تزکیہ و تربیت ضروری کیوں؟

﴿هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ۝﴾(الجمعة:2)
گذشتہ خطبات میں دین کی ضرورت کے حوالے سے بات ہو رہی تھی اور سبب اس کا یہ ہے کہ اس دور میں مسلمان دین سے اس قدر دور ہو چکے ہیں کہ وہ محض معمولی نوعیت کی غفلت و کوتا ہی نہیں رہی، بلکہ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بہت سے لوگ دین سے کھلے عام اپنی نفرت و بیزاری کا اظہار اور اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، بلکہ دین کی مخالفت کرتے اور اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہوئے نظر آتے ہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کچھ لوگ توسرے سے دین کی ضرورت سے ہی انکار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لہذا ضرورت یہ محسوس کی گئی کہ سب سے پہلے دین کی ضرورت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ تمہید کو طول دیئے بغیر آج کی گفتگو میں تربیت کی ضرورت کو سمجھنا چاہیں گے۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، تقریباً ایک مہینہ باقی ہے، رمضان المبارک تزکیہ وتربیت کا مہینہ ہے۔ تزکیہ و تربیت کیسے ہوتا ہے، اس کے فوائد و منافع کیا ہیں، یہ جاننے سے پہلے اُس کی ضرورت و اہمیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس کی ساخت اور ترکیب میں چار بنیادی اور اہم اجزاء شامل فرمائے ۔ اور وہ ہیں عقل ، دل نفس اور جسم ۔ انسان اپنی پیدائش کے وقت سے ان چاروں نا مکمل عناصر کے ساتھ اس دنیا میں اپناسفر شروع کرتا ہے، اللہ تعالی نے ان چاروں عناصر کو ایک چھوٹی سی شکل عطا کر کے جو کہ ساخت میں بھی چھوٹی اور امکانات کے لحاظ سے بھی چھوٹی ہے ان میں پھلنے پھولنے اور نشوونما پانے کی صلاحیت اور خاصیت رکھ دی ہے کہ وہ درجہ بدرجہ تکمیل کے مراحل طے کرتے جائیں اور ساتھ ہی ان کی نمو اور تکمیل کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق غذا بھی لازم کردی۔
مثلا: جسم کی نشوونما کے لیے جو کہ حجم میں شروع میں ننھا سا ہوتا ہے اس کے جسم کی ضرورتوں کے مطابق غذا بہم پہنچانا شروع میں لازم ٹھہرایا اور اس میں تسلسل ضروری قرار دیا۔ اگر انسانی جسم کو مسلسل غذا نہ ملے تو نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ جسم کمزوری اور نقاہت کا شکار ہو جاتا ہے، بیماریاں آتی ہیں، نشو نما رک جاتی ہے اور ہلاکت کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ تو جس طرح جسم کی نشوونما کے لیے اسے مناسب غذا کی فراہمی ضروری ہے، اس طرح اس کا تسلسل بھی ضروری ہے کہ غذا اور خوراک اسے مسلسل ملتی رہے، یہ نہیں کہ ایک بار غذا دے کر پھر ہفتے یا مہینے بعد دی جائے۔
اسی طرح اس کی شخصیت کے دیگر تینوں اجزاء کے لیے بھی اُن کی ضرورتوں کے مطابق غذا کا بہم پہنچایا جانا ضروری ہے، اور ان کا تسلسل بھی ضروری ہے، یعنی عقل ، دل اور نفس کے لئے۔ جس طرح انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اس کا جسم نحیف و ناتواں اور بے بس سا ہوتا ہے، اسی طرح وہ عقل جو ساتھ لے کر آتا ہے اس کا خزانہ بھی ہر قسم کی معلومات سے خالی ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْـًٔا ۙ ﴾ (النحل:78)
’’اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ اسی طرح دل بھی ہر قسم کی آلائشوں اور ہر قسم کی خواہشات سے خالی ہوتا ہے، بس ایک فطرت کی رہنمائی اور اس کا میلان اور رجحان اس میں ڈال دیا گیا ہوتا ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((مَا مِنْ مَوْلُودِ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطرة)) (صحیح بخاری:1357)
’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘
یعنی اپنے خالق و مالک پر ایمان کا فطری میلان اور رجحان اس کے دل میں ہوتا ہے۔ اور نفس بھی اپنی زندگی کا آغاز یوں کرتا ہے کہ اس میں خیر اور شر دونوں کو قبول کرنے کی صلاحیت اور قابلیت موجود ہوتی ہے۔
﴿وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا۪ۙ۝فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا﴾ (الشمس:7۔8)
’’اور قسم ہے نفس انسانی کی اور اس ذات کی جس نے اسے ہموار کیا، پھر اس کی بدی اور اس کی پر ہیز گاری کا اسے الہام کر دیا۔‘‘
جسم کی نشوونما کے لیے اسے جس توجہ اور غذا کی ضرورت ہوتی ہے، جس تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اسے نہیں دی جاتی مگر وہ پھر بھی نشو و نما پاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کی ضروریات کا احساس اور شعور ہم رکھتے ہیں، کیونکہ وہ بالکل ظاہر ہے، بھوک لگتی ہے تو کھانے کے لیے جد و جہد کرتے ہیں، جسم بیمار ہوتا ہے تو علاج کی فکر کرتے ہیں، یعنی اس کی ضرورتوں کے لیے بہت زیادہ اہتمام نہیں کرنا پڑتا، کیونکہ اس کی ضرورتیں ظاہر ہو جاتی ہیں، تو کام چلتا رہتا ہے۔
مگر عقل، دل اور نفس کا معاملہ مختلف ہے، ان کی ضروریات معنوی ہیں، ان کی غذا معنوی ہے، وہ نظر نہیں آتیں، ان کا شعور اور ادراک نہیں ہوتا اور ہماری طرف سے بھی اسے کوئی خصوصی توجہ نہیں دی جاتی، با قاعدہ اہتمام نہیں کیا جاتا، ان کے پاس اپنی غذا کے جو فطری راستے اور اختیارات موجود ہیں وہ ان سے کام لیتے ہوئے اپنی اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔ مثالا عقل کا خزانہ پیدائش کے وقت معلومات سے خالی ہوتا ہے اور معلومات حاصل کرنا عقل کی ضرورت ہے، اس کی غذا ہے لیکن جب ہم عقل کو معلومات فراہم کرنے کا اہتمام نہیں کریں گے تو اسے از خود جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ انہیں سے اپنا کام چلائے گی دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے۔ عقل کو از خود معلومات کیسے حاصل ہوتی ہیں؟
اللہ تعالی نے اس کے اسباب اور ذرائع بیان فرمائے ہیں، جب فرمایا کہ:
﴿وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْـًٔا ۙ ﴾ (النحل:78)
’’اللہ تعالی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ، اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔‘‘
اس کے بعد فرمایا:
﴿وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝﴾(النحل:78)
’’اُس نے تمہیں کان دیئے، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دیئے، اس لیے کہ تم شکر گزار بنو۔‘‘
تو کان جو کچھ سنتے ہیں ، آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں اور دل جو کچھ سوچتے ہیں اُن سے آدمی کے پاس معلومات جمع ہوتی رہتی ہیں، عقل کا خزانہ معلومات سے بھرتا چلا جاتا ہے، صحیح اور غلط کی تمیز کئے بغیر۔
تو انسان ادھر اُدھر سے جو کچھ سنتا اور دیکھتا ہے اس سے اس کی نشوونما ہوتی ہے اور انسان ادھر اُدھر سے جو کچھ دیکھتا اور سنتا ہے وہ کسی طرح کی معلومات ہوتی ہیں ؟ اکثر و بیشتر غلط اور فضول قسم کی معلومات ہوتی ہیں، غیر مفید ہوتی ہیں، بلکہ نقصان دہ اور تباہ کن ہوتی تی ہیں، عقائد و اخلاق کو تباہ و برباد کر دینے والی ہوتی ہیں عقل کے لیے ایک وائرس ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی نے عقل میں ہر قسم کی معلومات قبول کرنے کی قابلیت اور صلاحیت رکھ رکھی ہے اور فطری طور پر انسان کا میلان اور رجحان منفی قسم کی معلومات کی طرف ہی ہوتا ہے۔ انسانی عقل کو کسی طرح کی معلومات چاہئیں کہ وہ دنیا و آخرت کی زندگی میں کامیاب ہو؟ مفید معلومات۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ افکار و نظریات اور اخلاق و کردار کو تباہ و برباد کر دینے والی معلومات تو ایک طرف، آپ سے ہم نے تو غیر مفید معلومات سے بھی اللہ تعالی کی پناہ مانگی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺتشہد میں یہ دعاء مانگا کرتے تھے: ((اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبِ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ ، وَمِنْ دَعْوَةٍ لًا يُسْتَجَابُ لَهَا)) (مسلم ، کتاب الذكر والدعاء:2722)
’’اے اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو فائدہ مند نہ ہو اور ایسے دل سے تیری پناہ چاہتا ہوں جس میں ڈر اور خوف نہ ہو، (جس پر وعظ ونصیحت کا اثر نہ ہو) اور ایسے نفس سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو سیر نہ ہو، (جسے قناعت نصیب نہ ہو، جو حرص اور لالچ میں آکر حلال اور حرام کی تمیز کھو بیٹھے۔ ) اور ایسی دعا اور درخواست سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو سماعت کے قابل سماعت و قابل التفات نہ سمجھی جائے اور خارج کر دی جائے جسے شرف قبولیت حاصل نہ ہو۔‘‘
اس دعا میں کتنا بڑا پیغام اور کتنی بڑی حکمت سمو دی گئی ہے، غور فرمائیے کتنا اہم نقطہ بیان کیا گیا ہے، کہ زندگی بڑی محدود ہے اور اس کے مشاغل اور مصروفیات لا محدود ہیں، بے شمار اور ان گنت ہیں، لہذا ضروری ہے کہ انسان نہایت ہی مفید اور ضروری ضروری چیزوں کا انتخاب کرے۔
کسی دوست کا انتخاب کرنا ہو تو ایسے دوست کا انتخاب کرے جو اس کی حقیقی اور ابدی زندگی میں اس کے لیے فائدہ مند ہو، اور وہ کون ہو سکتا ہے؟ وہ متقی اور پر ہیز گار انسان جو دین پر چلنے والا ہو، اللہ سے ڈرنے والا ، جیسا کہ اللہ فرماتے ہے ہیں:
﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىِٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠۝۶۷﴾ (الزخرف:67)
’’اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے متقی لوگوں کے‘‘
قیامت کے دن صرف وہی دوستیاں باقی رہ جائیں گی جو دین داری کی بنا پر قائم تھیں، باقی سب ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے، بلکہ ایک دوسرے پر الزام ڈالنے اور اپنی جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔
تو قرآن پاک کی روشنی میں ہم آج اپنے کل کے دشمنوں کو پہچان سکتے ہیں۔ تو اس مختصر سی زندگی میں دوستوں کا انتخاب کرتا ہو تو ایسے دوستوں کا انتخاب کریں جو تمہیں نیکی کی ترغیب دیتے ہوں، حقیقی ہمدردی اور خیر خواہی کرتے ہوں۔
کسی کتاب کا انتخاب کرتا ہو تو ایسی کتاب کا انتخاب کریں جو مفید ہو۔ اگر تو اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہوتا تو جو چاہتے پڑھتے مگر چونکہ وقت بہت محدود ہے اور ذمہ داری بہت بڑی ہے اور موت دروازے پر کھڑی ہے، تو پھر لازمی ہے کہ ایسی چیز کا انتخاب کیا جائے جو ہماری
آخرت کے لیے مفید ہو۔
اگر کسی شخص کے گھر میں بہت بڑی لائبریری ہو، جس میں سینکڑوں اور ہزاروں کتا بیں ہوں اور ایک ہفتے بعد اس کا کوئی امتحان ہو، تو وہ اُن سینکڑوں اور ہزاروں کتابوں میں سے صرف اس کتاب کا انتخاب کرے گا جو اُس کے امتحان میں اس کے لیے مفید ہو، وہ امتحان
کہ جس میں کامیابی اُس کے روشن مستقبل کا پروانہ ہو۔
ایسی صورت حال میں کیا کوئی عقلمند شخص کسی ناول کی کتاب کا انتخاب کر سکتا ہے، اس دلیل کے ساتھ کہ وہ بھی تو کتاب ہی ہے، اس میں بھی تو معلومات ہیں۔ یقینًا نہیں، کیونکہ وہ کتاب تو ہے مگر مفید نہیں اور جو علم مفید نہیں اس سے آپ سے ہم نے اللہ تعالی کی پناہ مانگی ہے۔ تو بات ہو رہی تھی کہ عقل کو مفید معلومات فراہم کرنے کا اور اس کی غذا پہنچانے کا اگر اہتمام نہ کیا جائے تو وہ از خود ادھر اُدھر کی باتوں سے اپنا خزانہ بھر لیتی ہے اور پھر انہیں اپنی زندگی میں استعمال کرتی ہے اور ادھر اُدھر کی معلومات نہ صرف یہ کہ غلط ہوسکتی ہیں بلکہ اکثر غلط، غیر مفید بلکہ تباہ کن ہوتی ہیں۔ تو عقل کی تربیت اور تہذیب کا اگر اہتمام نہ کیا جائے گا تو وہ نہ صرف اس شخص کے لیے نقصان دہ ہوگا بلکہ معاشرے کے بگاڑ اور خرابی کا بھی سبب بنے گا۔
اسی طرح دل کو بھی اگر اس کی غذا پہنچانے کا بندوبست نہ کیا جائے، تو وہ بھی خواہشات کا امیر ہو جاتا ہے اور خواہشات کا اسیر اور غلام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی قانون اور کسی ضابطے کی پرواہ کئے بغیر جو جی میں آئے کر گزرتا ہے جس چیز کی رغبت ہوئی اس کی طرف چل دیئے ، حلال اور حرام کی تمیز اور احساس ختم ہو جاتا ہے، دل سخت ہو جاتا ہے اور کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی۔
ایسے ہی نفس کا معاملہ ہے، اس کے سامنے بھی فسق و فجور اور طغیان و سرکشی کے دروازے کھلے ہیں ، بے حیائی اور فحاشی اسے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اگر اس کی غذا اس کو نہ پہنچائی جائے اور اس کی تربیت کا اہتمام نہ کیا جائے تو وہ بے راہ روی اختیار کرتا ہے۔ تو ان باتوں سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ تزکیہ و تربیت کی ہمیں کسی قدر اشد ضرورت ہے ، تزکیہ و تربیت اور تہذیب نفس کے بغیر آدمی کی دنیا بھی تباہ ہو جاتی ہے اور آخرت بھی خراب ہو جاتی ہے۔
چنانچہ ایسے ہی لوگوں کا حال اللہ تعالی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جنہوں نے تزکیہ و تربیت کو نظر انداز کیا اور پس پشت ڈالا۔ فرمایا:
﴿وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ ۖؗ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا ؗ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا ؗ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا ؕ اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝﴾(الاعراف:179)
’’بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں کہ جنہیں ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ، اُن کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ، ان کے پاس کان تو ہیں مگر وہ اُن سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں۔‘‘
اب اس کا معنی یقینًا یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ Physically جسمانی طور پر اندھے اور بہرے اور مریضان قلب ہیں، وہ یقینًا د یکھتے ، سنتے اور سوچتے ہوں گے، مگر یہ اعضا جس کام کے لیے پیدا کئے گئے ہیں ان کے لیے استعمال نہیں ہوتے۔
اپنے خالق و مالک کی پہچان کرنا اور اس کے احکامات کو سننا اور اس کی آیات کا مشاہدہ کرنا اور ان پر غور کرنا ہی ان اعضا کی تخلیق کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ دنیاوی لحاظ سے تو یہ اعضا خوب خوب کام کرتے ہیں مگر ان کے حقیقی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوتے۔ انہیں ان کا صحیح استعمال سکھانا ہی تزکیہ و تربیت ہے اور تزکیہ و تربیت انسان کی بنیادی اور نہایت ہی اہم ضرورت ہے۔ اور اتنی اہم ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السلام کو، بالخصوص آپ سے کام کو جن ذمہ داریوں کے ساتھ مبعوث فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے، کہ:
﴿هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ۝﴾(الجمعة:2)
’’وہی ہے جس نے اُمیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے بھیجا، جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے، اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے ۔‘‘
بلکہ ایک دوسرے مقام پر اس بات کو اللہ تعالی نے ایک احسان کے طور پر ذکر کیا، فرمایا:
﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝﴾(آل عمران:164)
’’اہل ایمان پر تو اللہ تعالی نے یہ بہت بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر بھیجا جو اُس کی آیات انہیں سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘
تو تزکیہ و تربیت انسان کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ سب سے اہم ضرورت ہے اور تربیت اور تزکیہ نفس کا سب سے اہم رکن محاسبہ نفس ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺسے دریافت کیا کہ:
((وَمَا تَزْكِيَةُ النَّفْسِ ؟))
’’تزکیہ نفس کیا ہے؟‘‘
فَقَالَ: ((أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ مَعَهُ حَيْثُ كَانَ)) (السلسلة الصحيحة:1046- ج:3 ، ص:38)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: ’’آدمی یہ جان لے۔ یعنی اس بات پر پختہ یقین رکھے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو، اللہ تعالی اس کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘
جب اللہ تعالی کی معیت کا یقین ہو تو انسان خود احتسابی کرتا ہے جس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے۔
……………….