جنت کی نعمتوں کا ذکر خیر

﴿ وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ۝۱۳۳﴾(ال عمران:133)
جنت کی وسعت کے ذکر کے بعد جنت کی چند نعمتوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنت کی نعمتیں یقینًا بے حد و حساب ہیں، ان کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا اور ان کے بارے میں سوچا نہیں جاسکتا۔ قرآن وحدیث میں جنت کی جو بہت سی نعمتوں کا ذکر ہوا ہے، تو وہ محض اک نمونہ ہے، ورنہ جنت میں انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا ساماں ہے، کوئی نہیں جانتا۔
﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۷﴾ (السجدة:17)
’’کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان چھپا رکھا ہے، ان کے اعمال کی جزاء کے طور پر‘‘
تا ہم چند موٹی موٹی اور نمایاں نعمتیں کہ جن سے انسان کو اکثر واسطہ رہتا ہے، ذکر کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ جنت میں انسان کے لیے ہر وہ کچھ ہے جس کی وہ خواہش کر سکتا ہے، اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ۝۳۱
نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۠۝﴾(حم السجدة:31-32)
’’وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا، اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے تمہیں عطا ہوگی، یہ سامان ضیافت ہے اس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے ۔‘‘
نعمتوں میں سے سب سے عام اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والی نعمتیں کھانے پینے سے متعلق ہیں اور قرآن وحدیث میں جن ماکولات ومشروبات کا ذکر ہے، ان میں انار، انگور، کھجور، انجیر، کیلا اور پیر وغیرہ ہیں پھلوں میں، اور کھانوں میں مچھلی، بیل اور اڑتے ہوئے پرندوں کا گوشت، اڑتے ہوئے پرندوں کے گوشت کا مطلب ہے کہ اڑتے ہوئے پرندے کو دیکھ کر اگر اس کا گوشت کھانے کو جی چاہے گا تو پل بھر میں تیار کر کے حاضر کر دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ قرآن وحدیث میں جنت کی جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے، دنیا میں ان چیزوں کے ساتھ صرف ایک نام کی مشابہت ہے شکل وصورت اور لذت و ذائقہ یقینًا مختلف ہوگا، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((لَيْسَ فِي الْجَنَّةِ شَيْءٌ يُشْبِهُ مَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا الْأَسْمَاءُ)) (صفة الجنة لأبي نعيم الأصبهاني ، ج:1، ص:147 ، رقم:124)
’’جنت کی کسی چیز کی دنیا کی کسی چیز کے ساتھ سوائے ناموں کے کوئی مشابہت نہیں ہے، اس لیے جنت کی چیزوں کا موازنہ نہیں ہے‘‘
بالخصوص جب یہ بھی حقیقت ہے جو کہ سب کو معلوم ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں عارضی ، ادھوری اور ناقص ہیں۔
جبکہ آخرت کی چند نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِؕ﴾(الواقعة:27)
’’ اور دائیں بازو والے، دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔‘‘
﴿ فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍۙ۝۲۸ وَّ طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍۙ۝۲۹ وَّ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍۙ۝۳۰ وَّ مَآءٍ مَّسْكُوْبٍۙ۝۳۱ وَّ فَاكِهَةٍ كَثِیْرَةٍۙ۝۳۲ لَّا مَقْطُوْعَةٍ وَّ لَا مَمْنُوْعَةٍۙ۝۳۳ وَّ فُرُشٍ مَّرْفُوْعَةٍؕ۝۳۴﴾ (الواقعة: 27-33)
’’وہ بے خار بیر یوں، اور تبہ بہ تبہ پڑھے ہوئے کیلوں اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں، اور ہر دم رواں پانی اور بھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک بکثرت ملنے والے پھلوں اور اونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔‘‘
اب یہاں ان الفاظ پر غور کیا جائے کہ کبھی نہ ختم ہونے والے اور بے روک ٹوک بکثرت ملنے والے پھل۔ تو واضح ہو جائے گا کہ دنیا کے پھلوں کے ساتھ صرف اک نام کی مشابہت ہے۔
جنت کے پھلوں کی اک خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ وہ نہ ختم ہونے والے ہیں، دنیا کے پھلوں میں، یا دنیا کی کسی بھی چیز میں یہ خصوصیت نہیں ہے، مثلاً دنیا میں آدمی کے پاس کسی ایک پھل کا چاہے اک بہت بڑا ذخیرہ ہو، یا باغات ہوں، لیکن جب وہ ایک پھل اس ذخیرے سے اُٹھاتا ہے، یا اس درخت سے توڑتا ہے تو اس کے ذخیرے سے ایک کا پھل تو کم ہو جاتا ہے، مگر جنت کے پھلوں کی خصوصیت یہ بتائی کہ لا مقطوعة ، وہ بھی نہ ختم ہونے والے ہیں، اور حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا نَزَعَ ثَمَرَةً مِنَ الْجَنَّةِ عَادَتْ مَكَانَهَا أُخْرٰى))( مجمع الزوائد، ج11، ص368، رقم: 18731)
’’ جب کوئی آدمی جنت سے پھل توڑے گا تو اس کی جگہ دوسرا پھل لگ جائے گا۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنِّي عُرِضَتْ عَلَىَّ الْجَنَّةُ، وَمَا فِيهَا مِنَ الزَّهْرَةِ وَالنَّصْرَةِ))
’’مجھ پر جنت پیش کی گئی، یعنی جنت دکھائی گئی جو کچھ اس میں سبزہ اور شادابی ہے۔‘‘
((فَتَناوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ لِآ تِيْكُمْ بِهِ فَحِيْلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ))
’’تو میں نے اس میں سے انگور کا ایک خوشہ پکڑنا چاہا، تا کہ اسے تمہارے پاس لے کر آؤں، تو میرے اور اس کے درمیان کوئی چیز حائل کر دی گئی۔‘‘
((وَلَوْ اٰتَيْتُكُمْ بِهِ، لِأَكَلَ مِنْهُ مِنْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا يَنْقُصُوْنَهَ))( مسند احمد:15800)
’’اور اگر میں وہ تمہارے پاس لے آتا تو اسے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کھائیں اور اس میں کوئی کمی نہ آتی۔‘‘
اور اہل ایمان کے لیے یہ بات ہرگز باعث تعجب نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ایک تو ہر مسلمان کا انبیاء می سلام کے معجزات پر ایمان ہے اور دوسرے یہ کہ اس کا مشاہدہ بھی ہے، نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کے تمام لوگ ہزاروں سال سے، اس بات کا مشاہدہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ چاہ زمزم چھ ہزار سال سے لوگوں کی پیاس بجھاتا چلا آ رہا ہے۔ مگر اس میں کوئی کمی نہیں آئی، سال بھر مسلمان اس سے مستفید ہوتے ہیں، اور وہ اللہ تعالی کے فضل سے مسلسل رواں دواں اور جاری وساری ہے۔
تو جنت کے پھلوں کی بات ہو رہی تھی ، جنت کے پھلوں کی ایک خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ وہ کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں اور دوسری یہ بیان فرمائی کہ ولا ممنوعة کہ اس کے حصول میں کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔
اب روک ٹوک کئی قسم کی ہے، ایک تو یہ کہ کسی آدمی کی بساط اور استطاعت میں کوئی چیز نہیں ہوتی، ایک یہ کہ بھی کوئی پھل بے موسمی ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں ہوتا اور ایک روک ٹوک یہ ہے کہ بھی ڈاکٹر صاحب منع کر دیتے ہیں کہ فلاں چیز نہیں کھائی اور فلاں سے پر ہیز کرنا ہے۔
مگر وہاں یہ روک ٹوک نہیں ہوگی جو چیز جتنی کھانا چاہیں گے کسی قسم کی روکاٹ نہیں ہوگی۔ آدمی دنیا میں کوئی چیز کھانا چاہے تو کتنی کھا لے گا ؟ زیادہ سے زیادہ دو یا تین آدمی کا کھانا کھا لے گا، اور پھر اس کی جو حالت ہوگی وہ آپ جانتے ہیں۔ آدمی اگر زیادہ کھالے تو اس کا چلنا پھرنا مشکل ہو جاتا ہے بات کرنا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر جنت میں آپ جانتے ہیں کہ آدمی کتنا کھا سکے گا ؟ جنت میں آدمی کو سو (۱۰۰) آدمیوں کے کھانے کی طاقت ہوگی جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ لَيُعْطَى قُوَّةً مِائَةِ رَجُلٍ فِي الْآكل وَالشُّرْبِ))(صحیح دارمی: 2867، مسند احمد:91269)
’’جنت میں آدمی کو (۱۰۰) آدمیوں کے کھانے پینے کی طاقت حاصل ہوگی ۔‘‘
اور جنت میں اہل جنت ہمارے قد کاٹھ کے نہیں ہوں گے، بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے قد کے برابر ہوں گے۔
آپﷺ نے فرمایا:
((فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ، عَلَى صُورَةِ آدَمَ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمْ يَزَلِ الْخَلْقُ ، يَنقُصُ بَعْدَهُ حَتَّى الآن)) ‘‘(صحیح مسلم:2841)
’’جو شخص جنت میں جائے گا، وہ آدم علینا کی طرح ساتھ ہاتھ لمبا ہو گا، (تقریبا 90 فٹ) شروع میں لوگوں کے قد ساتھ ہاتھ تھے۔ جو بعد میں گھٹتے گئے حتی کہ موجودہ قد پر آگئے ۔‘‘
اور جنتیوں کی عمریں تقریبًا تیسں سال ہوں گی، جیسا کہ حدیث میں ہے، یعنی جوان ہوں گے اور سدا جوان رہیں گے۔
تو ۹۰ فٹ کا جوان جسے ۱۰۰ آدمیوں کے کھانے پینے کی طاقت ہو کتنا کھا سکے گا۔
یقینًا بہت زیادہ ہے۔ یعنی ہمارے جیسے سو آدمیوں کے برابر نہیں بلکہ جنت کے سو آدمیوں کے برابر۔
اور حدیث میں ہے:
((جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ))
’’اہل کتاب میں سے ایک شخص آپ ﷺکے پاس حاضر ہوا اور کہا:‘‘
((يَا أَبَا الْقَاسِمِ تَزْعُمُ أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَأْكُلُونَ وَيَشْرَبُونَ))
’’اے ابو القاسم ! آپ سمجھتے ہیں کہ جنت والے کھائیں گے اور پئیں گے۔‘‘
((قال: نعم))
’’فرمایا: ہاں۔‘‘
((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ لَيُعْطَى قُوَّةَ مِائَةِ رَجُلٍ فِي الأكل وَالشَّرْبِ وَالْجَمَاعِ وَالشَّهْوَةِ))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جنت میں آدمی کو ۱۰۰ آدمیوں کے کھانے پینے کی اور جماع اور شہوت کی طاقت ہوگی ۔‘‘
((قَالَ: فَإِنَّ الَّذِي يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ تَكُونُ لَهُ الْحَاجَةُ))
’’تو وہ کہنے لگا کہ پھر جو کھاتا پیتا ہے، اس کو حاجت بھی ہوتی ہے۔‘‘
((وَلَيْسَ فِي الْجَنَّةِ أَذًى))
’’اور جنت میں کوئی گندگی تو نہیں ہوگی ؟‘‘
((قَالَ: حَاجَةٌ أَحَدِهِمْ عَرَقَ يَفِيضُ مِنْ جُلُودِهِمْ ، كَرِيحٍ الْمِسْكِ فَيَضْمُرُ بَطْنه)) (مسند احمد:19299)
’’تو آپﷺ نے فرمایا: ان کی رفع حاجت اس طرح ہوگی کہ ان کے جسموں سے پسینہ آئے گا ملک کی خوشبو کی طرح، تو ان کے پیٹ سکڑ جائیں گے، یعنی اپنی اصلی حالت پر آجائیں گے۔‘‘
تو جنت میں کھانے پینے کے حوالے سے بھی بہت سی نعمتیں ہوں گی۔ جنت کی نعمتوں کے ذکر کے ساتھ اگر حوروں کا ذکر نہ ہو تو بات مکمل نہیں ہوتی، مگر حوروں کے ذکر میں ان کی تفصیل کے بجائے صرف اس اشکال کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ جو بعض لوگوں کے ذہنوں میں آتا ہے، اور لوگ استفار بھی کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے قرآن و حدیث میں مردوں کو حوروں کا شوق دلایا گیا ہے، مگر عورتوں کے بارے میں نہیں بتلایا گیا کہ انہیں کیا ملے گا؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ فیصلہ اللہ تعالی کا ہے، اور ایمان کا تقاضا ہےکہ اللہ تعالی کا فیصلہ بلا چون و چرا قبول کیا جائے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے کاموں کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے جیسا کہ فرمایا:
وَلَا يُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْئَلُونَ) (الانبياء:23)
’’اللہ تعالی اپنے کاموں کے لیے کسی کے آگے جواب دو نہیں ہے، اور سب جواب دہ ہیں۔‘‘
کس کی جرأت ہے کہ اللہ تعالی سے سوال کرے کہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے؟
اور تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے عورت کی فطرت میں حیا رکھی ہے، لہٰذا عورت کو ایسی بات کا شوق دلانا کہ جسے سن کر اسے شرم آئے مناسب نہیں سمجھا گیا۔
اور انسانی معاشرے میں ایسے ادب و آداب اور رسم و رواج ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ باپ اپنی بیٹی کی شادی تو کرتا ہے، مگر کبھی اس سے نہیں کہتا کہ میں نے تیرے لیے ایک خوبصورت سانو جوان ڈھونڈ کے رکھا ہے۔
حیا عورت کا زیور ہے، اس کی خوبصورتی ہے، حیا سے عورت کی شرافت کا اظہار ہوتا ہے، لوگوں کی نظروں میں حیا دار عورت کی عزت اور احترام بہت زیادہ ہوتا ہے۔
تو اس اشکال کی وضاحت میں اور بھی باتیں ہیں مگر اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔
حوروں کے بارے میں لوگوں کو ایک اشکال اور بھی ہے، چاہتا ہوں کہ اس کا ذکر بھی کرتا چلوں کہ جنت میں آدمی کے لیے حوروں کی تعداد کے بارے میں جو بات زبان زد عام ہے وہ یہ کہ ہر آدمی کے لیے ستر ستر حوریں ہوں گی۔ بلکہ بعض روایات میں تو سینکڑوں اور ہزاروں کے حساب سے بھی بتایا جاتا ہے، مگر یہ باتیں صحیح نہیں ہیں۔ البتہ72 حوروں کے بارے میں ایک روایت صحیح ہے لیکن وہ بھی صرف شہید کے لیے، ہر آدمی کے لیے نہیں۔ باقی لوگوں کو صرف دو دو حوریں ملیں گی، اور ان کے ساتھ ان کی دنیا والی بیوی بھی ہوگی۔
بعض دفعہ دنیا میں میاں بیوی ایک دوسرے سے اتنا تنگ ہوتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو جنت میں بھی اپنا ساتھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
جیسا کہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے دوستوں کو اپنی بیوی کی قبر پر لے گیا اور کہا گواہ رہتا کہ میں اسے تین طلاقیں دے رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اب مرنے کے بعد طلاق دے رہے ہو، زندگی میں کیوں نہیں دی ؟
کہا: میں نہیں چاہتا تھا کہ میری جگہ کوئی اور بے چارہ پھنس جائے۔
پوچھا تو اب کیوں دے رہے ہو، اب کیا فائدہ ہے ؟
کہا: اب اس لیے دے رہا ہوں کہ کہیں یہ جنت میں میری بیوی نہ بن جائے۔ تو ایسی شدید نفرت بعض دفعہ دونوں طرف سے ہوتی ہے اور ایسے واقعات حقیقت میں موجود ہیں۔ لیکن جنت میں یہ مسئلہ نہیں ہوگا، دنیا میں کسی کی آپس میں چاہے کتنی ہی عداوت، بغض اور نفرت ہو، آخرت میں وہ دلوں سے نکال دی جائے گی۔
﴿وَ نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ﴾ (الاعراف: 43)
’’اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے بارے میں جو کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے۔‘‘
تو جنت کے بارے میں قرآن وحدیث میں مزید بہت کچھ ہے اور وہ سب کچھ جنت کا شوق دلانے کے لیے اور محبت پیدا کرنے کے لیے ہے، اللہ تعالی کی جنت اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے انعام واکرام ہے، اعزاز ہے، تو قیر ہے۔
﴿ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۠۝۳۲﴾ (حم السجدة:32)
’’اللہ غفور رحیم کی طرف سے مہمان نوازی ہے۔‘‘
لہٰذا اس کی چاہت دل میں رکھیں، اور اس کے حصول کے لیے کوشش کریں ۔
احادیث میں بھی بہت زیادہ بیان ہوا ہے، کئی موقعوں پر آپﷺ نے فرمایا: جو فلاں کام کرے گا اس کے لیے جنت ہے۔ جیسا کہ ابتدائے اسلام میں آپ سے ہم کو دین کا کام کرتے ہوئے قریش مکہ کی طرف سے بہت زیادہ سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، تو آپ ﷺ لوگوں کو جنت کی رغبت دلا کر مدد کے لیے کہتے ۔
حدیث میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں:
((أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَكَثَ عَشْرَ سِنِينَ يَتَّبِعُ الْحَاجَ فِي مَنَازِلِهِمْ فِي الْمَوْسِمِ بِمِجَنَّةَ وَعُكَاظٍ وَمَنَازِلِهِمْ بِمِنٰي))
’’آپﷺ تبلیغ دین کے لیے مسلسل دس سال حاجیوں کے پاس ان کے گھروں میں ہنی میں ان کے خیموں میں اور مجھ اور عکاظ کے بازاروں میں ان کے پاس جاتے اور فرماتے ۔
((مَن يُّؤْوِيْنِي وَيَنْصُرُنِي حَتّٰى أَبْلُغَ رِسَالَاتِ رَبِّي فَلَهُ الْجَنَّةُ)) (مسند احمد: ج3، ص:339، رقم:14694)
’’کوئی ہے جو مجھے پناہ دے اور میری مدد کرے تاکہ میں اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں، اور اس کے لیے جنت ہوگی ۔‘‘
اور جب کچھ لوگ یثرب سے آئے اور انہوں نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا تو آپ سے کلام نے ان سے بیعت لی اور بیعت کی دفعات میں ایک چیز یہ بھی شامل تھی کہ جب میں تمہارے پاس مدینہ آ جاؤں گا تو تم لوگ میری مدد کرو گے اور جس چیز سے اپنی جان اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو اس سے میری بھی حفاظت کرو گے۔
تو دین کا کام کرتے وقت مشکلات آتی ہیں، تکلیفیں اور مصیبتیں پہنچتی ہیں، مگر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو دین کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جو آدمی جس طرح بھی مدد کر سکتا ہے اسے دین کا کام کرنے والوں کی مدد کرنی چاہیے، چاہے ایک لفظ سے ہی ہو۔ دین کا کام کرنے والے اور دین کا کام کرنے والوں کی مدد کرنے والے ہی ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور تاریخ انسانی اٹھا کر دیکھ لیں دین کی اور اہل دین کی مخالفت کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اس لیے اللہ تعالی کے ہاں سرخرو ہوتا ہے تو دین کے لیے کچھ کر جائیں یہ زندگی بہت مختصر ہے اور اگر کوئی انجانے میں دین کی یا دین کا کام کرنے والوں کی مخالفت کرتا ہے اور انہیں اذیت پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے۔ اللہ تعالی کے اپنے بندوں پر بے شمار انعامات واحسانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جنت کا شوق دلاتا ہے۔ جنت کا شوق اور رغبت جہاں ایک طرف اللہ تعالی کی نعمتوں کی قدر دانی ہے۔ وہاں اس کی اس پیشکش پر اظہار شکر و امتتان بھی ہے، اور پھر یہ کہ جنت کے شوق میں انسان جہنم سے بچنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ کیونکہ اصل کامیابی تو یہی ہے کہ انسان جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا جائے ۔ اللهم اجعلنا منهم . آمين
اس لیے دل میں جنت کے شوق کی آبیاری کریں کہ وہ پھلے پھولے، پر واں چڑھے اور خوب مضبوط ہو۔
……………….