا، پھر جب وہاں سے گرا تو ایک دوسری انتہا پر جا پہنچا، اس لیے دین پر چلتے ہوئے جوش و جذبے میں اگر کچھ کی اور کمزوری آجائے تو جو کم از کم انسان سے مطلوب ہے اس سے چپک جائیں، یعنی فرائض کے اہتمام میں کمی نہ آنے پائے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((النَّفْسُ لَهَا إِقْبَالُ وَادْبَارٌ))
’’انسان کے نفس، اس کے مزاج اور اس کی طبیعت میں عروج و بلندی بھی ہوتی ہے اور تنزلی اور زوال بھی ہوتا ہے۔‘‘
((فَإِذَا أَقْبَلَتْ فَخُذْهَا بِالْعَزِيمَةِ وَالْعِبَادَةِ))
’’تو جب اقبالی کیفیت ہو تو عزیمت اختیار کرو اور عبادت میں مگن و مستغرق ہو جاؤ۔‘‘
عزیمت کیا ہے اس کی تفصیل تو وقت کی متقاضی ہے، مگر مختصر یہ ہے کہ یہاں عزیمیت رخصت کے مقابلے میں مراد ہے۔
دین کے تقاضے اور مطالبات دو طرح سے ہیں یا تو ان میں عزیمت کا مطالبہ ہوتا ہے، یا انسان کی فطری کمزوری ، ضعف ایمان اور مخصوص حالات کا لحاظ کرتے ہوئے کچھ نرمی، لچک اور رخصت دی گئی ہوتی ہے۔
اصحاب عزیمت لوگ، یعنی وہ لوگ جو راستے کی سختی اور نشیب و فراز کی پرواہ کیے بغیر اس پر عمل کرنے کا عزم مصمم اور پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔ عزیمت کی راہ اختیار کرتے ہیں، اور دوسرے لوگ دین میں دی گئی لچک اور رخصت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
احکام دین میں اصل چیزے عزیمیت ہے اور رخصت ایک استثنائی حالت ہے۔
تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب ایمانی کیفیت خوب جوش و جذبے سے معمور ہو تو اسے قیمت جانتے ہوئے عزیمت والے کام کرو اور عبادات میں اس سے بھر پور فائدہ اٹھاؤ۔
((وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاقْصِرْهَا عَلَى الْفَرَائِضِ وَالوَاجِبَاتِ))(الفتور للشيخ ناصر بن سليمان العمر، ص:19)
’’اور اگر ذوق و شوق اور جوش و جذبے میں کمی واقع ہو جائے تو پھر تم بھی کمی کر لو مگر فرائض واجبات پر رک جاؤ۔‘‘
یعنی انسان یکسانیت سے جتنا بھی اکتا جائے ، اس کے ذوق و شوق میں جتنی بھی کمی ہو جائے ، وہ بے رغبتی، بے دلی اور بے توجہی کا جتنا بھی شکار ہو جائے فرائض و واجبات کو نظر انداز نہیں کر سکتا، انہیں ہر حال میں ادا کرتا ہوگا، ان میں ہرگز ہرگز کوئی کوتاہی قبول نہیں ہوگی۔ ہاں اگر کبھی سنت و نوافل چھوٹ جائیں تو اور بات ہے اور وہ بھی اک مختصری مدت کے لیے ور نہ اگر یہ کیفیت دیر تک برقرار رہے اور اس پر اک عرصہ بیت جائے تو وہ ایمان کو اور کمزور کر دیتا ہے، دل سخت ہو جاتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس کیفیت سے خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ۝﴾(الحديد:16)
’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزرگئی تو ان کے دل سخت ہو گئے، اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں ۔‘‘
یعنی دین میں سستی اور کوتاہی ،غفلت اکتاہٹ اور بے دلی کی کیفیت پر اگر ایک لمبا عرصہ گزر جائے تو دل سخت ہو جاتے ہیں، اور نتیجتًا لوگ فاسق بن جاتے ہیں۔ دلوں کی سختی حقیقت میں اللہ تعالی کی سخت ترین سزاؤں میں سے ایک ہے۔ اور دین سے بے رغبتی، غفلت اور بے تو جہی ایک انتہائی خطرناک کیفیت ہے۔ اندازہ کریں اللہ تعالی نے اہل ایمان کو جو اس آیت کریمہ کے ذریعے اس خطرناک کیفیت سے متنبہ اور خبردار کیا ہے تو اس کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((مَا كَانَ بينَ إِسْلامِنَا وبين أَنْ عَاتَبَنَا اللهُ بِهَذِهِ الْآيَةَ ﴿َأَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ)) إِلَّا أَرْبَعُ سِنِينَ)) (مسلم: 3027)
’’ ہمارے اسلام لانے اور اللہ تعالی کے ہمیں اس آیت کریمہ کے ذریعے سرزنش کرنے کے درمیان صرف چار سال کا عرصہ ہے۔ ‘‘
حالا نکہ یہ جو تنبیہ ہے اس کیفیت پر نہیں تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نمازوں میں سستی کرتے ہوں، یا قرآن پاک کے کسی اور حکم و عملاً نہ مانتے ہوں ۔ یا کسی سنت پر عمل کرنے میں کوتاہی سے کام لیتے ہوں، ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس وہ تو اسلام کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا سمجھتے تھے اور اسلام کی سر بلندی کے لیے ہمہ وقت اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لیے پھرتے تھے، بلکہ یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد کے حوالے سے دلوں میں مزید خشوع و خضوع پیدا کریں اور کتاب اللہ میں موجود احکام الہی پر خوب غور و خوض کریں، اور اپنا احتساب کرتے رہیں۔
تو خیر خلاصہ اس ساری گفتگو کا یہ ہے، کہ نیکی کے اضافی مواقع انسان کی زندگی میں وقفے وقفے سے آتے رہتے ہیں جن کا مقصد تجدید ایمان ہوتا ہے، ڈھلتے ہوئے جوش و جذبے کو اک ولولہ تاز ہ بخشنا ہوتا ہے۔ موسم حج کے حوالے سے غیر حاجی کے لیے جو نیکی کا موقع میسر آیا ہے اس میں ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں، جن کی فضیلت حدیث میں یوں بیان ہوئی ہے۔
آپ ﷺنے فرمایا:
((مَا مِنْ أَيَّامِ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ))
’’یقتنا کوئی نیک عمل اللہ تعالی کو ان دس دنوں میں پسند ہے، اتنا کسی دن میں پسند نہیں ۔‘‘
((فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيْلِ الله))
’’لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول سے کم ! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ الله ))
’’تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ۔‘‘
((إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ))(ترمذي:757)
’’مگر وہ شخص جو جان و مال دونوں ہی اللہ کی راہ میں قربان کر دے۔‘‘
تو عشرہ ذوالحجہ کی اس قدر فضیلت و عظمت ہے۔ لہٰذا ان با برکت ایام میں جس قدر بھی کسی نیکی کی توفیق ہو پورے ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ کرنی چاہیے، تاکہ ایمان کے گرتے ہوئے گراف کو اور مضمحل ہوتی ہوئی کیفیت کو پھر سے قوت و نشاط ملے، اور گرم جوشی ، تازگی اور حرارت پیدا ہو۔
ایک حدیث میں ہے کہ ان دنوں میں کثرت سے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنی چاہیے، چنانچہ فرمایا:
((فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيْلِ وَالتَّكْبِيْرِ وَالتَّحْمِيْدِ))( مسند احمد، ج:2، ص:75، رقم:5446)
’’ان دنوں میں کثرت سے، لا الہ الا اللہ اللہ اکبر اور الحمد للہ پڑھا کرو۔‘‘
اور اسی طرح ان دنوں میں ایک اور بہت عظمت والا عمل بتلایا گیا ہے اور وہ ہے یوم عرفہ کا روزہ رکھنا، چنانچہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((صِيَامُ يَوْمَ عَرَفَةَ إِنِّي احْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُّكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ))(ترمذي:749)
’’عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ گزشتہ اورآئندہ (دو سالوں ) کے گناہ معاف کر دے گا۔‘‘
اسی طرح اس پورے عشرے میں کثرت سے تکبیرات پڑھنی چاہئیں۔ بالخصوص 9ذو الحجہ کی فجر سے لے کر13 ذوالحجہ کی عصر تک۔
عشرہ ذوالحجہ کے احکام و مسائل کے حوالے سے ایک اور ضروری بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ جس شخص کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو، وہ ذو الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اور ناخن وغیرہ نہ بنوائے جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِذَا رَأَيْتُمْ هَلَالَ ذِي الحِْجةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُّضَحِّىَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِه))(مسلم:977)
’’ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ۔‘‘
تاہم ان مسائل و احکام کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، ان مبارک ایام کو، نیکی کے ان مواقع کو غنیمت جاننا چاہیے۔
جو وقت گزر جاتا ہے وہ دوبارہ نہیں آتا، اور جو آنے والا ہے اس میں نیکی کی توفیق ہوتی ہے یا نہیں۔ مہلت عمر نصیب ہوتی ہے یا نہیں کچھ پتا نہیں۔ اس لیے سنجیدگی ، دور اندیشی، عقلمندی اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور سراب کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے۔
بہت سے لوگوں کو یہ شیطانی وسوسہ دین سے دور کیے رکھتا ہے کہ یہ تھوڑی سی ذمہ داریوں سے فارغ ہولوں میں پھر بیٹھ کر اللہ اللہ کیا کروں گا۔
گویا کہ ایک تو وہ دین کے تقاضوں کو ذمہ داری نہیں سمجھتا بلکہ فارغ لوگوں کا کام سمجھتا ہے، اور دوسرے یہ کہ اس نے اپنے آپ کو کتنے بڑے دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے کہ جب تک وہ دنیاوی ذمہ داریوں سے فارغ نہیں ہو جاتا، ملک الموت اس کا انتظار کرے گا، اس کو نیکی کی مہلت دے گا اور پھر اس کی روح قبض کرے گا، یہ صرف دھوکہ ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو بے وقوف بناتا ہے۔
اور سب سے خطر ناک پہلو اس کا یہ ہے کہ نیکی کے مواقع کی قدر نہ کرتا، ان سے مستفید نہ ہونا، برے خاتمے کی علامات میں سے ایک واضح علامت ہے، کیونکہ موت تو اکثر اچانک آتی ہے، اور اگر علامات کے ساتھ آئے جیسا کہ موت سے پہلے آدمی کچھ عرصہ بیمار ہو جائے تو پھر بیماری کی حالت میں نیکی کی توفیق نہیں ہوتی ، ہمت نہیں ہوتی ، زیادہ سے زیادہ خواہش ہوتی ہے جو حسرت بن کے رہ جاتی ہے۔
جبکہ دوسری طرف حسن خاتمہ، یا خاتمہ بالخیر کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کو موت سے پہلے نیکی کی توفیق مل جائے جیسا کہ حدیث میں ہے۔آپ ﷺ 5نے فرمایا:
((إذا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِ خَيْرًا اسْتَعْمَلَهُ))
’’اللہ تعالی جب اپنے کسی بندے سے خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اس سے کام لیتے ہیں۔‘‘
((فَقِيلَ كَيفَ يَسْتَعْمِلُهُ يَا رَسُولَ اللهِ))
’’صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے پوچھا کہ کیسے کام لیتے ہیں؟‘‘
((قَالَ يُوفِّقُهُ لِعَمَلٍ صَالِحٍ قَبْلَ الْمَوْتِ))(ترمذي:2142)
’’تو فرمایا: اسے موت سے پہلے نیک عمل کی توفیق دیتے ہیں ۔‘‘
اللہ تعالی نے نیکی کا یہ جو موقع مہیا کیا ہے اسے غنیمت جانیں جنہیں نیکی کے مواقع کی قدر ہوتی ہے وہ کبھی بھی انہیں ضائع نہیں جانے دیتے۔ بلکہ وہ ایسے مواقع کی تلاش میں اور انتظار میں رہتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو نیکی کی توفیق نصیب فرمائے۔
اقول قولي هذا واستغفر الله العظيم لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب انه هو الغفور الرحيم .
………