دین سے دوری کا ایک سبب نظریاتی جنگ
﴿لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ﴾ (الزخرف:78)
’’ہم تمھارے پاس حق لے کر آئے تھے مگر تم میں سے اکثر کو حق ہی نا گوار تھا ۔‘‘
گذشتہ خطبات میں عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ دین ہماری دنیا و آخرت کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔ یہ جان لینے کے بعد کہ دین ہماری سب سے اہم ضرورت ہے، کھانے پینے کی ضرورت سے بھی اور حتی کہ ہماری زندگی سے بھی زیادہ اہم ہے، کیونکہ زندگی کو دین کے مطابق گزارا جاتا ہے اور اُس پر قربان کیا جاتا ہے، کیا کوئی شخص غفلت اور ستی کا شکار ہو سکتا ہے؟ جی ہاں جزوی اور وقتی طور پر کوئی مسلمان غفلت اور ستی کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کے بہت سے اسباب و عوامل ہیں، مگر بنیادی طور پر یہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ گا ہے لگا ہے غفلت اور کاہلی کا شکار ہو جاتا ہے اور کوئی مسلمان جب اس کمزوری کا شکار ہوتا ہے تو وہ اس میں دور تک نہیں جاتا اور دیر تک نہیں رہتا، اس کا ایمان اسے واپس کھینچ لیتا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((مَثَلُ الْمُؤْمِنِ وَمَثَلُ الْإِيمَانِ كَمَثَلِ الفَرَسِ فِي آخِيَّتِهِ يَجُولُ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلٰى أٰخِيَّتِه))
’’فرمایا: مؤمن اور ایمان کی مثال اُس گھوڑے کی سی ہے جو اپنے کنڈے اور کھونٹی کے ساتھ بندھا ہوتا ہے، ادھر اُدھر چکر لگاتا ہے اور پھر اپنے کنڈے کے پاس آجاتا ہے۔‘‘
((وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَسْهُو ثُمَّ يسهو ثُمَّ يرجع إلى الإيمان))
’’اسی طرح مؤمن غفلت و کوتا ہی کرتا ہے، لیکن پھر ایمان کی طرف لوٹ آتا ہے۔‘‘
((فَأَطْعِمُوا طَعَامَكُمُ الْأَتْقِيَاءَ، وَأُولُوا مَعْرُوفَكُمُ الْمُؤْمِنِينَ )) (ابن حبان:616)
’’پس تم اپنا کھانا پر ہیز گار لوگوں کو کھلاؤ اور مؤمنوں کے ساتھ نیکی اور احسان کرو۔‘‘
تو کوئی مسلمان دین کو اپنی دنیوی اور اخروی زندگی کے لیے ضروری سمجھتے ہوئے فظلت و کوتاہی کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کی تو بہ اور رجوع الی اللہ کی امید بھی کی جاسکتی ہے۔ لیکن کوئی شخص دین کی ضرورت سے انکار کرتے ہوئے بے عملی اور بے راہ روی اختیار کرے اور پھر مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرے تو وہ محض اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ اس بات کے قرآن وحدیث میں بکثرت اور واضح دلائل موجود ہیں کہ دین کے مسلمات میں سے کسی ایک کا انکار آدمی کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے، چہ جائیکہ وہ پورے دین کا ہی انکار کر دے۔ ایسے کتنے ہی اقوال، اعمال اور عقائد ہیں کہ جن کا قائل، مرتکب اور حامل دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور انہیں تو اقض اسلام کہا جاتا ہے۔ مثلا:
٭ اللہ تعالی کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا۔
٭ کفار و مشرکین کو کافر نہ سمجھتا۔
٭ یہ عقیدہ رکھنا کہ کسی غیر کی ہدایت و رہنمائی نبی کریم سے کلام کی ہدایت و رہنمائی سے بہتر اور اکمل ہے، اور یہ کہ کسی غیر کا حکم اور فیصلہ آپ ﷺکے فیصلے سے بہتر ہے۔
٭ اسلام کے کسی حکم کو نا پسند کرتا، چاہے وہ اس پر عمل بھی کرتا ہو۔
۔ دین کے کسی عمل اور حکم کا مذاق اڑانا وغیرہ، اسی طرح دین کو اپنی دنیا و آخرت کے لیے ضروری نہ سمجھنا آدمی کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی مسلمان بھلا ایسا کر سکتا ہے کہ دین کی ضرورت کا ہی انکار کر دے، یا اسلام اور شعائر اسلام کا مذاق اڑائے اور اسلام کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکائے اور مخالفت کرے؟ عموما تو ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر کوئی ایسا عقیدہ رکھے، یا کوئی ایسا عمل کرے جو اسے اسلام سے خارج کر دے۔ البتہ بھی کچھ حالات اور اسباب ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جن میں پھنس کر انسان کوئی کفریہ کلمہ کہہ دیتا ہے، مگر ﴿وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ﴾(النحل:106)
’’اس کا دل ایمان پر مطمئن ہوتا ہے ‘‘
اور اگر یہ صورت حال ہو تو تب تو خیر ہے، جیسا کہ حضرت عمار بن یا سر رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ ہے، لیکن اس کے برعکس اگر کوئی شخص دل کی رضا مندی کے ساتھ کوئی کفریہ کلمہ کہتا ہے تو وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ، چنانچہ اس کے لیے عذاب عظیم کی وعید سنائی گئی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَ لٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (النحل:106)
’’مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کر لیا، اس پر اللہ کا غضب ہے، اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
﴿ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَةِ ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ﴾ (النحل:107)
’’یہ اس لیے کہ انہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا اور اللہ کا قاعدہ ہے کہ وہ اُن لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا جو اس کی نعمت کا کفران کریں۔‘‘
﴿اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَ سَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ﴾ (النحل:108)
’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے، یہ غفلت میں ڈوب چکے ہیں ۔‘‘
تو دین سے ایسی غفلت ، سستی اور دوری نا قابل قبول ہے اور اسلام سے خارج کر دینے والی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان دین سے اس قدر دور، منتظر اور بددل ہو جائے کہ دین کا سرے سے انکار ہی کر دے، بلکہ اس کی مخالفت کرنے لگ جائے، دین اور اہل دین کا مذاق اڑانے لگے اور دین کی راہ میں روڑے اٹکانے لگ جائے؟ اس کی یقینًا متعدد وجوہات اور اسباب و عوامل ہیں مگر میں اس وقت اُن میں سے صرف ایک کا مختصر سا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ان شاء اللہ اور وہ ہے: الغزو الفكري ، نظریاتی یلغار فکری محاذ پر لڑی جانے والی نظریاتی جنگ ہے جو اغیار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف لڑی جارہی ہے۔ جس سے وہ مسلمانوں کے سیاسی، ثقافتی ، معاشرتی اور اقتصادی حالات کو مسلمانوں کے دل و ماغ کو کنٹرول کرتے ہوئے بدل دینا چاہتے ہیں ، ان کے افکار و نظریات اور اخلاق و کردار کو بدل دینا چاہتے ہیں۔ اور نظریاتی جنگ کے حوالے سے یہ ایک حقیقت ہے کہ نظریاتی جنگ کے نتیجے میں مغلوب قوم مکمل طور پر اخلاق و کردار اور افکار و نظریات کے حوالے سے فاتح قوم کے تابع ہو جاتی ہے۔
نظریاتی جنگ ایک اور پہلو سے بھی نہایت ہی خطرناک جنگ ہے، اور وہ یہ کہ دشمن آپ کو پچھاڑ رہا ہوتا ہے، تباہ و برباد کر رہا ہوتا ہے، آپ کا دین ، آپ کا ایمان چھین رہا ہوتا ہے اور آپ اس سے خوش ہوتے ہیں اس کے گن گا رہے ہوتے ہیں اور اسے آپ کے خلاف میدان میں فوجیں بھی نہیں اتارنا پڑتیں، اس کا جانی نقصان بھی نہیں ہوتا اور دشمن مغلوب بھی ہو جاتا ہے۔
یوں تو نظریاتی جنگ کا تصور شروع سے ہی چلا آرہا ہے کہ جب سے حق و باطل میں کشمش جاری ہے، مگر خصوصی طور پر نظریاتی جنگ کا آغاز اغیار کو صلیبی جنگوں میں پے در پے اور بھاری شکستوں کے بعد ہوا۔
مخالفین اسلام، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نظریاتی جنگ کے کیا کیا منصوبے رکھتے اور کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں اس پر سینکڑوں کتابیں، آرٹیکلز اور رپورٹس موجود ہیں مگر ہم ایک حالیہ رپورٹ کے مندرجات کو ہی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
رینڈ کارپوریشن کی 2007ء کی رپورٹ ہے ، Rand Corporation امریکا کا ایک اہم ترین تھنک ٹینک ہے، جو امریکی حکومت کے لیے پالیسیاں بناتا ہے، اس کے تقریبا 1600 Employess ہیں اور تقریباً 150 ملین ڈالرز اس کا سالانہ بجٹ ہے۔
اس رپورٹ میں اسلامی دنیا کو مغربی جمہوریت، جدت پسندی اور نیو ورلڈ آرڈر کے مطابق ڈھالنے کے لیے تجاویز دی گئی ہیں کہ جن پر عملا کام بھی جاری ہے، بہت سی تجاویز کے نام Building Moderate Muslim Networks میں سے اس میں ایک تجویز سے ہے کہ اسلامی دنیا میں معتدل مسلمانوں کے نیٹ ورکس بنائے جائیں اور ان کے ساتھ تعاون کیا جائے تا کہ دو ان کے منصوبوں کے لیے کام کریں۔
رینڈ رپورٹ کے مطابق معتدل مسلمان تین قسم کے ہیں: (1) ایک سیکولر اور لبرل قسم کے لوگ ۔ (2) علماء کے دشمن، اتاترک قسم کے لوگ۔ (3) اور تیسرے وہ مسلمان جو مغربی جمہوریت اور اسلام میں کوئی تعارض نہیں سمجھتے۔
اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک معتدل مسلمان وہ ہوتا ہے، جو!
(1) شریعت کے نفاذ کا قائل نہ ہو ۔
(2) جو عورت کی آزادی کا قائل ہو ان معنوں میں کہ اسے بغیر شادی کے بندھن میں بندھے اپنا رفیق حیات رکھنے کی آزادی ہو۔ (3) اور تیسرادہ جو صرف دو ہی قسم کی اسلامی قوتوں پر یقین رکھتا ہو۔
(ا) ایک وہ جو روایتی قسم کے مسلمان ہیں، جو روایتی مذہبی رجحان رکھتے ہیں، یعنی ایک عام مسلمان جو عام طریقے سے نماز روزہ کرتا ہے، مگر اس کے لیے کوئی خاص اہتمام نہیں کرتا، گہرائی میں نہیں جاتا۔
(ب) اور دوسرے صوفی قسم کے لوگ اور جو قبروں پر جاتے ہیں اور وہ جو سعودی عقائد کے خلاف ہیں۔
اسی طرح معتدل مسلمان کی کچھ اور نشانیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے، مگر میں صرف ان تین پر ہی اکتفا کرتا ہوں کیونکہ اس وقت ہمارا موضوع مخالفین اسلام کی چالوں، حیلوں اور منصوبوں کا احاطہ کرنا نہیں ہے، بلکہ دین سے دوری کے اسباب کا جائزہ لینا مقصود ہے، اور
ان میں سے ایک سبب مسلمانوں پر مسلط کی گئی نظریاتی جنگ ہے۔ اس کا یقینًا بہت واضح اثر ہم مسلمان معاشروں میں دیکھتے ہیں۔ مخالفین اپنے جن عزائم اور مقاصد کا بر ملا اور کھل کر اظہار کرتے ہیں اس کا مسلم ممالک میں بڑا گہرا رنگ نظر آتا ہے۔ مثلا: رپورٹ کے مطابق ان کے عزائم میں سے ایک شیعہ سنی کو آپس میں لڑانا ہے، حکومتیں گرانے والی طاقتوں کو سپورٹ کرنا ، سیکولر اور لبرل قسم کے لوگ تیار کرنا، افراتفری پیدا کرنا، انتشار پھیلا نا، بے دینی اور بداخلاقی پھیلانا وغیرہ ہے۔
اور یہ سارے کام ہمارے مسلم معاشروں میں بے جھجک، بلا روک ٹوک اور کھلے عام ہو رہے ہیں: بے دینی ایسے منظم طریقے سے پھیلائی جا رہی ہے کہ پورے کا پورا معاشرہ ہے دینی کی لپیٹ میں آگیا ہے، ہر طرف سے گمراہی پھیلائی جارہی ہے، فلموں کے ذریعے، ٹی وی ڈراموں کے ذریعے، مزاحیہ پروگراموں کے ذریعے، ٹی وی اشتہارات کے ذریعے، ٹاک شوز کے ذریعے، آزادی نسواں کے نام پر اور آزادی اظہار رائے کے نام پر دین سے دور کیا جا رہا ہے اور دین بے زاری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ خود مسلمانوں کی طرف سے کھلے عام مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کو ختم کیا جائے۔ نوجوان طبقہ جو کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتا ہے اسے اپانچ بنا کے رکھ دیا گیا ہے، انہیں کھیل کود میں لگا دیا گیا، ناچ گانے میں پھنسا دیا اور ہڑتالوں، دھرتوں اور مظاہروں میں لگا دیا، انہیں فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ اور دیگر فضولیات میں مصروف کر دیا، غرضیکہ مسلمانوں کی اک کثیر تعداد کو گمراہ کر کے رکھ دیا گیا ہے ۔
حالانکہ اللہ تعالی نے یہ کہ کر شیطان کی چالوں سے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے کہ:
﴿وَ لَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِیْرًا ؕ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ﴾ (يس:62)
’’اُس نے پہلے ہی تم میں سے ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہ کر دیا، کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے۔‘‘
مگر ہم نے تو شیطان کی دخل اندازی کو بالکل ہی نظر انداز کر رکھا ہے، جیسے شیطان کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ مخالفین اسلام کی اسلام کے خلاف چالیں، سازشیں اور منصوبے کوئی اچنے کی بات نہیں ہے، کیونکہ اسلام نے ہمیں پہلے ہی بڑے واضح اور دوٹوک الفاظ میں خبردار کر رکھا ہے، کہ:
﴿وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ؕ﴾(البقره:120)
’’یہود و نصاری تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔‘‘
اور پھر یہیں بس نہیں! بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ:
﴿وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا﴾(البقره:217)
’’اور وہ تم سے لڑتے ہی چلے جائیں گے حتی کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں اس دین سے پھیر لے جائیں ۔‘‘
﴿وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا ۖۚ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ ﴾(البقره:109)
’’اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں، اپنے نفس کے حسد کی بنا پر ‘‘
چنانچہ یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں، اور اسلام کو دبانے کا کسی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا، یہ اللہ تعالی کا چیلنج ہے بلکہ اللہ تعالی کا یہ بھی چیلنج ہے کہ ان کی تمام تر نفرتوں اور ناپسندیدگی کے باوجود اسلام کا بول بالا ہوگا اور وہ غالب ہو کر رہے گا ۔
﴿یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَهُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۠﴾ (الصف:8۔9)
’’اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ دو اپنے نور کو پھیلا کر رہے گا، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو، وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے ، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی نا گوار ہو۔‘‘
اور ہم اس حقیقت کو ظاہر ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، پوری دنیا میں اسلام کو دبانے کے لیے کتنی کوششیں ہورہی ہیں، کتنی دولت خرچ کی جارہی ہے۔
مشنری تنظیمیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور بلیز آف ڈالرز خرچ کئے جارہے ہیں، مگر اسلام پھر بھی پھیل رہا ہے اور پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ مگر ہماری کوششوں سے نہیں ، ہمارا کوئی کنٹری بیوشن اس میں نہیں ہے، آپ یہیں سے دیکھ لیں کہ ہم جو اس وقت یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، ہم میں سے کتنے لوگ ہیں کہ جنہوں نے اسلام کا پیغام کسی غیر مسلم تک پہنچانے کی کوشش کی ہو، اس بھری مجلس میں شاید ہی کوئی دو ایک آدمی ہوں۔
اس کے برعکس ہمارا منفی طرز عمل ضرور اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ ہم لوگ کاروبار میں جھوٹ بولتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، کریڈٹ کارڈ فراڈ کرتے ہیں، نمازیں نہیں پڑھتے ، وعدے پورے نہیں کرتے ، اور پھر ہم میں سے کچھ نادان لوگ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں، حالانکہ اسلام کا دہشت گردی سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے، دہشت گردی نہ اسلام کا ایجنڈا ہے، نہ اسلام اس کو سپورٹ کرتا ہے اور نہ اس کی ترغیب دیتا ہے۔ تو ہمارے اخلاق و کردار کی وجہ سے کوئی اسلام کے قریب ہرگز نہیں آئے گا۔ جو لوگ مسلمان ہوتے ہیں وہ اللہ تعالی کے خصوصی منصوبے کے تحت مسلمان ہو رہے ہیں۔ اسلام سے متعلق اللہ تعالی نے مخالفین کی سازشوں اور کوششوں کا انجام پہلے ہی بتا دیا ہے۔ فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ ؕ۬ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰی جَهَنَّمَ یُحْشَرُوْنَۙ۳۶﴾ (الانفال:36)
’’جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے، وہ اپنے مال اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے صرف کر رہے ہیں اور وہ خرچ کرتے رہیں گے، مگر آخرکاران کی کوششیں اُن کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی، پھر وہ مغلوب ہوں گے۔‘‘
اسلام تو ہر حال میں پھیل کر ہی رہے گا یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے، لہذا ہمیں اسلام کے لیے فکر مند ہونے سے زیادہ اپنے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم مسلمان رو جائیں، ہمارا ایمان ہم سے نہ چھن جائے، ہم اسلام کی ضرورت سے انکار نہ کر بیٹھیں، ہم سوشلسٹ اور کیمونسٹ نہ بن جائیں ، ہم سیکولر اور لبرل نہ بن جائیں، بلکہ پکے اور سچے مسلمان بن کر رہیں اور اسی پر ہمیں موت آئے۔
یہ دنیا کی زندگی، اس کی رونق، اس کی نعمتیں بہت بڑا دھوکہ اور بہت بڑی آزمائش اور امتحان ہیں۔ انسان دنیا کی بھول بھلیوں اور اس کے مسائل میں ایسا الجھا ہوا ہوتا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ بلاوا آ جاتا ہے، لینے والے آجاتے ہیں کہ چلو تمہارا وقت ختم ہو گیا ہے، ایک بات اچھی طرح سمجھ لیجئے اور اسے پلے باندھ لیجئے کہ خود آپ سے بڑھ کر کوئی آپ کا ہمدرد اور خیر خواہ ہرگز نہیں ہو سکتا، اللہ اور اس کے رسول لئے کام کے بعد۔ اگر آپ واقعی مسلمان رہنا چاہتے ہیں اور اپنا ایمان بچانا چاہتے ہیں اور آخرت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو ہی مخلصانہ کوششیں کرنا ہوں گی۔
یہ مال و دولت، ماں باپ، بہن بھائی ، اولاد، دوست و احباب یہ عہدے اور مناصب دنیا کی رونق ضرور ہیں،
﴿اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ (الكهف:46)
اور آپ کے لیے کسی حد تک اس دنیا میں کارآمد بھی ہو سکتے ہیں مگر جب آخرت کے ساتھ انہیں کمپیئر کرتے ہیں تو دنیا کی تمام نعمتوں کا نشہ کا فور ہو جاتا ہے۔
ذرا ان آیات کریمہ پر غور کر لیجئے:
﴿یَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَآءُ كَالْمُهْلِۙوَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِۙوَ لَا یَسْـَٔلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًاۚۖیُّبَصَّرُوْنَهُمْ﴾(المعارج:8۔11)
’’جس روز آسمان پکھلی ہوئی چاندی کی طرح ہو جائے گا، اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہو جائیں گے اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا ، حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے۔‘‘
دنیا میں تو کوئی شخص مشکل وقت میں اپنے کسی دوست کو کال کرتا ہے مگر وہ فون کے پاس موجود نہیں ہوتا تو اس کا بھرم رہ جاتا ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا مگر قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے، اس کے باوجود کوئی کسی کو نہ پوچھے گا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر
﴿یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِىِٕذٍۭ بِبَنِیْهِۙ۱۱ وَ صَاحِبَتِهٖ وَ اَخِیْهِۙ۱۲ وَ فَصِیْلَتِهِ الَّتِیْ تُـْٔوِیْهِۙ۱۳وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ۙ ثُمَّ یُنْجِیْهِۙ۱۴كَلَّا ؕ ﴾ المعارج: 11۔15)
’’مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو اپنے بھائی کو، اپنے قریب ترین خاندان کو، جو اسے پناہ دینے والا تھا، اور روئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اسے نجات دلا دے! ہرگز نہیں۔‘‘
اگر کوئی سمجھنا چاہے تو یہ آیات بہت واضح ہیں، ان کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں،
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين
…………………