ظلم کی حقیقت اور اس کی سنگینی

﴿ كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤیۙ۝۶ اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰیؕ۝۷ اِنَّ اِلٰی رَبِّكَ الرُّجْعٰیؕ۝﴾(العلق:6-8)
ہر شخص جانتا ہے اور خوب جانتا ہے، بلکہ معنی مشاہدہ بھی رکھتا ہے کہ دنیا میں بے شمار مسائل و مصائب اور مشکلات ہیں۔ آپس کے جھگڑے ہیں، گھریلو تنازعات ہیں، لین دین کے اختلافات میں حقوق کی جنگ ہے، پسند ناپسند پر سر پھٹول اور دھینگا مشتی ہے۔ ان مسائل کے اسباب کا اگر تفصیلی جائزولیں تو وہیقینًا بہت زیادہ ہیں، لیکن اگر مختصر اور بنیادی بات کریں تو وہ یہ ہے کہ انسان میں کچھ فطری کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں جو ان تمام مسائل کا اصل سبب ہیں قرآن پاک میں انسان کی متعدد فطری کمزوریوں کی طرف
اشارہ کیا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا:
إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولاً﴾ (الاحزاب:72)
’’بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا﴾ (النساء:28)
’’اور انسان کمز ور پیدا کیا گیا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ كَانَ الْإِنْسَانُ قَتُورًا) (الاسراء:100)
’’اور انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًاۙ۝۱۹اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًاۙ۝۲۰وَّ اِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوْعًاۙ۝۲۱﴾ (المعارج:19-21)
’’بے شک انسان تھڑ دلا پیدا کیا گیا ہے، جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے، اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگاتا ہے۔‘‘
تو اس طرح کی متعدد فطری کمزوریاں انسان میں پائی جاتی ہیں۔ جو کہیقینًا قابل اصلاح ہیں، ان پر قابو پایا جا سکتا ہے، ان کمزوریوں اور خامیوں کو خوبیوں میں بدلا جا سکتا ہے اگر انہیں بدلا نہ جا سکتا ہوتا اور ان کی اصلاح ممکن نہ ہوتی تو باز پرس اور حساب کتاب بھی نہ ہوتا۔
لہٰذا انسان میں موجود فطری خامیاں اور کمزوریاں ان مسائل کا اصل سبب ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے ہمیں اپنی ان فطری کمزوریوں پر قابو پانا ہوگا اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ کی اصلاح کی طرف دینا ہو گی۔
اب سوال یہ ہے کہ فطری کمزوریوں کی اصلاح کیسے ہوگی ، اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
تو طریقہ کار جاننے سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فطری کمزوریوں پر قابو پانا اگر چہ ممکن تو ہے، مگر آسان نہیں ہے فطری کمزوریوں پر قابو پانا ایسے ہی ہے جیسے کھلے سمندر میں پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت پر تیرنا، چنانچہ ان کے لیے جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے، مواظبت اور مداومت کی ضرورت ہوتی ہے، پابندی اور پیشگی کی ضرورت ہوتی ہے۔
عزم مصمم اور پختہ ارادے کی ضرورت ہوتی ہے، اور سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ اگر آخرت کی حقیقت سمجھ میں آجائے ، اس پر ایمان مضبوط اور گہرا ہو تو پھر کسی بھی فطری کمزوری کو بدلنا آسان ہو جاتا ہے۔ تو طریقہ کار کسی بھی فطری کمزوری پر قابو پانے کا اور اس کی اصلاح کا یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سے آگاہی حاصل ہو، اس کا عقلی ، معاشی ، اور معاشرتی لحاظ سے قابل مذمت قابل نفرت اور نقصان دہ ہونا ثابت ہو، اور اگر آدمی مسلمان ہو تو اس کے لیے اس فطری کمزوری کا شرعی لحاظ سے برا ہونا ہی کافی ہوگا، مگر اس پر اس بری قطری عادت اور کمزوری کی شدت اور سنگینی کو واضح کیا جائے اور اسے اس کے انجام بد سے خبردار کیا جائے۔
لہٰذا اہم آج کی اس گفتگو میں اپنی اصلاح کی خاطر انسان کی فطری کمزوریوں میں سے ایک نہایت ہی خطر ناک کمزوری کا ذکر کریں گے ان شاء اللہ کہ جس کی وجہ سے دنیا مصیبت کدہ بنی ہوئی ہے، اور وہ ہے ظلم۔
اہل لغت ظلم کی جو تعریف کرتے ہیں وہ تو کچھ یوں ہے کہ وضع الشيء في غير موضعه، کسی چیز کو اس کے مقام سے ہٹا کے رکھنا ۔
یعنی کسی چیز کو اس کے مقام سے اوپر کر دیں تو بھی ظلم ہے اور اس کو اس کے مقام سے نیچے کر دیں تو بھی ظلم ہے۔
اللہ تعالی کے مقام و مرتبے کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ’’لا شريك له‘‘ ہے، چنانچہ اللہ تعالی کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک کرنا جو کہ اس کے مقام میں کمی کرنا ہے علم ہے بلکہ ظلم عظیم ہے۔
اور ظلم کی انواع و اقسام میں سب سے بڑا ظلم شرک کرنا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ الشِّركَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (لقمان:13)
اسی طرح انبیاء علیہم السلام کا مقام انسانوں میں یقینًا سب سے بلند ہے لیکن انہیں ان کے مقام سے بڑھا دینا بھی ظلم ہے۔ عوام الناس کے ہاں ظلم کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کی حق تلفی کرنا، کسی کو پانی اور جسمانی اذیت دینا کسی کی ذات ، مال اور عزت میں اس کو نقصان پہنچانا ظلم ہے۔ ظلم کی یہ دونوں تعریفیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں، مگر ظلم کی اقسام اور ان کی سنگینی کے لحاظ سے ذرا جانتے ہیں ، حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((الدَّوَاوِينُ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثَةٌ))
’’اللہ تعالی کے ہاں رجسٹرز اور دفتر تین قسم کے ہیں ۔‘‘
((دِيوَانُ لَا يَعْبَأُ اللهُ بِهِ شَيْئًا))
’’ایک دفتر ایسا ہے کہ اس میں جو کچھ درج ہو، اللہ تعالی اس کی پرواہ نہیں کرتے ۔‘‘
((وَ دِيوَانٌ لَا يَتْرُكُ اللهُ مِنْهُ شَيْئًا))
’’اور ایک دفتر ایسا ہے کہ اس میں جو کچھ درج ہو، اللہ تعالی اس میں سے کسی چیز کو بھی نظر انداز نہیں کرتے ۔‘‘
اس میں درج کی گئی ایک ایک چیز کا حساب کرتے ہیں۔
((وَ دِيوَانُ لَا يَغْفِرُهُ اللهُ))
’’اور ایک دفتر ایسا ہے کہ اس میں اگر کچھ درج ہو تو اسے اللہ تعالی ہرگز معاف نہیں کرتے ۔‘‘
((فَأَمَّا الدِّيوَانُ الَّذِي لَا يَغْفِرُهُ اللهُ ، فَالشَّرْكُ بِاللهِ))
’’پس وہ دفتر کہ جس میں درج کسی چیز کو اللہ تعالی معاف نہیں کرتا: اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ہے۔‘‘
قَالَ الل عَزَّ وَجَلَّ: ﴿إِنَّهُ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّة﴾ (المائدة:72)
’’اللہ تعالی نے فرمایا: جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کردی ۔‘‘
((وَأَمَّا الدِّيوَانُ الَّذِي لَا يَعْبَأُ اللهُ بِهِ شَيْئًا فَظَلْمُ الْعَبْدِ نَفْسَهُ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْن رَبِّه مِنْ صَوْم﷭ِ يومٍ تَرَكَهُ، أَوْ صَلَاةٍ تَرَكَهَا فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَغْفِرُ ذٰلِكَ وَيَتَجَاوَزُ إِنْ شَاءَ))
’’ اور وہ دفتر کہ جس میں درج کسی چیز کی اللہ تعالی پرواہ نہیں کرتا، وہ بندے کا اپنی جان پر ظلم کرتا ہے، جو اس کے اور اس کے رب کے درمیان معاملہ ہے، کسی دن کا روزہ چھوڑ دیا ہو یا کوئی نماز چھوڑ دی ہو، اللہ تعالی اگر چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا اور اس سے درگزرو تجاوز کرے گا۔ ‘‘
((وأما الدِّيْوَانُ الذِي لَا يَتْرُكُ اللهُ مِنْهُ شَيْئًا، فَظَلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهُم بَعْضًا الْقِصَاصِ لَا مَحَالَة))( مسند احمد:26031 – سناده ضعیف)
’’اور وہ دفتر کہ جس میں سے اللہ تعالی کوئی چیز نہیں چھوڑتا، وہ بندوں کا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرنا ہے، اس کا قصاص اور بدلہ لازمی ہے۔‘‘
تو آج ہم ظلم کی اس آخری قسم کے حوالے سے بات کرنا چاہیں گے۔ اس حدیث میں تو اگر چہ ضعف ہے، مگر متعدد آیات و احادیث سے علماء کرام نے کچھ ایسا مفہوم مستقبط کیا ہے کہ مغفرت و بخشش کے لحاظ سے لوگوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی معاملہ ہوگا۔ اس حدیث کی روشنی میں آپ کو اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ ظلم کی یہ قسم کتنی تعین ہے، حقوق اللہ کے مقابلے میں۔
ظلم کی سب سے خطر ناک قسم تو وہی ہے کہ جسے اللہ تعالی ہرگز معاف نہیں کرے گا، اور پھر اس کے بعد دوسرے درجے کا سنگین جرم (ظلم العباد بعضهم بعضاً) بندوں کاآپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرتا ہے۔ لہٰذا اس سے آگاہی حاصل کرنا، اور اس کی شدت اور سنگینی معلوم کرنا اور اس کے انجام کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے اگر اس سے بچنے کی فکر ہو تو ؟۔
اور ظلم کے بارے میں جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ بہت سے لوگ ظلم کی بہت سی صورتوں کو ظلم نہیں سمجھتے۔ یا اتنی اہمیت نہیں دیتے یا انہیں معمولی بات سمجھتے ہیں، حالانکہ تعلم چاہے کتنا ہی چھوٹا اور ہلکا کیوں نہ ہو، تظلم ہی ہوگا ، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِم بِيَمِينِهِ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَ أَوْجَبَ لَهُ النَّارَ))
’’جو کوئی جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق مارے تو اللہ تعالی اس پر جنت حرام کر دیتا ہے اور جہنم واجب کر دیتا ہے۔
((قَالُوا وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رَسُولَ اللهِ؟))
’’صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اگر کوئی معمولی سی چیز بھی ہو تو ؟‘‘
((قَالَ: وَإِنْ كَانَ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكِ)) .(صحیح مسلم:137)
’’تو فرمایا: اگر چہ اراک کی لکڑی ہی کہ جس سے مسواک کی جاتی ہے کیوں نہ ہو۔‘‘
یعنی مسواک کی لکڑی کے برابر بھی حق تلفی ہو یا مسواک کی ضرب سے ہی کسی کو جتنی تکلیف پہنچائی جا سکتی ہے، کیوں نہ ہو ظلم تصور ہوتا ہے اور اس پر جنت حرام اور جہنم واجب کر دی جاتی ہے۔ اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ اس دن کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی پوشیدہ نہیں رہے گی۔ چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور گناہ بھی سامنے لایا جائے گا۔
جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْـًٔا ؕ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَا ؕ وَ كَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ۝﴾(الأنبياء:47)
’’قیامت کے دن ہم ٹھیک ٹھیک تو لنے والے تر از درکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا، جس کا رائی کے دانے کے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ۔‘‘
بڑے بڑے گنا ہوں یا بڑے بڑے ظالموں سے تو بہت سے لوگ بچنے کی کوشش کرتے ہوں گے، مگر چھوٹے چھوٹے فلموں سے کتنے لوگ بیچنے کی کوشش کرتے ہیں، شاید بہت کم بلکہ شاید بہت سے لوگ انہیں ظلم ہی نہ سمجھتے ہوں گے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ واپس آئے، تو آپﷺ نے ان سے فرمایا:
((اَلَا تُحدِّثُوْنِي بِاَعَاجِيْبَ مَا رَأَيْتُم بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ))
’’کیا تم حبشہ کی سرزمین پر ہونے والے عجیب و غریب واقعات کے بارے میں کچھ نہیں بتاؤ گے؟‘‘
((قَالَ فِتْيَةٌ مِنْهُم بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ))
’’ان میں سے کچھ نوجوانوں نے کہا: ہاں ضرور اللہ کے رسول ﷺ‘‘
((بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوْسٌ مَرَّتْ بِنَا عَجُوْزٌ مِن عَجَائِزِ رَهَابِيْنِهِمْ))
’’ایک بار ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے پاس سے ان کے درویشوں کے بوڑھوں میں سے ایک بڑھیا گزری ۔‘‘
((تَحْمِلْ عَلٰى رَأْسِهَا قُلَةٌ مِنْ مَاءٍ))
’’اس نے سر پر پانی کا ایک مٹکا اٹھا رکھا تھا۔‘‘
((فَمَرَّتْ بِفَتًى مِنهُم))
’’وہ ان کے نوجوانوں میں سے ایک نوجوان کے پاس سے گزری ۔‘‘
((فَجَعَلَ إِحدٰى يَدَيْهِ بَيْنَ كَتَفَيْهَا ثُمَّ دَفَعَهَا فَخَرَّتْ عَلٰى رُكْبَتَيْهَا، فَانْكَسَرَتْ قُلَّتَهَا))
’’اس تو جوان نے اس بڑھیا کے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ایک ہاتھ رکھا اور دھکا دے دیا، وہ بڑھیا گھٹنوں کے بل گر گئی، اور اس کا مٹکا ٹوٹ گیا۔‘‘
((فَلَمَّا ارْتَفَعَتْ اِلْتَفَتَتْ إِلَيْهِ))
’’وہ بڑھیا اٹھی اور اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔‘‘
((فَقَالَتْ سَوْفَ تَعْلَمُ يَا غُدَرُ))
’’تو اس نے کہا تمہیں عنقریب پتا لگ جائے گا اسے دھو کے باز ‘‘
((إذَا وَضَعَ اللهُ الْكُرْسِيَّ، وَجَمَعَ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخَرِيْنَ وتَكَلَّمَتِ الْاَيْدِي وَالْاَرْجُلُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ، فَسَوْفَ تَعْلَمُ كَيْفَ أَمْرِي وَأمْرُكَ عِندَهُ غداً))
’’جب اللہ تعالیٰ کری رکھے گا، اولین و آخرین کو جمع کرے گا، ہاتھ اور پاؤں بولیں گے جو جو وہ کرتے رہے، پس تمہیں معلوم ہو جائے گا میرا اور تیرا معاملہ کل کو اس کے ہاں کیا ہوتا ہے۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ الله صَدَقَتْ صَدَقَتْ))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: اس نے سچ کہا، اس نے سچ کہا۔‘‘
((كَيْفَ يُقَدِّسُ اللهُ أُمَّةً لَايُوجَدُ لِضَعِيفَهِمْ مِّنْ شَدِيدِهِمْ))(سنن ابن ماجه:4010)
’’ اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی ایسی قوم کو کیسے پاک کرے گا جس کے ہاں کمزوروں کو ان کے طاقتور لوگوں سے ان کا حق نہ دلایا جا سکے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے ارض حبشہ کے عجیب و غریب واقعات میں سے یہ ایک واقعہ سنایا اور انہیں اس واقعے میں جو عجیب و غریب بات لگی وہ شاید یہ تھی کہ اس بڑھیا کا قیامت کے دن ہونے والے حساب کتاب کی یہ تفصیل بیان کرنا تھا۔ قرآن وحدیث ان تفصیلات کی تصدیق کرتے ہیں۔
اب اس واقعہ سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس تو جوان نے اس راہبہ کو جو دھکا دیا تو ظلم کی نیت سے نہیں بلکہ محض ایک فن کے طور پر، جس طرح بہت سے لوگ فن کے طور اس طرح کے کام کر جاتے ہیں اور وہ اسے ظلم نہیں سمجھتے۔
اور دوسرے یہ کہ جوانی میں طاقت کا نشہ اور خمار ہوتا ہے آدمی کا خواہ مخواہ کچھ نہ کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے، تاکہ اس کی طاقت کو تسکین ملے۔ یہ واقعہ صرف اس دور کی اور اس معاشرے کی عکاسی ہی نہیں کرتا بلکہ ہر دور میں طاقتور لوگوں کی اور کسی بھی قسم کے نشے میں مدہوش لوگوں کی اسی قسم کی سوچ ہوتی ہے، کچھ ایسا ہی طرز عمل ہوتا ہے۔ تو اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جنہیں لوگ عموما ظلم نہیں سمجھتے ، مگر لوگوں کے ظلم نہ سمجھنے سے وہ ظلم کی فہرست سے خارج نہیں ہو جاتے بلکہ ظلم ہی رہتے ہیں۔ ظلم کی بہت سی اور چھوٹی چھوٹی صورتوں میں سے ایک آپﷺ نے یہ بیان فرمائی کہ ((مطل الغني ظلم)) (بخاری:2287) ’’مال دار اور صاحب حیثیت آدمی کا ٹرخانا، ادائیگی میں تاخیر کے لیے حیلے بہانے کرنا لٹکانا‘‘
یعنی آدمی کسی کا مقروض ہو اور وہ قرض ادا کر بھی سکتا ہو مگر قرض خواہ کو ٹر خاتا رہتا ہو، حیلے بہانے کرتا رہتا ہو تو وہ ظلم ہے۔ اب ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اس قسم کے ظلم کو ظلم سمجھتے ہیں؟ ظلم تو کیا سمجھیں گے، ہمارے ہاں تو اس کو چالاکی، ہوشیاری اور سمجھداری سمجھا جاتا ہے۔
اس کے برعکس اسی طرح ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((أَتَدْرُونَ مَنِ الْمُفْلِسُ))
کیا تم جانتے ہو کہ مفلس اور کنگال کون ہوتا ہے؟
((قَالُوا الْمُفْلِسُ فِيْنَا يَا رَسُولَ اللهِ مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ قَالَ الْمُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةِ وصِيَامٍ وَزَكَاة، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هٰذَا، وَأَخَذَ مَالَ هٰذَا، وَقَذَفَ هٰذَا وَضَرَبَ هٰذَا، وَسَفَكَ دَمَ هٰذَا فَيُعْطٰى هٰذا مِنْ حَسَنَاتِهِ، و هٰذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَن يُّقضٰى مَا عَلَيْهِ. أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطَرِحَتْ عَلَيْهِ ، ثُمَّ طرح فِي النَّارِ)) (صحیح مسلم: 258)
’’صحابہ نے کہا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ باشد کوئی ساز و سامان ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاؤ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر بہتان لگایا ہوگا کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس کے ذمے کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو اس کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا۔ پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ‘‘
لہٰذا کبھی بھی کسی ظلم کو چھوٹا اور معمولی نہ جانیں، اور آپﷺ کی نصیحت کو ہر دم نظروں کے سامنے رکھیں جس میں آپﷺ نے فرمایا ہے۔
((مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظلَمَةٌ لِاَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أو شَيْءٍ فَلْيَتَحلَّلْ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَن لَّا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهم))(صحیح البخاری:2449)
’’جس کسی کا اپنے مسلمان بھائی پر کیا ہوا ظلم اس کے ذمہ ہو، اس کی عزت کے حوالے سے یا کسی بھی اور معاملے میں تو اسے آج ہی اس سے معاف کروا لے۔اس سے پہلے کہ جب کوئی دینار ہوگا نہ درہم ۔‘‘
…………….