انسانی معاشرے کی طبقاتی تقسیم
﴿ كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤیۙاَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰیؕاِنَّ اِلٰی رَبِّكَ الرُّجْعٰیؕ۸﴾ (العلق: 6۔8)
’’ہرگز نہیں ! بے شک انسان حد سے بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے کہ وہ غنی ہو گیا ہے بے شک تیرے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘
اس دنیا میں، انسانی معاشرے میں یوں تو بہت سے طبقات پائے جاتے ہیں اور ہر طبقہ اپنے آپ کو دوسرے طبقے سے بہتر و برتر سمجھتا ہے اور ہر طبقہ اپنی اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور یوں طبقاتی کشمکش پیدا ہو جاتی ہے۔
طبقاتی برتری ثابت کرنا اگر تو کار کردگی کی بنیاد پر ہو یعنی کسی خوبی کسی خصوصیت اور کسی امتیازی صلاحیت کی بنیاد پر ہوتو چنداں مضائقہ نہیں، بلکہ ایک خوش آئند بات ہوگی ، کہ لوگوں میں پنہاں صلاحیتیں ظاہر ہوں گی اور خوبیاں نکھر کر سامنے آئیں گی کہ جس سے پورا معاشرہ مستفید ہوگا۔ مگر مشاہدہ یہ ہے کہ طبقاتی برتری کے اظہار کی بنیاد کوئی خصوصیت اور امتیازی وصف نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیاد عصبیت پر ہوتی ہے اور اس کی بہت سی شکلیں اور صورتیں ہیں کہیں لسانی تعصب کارفرما ہوتا ہے، کہیں قومی ، کہیں علاقائی، کہیں مذہبی اور کہیں کوئی اور ۔
اور برتری کے اظہار کی یہ بنیادیں معاشرے کے لیے یقیناً زہر قاتل ہوتی ہیں، اس کی تباہی و بربادی کا سبب ہوتی ہیں اور آپس میں عداوت ، بغض، حسد اور نفرت کا باعث بنتی ہیں۔ طبقاتی کشمکش کس طرح معاشرے کو تباہ و برباد کرتی ہے اور اسے ختم کرنے کا طریقہ کیا ہے، یہ ایک دوسری بحث اور موضوع ہے۔ مگر اس وقت ہم جس موضوع پر بات کرنا چاہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ شریعت کی روشنی میں انسانی معاشرہ کتنے طبقات میں منقسم ہے۔
اسلام کی روشنی میں، آخرت کے لحاظ سے انسانی معاشرہ چار طبقات پر مشتمل ہے۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ ))
’’یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے۔‘‘
یعنی اس دنیا میں چار قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
))عَبْدِ رَزَقَهُ اللهُ مَالاً وَعِلْمًا))
’’ایک وہ شخص ہے کہ جسے اللہ تعالی نے مال بھی دیا ہے اور علم سے بھی نواز رکھا ہے۔‘‘
((فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَ يَصِلُ فِيْهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا))
’’وہ اس میں تقوی کی راہ اختیار کرتا ہے، اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے،اور اس میں اللہ تعالی کے حق کا بھی لحاظ کرتا ہے۔‘‘
((فَهٰذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ))
’’ایسا شخص سب سے بلند مرتبہ ہے۔‘‘
((وَ عَبْدِ رَزَقَهُ اللهُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقُهُ مَالاً))
’’ اور ایک دوسرا شخص ہے، جسے اللہ تعالی نے علم تو دیا ہے مگر مال نہیں دیا۔‘‘
((فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَا لَا لَعَمِلْتُ بِعَمَلٍ فَلَانَ))
’’ مگر وہ سچی نیت رکھتا ہے وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی اُس جیسے عمل ہی کرتا ۔‘‘
یعنی صلہ رحمی کرتا اور دیگر غرباء و مساکین اور ضرورت مندوں اور حاجت مندوں پر خرچ کرتا۔
تو آپ ﷺنے فرمایا:
((فَهُوَ بِنِيَّتِهِ، فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ))
’’پس وہ اور اس کی نیت یعنی جیسی اس کی نیت ہے ویسا اس کو اجر ملے گا۔‘‘
اور پھر وضاحت فرمائی ، فرمایا:
((فَأَجْرُ هُمَا سَوَاءٌ))
’’وہ دونوں اجر میں برابر ہیں۔‘‘
یعنی وہ مالدار جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور وہ غریب جو اس طرح اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا پختہ عزم رکھتا ہے۔
((وَعَبْدِ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالاً وَلَمْ يَرْزُقَهُ عِلْمًا))
’’اور ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی نے مال تو دیا ہے مگر علم نہیں دیا۔‘‘
((فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ))
’’وہ اپنا مال الاعلمی سے بے تکا خرچ کرتا ہے ۔‘‘
یعنی جائز اور نا جائز، صحیح اور غلط اور حلال اور حرام کی پہچان اور معرفت رکھتا ہے اور نہ پرواہ کرتا ہے۔
((لَا يَتَّقِى فِيهِ رَبَّهُ وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَلَا يَعْلَمُ لِلهِ فِيْهِ حَقًّا))
’’وہ اس مال کے خرچ کرنے میں اللہ تعالی سے نہیں ڈرتا، اور نہ اس سے صلہ رمی کرتا ہے اور نہ اس میں اللہ تعالی کا کوئی حق سمجھتا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالی کی راہ میں اور غریب رشتہ داروں پر خرچ نہیں کرتا۔
((فَهٰذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ))
’’ فرمایا: پس ایسا شخص بدترین درجے کا ہے۔‘‘
((وَعَبْدٌ لَمْ يَرْزُقُهُ اللهُ مَالاً وَلَا عِلْمًا))
’’ اور ایک وہ شخص ہے جسے اللہ تعالی نے مال دیا ہے اور نہ علم ‘‘
((فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلٍ فُلان))
’’تو وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس بھی اُس کی طرح مال ہوتا تو میں بھی اُس کی طرح مال خرچ کرتا ، عیش و نشاط میں مگن ہوتا اور زندگی کے مزے اڑاتا ۔‘‘
فرمایا:
((فَهُوَ بِنیتِه))
’’پس وہ اور اس کی نیت ‘‘
یعنی جس طرح کی اس کی نیت ہے اسی طرح کا اس کو اجر ملے گا، اور پھر فرمایا:
((فَوِزْرَهُمَا سَوَاءٌ)) (سنن ترمذی ، کتاب الزهد:2325)
’’پس وہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔‘‘
اس حدیث میں لوگوں کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے کوئی بھی شخص ان چار طبقات میں سے ہرگز ہرگز باہر نہیں ہے، کسی نہ کسی ایک میں ضرور اس کا شمار ہوتا ہے۔ یہ چار طبقے بھی اصل میں اور اساسی اور بنیادی طور پر دو ہی بنتے ہیں اور باقی دو ان کے تابع ہیں۔ ایک بنیادی طبقہ سب سے بلند مرتبہ ہے اور دوسرا بنیادی طبقہ بدترین مرتبے والا ہے۔
ان طبقات میں سے سب سے بلند اور بہتر کون سا طبقہ ہے؟
((رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ عِلْمًا وَمَالاً))
’’سب سے بلند مرتبہ وہ طبقہ ہے جسے اللہ تعالی نے علم اور مال سے نوازا ہے۔‘‘
اور یہ طبقہ سب سے بلند مرتبہ کیوں ہے؟ علم کی وجہ سے۔ اسی طرح سب سے بدترین اور برے مرتبے والا طبقہ کون سا ہے؟
((رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالاً وَلَمْ يُؤْتِهِ عِلْمًا))
’’وہ جسے اللہ تعالی نے مال تو دیا ہے مگر علم نہیں دیا۔‘‘
اور یہ طبقہ سب سے برے مرتبے والا کیوں ہے؟ جہالت کی وجہ سے علم نہ ہونے کیا ہے۔
تو گویا کہ مال کا ہونا، نہ ہونا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ علم کا ہونا یا نہ ہونا ہے۔ کہ علم کی وجہ سے بلند مرتبہ ہوتا ہے اور علم نہ ہونے کی وجہ سے بدترین درجہ والا بن جاتا ہے۔ یہاں علم سے مراد دنیا کا علم نہیں، بلکہ دین کا علم ہے، کہ جس سے حلال اور حرام کی تمیز ہوتی ہے۔ تو اس حدیث میں علم کو سراہا گیا ہے، مال کو نہیں، مالدار اور دولت مند شخص صرف اسی صورت میں قابل تعریف اور لائق مدح و ستائش ٹھہرتا ہے جب اس کے ساتھ علم کا اضافہ ہو۔
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مالدار کا عالم ہونا بھی ضروری ہے۔ ہاں اگر دولتمند شخص عالم بھی ہو تو بہت اچھا ہے، لیکن اگر خود عالم نہ ہو تو علماء کے ساتھ اس کا تعلق اور رابطہ ضروری ہے، تا کہ مال و دولت کے صحیح استعمال کے حوالے سے دو ان سے علم حاصل کر سکے، کیونکہ علم کے بغیر مال کا صیح استعمال نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی شخص اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کہ اس کے پاس مال و دولت کے صحیح استعمال کے بارے میں بہت علم ہے تو یہ اور بات ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ علم اور معلومات میں بہت فرق ہے۔ علم کسی مخصوص موضوع پر بحث و تحقیق کے بعد حاصل ہونے والی معلومات ہوتی ہیں، جو باہم مربوط اور مرتب ہوں اور جن کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہو۔
جبکہ معلومات سطحی، سرسری، غیر مربوط، غیر مرتب ، سنی سنائی اور تجربات و مشاہدات سے حاصل ہونے والی معلومات ہوتی ہیں۔ اس لیے ٹھوس اور باقاعدہ علم کے بعد کسی چیز پر کوئی حکم لگانا ہی علم ہوگا۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ تنہا مال کو کبھی بھی نہیں سراہا گیا۔ مال اور مالدار صرف اسی صورت میں قابل ستائش ہوتے ہیں جب قرآن و حدیث کے بتلائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں مال حاصل کیا جائے اور انھی کے مطابق خرچ کیا جائے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثنتين))
’’حسد صرف دو چیزوں میں ہی کیا جاسکتا ہے ۔‘‘
یہاں حسد بمعنی رشک ہے، ورنہ حد تو کسی صورت میں جائز نہیں اور حسد اور رشک میں کہ جسے عربی میں ’’غبطة‘‘ کہا جاتا ہے، فرق یہ ہے کہ حسد یہ ہوتا ہے کہ آدمی کسی شخص کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر دل میں یہ خواہش کرے کہ وہ نعمت اس سے چھن جائے اور اسے (یعنی حسد کرنے والے کو مل جائے۔ جبکہ رشک یہ ہے کہ وہ اس جیسی نعمت کی خواہش کرے، کہ جیسے فلاں کو ملی ہے ایسے اس کو بھی مل جائے۔
اور یہ رشک بھی صرف دو چیزوں میں جائز ہے۔
((رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالاً فَسَلْطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ))
’’اور ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی نے مال عطا کیا ہو اور وہ اسے حق کی راہ میں اور حق کے مطابق خرچ کرتا ہو۔‘‘
((رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا))
(صحيح البخاری ، کتاب العلم:73)
’’ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی نے حکمت و دانائی دے رکھی ہو تو وہ اس کے مطابق معاملات طے کرتا ہو اور وہ لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔‘‘
ایک حدیث میں حکمت کی جگہ قرآن اور ایک حدیث میں علم کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد علم ہے۔ یعنی علم والے کے ساتھ رشک کیا جاسکتا ہے، مگر ایسے علم والے کے ساتھ جو قرآن و حدیث کے اس علم کے مطابق زندگی گزارتا ہو، اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو۔
تو علم دین کی روشنی میں خرچ کیا جانے والا مال ہی قابل رشک ہوتا ہے کہ علم کے بغیر آدمی صحیح اور غلط میں تمیز نہیں کر سکتا۔
علم کے بغیر جب آدمی کوئی کام کرتا ہے اور اپنے لیے کوئی چیز منتخب کرتا ہے یا علم کی بات سن کر اس سے مستفید نہیں ہوتا تو اُس کی مثال ایسے ہی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔
وہ حدیث اگر چہ سند کے اعتبار سے تو اپنی صحیح نہیں ہے مگر مثال کے لیے بیان کی جاتی ہے۔
((مَثَلُ الَّذِي يَجْلِسُ يَسْمَعُ الْحِكْمَةَ ثُمَّ لَا يُحَدِّثُ عَنْ صَاحِبِهِ إِلَّا بِشَرِّ مَا يَسْمَعُ ))
’’اس شخص کی مثال جو بیٹھ کر علم و حکمت کی بات تو سنتا ہے مگر اپنے ساتھی کی اس بات میں جو سب سے برا پہلو ہوتا ہے اس کو لیتا ہے۔‘‘
((كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى رَاعِيًا))
’’اُس کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جو کسی بکریوں کے چرواہے کے پاس آیا۔‘‘
((فَقَالَ: يَا رَاعِي أَجْزِرْنِي شَاةً مِنْ غَنَمِكَ))
’’اور کہا اے چرواہے! مجھے اپنی بکریوں میں سے ایک بکری ذبح کرنے کے لیے دے دو‘‘
((قَالَ: إِذْهَبْ فَخُذْ بِأَذْنَ خَيْرِهَا))
’’تو اس نے کہا: جاؤ ، اور ان بکریوں میں سے جو سب سے اچھی ہو اسے کان سے پکڑ کر لے جاؤ۔‘‘
((فَذَهَبَ فَأَخَذَ بِأذْنَ كَلْبِ الْغَنَمِ )) (ابن ماجة ، كتاب الزهد:73)
’’وہ گیا اور بھیڑوں کی رکھوالی کرنے والے کتے کو کان سے پکڑ کر لے آیا۔‘‘
تو جس طرح اس مثال میں کتے اور بکری میں فرق و امتیاز کرنے کی صلاحیت اور علم سے محروم شخص کا انجام یہ ہوا کہ نا جسے وہ اپنے تئیں بکری سمجھ رہا تھا وہ حقیقت میں کیا نکلا، کچھ اسی طرح اس شخص کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے جو شرعی علم کے بغیر مال خرچ کرتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شرعی علم کے مقابلے میں اپنی عقل اور اپنے تجربات و مشاہدات کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے آپ پر انحصار کر کے فیصلے کرنا پسند کرتا ہے ، جب کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے تمام معاملات شرعی حکم کے مطابق طے کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں اللہ تعالی کے سپرد کر دیں ، چنانچہ ہمیں سکھایا گیا ہے کہ ہم یوں اللہ تعالی کے حضور ملتجی ہوں کہ: ((اللهم م رحمتك أرجو ، فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ وأصلح لِي شَأْنِي كُلَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ))
’’اے اللہ میں تیری رحمت کی امید رکھتا ہوں، پس تو آنکھ جھپکنے کے برابر بھی مجھے میرے اپنے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے لیے میرے سب کام سنوار دے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ دنیا کے ان چارقسم کے لوگوں میں جنہیں اللہ تعالی کے ہاں مقام و مرتبے سے نوازا گیا وہ وہ ہیں جن کے پاس دین کا علم ہے۔ اور دوسرے دو کہ جنہیں بدترین مرتبے والے قرار دیا وہ وہ ہیں جو جہالت کی وجہ سے دنیا کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ دولت کمانا اور دولت خرچ کرنا اگر شریعت کے علم کے مطابق نہیں ہے تو پھر جان لیجئے کہ ایسے لوگ اللہ تعالی کے ہاں اس دنیا میں بھی نا پسندیدہ ہیں اور آخرت میں بھی۔ اور جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ مالدار ہونے کے لیے عالم ہونا شرط نہیں، مگر علماء سے رہنمائی لینا ضروری ہے۔
اپنے علم پر بھروسہ نہ کریں، کیونکہ بسا اوقات جو کسی کو کچھ ٹوٹی پھوٹی معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ ان کی روشنی ہوتی ہیں وہ ان کی روشنی میں خود ہی فیصلہ کر لیتا ہے کہ یہ میچ ہے اور وہ غلط ہے، حالانکہ اس میں تو ایسی باریکیاں ہیں کہ بسا اوقات علماء کرام کو بھی بہت بحث و تحقیق سے گزرنا پڑتا ہے۔ تو علماء کرام سے رابطہ رکھنا اور ان کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے کہ وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح بات بتا سکیں ورنہ دنیا اپنی طرف کھینچ لیتی ہے کہ وہ بڑی ہی پرکشش ہے۔
قارون کا نام تو آپ نے سنا ہی ہو گا، موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا ایک شخص تھا، دولت نے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا، دولت کے حساب سے وہ آج کے دولت مندوں سے بڑھ کر تھا، اس کی دولت کا انداز و قرآن پاک نے یوں بیان کیا ہے کہ اس کے خزانوں کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔
﴿فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهِ فِيْ زِيْنَتِهِ﴾ (القصص:79)
’’ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے پورے ٹھاٹھ میں نکلا ۔‘‘
﴿قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ۷۹﴾ (القصص:79)
’’جو لوگ حیات دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہتے تھے کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ تو بڑا ہی نصیبے والا ہے یعنی اس کی دولت اور ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر لوگوں کی رالیں ٹپکنے لگیں ۔‘‘
﴿وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ۚ وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ﴾ (القصص:80)
’’مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے افسوس تمہارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو ۔‘‘
تو معنی یہ ہوا کہ علماء کرام ہی قرآن وحدیث کے علم کی روشنی میں صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں، لہٰذا اگر خود عالم نہیں تو علماء کرام کے ساتھ اک تعلق ضرور رہنا چاہیے۔
علماء کرام کے ساتھ تعلق رکھنا کتنا بڑا شرف اور اعزاز ہے اس کی قدر بھی علماء کرام ہی جانتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں، ان کے والد اسماعیل رحمہ اللہ مالدار شخص تھے، اور ایسے مالدار کہ دس لاکھ درہم چھوڑ کر گئے اور بیٹے کو بلا کر کہا کہ ان میں کوئی ایک درہم بھی مشکوک نہیں ہے۔
غور فرمائیے کتنی بڑی بات ہے کہ یہ نہیں کہا کہ حرام نہیں ہے بلکہ فرمایا مشکوک بھی نہیں ہے اور وہ بھی ایسے کہ ایک درہم بھی مشکوک نہیں ہے مگر اس سب کے باوجود امام بخاری ہاللہ اپنے والد کا تذکرہ مال و دولت کے حوالے سے نہیں بلکہ علماء کرام کے ساتھ تعلق کے حوالے سے کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ((سَمِعَ أَبِي مِنْ مَالك بن أنس ، ورأى حماد بن زيد ، وَصَافح بن الْمُبَارَكِ .)) (سیر اعلام النبلاء ، ج:12 ، ص:392، تاريخ الاسلام للذهبی ، ج: 19 ، ص:239)
’’میرے والد نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے سنا ، حماد بن زید کو دیکھا اور ابن المبارک سے مصافحہ کیا ۔‘‘
یعنی جس بات کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے والد کی میراث اور اپنے لیے شرف اور اعزاز کی بات سمجھا وہ انھیں علماء کرام رحمہ اللہ سے شرف ملاقات حاصل ہونا قرار دیا ۔
لہٰذا علم کے ساتھ تعلق پڑھنے پڑھانے کے حوالے سے اگر نہ بھی ہو تو کم از کم علماء کرام سے تعلق کی حد تک ضرور ہونا چاہیے ، کہ ان کا ادب و احترام ، ان کی قدر و منزلت کا اعتراف آدمی کی دین کے ساتھ نسبت و تعلق کی علامت ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
…………………..