ظلم کے بنیادی اسباب و وجوہات

﴿ كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤیۙ۝۶ اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰیؕ۝۷ اِنَّ اِلٰی رَبِّكَ الرُّجْعٰیؕ۝﴾(العلق:6-8)
’’ہرگز نہیں !یقینًا انسان سرکشی کرتا ہے، اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو مستغنی اور بے نیاز سمجھتا ہے،یقینًا تیرے رب ہی کی طرف پلٹتا ہے۔‘‘
گذشتہ خطبہ جمعہ میں دنیا کے مسائل و مصائب کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے جو بنیادی سبب معلوم ہوا وہ یہ کہ انسان میں کچھ فطری کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں جو ان مسائل کا اصل سبب ہیں، اور ان فطری کمزوریوں میں جو چیز بالخصوص ان تمام مسائل کا سب سے بڑا اور ڈائریکٹ سبب ہے، وہ ہے انسان کی فطرت میں ظلم کا وجود، یعنی انسان فطری ظلم کی طرف میلان اور رجحان رکھتا ہے۔ تو گزشتہ خطبہ جمعہ میں ظلم کی تعریف، اس کی شدت اور سنگینی، اس کی قباحت و شناعت اور اس کے انجام بد کا ذکر ہوا، اور آج کچھ ظلم کے اسباب و وجوہات جاننے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ
یوں تو ظلم کی شکلیں اور صورتیں اور اس کی قسمیں بھی بہت ہیں اور اس کے اسباب بھی بہت ہیں، مگر اس کا ایک بڑا اور بنیادی سبب کہ باقی تمام اسباب جس کے گرد گھومتے ہیں، وہ ہے انسان کا مستغنی ہوتا۔
اللہ فرماتے ہیں:
﴿ كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤیۙ (العلق:6)
’’ہرگز نہیں، انسان یقینًا اس بنا پر سرکشی کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مستغنی اور بے نیاز دیکھتا ہے۔‘‘
یعنی انسان حقیقت میں مستغنی اور بے نیاز نہیں ہے، بلکہ صرف وہ اس طرح سمجھتا ہے۔ وہ کن چیزوں کی وجہ سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے، اور اس کی سرکشی کیا ہے؟
آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ بات جان لیجیے کہ اس آیت کریمہ میں انسان سے مراد کوئی معین شخص نہیں بلکہ تمام بنی آدم ہیں، یعنی یہ ہر شخص کی فطرت میں ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ وہ بے نیاز ہو گیا ہے تو اس میں سرکشی کی جرات پیدا ہو جاتی ہے، پھر اگر اللہ کا ڈر اور خوف، اس کی قوت و طاقت کا یقین ، قیامت کے دن کے حساب و کتاب پر ایمان نہ ہو یا کمزور ہو تو وہ سرکشی پر اتر آتا ہے۔
وہ کن چیزوں کے بھروسے پر بے نیازی دکھاتا اور سرکشی کرتا ہے؟ وہ ہے طاقت۔
اور طاقت کئی قسم کی ہے، مگر سب سے زیادہ جس طاقت کا انسان کو نشہ ہوتا ہے، یا اس کی وجہ سے انسان آپے سے باہر ہونے لگتا ہے، من مانیاں کرتا ہے، کسی کی پرواہ نہیں کرتا، کسی کو خاطر میں نہیں لاتا، حدود سے تجاوز کرتا ہے اور ظلم و زیادتی کرنے لگتا ہے وہ ہے مال و دولت اور حکومت و اقتدار اور حکومت واقتدار کی طاقت کا نشہ سب سے خطر ناک ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد مال و دولت کی طاقت کا نشہ۔ ویسے تو جو طاقت بھی اسے حاصل ہو وہ اس حساب سے بے پروائی دکھاتا ہے اور حد سے تجاوز کرنے لگتا ہے۔ اگر صحت و تندرستی کی نعمت اسے حاصل ہو تو بیماری کو بھول جاتا ہے، اور بیماری کو بھولنے کا مطلب ہے کہ اسے کسی بیمار کی تیمارداری ، اس کی مددہ اس کی دلجوئی اور اس کی تسلی کی پرواہ نہیں رہتی۔ اور اگر اسے پیٹ بھر کر کھانا میسر ہو تو بھوک کو بھول جاتا ہے، اسے بھوکوں کی بے بسی اور بے چارگی اور بھوک کی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ اسی طرح دوسری قو تیں بھی ہیں، تاہم جو بھی قوت و طاقت اسے حاصل ہو، اسی حساب سے وہ بے نیازی دکھاتا ہے اور سرکشی کرتا ہے۔ اس میں قصور قوت و طاقت کا اور ان نعمتوں کا ہرگز نہیں ہے جو اسے حاصل ہوتی ہیں، بلکہ قصور خود اس کا اپنا ہے جو کسی طاقت کے حاصل ہونے پر اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگ جاتا ہے، اور اس کے اس خیال اور سوچ کی وجہ یہ ہے کہ وہ آخرت کو بھلا بیٹھا ہوتا ہے۔
چنانچہ جب اللہ فرماتے ہیں کہ:
﴿ كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤیۙ۝۶ اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰیؕ۝۷ ﴾(العلق:6-7)
’’ انسان یقینًا اس بنا پر سرکشی کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مستغنی سمجھ بیٹھتا ہے، اس کے
بعد فرمایا:
﴿ اِنَّ اِلٰی رَبِّكَ الرُّجْعٰیؕ۝﴾(العلق: 8)
’’یقینًا پلٹتا تیرے رب ہی کی طرف ہے۔‘‘
یعنی رب کے حضور پیش ہونے کے عقیدے پر اس کا ایمان نہیں ہے، یا کمزور ہے تبھی تو وہ آپے سے باہر ہو رہا ہے۔ اور جس کو اپنے رب کی طرف پلٹنا یاد ہوتا ہے، وہ اپنی قوت و طاقت پر بھروسہ نہیں کرتا، بلکہ ہردم، ہر کام کے لیے وہ اللہ تعالی کا محتاج ہوتا ہے، اس پر بھروسہ کرتا ہے، وہ تکبر و غرور نہیں کرتا، کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا، ہر ضرورت کے لیے ہر کام کے لیے اللہ تعالی کے حضور ملتجی ہوتا ہے، اور وہ دعا کرتا ہے کہ
((اللّٰهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو فَلَا تَكِلْنِي إِلٰى نَفْسِي طَرْفَةَ عينٍ وأَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ)) (ابوداؤد:5090)
’’اے اللہ ! تیری رحمت کا امیدوار ہوں، مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی میرے نکس کے حوالے نہ کرنا اور میرے تمام کام خود ہی سنوار دینا کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔‘‘
وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے اور اعتراف کرتا ہے کہ (لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بالله) ’’ کسی قسم کی حرکت و جنبش کی ہمت ہے اور نہ کسی قسم کی طاقت ، بغیر اللہ تعالی کی توفیق اور مدد کے۔‘‘
اور جس شخص کو آخرت یاد نہ ہو اس کے لیے کوئی بھی نعمت، کوئی بھی قوت و طاقت نقصان دہ اور وبال جان ہو سکتی ہے، کیونکہ وہ اس کے لیے بے نیازی احسان فراموشی اور سرکشی کا باعث بنتی ہے۔ ایسا شخص کہ جس کا قیامت کے دن پر ایمان نہ ہو یا نہایت کمزور ہو، یا ایک سرسری سا ایمان ہو، تو اس کے لیے اللہ تعالی کی نعمتیں ایک بہت بڑی آزمائش ہوتی ہیں؟ اور اکثر و بیشتر اس کے لیے باعث ہلاکت اور تباہی و بربادی ہوتی ہیں۔ اسے جسمانی طاقت حاصل ہو، دولت و ثروت کی طاقت ہو حکومت واقتدار کی طاقت ہو، عہدہ و منصب کی طاقت ہو، چرب زبانی کی طاقت ہو، علم کی طاقت ہو، وہ اسے علم پر ابھارتی ہیں، اور ظلم کی راہ اس کے لیے ہموار کرتی ہیں۔ اور جب وہ ظلم و زیادتی اور سرکشی پر اتر آتا ہے تو پھر وہ مظلوم کی بددعا کو نظر انداز کر دیتا ہے بلکہ اس کا مذاق اڑاتا ہے، جبکہ مظلوم کی بددعا کو اللہ تعالی کے ہاں ایسی اہمیت اور پذیرائی حاصل ہوتی ہے کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللهُ فَوْقَ الْغَمَامِ، وَ تُفْتَحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ))
’’مظلوم کی بددعا کو اللہ تعالی بادلوں کے اوپر اٹھاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔‘‘
((وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: وَعِزَّتِي وَجَلَالِي ، لَاَ نْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِيْن))(ترمذي:3598)
’’اور رب عز و جل کہتا ہے میری عزت و جلال کی قسم ! اگر چہ ایک وقت کے بعد ہی ہو تیری ضرور مدد کروں گا۔‘‘
حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے آپ ﷺنے وصیت فرمائی ((وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ))(بخاري:1496)
’’ مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے ۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی سرکش انسان جب قوت و طاقت کے عروج پر پہنچ جاتا ہے تو پھر وہ اپنے زوال کا تصور بھی نہیں کرتا ، وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی کمزور شخص اس کا کچھ بگاڑ سکے گا، اور ہر طاقت ور شخص کچھ ایسا ہی سوچتا ہے، مگر تاریخ نے عبرت کے لیے ایسے سرکشوں کا انجام ہمارے لیے محفوظ کر رکھا ہے۔ کسی بھی ظالم کا نام لیجیے، ایک ایک کا جو حشر ہوا وہ تاریخ میں موجود ہے، فرعون ہو، قارون ہو، ہامان ہو ، نمرود ہو، ابو جہل ہو، کوئی بھی ہو۔ ایک ایک کا انجام بد دنیا نے دیکھا ہے اور تاریخ نے بعد والوں کے لیے اسے محفوظ کر رکھا ہے۔
مال و دولت اور حکومت واقتدار کے نشے میں لوگوں پر ظلم کرنے والوں کی فہرست تو بہت طویل ہے، سب کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا، عبرت کے لیے اور اپنی اصلاح کے لیے ایک واقعہ سنتے ہیں:
بَرَامکہ یا برمکی خاندان کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا، یہ لوگ اصل میں ایرانی النسل تھے، عباسی خلفاء کے ادوار میں اقتدار کے اعلی مناصب پر آہستہ آہستہ فائز ہوتے گئے، حکومت میں اور عوام میں ان کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا اور جڑیں مضبوط ہوگئیں۔ اور خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں تو یہ لوگ حکومت پر ایسے قابض ہو چکے تھے کہ خود ہارون رشید اپنے آپ کو ان کے سامنے بے بس محسوس کرنے لگے۔
خلیفہ ہارون الرشید کی حکومت تو بس صرف نام کی رہ گئی تھی، تختہ الٹنے کی تیاریاں مکمل تھیں کہ خلیفہ ہارون رشید نے ان کے ارادے بھانپ لیے کہ ان پر پوری طرح نظر رکھی ہوئی تھی۔ پھر ایک دن اچانک ان کی گرفت کی اور سب کا قلع قمع کر دیا۔ ان میں سے ایک جگہ باپ بیٹا ایک ہی قید میں تھے۔
بیٹا باپ سے کہنے لگا:
(يَا آبَاهُ! بَعْدَ الْعِزَّ وَالْمُلْكِ صِرْنَا فِي الْقَيْدِ وَالْحَبْسِ ..)
’’اے ابا جان! اس عزت و افتخار اور حکومت واقتدار کے بعد آج ہم قید و بند کی صعوبتیں اٹھا رہے ہیں ۔‘‘
فَقَالَ: يَا بُنَىَّ دَعْوَةُ مَظْلُومٍ سَرَتْ بِلَيْلٍ غَفَلْنَا عَنْهَا وَلَمْ يَغْفَلِ اللهُ عَنْهَا))
’’تو باپ نے کہا: بیٹا کسی مظلوم کی بد دعا ہو گی جو رات کی تاریکی میں چلی جسے ہم نے تو نظر انداز کر دیا، مگر اللہ تعالی نے اسے نظر انداز نہ کیا ۔‘‘
تو جب انسان بے پروا اور بے نیازی دکھاتا ہے، تو پھر کسی مظلوم کی بد دعا کی پرواہ کرتا ہے اور نہ کسی ظلم کو ظلم سمجھتا ہے، بلکہ اسے اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔
تو مال و دولت اور حکومت واقتدار حموما لوگوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے ان کی ہلاکت کا باعث ہوتا ہے الا یہ کہ کسی دل میں آخرت کا ڈر ہو تو اس کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے، ور نہ سراسر نقصان کا خطرہ ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے آپ ﷺنے فرمایا:
((فَوَاللهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِني أخشى أن تبسط عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَتَنَافَسُوهَاكمَا تَنَافَسُوهَا، وَتُهْلِكُكُمْ كَمَا أَهْلَكْتُهُمْ)) (بخاري:3158)
’’اللہ کی قسم ! مجھے تمھارے فقر و فاقے کا ڈر نہیں ہے، مجھے ڈر ہے کہ دنیا تم پر اس طرح کشادہ کر دی جائے گی جس طرح تم سے پہلوں پر کشادہ کی گئی تھی، پھر تم اس کے حصول میں آپس میں اس طرح منافست کرنے لگو گے جس طرح انہوں نے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ٹھان لی ، اور وہ تمہیں بلاک کر دے گی جس طرح ان کو ہلاک کیا۔‘‘
اور قرآن پاک میں ہے:
﴿وَلَوْ بَسْطَ اللهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ﴾ (الشورى:27)
’’اور اگر اللہ تعالی اپنے بندوں کو کھلا رزق دے دیتا تو زمین میں سرکشی کرنے لگتے ۔‘‘
﴿وَلٰكِن يُّنزِّلُ بِقَدَرٍ مَا يَشَاءُ﴾
’’مگر وہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔‘‘
﴿إنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ) (الشورى:27)
’’یقینًا وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور ان پر نگاہ رکھتا ہے۔‘‘
ظلم سے بچنے کے لیے ایک بات ضرور مد نظر رکھیں کہ ظلم کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اسے کبھی مت جانیں اور اگر نفس امارہ کسی پر علم کے لیے ابھارے تو اپنے اوپر اللہ تعالی کے قدرت و اختیار کو سامنے لے آئیں ، جیسا کہ حضرت ابو مسعود البدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔
((كُنْتُ أَضْرِبُ غُلَامًا لِي بِالسَّوْطِ، فَسَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ خَلْفِي اِعْلَمْ أَبَا مَسْعُودًا فَلَمْ أَفْهَمِ الصَّوتَ مِنَ الغَضَب . قالَ: فَلَمَّا دَنَا مِنِّى ، إِذَا هُوَ رَسُولُ اللهِ ، فَإِذَا هُوَ يَقُولُ: اِعْلَمْ أَبَا مَسْعُوْدٍ! إعْلَمُ أَبا مَسْعُودٍ! قَالَ: فَالْقَيْتُ السَّوْطَ مِنْ يَدِى، فَقَالَ: اِعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ أَنَّ اللهَ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَى هٰذَا الغُلَامِ ، قَالَ: فَقُلْتُ لَا أَضْرِبُ مَمْلُوْكًا بَعْدَهُ اَبَداً)) .(صحیح مسلم: 1659)
’’میں اپنے غلام کو چابک مار رہا تھا، میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی، اے ابو مسعود! جان لو! میں غصہ کی وجہ سے آواز نہ پہچان سکا جب دو میرے قریب پہنچے تو وہ رسول اللہ ﷺتھے اور آپ کہہ رہے تھے! ابو مسعود جان لو! ابو مسعود جان لو! کہتے ہیں: میں نے اپنے ہاتھ سے کوڑا پھینک دیا پھر آپ نے فرمایا ابو مسعود جان لو!یقینًا اللہ تعالی تم پر اُس سے زیادہ اختیار رکھتا ہے جتنا تم اس غلام پر اختیار رکھتے ہو۔ کہتے ہیں: میں نے کہا: اس کے بعد میں کبھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا۔‘‘
معاملہ صرف مار کا نہیں، بلکہ کسی قسم کا ظلم کرنا جائز نہیں ہے جیسے گزشتہ جمعے ہم نے حدیث سنی تھی ۔ بظاہر کتنی معمولی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ لوگ عموما اپنے غلام ، خادم اور ملازم کو ڈانٹنا اور مارنا اپنا حق سمجھتے ہیں جبکہ آپ سے کلام کے سرزنش کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت ہی سنگین اور سنجیدہ معاملہ ہے۔ اور ایک حدیث میں ظلم کی ایک شکل یہ بیان فرمائی
((لَىُّ الْوَاجِدِ يُحِلُّ عِرْضَهُ وَ عُقُوبَتَهُ))
’’غنی آدمی کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت اور اس کی سزا کو حلال کر دیتا ہے۔‘‘
((قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ يُحِلُّ عِرْضَهُ يُغَلِّظُ لَهُ، وَعُقُوبَتَهُ يُحْبَس لَهُ))(ابو داؤد، رقم:3628)
’’ابن مبارک بات کہتے ہیں: عزت کے حلال ہونے سے مراد اسے برا بھلا کہنا ہے۔ اور اس کی سزا حلال ہونے سے مراد اسے قید کرنا ہے۔‘‘
اس ضمن میں ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں:
((اِلَّا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، أَوِ انْتَقَصَهُ، أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِه، أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيْبِ نَفْسٍ ، فَاَنَا حَجِيْجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)).(ابوداؤد:3052)
’’سنو! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی کوئی چینے بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دنمیں اس کی طرف سے مباحثہ کروں گا ۔‘‘
ظلم کی سنگینی تو ہم نے جانی اور اس کی چند شکلیں بھی معلوم کیں۔ مگر اس کا ایک پہلو یہ بھی ملاحظہ کیجیے اور اندازہ کیجیے کہ یہ معاملہ کتنا سنگین ہے۔
اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ۙ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۝۱۱۳﴾ (هود:113)
’’اور ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکتا، ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے، اور تمہیں کوئی ایسا ولی اور سر پرست نہ ملے گا جو اللہ سے تمہیں بچا سکے، اور کہیں سے تم کو مدد نہ پانچ سکے گی۔‘‘
یعنی ظالموں کے ساتھ دوستی ، ان کی طرف جھکاؤ اور میلان یعنی ان کے ساتھ مل کر ظلم نہیں کر رہے بلکہ صرف ان کی طرف جھکاؤ ہونے کی وجہ سے جہنم کے مستحق بن جاؤ گے۔ گویا کہ ظالموں کے ساتھ دوستی اور جھکاؤ اور میلان اور جان رکھنا بھی ان کی مدد کرنا ہے اور وہ بھی ظلم ہی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جب جیل میں تھے تو جیلر (جیل کا انچارج ) نے آکر پوچھا
((فَأَنَا مِنْ أَعْوَانِ الظُّلَمَةِ؟))
’’کیا میں ظالموں کے مددگاروں میں سے ہوں ۔‘‘
((قَالَ فَأَعوانُ الظُّلَمَةِ مَنْ يَأْخُذْ شَعْرَكَ وَيَغْسِلُ ثَوْبَكَ وَيُصْلِحُ طَعَامَكَ وَيَبِيْعُ وَيَشْتَرِي مِنْك ، فَأَمَّا أَنْتَ فَمِنْ أَنْفُسِهِمْ))
’’ کہا ظالموں کا مددگار تو وہ ہے جو تمہارے بال بنائے، تمہارے کپڑے دھوئے، تمہارا کھانا پکائے، تجھ سے خرید و فروخت کرے تم تو خود ظالموں میں سے ہو۔‘‘
اسی طرح ظلم کی بہت ہی بار یک شکلیں ہیں، جس کا آدمی کو انداز ہ بھی نہیں ہوتا، اور جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ((إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا يَهْوِي بِهَا فِي النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا)) (مناقب الامام احمد لابن الجوزي، ص:431)
’’آدمی کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس میں دو خود کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جائے گا۔‘‘
اس لیے یہ ایک کوشش ہے کہ ہم ظلم سے بچ سکیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر فوری طور پر گرفت نہیں ہو رہی تو اس سے دھوکہ نہ کھائیں۔
﴿وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ۝۴۲﴾ (ابراهيم:42)
’’یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں تم اللہ کو اس سے غافل نہ سمجھو اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے، ڈھیل دے رہا ہے اس دن کے لیے جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِیْنَۙ۝۵۵ نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیْرٰتِ ؕ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۝۵۶﴾ (المومنون:55-56)
’’کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں تو گویا انہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں ، اصل معاملے کا انہیں شعور نہیں ہے۔ تا ہم ظلم کی بہت سی صورتیں ہیں جو ہمارے معاشرے میں کوئی گناہ نہیں کبھی جاتیں جن پر پھر کبھی گفتگو ہوگی۔ ان شاء اللہ ۔‘‘
……………….