فتنوں کی پہچان اور اس سے بچاؤ کیسے؟
﴿وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ (الانفال:25)
گذشتہ خطبہ جمعہ میں بات ہو رہی تھی کہ یہ دور فتنوں کا دور ہے اور فتنوں کے دور کے معاملات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے ان خصوصی احکامات کو ہی مدنظر رکھنا ہوگا، جو اُن خصوصی حالات کے لیے صادر فرمائے گئے ہیں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے صحابہ کرام بھی کریم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ((كيف بِكُمْ وَبِزَمَانَ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِي ))
’’فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، جب ایسا وقت آئے گا کہ:‘‘
((يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً))
’’لوگ اس میں چھان کر رکھ دیئے جائیں گے ۔‘‘
((وَتَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ))
’’اور لوگوں کی ایک تلچھٹ اور بھو سا باقی رہ جائے گا۔‘‘
جس طرح چھاج یا چھلنی کے ذریعے جب غلہ پھنکا جاتا ہے تو اُس کے نتیجے میں غلہ الگ اور بھوسا الگ ہو جاتا ہے، یعنی تھی اور روی چیز الگ ہو جاتی ہے۔
تو اسی طرح لوگوں میں سے بھی بھوسا، نکھٹ، پست اور گھٹیا ترین طبقہ باقی رہ جائے گا۔
((قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُم وَأَمَانَاتُهُمْ، فَاخْتَلَفُوا، وَكَانُوا هَكَذَا، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعه))
’’جن کی عہد و امانت داری میں خرابی اور بگاڑ پیدا ہو جائے گا اور لوگ آپس میں شدید اختلافات کا شکار ہوں گے۔ اور لوگوں کے آپس میں اختلافات کی تشبیہ آپ ﷺنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یوں:‘‘
((قَالُوا: كَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ ؟))
’’صحابہﷺ نے عرض کیا: اگر ایسا وقت ہم پر آجائے تو ہم کیا کریں ؟‘‘
((قَالَ: تَأْخُذُونَ بِمَا تَعْرِفُونَ، وَتَدَعُونَ مَا تُنْكِرُونَ، وَتُقْبِلُوْنَ علَى خَاصَّتِكُمْ، وَتَدْرُونَ أَمْرَ عَوَامِّكُمْ)) (ابن ماجة ، كتاب الفتن:3957)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: ” جسے تم پہنچاتے ہو اسے لے لینا اور جسے نہ پہچانتے ہو اسے چھوڑ دینا۔‘‘
یعنی قرآن و حدیث کی روشنی میں جو بات تمہیں معلوم ہو کہ صحیح ہے اور حق اور سچ ہے، اس پر عمل کرنا اور جس کا علم نہ ہو اسے چھوڑ دینا۔
((وَتُقْبِلُوْنَ عَلَى خَاصَّتِكُمْ وَتَذْرُونَ أَمْرَ عَوَامَّكُمْ)) (سنن ابن ماجه:3957)
’’اور اپنے آپ پر توجہ دینا اپنے خاص لوگوں کے پاس چلے آنا اور عام لوگوں کے معاملات کو چھوڑ دینا ۔‘‘
دیگر احادیث میں فتنوں کے دور میں فتنوں سے اس قدر دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے کہ کوئی ان میں جھانکنے کی کوشش بھی نہ کرے ورنہ فتنوں کا شکار ہو جائے گا۔ مگر اس حدیث میں تو تمام لوگوں سے بالکل الگ تھلگ ہو کر اپنے آپ پر توجہ دینے اور اپنے خاص لوگوں کے پاس چلے جانے کا حکم ہے یعنی عزلت و تنہائی اور گوشتہ نشینی اختیار کر لینے کا حکم ہے، جبکہ عام حالات میں لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ترغیب ہے۔
اسی طرح دیگر احادیث میں کچھ مزید ہدایات بھی دی گئی ہیں اور پھر چونکہ فتنوں کے دور میں دین پر چلنا اور عمل کرنا مشکل ہوتا ہے اور سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں ہوتا اور صبر بھی ایسا کہ:
((اَلصَّبْرُ فِيْهِنَّ مِثْلُ قَبْضَ عَلَى الْجَمْرِ))
’’کہ ان صبر کے دنوں میں صبر کرنا، ایسا ہی مشکل ہوگا جیسا آگ کا انگارہ مٹھی میں لینا۔‘‘
اس لیے ان فتنوں کے دنوں میں کہ جنہیں صبر کے دن کہا گیا ہے ان میں اجر بھی بڑھا دیا گیا ہے، فرمایا:
((لِلْعَامِلِ فِيْهَا أَجْرُ خَمْسِينَ))
’’ان صبر کے دنوں میں دین کے ساتھ تمسک اختیار کرنے ، دین پر کار بند رہنے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کا اجر پچاس آدمیوں کے برابر ہوگا۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا:
((أَجْرُ خَمْسِيْن مِنْهُمْ أَوْ خَمْسِينَ مِنَّا))
’’اے اللہ کے رسول سے کام کیا ان میں سے پچاس آدمیوں کا اجر یا ہم میں سے؟‘‘
((قَالَ: خَمْسِيْنَ مِنْكُم)) (مجمع الزوائد:12216)
’’فرمایا: پچاس تم میں سے۔‘‘
اسی طرح بعض دوسری احادیث میں اس سے بھی زیادہ اجر بیان فرمایا گیا ہے، جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْج كهجرَةِ إِلَىَّ)) (صحيح مسلم:2948)
’’قتل و غارت گری کے دنوں میں عبادت کی فضیلت اور اجر وثواب ایسے ہی ہے جیسے میری طرف ہجرت کرنا ۔‘‘
اور ہجرت کا اجر و ثواب آپ کو معلوم ہی ہوگا ، حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((أَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا )) (مسلم ، کتاب الایمان:121)
’’ہجرت کرنا گذشتہ تمام گناہ ڈھا دیتا ہے ۔‘‘
تو ہجرت اتنا عظیم عمل ہے کہ اس سے گذشتہ تمام گناہ مٹ جاتے ہیں اور فتنے کے دنوں میں عبادت کا اتنا بڑا اجر وثواب ہے۔
خلاصہ اس تمہیدی گفتگو کا یہ ہے کہ آج کے دور کے مسائل کا حل جاننے کے لیے فتنوں کے دور کے لیے دی گئی ہدایات کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور ان ہدایات کا خلاصہ یہ ہے کہ فتنوں سے بہر صورت دور رہا جائے اور جتنا زیادہ سے زیادہ دور رہنا ممکن ہو اسی قدر دور رہا جائے ، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((سَتَكُونُ فِتَنٌ))
’’ عن قریب ایسے فتنے ہوں گے کہ:‘‘
((الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ))
’’بیٹھا ہوا کھڑے ہوئے شخص سے بہتر ہوگا‘‘
((وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَا شِي))
’’اور کھڑا ہوا شخص چلنے والے سے بہتر ہوگا ۔‘‘
((وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي))
’’اور چلنے والا دوڑ نے والے سے بہتر ہوگا۔‘‘
((مَنْ تَشَرَّفَ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ))
’’جو دور سے بھی ان فتنوں کی طرف جھانکے گا وہ ان کا شکار اور ہدف بن جائے گا۔‘‘
((فَمَنْ وَجَدَ فِيهَا مَلْجَأَ أَوْ مَعَاذَا فَلْيَعُذْ بِهِ)) (صحیح البخاری ، کتاب الفتن:7082)
’’اس وقت جو شخص جہاں کہیں حفاظت اور پناہ کی جگہ پائے پناہ لے لے۔‘‘
اسی طرح دیگر کئی احادیث میں فتنوں سے ہر ممکن صورت دور رہنے کی شدید تاکید کی گئی ہے اور اس حدیث میں بھی فتنوں کی سنگینی کو بہت واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
فتنوں سے بچنا یقینًا نہایت ہی مشکل ترین کام ہے، بلکہ فتنوں کو سمجھنا بھی آسان نہیں ہے، فتنوں کو سمجھنا سیکولر تعلیم اور انسانی عقل کے ذریعے ممکن نہیں، بلکہ اللہ تعالی کے خاص فضل کے بعد ایمان کی قوت اور قرآن وحدیث کی روشی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے اور وہ بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اور فتنوں کی سنگینی کا عالم ملاحظہ فرمائیے، کہ آدمی کو اپنی قوت ایمانی کا اندازہ ہونے کے با وجو د فتنوں سے دور رہنے کی تاکید ہے، بالخصوص دجال کے فتنے سے۔ ویسے تو ہر فتنے کے بارے میں کہہ دیا گیا ہے کہ جو دور سے بھی جھانکے گا وہ اس میں مبتلا ہو جائے گا مگر دجال کا فتنہ جس کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ:
((مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ خَلْقٌ أَكْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ))
(صحيح مسلم ، کتاب الفتن واسراط الساعة:2946)
’’آپ سے ﷺ نے فرمایا: آدم (علیہ السلام) سے لے کر قیامت تک، اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے فتنہ دجال سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہوگا ۔‘‘
اس لیے اس کے بارے میں خصوصی ہدایت اور تنبیہ یوں فرمائی: فرمایا:
((مَنْ سَمِعَ بِالدَّجَّالِ فَلْيَنْاَ عَنْهُ))
’’جو شخص دجال کی خبر سنے وہ اس کے سامنے آنے سے گریز کرے، اس سےدوررہے۔‘‘
((فَوَاللهِ! إِنَّ الرَّجُلَ لَيَأْتِيهِ وَهُوَ يَحْسَبُ أَنَّهُ مُؤْمِنٌ))
’’اللہ کی قسم جب کوئی آدمی اس کے پاس آئے گا تو وہ یہی سمجھے گا کہ وہ مؤمن ہے۔‘‘
((فَيَتَّبِعُهُ مِمَّا يُبْعَثُ بِهِ مِنَ الشَّبُهَاتِ، أَوْلِمَا يُبْعَثُ بِهِ مِنَ الشُّبُهُاتِ)) (سنن ابی داود ، کتاب الملاحم: 4319)
’’ تو جو شبہے کی چیزیں وہ دے کر بھیجا گیا ہے۔ یعنی دجال۔ انہیں دیکھ کر وہ آدمی اس کی پیروی کرنے لگے گا۔‘‘
تو اپنے علم ، اپنے ایمان، اپنی عقل و دانش اور اپنے وسائل اور اختیارات پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے بھی فتنے میں کودنے کی کوشش نہ کریں اور نہ اس کے قریب جائیں، چہ جائیکہ خود فتنہ پیدا کرنے لگ جائیں۔
اور آدمی کو کیسے پتہ چلے گا کہ وہ فتنوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے؟ اس کی کئی ایک علامتیں ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو آدمی دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی سے اجتناب کرنے لگ جائے گا، تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ وہ فتنوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے مگر اس بات کا احساس ہونا کہ وہ واقعی دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے، یہ اللہ تعالی کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ جب اس کے پاس دولت آتی ہے، یا اسے کچھ اختیارات مل جاتے ہیں، وہ وزیر و مشیر بن جاتا ہے، تو پھر اس کا مسلز (Muscles) دکھانے کو جی مچلنے لگتا ہے، پھر وہ دخل اندازی کا جواز ڈھونڈ لیتا ہے، ظلم و زیادتی کو جسٹیفائی کر لیتا ہے، پھر وہ فتنوں و تنوں کو خاطر میں نہیں لاتا، ان کی پرواہ نہیں کرتا۔
اللہ تعالی کسی پر بدبختی نازل نہیں کرنا چاہتا مگر انسان خود اس کا جواز مہیا کرتا اور دعوت دیتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ لوگ عموماً فتنوں کی طرف توجہ نہیں دیتے اور نہ اس کی سنگینی کو سمجھتے ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی معاشرے میں کوئی سمجھانے والا ہے۔ الا ماشاء اللہ
فتنوں سے بچنے کی ترغیب و تاکید میں سے یہ چند باتیں عرض کی ہیں، ورنہ قرآن و حدیث میں فتنوں سے بچنے پر بہت زور دیا گیا ہے، اس کے دنیوی و اخروی نتائج سے خبردار کیا گیا ہے۔ فتنے کیسے پے در پے اور یکے بعد دیگرے چلے آرہے ہیں، کسی ایک فتنے کے بارے میں تفصیل سے آگاہی دینے کے لیے دو ایک خطبوں میں اس کا ذکر کرتا ہوں تو اتنے میں کوئی نیا فتنہ کھڑا ہو جاتا ہے، ابھی وہ ختم نہیں ہوا ہوتا کہ کوئی دوسرا شروع ہو جاتا ہے اور کچھ مسلسل چلے آ رہے ہیں۔
مثلا: گذشتہ جمعے تحفظ خواتین بل کا ذکر ہو رہا تھا کہ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ والا معاملہ شروع ہو گیا ۔ یہ سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کہ کیسے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ اور لوگوں کو اذیت دیتا نا جائز اور حرام ہے ایک وقت درکار ہوتا ہے اور ابھی وہ پوری طرح بیان نہیں ہوا ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے فتنوں کو سمجھنا بالخصوص اس طرح کے فتنوں کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ اس لیے کہ یہ انتہائی خطر ناک ہوتے ہیں کیونکہ دین کے نام پر جو اس طرح کا کام ہوتا ہے وہ انتہائی خطرناک ہوتا ہے، چونکہ لوگ صرف جذبات سے کام لیتے ہیں دلائل سے ان کو سروکار نہیں ہوتا چنانچہ وہ اس کے لیے اپنی جان قربان دینے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ فتنوں سے بچنے کی کوشش کرنا ہر شخص کی ذاتی ذمہ داری ہے لیکن دوسروں کو فتنوں سے بچانے کی کوشش کرنا اور خبردار کرنا حکومت اور مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے۔
مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے، ہمارے لیڈران اور ہمارے رہنما الٹا لوگوں کو بھڑکاتے اور اکساتے ہیں، تشدد پر برانگیختہ کرتے اور ان کے جذبات کو ابھارتے ہیں۔
اور انسان کی فطرت ہے کہ وہ جذباتی باتوں سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے۔ اصلاحی باتیں چونکہ عمل کا تقاضا کرتی ہیں اپنے آپ کو بدلنے اور اپنے اندر تبدیلی لانے کا تقاضا کرتی ہیں اور اپنے آپ کو بدلنا ایک مشکل کام ہوتا ہے لہٰذا اس کی طرف طبیعت مائل نہیں ہوتی ، اس لیے ان باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔
ادھر دوسری طرف آگ لگانا آسان ہوتا ہے مگر اصلاحی اور علمی بات کرنا مشکل ہوتا ہے، بسا اوقات ماچس کی تیلی سے لگائی ہوئی آگ اتنی جلدی نہیں بھڑکتی ، جتنی جلدی زبان سے لگائی ہوئی آگ بھڑکتی ہے اس لیے رہنماؤں کا کام ہے کہ اپنے معتقدین کے جذبات کو ٹھنڈا کریں انہیں ضبط و تحمل سکھائیں۔ بالخصوص مذہبی رہنماؤں پر اور بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ان کے ایک ایک لفظ کو فالو کیا جاتا ہے، اس لیے ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر اور دلائل کے ساتھ بات کرتی چاہیے، نتائج پر نظر ہونی چاہیے، دلائل ٹھوس اور مضبوط ہونے چاہیں۔ میں سن رہا تھا، ایک صاحب لوگوں کو بھڑکاتے ہوئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر کر رہے تھے کہ ایک جنگ (غزوہ موتہ ) میں لڑتے ہوئے اُن کے ہاتھ میں 4 تلواریں ٹوٹیں۔
بات صحیح ہے مگر ذرا غور کر لیا ہوتا کہ کیا ان کی تلوار میں مسلمانوں کو قتل کرتے ہوئے ٹوٹیں؟ اور کیا اس کے بعد انہوں نے سیف ایگزٹ کے لیے حکومت سے مذاکرات بھی کئے؟
جذبات میں بہہ جانا اور دوسروں کو جذبات میں بہا دینا ذمہ دار لوگوں کا کام نہیں ہے، حدیث میں ہے کہ کوئی آدمی اپنے آپ کو رسوا نہ کرے: ((لَا يَنبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلُّ نَفْسَهُ، قَالُوا وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ، قال: يَتَعَرَّضُ مِنَ البَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُ))(سنن ترمذی ، کتاب الفتن:2254)
’’آپ ﷺنے فرمایا: مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: کوئی اپنے نفس کو کیسے ذلیل کرتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اپنے آپ کو کسی ایسی مصیبت میں دوچار کرتا ہے جسے جھیلنے کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔‘‘
سیاسی اور مذہبی رہنماؤں میں سے اگر کوئی شخص جان بوجھ کر غلطی کرتا ہے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری یقینًا اس پر آتی ہے، مگر عوام پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ بھی اس کے جوابدہ ہوں گے کہ عقل ، بصیرت اور دلائل کے ساتھ اُن کو فالو کریں آنکھیں بند کر کے نہیں۔
لوگ جب نااہل اور دین بے زار لوگوں کو اپنا رہنما منتخب کرتے ہیں تو وہ اس سے پیدا ہونے والی خرابی کے ذمہ دار بھی ہیں، اور یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ لوگ نا اہل حکمرانوں کو پسند کریں گے۔
جیسا کہ حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانتَظِرِ السَّاعَةَ ))
’’جب امانت ضائع کی جائے اس وقت قیامت کا انتظار کر ۔‘‘
((قَالَ: كيف إضاعتها ؟))
’’عرض کیا: امانت ضائع کیسے کی جائے گی ؟‘‘
((قَالَ: إِذَا وَسِدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ، فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ))(صحيح البخاري ، كتاب العلم:59)
’’تو فرمایا: جب حکومت ان لوگوں کو دی جائے جو اس کے اہل نہ ہوں، تو قیامت کا انتظار کر‘‘
دوسری طرف معاشرے کی خرابی اور بگاڑ کی ایک وجہ علماء کا اٹھ جانا ہے۔
((عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: إِنَّ اللهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِرَاعًا يَنتَزِعُهُ مِنَ العباد))
’’اللہ تعالی دین کا علم بندوں سے چھین کر ختم نہیں کرے گا۔‘‘
((وَلَكِن يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ))
’’بلکہ علماء کی موت سے علم دین ختم کر دے گا ۔‘‘
((حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا ، اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤوساً جُهَّالاً))
’’حتی کہ جب ایک بھی عالم باقی نہیں رہنے دے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا رہنما بنالیں گے۔‘‘
((فَسُئِلُوا فَافْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّو )) (صحيح البخاري ، كتاب العلم:100)
’’ان سے مسئلے دریافت کئے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دے کر خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ فتنوں کی سنگینی اگر سمجھ آ جائے گی تو نت نئے پیدا ہونے والے مسائل کا حل بھی خود بخود سمجھ آجائے گا۔
((عَنْ مُعَاوِيَةٌ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا بَلَاءٌ وَفِتْنَةٌ)) (ابن ماجة ، كتاب الفتن:4035)
’’حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ دنیا میں قیامت کے قریب سوائے مصیبتوں اور فتنوں کے کچھ باقی نہیں رہا۔‘‘
اور دوسری بات فتنے کے حوالے سے یہ ذہن نشین کرلیں کہ:
((عن الزبير بن عدى ، قَالَ: أَتَيْنَا أَنسَ بْنَ مَالِكِ وَ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا تَلْقَى مِنَ الْحَجاجِ))
’’زبیر بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم انس بن مالک بھی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حجاج کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کی ان سے شکایت کی۔‘‘
((فَقَالَ: اصْبِرُوا ، فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ إِلَّا الَّذِي بَعْدَهُ شَرٌّ مِنْهُ، حَتَّى تَلْقَوْا رَبَّكُمْ سَمِعْتُهُ مِنْ نَبِيكُمْ )) ’’تو حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ’’صبر کروا تم پر ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں ہر آنے والا دن تمہارے آج سے بدتر ہو گا حتی کہ تم اپنے رب سے جاملوں میں نے یہ بات تمھارے نبی اکرم نے کام سے سنی ہے ۔‘‘
(صحیح البخاری ، کتاب الفتن (7068)
…………………