اذیت مسلم جرم عظیم ہے
﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠۵۸﴾ (الاحزاب:58)
اسلام دین فطرت ہے دین اخلاق اور دین امن و سلامتی ہے، لہذا اسلام میں لوگوں کے درمیان امن و امان، اخوت و محبت اور بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے ان کی فطری ضرورتوں، خامیوں، کوتاہیوں اور قوتوں اور صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اصول و قواعد اور قوانین و ضوابط وضع کئے گئے ہیں، ان کے سینوں میں چھپے نہایت باریک اور لطیف احساسات و جذبات اور خواہشات کا بھی لحاظ کیا گیا ہے۔
انسانی معاشرے کو حقیقی امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ایسے قوانین وہی بنا سکتا ہے جو انسان کی فطری اور پنہاں خوبیوں، خامیوں، کوتاہیوں، ارادوں اور خواہشات سے واقف ہو۔ اور انسان میں فطری اور پوشیدہ خواہشات اور جذبات و احساسات کو اللہ تعالی کے سوا بھلا کون جان سکتا ہے، کہ وہی خالق کا ئنات ہے، وہی خالق انسان ہے اور وہی خالق فطرت انسان ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کی فطرت کے عین مطابق ، دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے اسے ایک نظام دیا جو کہ دین اسلام کے نام سے موسوم ہے۔
اسلام میں انسان کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے اس کی پانچ بنیادی ضرورتوں کا ذکر قرآن وحدیث میں سرفہرست ہے جو کہ ضروریات خمسہ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
اور وہ ہیں: دین، نفس، عقل، نسل اور مال کی حفاظت کی ضرورت۔ اور ان ضروریات کی حفاظت سے مقصود یہ ہے کہ مسلمان اس دنیا میں امن و امان کی زندگی گزارے اور اپنی دنیا اور آخرت کے لیے کام کرے اور مسلم معاشرہ امت واحدۃ اور جسد واحد کی طرح بن کر رہے کہ: ((إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالشَّهْرِ وَالْحُمّٰى)) (صحيح مسلم ، كتاب البر والصلة والآداب:2586)
’’ کہ جسم کے کسی ایک حصے میں درد اور تکلیف ہو تو پورا جسم تڑپ اٹھتا ہے، جسم کے کسی ایک حصے میں شکایت ہو تو پورا جسم بخار اور بے خوابی کے ساتھ اس کی طرف لپکتا ہے اور اس کی آواز پر لبیک کہتا ہے۔‘‘
تو ضروریات خمسہ کی حفاظت یقینًا انسان کی سب سے بنیادی ضرورتوں کی حفاظت ہے کہ جو اسلام مہیا کرتا ہے، مگر وہ صرف انھی پر بس نہیں کرتا بلکہ انسان کو ہر قسم کے ضرر، نقصان ، تکلیف اور اذیت سے بچانے کے لیے ہدایات جاری کرتا اور قواعد وضوابط مقرر کرتا ہے۔ مثلا ضرر اور اذیت کے حوالے سے اسلام کا مقرر کردہ ایک نہایت ہی عظیم قاعدہ اور ضابطہ ملاحظہ فرمائیے ، حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((لا ضرر ولا ضرار)) غیر ارادی ضرر پہنچانا ہے اور نہ ارادی طور پر ضرر پہنچانا ہے۔ (سنن ابن ماجه: 2340)
ملاحظہ کیا آپ نے! کہ ضرر اور اذیت کے حوالے سے اسلام نے کسی قدر جامع اور عظیم قاعدہ اور ضابطہ دیا ہے کہ کسی کو ارادی طور پر نقصان پہنچانا تو دور کی بات ، نیر ارادی طور پر بھی نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ، مثال کے طور پر کوئی شخص اپنے گھر میں درخت لگاتا ہے اور اس کو خوب پانی دیتا ہے اس ارادے سے کہ اس سے پڑوی کی عمارت کو نقصان پہنچے، یه ارادی طور پر نقصان پہنچانا ہے ، دوسرا شخص وہ ہے کہ جس کے گھر میں پہلے سے درخت لگا ہوا تھا، یا جب اس نے لگایا تھا تو اس کو معلوم نہ تھا کہ اس سے پڑوسی کو نقصان پہنچے گا ، یہ غیر ارادی نقصان ہے مگر پتا لگ جانے کے بعد پڑوسی کو جو نقصان پہنچ رہا ہے یہ کہتے ہوئے جاری نہیں رکھ سکتا کہ نیست نقصان پہنچانے کی نہیں تھی۔ ایسے ہی ((لا ضرر ولا ضرار)) کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ نہ اپنی جان کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا جائز ہے ، جیسے: خود کشی نہیں کر سکتے اور اپنے آپ کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے جیسے قرآن پاک میں ایک جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ:
﴿ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَی التَّهْلُكَةِ ۛۖۚ﴾(البقرة:195)
’’اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
اور اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانا ، دین، ایمان، جان، مال، عزت اور ہر چیز کو شامل ہے کہ کسی لحاظ سے اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچانا اور ہلاکت میں نہیں ڈالنا۔ یہ جو لوگ عموماً ایک جملہ کہتے ہیں جب انھیں کسی بات کی نصیحت کی جاتی ہے یا کسی نقصان دہ کام کو چھوڑ دینے کا کہا جاتا ہے کہ جس سے ان کی ذات کو نقصان ہو رہا ہو تو کہتےہیں کہ وہ آزاد ہیں ان کی مرضی ہے جو چاہیں کریں، کسی کا اس سے کیا تعلق؟ تو یہ بات صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ انسان ہرگز آزاد نہیں ہے نہ اسے یہ زیب دیتا ہے
اور نہ ہی اسے یہ سوٹ کرتا ہے۔ بلکہ انسان عبد اور غلام ہے، وہ اپنی تمام حیثیتوں کے لحاظ سے غلام ہے اور غلامی ہی میں اس کا شرف اور کمال ہے، ہاں ایک محدود معنوں میں آزادی ہو سکتی ہے کہ غلامی کے اندر اسے کچھ چیزوں کی آزادی دی گئی ہو، ورنہ مطلق آزادی اس دنیا میں ممکن ہی نہیں ہے، لہذا آزادی کا دعوی ایک بے معنی اور فضول سا دعوی ہے اور مضحکہ خیز بات ہے۔ غلامی دوقسم کی ہے، ایک غلامی مطلوب اور محمود ہے، قابل ستائش اور قابل فخر ہے اور دوسری ممنوع اور مذموم ہے، قابل سرزنش اور باعث شرمندگی ہے۔ یعنی ایک اچھی غلامی اور ایک بری غلامی ہے، اچھی غلامی اللہ کی غلامی ہے اور بری غلامی خواہشات کی غلامی ہے۔ آدمی کی تیسری کوئی حالت نہیں ہے، قرآن کہتا ہے:
﴿فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ ؕ﴾(القصص:50)
’’اے پیغمبرﷺ! اگر یہ لوگ آپ کی بات نہیں مانتے، آپ کی آواز پر لبیک نہیں کہتے تو جان لیجئے کہ یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔‘‘
لہٰذا آزادی کا دعوی ایک بے معنی بات ہے ، انسان کے پاس اس کی ملکیت میں اُس کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے، اپنی جان، اپنی صحت، اپنی سانسیں، اپنا مرنا اور جینا، کچھ بھی تو اپنا نہیں ہے اور نہ اسے کسی چیز پر مکمل کنٹرول اور اختیار دیا گیا ہے، پھر کس چیز پر اتراتا ہے اور کسی قسم
کی آزادی اور کسی قسم کی مرضی کے دعوے کرتا ہے۔
ہاں تو اذیت کے حوالے سے بات ہو رہی تھی کہ اسلام لوگوں کو ایک دوسرے کو اذیت سے روکنے کے لیے ایک جامع پروگرام رکھتا ہے اور مضبوط و محکم احکامات اور اصول و قواعد دیتا ہے، وہ احکامات کسی قدر باریکی اور گہرائی میں جاکر اپنا حکم رکھتے ہیں، ملاحظہ کیجئے:
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةٌ فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانَ دُونَ الثَّالِثِ)) (صحیح البخاری ، کتاب الاستئذان:6288)
’’جب کوئی تین لوگ ہوں، تو ان میں سے دو لوگ تیسرے سے الگ ہو کر آپس میں سرگوشی نہ کریں ۔‘‘
((فَإِنَّ ذٰلِكَ يُحْزنه)) (ابن ماجه:3775)
’’کہ یہ چیز اسے غمگین کر دیتی ہے۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ:
((فَإِنَّ ذَلِكَ يُؤْذِي الْمُؤْمِنَ، وَاللهُ عَزَّ وَجَلَّ يَكْرَهُ أَذَى الْمُؤْمِن)) (سنن ترمذی ، کتاب الأدب:2825)
’’یہ بات مسلمان کو اذیت دیتی ہے اور اللہ تعالی مسلمان کی اذیت کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘
اور قرآن پاک میں بھی ہے کہ:
﴿اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیْسَ بِضَآرِّهِمْ شَیْـًٔا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ؕ وَ عَلَی اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۱۰﴾ (المجادلة:10)
’’کہ کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے، وہ اس لیے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اس سے رنجیدہ ہوں ۔‘‘
اب غور کیجئے کہ بظاہر تو اُن دو لوگوں نے الگ ہو کر آپس میں کوئی ذاتی بات پوشیدہ انداز میں کر کے کچھ غلط نہیں کیا۔ اس کے خلاف کوئی بات نہیں کی ، کوئی غیبت نہیں کی، کوئی سازش نہیں کی، لیکن چونکہ ان کے اس انداز سے تیسرے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، وسو سے پیدا ہوتے ہیں اور کم سے کم جو بات اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ اُنھوں نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ بات جو وہ آپس میں کر رہے ہیں مجھ سے شیئر کریں تو یہ بات اسے رنجیدہ کر دیتی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو ایسی اذیت بھی پہنچے، چہ جائیکہ کہ اسے ارادتا کوئی اذیت دی جائے۔
ایسی ہی ایک اور صورت ملاحظہ کیجئے کہ اسلام کسی حد تک کسی مسلمان کی اذیت کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ ابو جہل کے بیٹے تھے، اور ابو جہل کون تھا، ہر مسلمان اسے خوب جانتا ہے کہ وہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا، بلکہ اسے ’’فرعون هذه الأمة‘‘ کہا جاتا ہے کہ وہ اس امت کا فرعون تھا۔ اس نے آپ ﷺکو طرح طرح کی اذیتیں پہنچا ئیں خود حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی اسلام لانے سے پہلے آپ ﷺکے خلاف ہونے والی ہر جنگ میں شریک رہے، فتح مکہ تک۔ فتح مکہ کے موقعے پر عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ بھاگ کر یمن کی طرف جارہا تھا اس کی بیوی ام حکیم مسلمان ہو چکی تھیں، عکرمہ رضی اللہ تعالی عینہ کو ڈھونڈ نے نکلیں، بالآخر ساحل سمندر پر اسے جاملیں۔
اور اس سے کہا: اے میرے چچیرے!
( جِئْتُكَ مِنْ عِنْدِ أَوْصَلِ النَّاسِ، وَأَبْرِ النَّاسِ، وَخَيْرِ النَّاسِ))
’’میں تیرے پاس ایک ایسی شخصیت کی طرف سے آئی ہوں جو سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے ہیں ، سب سے بڑھ کر نیکی اور بھلائی اور خیر خواہی کرنے والے ہیں اور سب سے بڑھ کر اچھے ہیں ۔‘‘
((لَا تُهْلِكَ نَفْسَكَ ، إِنِّي إِسْتَأْمَنْتُ لَكَ مُحَمَّدًا))
’’تم اپنے آپ کو برباد نہ کرو، میں تمھارے پاس محمدﷺ سے امان لے کر آئی ہوں ۔‘‘
اس نے حیران ہو کر کہا:
((أَنْتِ فَعَلْتِ هَذا))
’’یہ تم ن ے کرلیا ہے؟‘‘
((قَالَتْ: نعم))
’’اس نے کہا: ہاں ۔‘‘
چنانچہ وہ عکرمہ کو لے کر آپﷺ کے پاس حاضر ہو گئیں۔ مکرمہ کے بارے میں ایک اور بات جان لیجئے تا کہ بات کی اہمیت مزید واضح ہو جائے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے عام معافی کا اعلان فرمایا تھا، سوائے چار لوگوں کے۔ ان چار لوگوں کے بارے میں یہ حکم جاری فرمایا تھا کہ وہ جہاں کہیں بھی پائے جائیں قتل کر دیئے جائیں حتی کہ:
((وإن وجدتموهم متعلقين باستار الكعبة))
(سنن نسائی ، کتاب تحريم الدم:4067)
’’حتی کہ تم اگر انھیں کعبہ کے غلاف کے ساتھ بھی چمٹے ہوئے پاؤ تو بھی قتل کر دو۔‘‘
اور ان میں سے ایک مکرمہ بن ابی جہل بھی تھا۔ وہ تین کون تھے، ان کا کیا جرم تھا اور ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا، ان کا ان شاء اللہ پھر کسی وقت ذکر کریں گے۔
البتہ مکرمہ کے بارے میں صرف اتنی بات معلوم ہو سکی کہ وہ اسلام کے سخت ترین مخالفین میں سے تھا۔
تا ہم عکرمہ یہ جاننے کے بعد کہ آپ ﷺنے اسے امان دے دی ہے، اپنی بیوی کے ساتھ مکہ المکرمہ واپس لوٹ آیا، ابھی آپ ﷺکے پاس نہیں پہنچا تھا کہ اُدھر آپ ﷺاپنے صحابہ کو خبر دار کرتے ہوئے ارشاد فرما رہے تھے فرمایا:
((يَأْتِيكُمْ عِكْرِمَةٌ بَنْ أَبِي جَهْلٍ مُؤْمِنًا مُهَاجِرًا))
’’عکرمہ بن ابی جہل تمھارے پاس ایمان لانے والا، ہجرت کرنے والا بن کر آرہا ہے۔‘‘
((فَلَا تَسُبُّوا أَبَاهُ))
’’اُس کے باپ کو برا بھلا مت کہنا، گالی مت دینا۔‘‘
((فَإِنَّ سَبَّ المَيْتِ يُؤْذِي الْحَيَّ وَلا يَبْلُغُ الْمَيْتَ)) (المستدرك للحاكم:269/3- سلسلة الأحاديث الضعيفة:1443)
’’کہ فوت شدہ شخص کو برا کہنا زندہ کو اذیت دیتا ہے اور مردہ کوتو وہ بات نہیں پہنچتی ۔‘‘
یہ حدیث اگر چہ ضعیف ہے مگر آپ سے کلام کا اپنے مخالفین اور دشمنان اسلام کے ساتھ معاملہ اور برتاؤ کچھ ایسا ہی رہا ہے ، خصوصا جو شخص چل کر آجائے اسے کبھی طئر کی ، نہ شرمندہ کیا، نہ احسان جتایا اور نہ دل آزاری کی ، تو آپ سے کے اخلاق عالیہ کی روشنی میں بہت ممکن ہے کہ حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے کے موقع پر کچھ اس طرح کا معاملہ رہا ہو ،البدا کچھ بعید نہیں کہ ایک ایسا شخص کہ جو خود اور اس کا باپ اسلام کا سخت ترین مخالف رہا اور جس کا خون بھی رائیگاں قرار دیا جا چکا تھا، اس کی اذیت کا اتنا خیال کیا گیا ہو کہ کسی بات سے اس کی دل آزاری نہ ہوا اور یقینًا ایسا حلم اور بردباری اور اخلاق صرف آپ ﷺکا ہی خاصہ ہے اور یہ خوبی صرف دین اسلام ہی کی خوبی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ایسے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اوراس حد تک بھی کسی کو اذیت دینے سے منع کرتا ہے۔
تو کسی مسلمان کو اس حد تک بھی کوئی اذیت دینا اگر جرم قرار پایا ہے کہ جس میں اذیت دینے کا کوئی ارادہ نہ ہو تو پھر عمداً کسی کو اذیت دینا کتنا بڑا جرم ہو سکتا ہے۔ تو معاشرے میں اذیت کی بہت سی شکلوں اور صورتوں میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں:
اذیت کی ایک شکل جمعے کے دن گرمیں پھلانگتے ہوئے آتا ہے یعنی دیر سے آنے والا شخص اگلی صفوں میں آکر بیٹھنے کی کوشش میں پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کی گردنوں کے برابر پاؤں اٹھا اٹھا کر چلتا ہوا آئے، کیونکہ ان کے درمیان اتنا فاصلہ تو ہوتا نہیں کہ نارمل طریقے
سے چل کر آسکے، لہذا وہ لوگوں کو اپنے اس عمل سے اذیت دیتا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
((جَاءَ رَجُلٌ يَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالنَّبِيُّ ﷺ يخطب))
’’کہ ایک آدمی جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی ﷺخطبہ جمعہ ارشاد فرمارہے تھے۔‘‘
((فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ: إِجْلِسُ فَقَدْ آذَيْتَ))
’’تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: بیٹھ جاؤ کہ تم نے اذیت دی ہے۔‘‘ (سنن ابی داود، كتاب الصلاة:1118)
کچھ لوگ اس صورت سے بچنے کے لیے ایک حیلہ کر لیتے ہیں کہ دو بیٹھے ہوئے لوگوں کو دائیں بائیں ہٹا کر بیچ میں بیٹھ جاتے ہیں یا گزر جاتے ہیں، جب کہ یہ بھی اس اذیت کے ضمن میں ہی آتا ہے، ہاں اگر واقعی ان کے درمیان اتنا خلا ہو کہ آدمی آسانی سے بیٹھ سکتا ہو تو
ٹھیک ہے، ورنہ جو دیر سے آتا ہے وہ وہیں بیٹھے جہاں آسانی سے جگہ ملے۔ اسی طرح کچھ لوگ راستے میں بیٹھ جاتے ہیں وہ بھی ٹھیک نہیں ہے، بلکہ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((تَخَطُّوا رِقَابَ الَّذِينَ يَجْلِسُونَ عَلَى أَبْوَابِ المَسَاجِدِ فَإِنَّهُ لَا حُرْمَةَ لَهُم)) (المغني لابن قدامة ، ج:2، ص: 259)
’’جو لوگ مسجدوں کے دروازوں میں بیٹھ جاتے ہیں اُن کی گردنیں پھلانگ جاؤ کہ ان کا کوئی احترام نہیں ہے، یعنی وہ خود دوسروں کی اذیت کا باعث بن رہے ہیں ۔‘‘
تا ہم اسلام ہر قسم کی اذیت کو سخت نا پسند کرتا ہے ، وہ اذیت ذاتی ہو یا جسمانی ، چھوٹی ہو یا بڑی ارادی ہو یا غیر ارادی ، انسان کو دی جائے یا حیوان کو ، البتہ انسان کو دی جانے والی اذیتیں درجات و مراتب کے لحاظ سے شدید سے شدید تر اور سنگین سے سنگین تر قرار دیتا اور اسی کے مطابق سزا میں بھی متعین کرتا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو کسی انسان کی بالخصوص کسی مسلمان کی اذیت اور دل آزاری سے محفوظ فرمائے ، آمین
………………..