رمضان المبارک ماه تزکیہ و تربیت

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝۱۸۳﴾ (البقره:183)
رمضان المبارک ایک با سعادت، با برکت اور با فضیلت مہینہ ہے، جو کئی نسبتوں سے معروف و مشہور ہے، مثلا: رمضان المبارک شہر القرآن، یعنی قرآن پاک کا مہینہ ہونے کے نام سے مشہور ہے، کہ قرآن پاک سے اسے خصوصی نسبت حاصل ہے، کیونکہ اس مبارک مہینے میں قرآن پاک کا نزول ہوا!
﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾ (البقرة:185)
’’رمضان وہ مہینہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا (جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے۔ )‘‘
رمضان المبارک شہر التقوی بھی ہے، اس لیے کہ اس مبارک مہینے کا مقصد اور غرض و غایت تقوی کا حصول مقرر کیا گیا ہے۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝۱۸۳﴾(البقرة:183)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم میں تقوی پیدا ہو۔‘‘
رمضان المبارک شیر الصبر بھی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَذْهَبَ عَنْهُ وَحَرَ الصَّدْرِ فَلْيَصُمْ شَهْرَ الصَّبْرِ و ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهرٍ)) (مسند احمد:20615)
’’جو چاہے کہ اس کے سینے سے بغض، حسد، گینہ اور تمام کدورتیں دور ہو جائیں وہ شہر الصبر یعنی رمضان کے روزے رکھے اور ساتھ ہی ہر مہینے میں تین روزے رکھے۔‘‘
اور حدیث میں ہے کہ:
((صَوْمُ شَهْرَ الصَّبْرِ وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ يُذْهِبْنَ وَحَرَ الصدر)) (مجمع الزوائد:5184، البزار: 688)
’’ماه صبر یعنی رمضان المبارک کے روزے اور ہر مہینے کے تین روزے رکھنے سے سینے کی کدورتیں ختم ہو جاتی ہیں ۔‘‘
اور ہر مہینے جن تین دنوں کے روزے رکھنے کی دوسری احادیث میں ترغیب دی گئی ہے۔
انھیں ایام البیض کہتے ، اور وہ ہیں: قمری مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخیں۔ تو رمضان المبارک کو شہر العصر بھی کہا گیا ہے، یہ تو بہ واستغفار کا مہینہ بھی ہے مغفرت و بخشش کا مہینہ اور جہنم سے آزادی کا مہینہ بھی ہے اور قرب الہی کے حصول کا مبینہ بھی ہے۔ اسی طرح رمضان المبارک کو دیگر متعدد نسبتوں سے جانا جاتا ہے اور ان میں سے ہر ایک نسبت اپنی ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے۔
رمضان المبارک کو جن بہت سی نسبتوں سے پہچانا جاتا ہے اُن میں سے ایک جامع نسبت تزکیہ وتربیت کی ہے، کہ یہ مہینہ تزکیہ وتربیت کا مہینہ ہے۔
تزکیہ و تربیت کی تو انسان کو ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے اور وہ کسی نہ کسی صورت میں ہوتا ہی رہتا ہے، مگر رمضان المبارک تزکیہ و تربیت کے لیے ایک خصوصی پیکیج ہے اس لیے کہ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالی نے تزکیہ و تربیت کے تمام وسائل اور لوازمات مہیا کر رکھے ہوتے ہیں۔
تزکیہ و تربیت کے اس پیکیج کے بعض مندرجات ملاحظہ فرمائیے: انسان کے نیکی کی راہ میں حائل ہونے والے بہت سے عوامل میں سے دو سب سے بڑے عوامل ہیں شیطان اور انسان کا نفس۔
اور ان دونوں کو اپنا اپنا شر پھیلانے سے روک دیا جاتا ہے، شیطان کو اُس کی کارستانیوں اور گمراہ کن کارروائیوں سے روک دینے کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ حدیث میں ہے، آپ نے ﷺنے فرمایا:
((إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فَتحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أبواب جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ .)) (صحیح البخاری:1899)
’’فرمایا: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں ۔‘‘
تو تزکیہ و تربیت کی راہ میں ایک انتہائی خطرناک رکاوٹ کو دور کرنے کا یوں انتظام کیا گیا ہے، اور دوسری طرف خود انسان کا نفس جو کہ دین کی طرف راغب ہونے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بنتا ہے، اس کی شرارتوں سے بچانے کے لیے بھی اللہ تعالی نے پورا پورا بندوبست کر رکھا ہے اور وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے نیکی کی طرف راغب کرنے اور اس پر قائم رکھنے والے وسائل مہیا فرما رکھے ہیں۔ انسان کو نیکی کی طرف رغبت دلانے والے امور میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے دل میں نیکی کا ذوق و شوق پیدا کیا جائے اور اس پر اجر و ثواب اور انعام و اکرام بتلایا جائے، اور ایک ایسا ماحول دیا جائے کہ انسان بے ساختہ اس میں ڈھل جائے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ احادیث میں اس مبارک مہینے کے حوالے سے نیکیوں کا خوب ذوق و شوق پیدا کیا گیا ہے، رغبت دلائی گئی ہے اور اجر و ثواب ہلایا گیا ہے اور ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے، سحری، افطاری اور تراویح کی صورت میں کہ ہمارے جیسا ایک عام آدمی بھی خود بخود اس کی طرف کھچا چلا جاتا ہے اور روٹین سے ہٹ کر کچھ اضافی اذکار و وظائف کرنے لگ جاتا ہے، کبھی کچھ اضافی نوافل ادا کر لیتا ہے، اور کبھی کچھ تلاوت قرآن پاک کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ نفس انسانی جو کہ قطرنا برائی کی طرف کھینچ لے جانے والا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ؕ﴾(يوسف:53)
’’نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو جائے ۔‘‘
تو وہ نفس کہ جو فطرتًا انسان کو برائی پر اکساتا ہے اور جس میں پنہاں شر ایک حقیقت ہے، کہ جس سے آپﷺ ہر خطبے میں اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے یہ کہہ کر کہ:
((وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا))
’’اور ہم اپنے نفسوں کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں۔‘‘
اب وہی نفس ماحول کی وجہ سے نیکی کی طرف رغبت کرنے لگا ہے۔ تو تزکیه و تربیت نفس انسانی کے لیے رمضان المبارک کی صورت میں اللہ تعالی کی طرف سے دیئے گئے اس پیکیج میں ایک یہ چیز شامل ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں نیکیوں کا اجر ثواب پتلا کر ذوق و شوق اور رغبت و میلان پیدا کیا جائے۔
تو ملاحظہ کیجئے کہ اسلام کسی طرح اہل ایمان کے دلوں میں نیکی کا ذوق و شوق پیدا کرتا ہے، اگر چہ یہ احادیث مبارکہ آپ نے یقینًا پہلے کئی بار سن رکھی ہوں گی، مگر قرآن و حدیث میں یہ خوبی ہے کہ ان کو چاہے کتنی بار بھی سنیں ان میں چاشنی برقرار رہتی ہے، ان میں لذت اور حلاوت قائم رہتی ہے، یہ قند مکر رہے، یہ وہ مٹھاس ہے جس سے جی کبھی اکتا تا نہیں ہے، بشر طیکہ دلوں میں ایمان کی حرارت موجود ہو۔ اور نہ صرف یہ کہ بار بار سننے سے جی اکتا تا نہیں ہے بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ اسے سن کر اہل ایمان کے ایمانوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ۝﴾) (الانفال:2)
’’ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر سن کر ان کے دل لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔‘‘
تو ان احادیث میں ہے کہ جن کے ذریعے رمضان المبارک کی سعادتوں سے مستفید ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے، ایک یہ بھی ہے، جس میں ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
دَخَلَ رَمْضَانُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ((إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَكُمْ، وَفِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الخير كله، ولا يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلَّا مَحْرُومٌ)) (سنن ابن ماجه:1644، صحيح الجامع:2248)
’’حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یہ مہینہ جو تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یعنی قدر و منزلت کے اعتبار ہے۔ جو شخص اس کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا، نیز فرمایا: اس کی بھلائی سے صرف بے نصیب ہی محروم کیا جاتا ہے۔‘‘
ایک حدیث میں رمضان کے روزوں کی رغبت یوں دلائی گئی ، فرمایا: ((مَنْ صَامَ رَمْضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ)) (صحیح البخاری ، کتاب فضل ليلة القدر:2014)
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (یعنی دکھلاوے کے لیے نہیں) تو اس کے گذشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘
اسی طرح ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفَدَتِ الشَّيَاطِينُ ومردة الجن ، وَخُلِقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ ، فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقَ مِنْهَا بَابٌ ، وَنَادَى مُنَادٍ: يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ اقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ)) (سنن ابن ماجه:1642)
’’فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، اُن میں سے کوئی دروازہ کھلا نہیں رہنے دیا جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اُن میں سے کوئی دروازہ بند نہیں رہنے دیا جاتا۔ اور پکارنے والا پکار کر کہتا ہے: اے نیکیوں کے طالب! آگے بڑھ اور اسے برائیوں کے خواہاں! باز آجا۔ اور جہنم سے آزاد کردہ لوگ ہوتے ہیں یعنی رمضان میں لوگ جہنم سے آزاد کئے جاتے ہیں، اور ایسا ہر رات ہوتا ہے۔‘‘
تو ایک تو ایسی احادیث ہیں کہ جن میں انسان کو شوق ولا کر نیکیوں کی طرف مائل کیا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ احادیث بھی ہیں کہ جن میں بصورت دیگر برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے، جیسا کہ وہ مشہور حدیث کہ جس میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
((أَحْضُرُوا المنبر )) آپ ﷺنے ایک بار صحابہ کرام سے فرمایا: ’’منبر لاؤ‘‘
حضرب کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: ((فحضرنا)) ’’ہم منبر لے آئے۔‘‘
((فَلَمَّا ارْتَقَى دَرَجَةً قَالَ: آمين .))
’’ جب آپﷺ پہلی سیڑھی چڑھے تو فرمایا: آمین ۔‘‘
((فَلَمَّا ارتقى الدرجة الثانية قَالَ: آمين))
’’ پھر جب دوسری سیڑھی چڑھے تو فرمایا: آمین۔‘‘
((فَلَمَّا ارتقى الدرجة الثَّالِثَةَ ، قَالَ: آمِينَ))
’’اسی طرح آپﷺ جب تیسری سیڑھی چڑھے تو فرمایا: آمین ۔‘‘
((فَلَمَّا نَزَلَ ، قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعْنَا مِنْكَ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ نكُن نَسْمَعُه))
’’پس جب آپﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول سے آج ہم نے آپ سے ایسی بات سنی جو اس سے پہلے کبھی نہیں سنی۔‘‘
((قَالَ: إِنَّ جِبْرِيلَ عَرَضَ لِي ، فَقَالَ: بَعْدَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ، قُلْتُ آمِينَ))
’’آپ ﷺنے فرمایا: جبریل ایام میرے پاس آئے ، اور کہا: اس آدمی کے لیے ہلاکت ہے، جس آدمی نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنے گناہوں کی بخشش اور مغفرت حاصل نہ کر سکا، اس کے جواب میں میں نے کہا: آمین۔‘‘
((فَلَمَّا رَقِبْتُ الثَّانِيَةَ، قَالَ: بَعْدَ مَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ فَقُلْتُ آمِينَ ))
’’پھر جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل اینڈ نے کہا: ہلاکت ہے اُس آدمی کے لیے جس کے سامنے آپ لئے عام کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ پر ور دو نہ بھیجے، میں نے اس کے جواب میں کہا: آمین ۔‘‘
((فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّالِثَةَ، قَالَ: بَعدَ مَن أدرك أبويه الكبر عنده أو أَحَدُهُمَا فَلَمْ يُدْخِلاهُ الْجَنَّةَ ، قُلْتُ آمين)) (شعب الايمان:1572، المستدرك للحاكم، كتاب البر والصلة:7365)
’’پھر جب تیسری سیڑھی چڑھا تو جبریل علینڈ نے کہا: جس شخص نے اپنے ماں باپ، یا دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکا اُس کے لیے بھی ہلاکت ہو، میں نے اس کے جواب میں کہا آمین۔‘‘
آپ نے ملاحظہ کیا کہ ایک طرف تو احادیث میں خوشخبری دی جارہی ہے ، بخشش و مغفرت کا مژدہ سنایا جارہا ہے، لیلۃ القدر کی ایسی فضیلت بتائی جارہی ہے کہ جو انسان کی ایوریج عمر کی عبادت سے بھی بہتر ہے اور سب سے بڑھ کر روزے کا اتنا بڑا اجر و انعام بتایا جا رہا ہے جو کہ ایک سرپرائز ہوگا۔ مگر دوسری طرف کچھ بد نصیب انسانوں کے لیے جبریل عالی بدوعا کرتے ہیں اور رحمت العالمین ہے کہ ہم اس پر آمین فرما رہے ہیں یہ کیا ماجرا ہے اس میں حکمت کیا ہے؟ اس کی حکمت کو جاننے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ مگر سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ صحت عبادت کے لیے خوف اور رجاء دونوں کا ہونا ضروری ہے، یعنی اللہ تعالی کی گرفت کا ڈر اور خوف بھی ہو، اور اس کی رحمت کی امید در جاء بھی ہو، اور تیسری چیز محبت بھی ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ﴾ (البقرة:165)
’’ایمان والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله﴾ (آل عمران:31)
’’اے نبی لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
اسی طرح ڈر اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہی اصل عبادت ہے۔
خوف اور امید میں سے کوئی ایک پہلو دوسرے پر نسجا غالب ہو سکتا ہے، مگر دل ان میں سے کسی ایک کیفیت سے یکسر خالی نہیں ہو سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سا پہلو غالب ہونا چاہیے اور کون سا مغلوب ؟ تو اس میں اعتدال کی راہ یہ ہے کہ جہاں ڈر اور خوف کا موقع ہو وہاں خوف کا پہلو غالب ہو اور جہاں امید کا موقع ہو وہاں امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔ امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((السلف إسْتَحَبُّوا أَنْ يَقْوي فِي الصَّحَةِ جَنَاحُ الْخَوْفِ عَلَىجناح الرَّجَاءِ))
’’سلف صالحین کا طریقہ اس معاملے میں یہ رہا ہے کہ زندگی میں صحت و عافیت کی حالت میں ان پر خوف کا پہلو غالب رہا۔‘‘
((وَعِنْدَ الْخُرُوجِ مِنَ الدُّنْيَا يَقْوَى جَنَاحُ الرَّجَاءِ عَلَى جَنَاحِ الخَوْفِ ، )) (مدارج السالكين ، ج:1 ، ص: 513)
’’ اور دنیا سے کوچ کرتے وقت ان کا پسندید و طرز عمل یہ تھا کہ امید کا پہلو خوف کے پہلو پر غالب رہا۔‘‘
قرآن پاک میں متعدد مقامات پر خوف اور رجاء کو ایک ساتھ ذکر کیا گیا، جیسا کہ فرمایا:
﴿اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآىِٕمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ ؕ﴾ (الزمر:9)
’’کیا اُس شخص کی روش بہتر ہے کہ جب اس پر کوئی آفت آتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اسے پکارتا ہے پھر جب اس کا رب اسے نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے، یا اس شخص کی روش بہتر ہے جو مطیع و فرمانبردار ہے۔ رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت کی امید لگاتا ہے۔‘‘
اور ایک جگہ فرمایا:
﴿نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ۝۴۹
وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ۝۵۰﴾ ( الحجر:49۔50)
’’اے نبی! میرے بندوں کو خیر دے دو کہ میں غفور الرحیم ہوں ، مگر میرا عذاب بھی نہایت درد ناک عذاب ہے۔‘‘
اسی طرح دیگر آیات بھی ہیں۔
ہم اگر اپنی حالت کو دیکھیں تو شاید ہم پر امید کا پہلو غالب ہے اور وہ بھی غلط معنوں میں امید کا مطلب تو یہ ہے کہ کچھ کر کے امید لگائی جائے مگر ہم کچھ کئے بغیر امید قائم کئے ہوئے ہیں، اور دوسری طرف ڈر اور خوف کو سرے سے نظر انداز کر رکھا ہے، حالانکہ حدیث
میں ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
((وَعِزَّتِى))
’’مجھے میری عزت کی قسم ‘‘
((لَا أَجْمَعُ عَلَى عَبْدِى خَوْفَيْنِ ، وَاَمْنَيْنِ))
’’میں اپنے بندے پر دو خوف جمع کروں گا اور نہ دو امن جمع کروں گا۔‘‘
((إِذَا خَافَنِي فِي الدُّنْيَا أَمَنَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))
’’اگر وہ دنیا میں مجھ سے ڈرتا رہا تو قیامت کے دن اسے ضرور امن دوں گا۔‘‘
((وَإِذَا أَمِتَنِي فِي الدُّنْيَا أَخَفْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) (ابن حبان:640))
’’اور اگر دنیا میں مجھ سے بے خوف رہا تو قیامت کے دن اس پر ضرور خوف مسلط کروں گا۔‘‘
اب آیئے تھوڑا سا ذکر کرتے چلیں اُس بات کا کہ ایک طرف تو خوشخبریاں دی جا رہی ہیں اور دوسری طرف شدید ڈانٹ پلائی جارہی ہے!
بات سیدھی کی ہے کہ ایک بندے کے لیے اتنا کچھ کیا جا رہا ہے بڑے بڑے انعامات دیئے جا رہے ہیں، اس کی مغفرت و بخشش کے لیے ہر قسم کے وسائل اور ذرائع مہیا کر دیئے گئے ہیں، شیطانوں کو جکڑ دیا جہنم کے دروازے بند کر دیئے ، جنت کے دروازے کھول دیئے، ایک نیکی کا ماحول دے دیا، صحت دی ، عقل دی ، فراغت دی، ایمان کی نعمت دی، مگر پھر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا! اور حال یہ ہے کہ:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
رہ دکھلائیں کسے کوئی رہ رو منزل ہی نہیں
وہ اللہ تعالی کی ان نعمتوں اور عنایتوں ، نوازشوں اور کرم فرمائیوں کو قابل التفات نہیں سمجھتا، چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:۔
﴿وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَ لٰكِنَّهٗۤ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ﴾ (الاعراف:176)
’’ ہم چاہتے تو اسے اوپر اٹھاتے مگر وہ تو زمین کے ساتھ چپک کے ہی رہ گیا! وہ اٹھنا چاہتا ہی نہیں۔‘‘
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسی بدنصیبی سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
……………….