رمضان المبارک میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

﴿فَفِرُّوا إِلَى اللهِ إِنِّي لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِين﴾ (الذاريات:50)

’’ پس تم اللہ کی طرف دوڑ و یقینًا میں اس کی طرف سے تمھارے لیے ایک کھلا ڈرانے والا ہوں ۔‘‘

ماه رمضان، یہ ماہ مبارک کہ جس سے آج کل ہم گزر رہے ہیں اس کے بابرکت و سعادت ایام اور ساعات ولمحات بڑی تیزی سے گزرتے ہوئے دو عشرے قصہ پارینہ اور با ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، کل سے تیسرا اور آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے۔ وقت کا تیزی سے گزرنا ایک بہت بڑی حقیقت ہے اگر چہ خصوصی طور پر اس کا شمار علامات قیامت میں ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا:

((لا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ))

’’قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ زمانہ قریب آجائے گا وقت جلدی جلدی گزرنے لگے گا۔‘‘

((فَتَكُونُ السَّنَةُ كَالشَّهْرِ))

’’سال مہینے کے برابر ہو جائے گا۔‘‘

((وَيَكُونُ الشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ))

’’مہینہ ہفتے کے برابر ہو جائے گا۔‘‘

((وَتَكُونُ الْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ))

’’ور ہفتہ دن کی طرح گزرنے لگے گا۔‘‘

اور((وَيَكُونُ الْيَوْمُ كَالسَّاعَةِ))

’’اور دن گھنٹے کی طرح‘‘

((وَتَكُونُ السَّاعَةُ كَاحْتِرَاقِ السَّعَفَةِ الخُوصَةِ)) (ابن حبان:6842)

’’اور گھنٹہ کھجور کی شاخ کے خشک پتوں کے جلنے کے وقت کی طرح گزر جائے گا۔‘‘

 تو تقارب الزمان، وقت کا قریب آ جانا ایک حقیقت ہے اور اُس کی ایک شکل ہم گاڑیوں اور جہازوں اور ریڈیو اور ٹی وی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں، البتہ اس کی وہ محسوس شکل کہ سال مہینے کی طرح اور مہینے جنتوں کی طرح گزرنے لگیں تو وہ ابھی باقی ہے اور وہ بھی ناممکن ومستحیل نہیں ہے، جیسا کہ دجال کے بارے میں احادیث میں مذکور ہے کہ ایک بار آپﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم نے مزید تکمیل جاننے کی غرض سے عرض کیا:

((يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا لَبْثُهُ فِي الأَرْضِ ؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ يَوْمًا، يوم كَسَنَةٍ، وَيَوْم كَشَهْرٍ، وَ يَوْمَ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ))

’’اے اللہ کے رسول سے اہم وہ زمین میں کتنا عرصہ رہے گا ، تو آپﷺ نے فرمایا: چالیس دن ، ایک دن ایک سال کا اور ایک دن ایک مہینے کا ، اور ایک دن ایک جمعے کا ، اور اس کے باقی ایام تمھارے دنوں کی طرح ہوں گے ۔‘‘

قلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمِ؟ قَالَ: ((لَا ، أُقْدَرُوا لَهُ قَدْرَهُ)) (صحیح مسلم:2937)

’’ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! وہ دن جو ایک سال کے برابر ہو گا۔ کیا اس میں ہمیں ایک دن کی نماز میں کافی ہوں گی ؟ تو آپﷺ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ اس کے اوقات کا اندازہ لگاؤ۔‘‘

 تو دجال دنیا میں چالیس دن رہے گا، جن میں سے اُس کا پہلا دن ایک سال کے برابر ہوگا، دوسرا دن ایک مہینے کے برابر، اور تیسرا دن ایک ہفتے کے برابر اس کے بعد باقی 37 روز عام دنوں کی طرح ہوں گے، تو وقت حسی طور پر لمبایا چھوٹا ہو سکتا ہے۔

﴿وَمَا ذٰلِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيز﴾ (ابراهيم:20)

’’اور ایسا کرنا اللہ کے ہاں کچھ بھی دشوار نہیں ہے۔‘‘

اور وقت اس تیزی سے اگر نہ بھی گزرے تو بھی تیز ہی منصور ہوگا، کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ((كُلُّ ما هو آت قریب)) ’’ہر وہ چیز جو حتمی طور پر آکر رہنے والی ہو قریب ہوتی ہے‘‘  اُس کا دورانیہ چاہے ہزاروں سال پر محیط ہو وہ قریب ہی شمار کی جائے گی۔ یہ انسان کی تمام نہیں ہے کہ وہ ایک طویل مدت کو دور سمجھ بیٹھتا ہے اور اس کے نتائج چونکہ فوری طور پر ظاہر ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے، چنانچہ وہ اُن کی طرف سے غافل ہو جاتا ہے اور ایسی غفلت کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی بے راہ روی کے نتائج اور انجام کو سرے سے ہی فراموش کر بیٹھتا ہے، ذہن سے نکال دیتا ہے، مگر اس کے فراموش کر دینے اور ذہن سے نکال دینے سے حقیقت مل نہیں جاتی۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوةٍ ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا ۛۚ یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ ۚ وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠۝۹۶﴾ (البقره:96)

’’تم انھیں یعنی یہودو کو سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے حتی کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھتے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیئے ، حالانکہ لمبی عمر اسے عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی ۔‘‘

تو جب لمبی عمر کا نتیجہ بھی وہی رہنے والا ہے، جو مختصر عمر کا ہے تو پھر لمبی عمر کے دھو کے میں آکر اس سے غفلت و اعراض کیوں اور عمل میں کوتاہی کیوں! وقت جب نارمل طریقے سے معمول کے مطابق گزر رہا ہو تو اس میں کسی سستی اور کوتاہی کا آدمی متحمل نہیں ہو سکتا، اس میں کاہلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ، چہ جائیکہ وقت نسبتا تیزی سے گزر رہا ہو، اوسط عمر جو کہ ساتھ اور ستر سال کے درمیان ہے سے تجاوز کر چکا ہو تو تلافی مافات کا جو سنہری موقعہ رمضان المبارک کی صورت میں دستیاب ہے اُس سے کوئی منظمند آدمی کیسے صرف نظر کر سکتا ہے، اُسے پس پشت ڈالتے ہوئے دنیا میں کیسے مگن ہو سکتا ہے۔ وقت کو نیمت جاننا عقل مند آدمی کا سرمایہ حیات ہے اور بالخصوص جب کسی موقعہ غنیمت کی اہمیت کو نہایت ہی پر زور انداز میں بیان کیا گیا ہو، کوئی عقل مند انسان کسی طرح نظر انداز کر کے دنیا میں کھو سکتا ہے!

رمضان المبارک کی اہمیت کن زور دار الفاظ میں بیان کی گئی ہے آپ نے یقینًا بہت بار سنی ہوگی ، ایک بار پھر سنئے اور غور کیجئے کہ ماجرا کیا ہے: جبریل علیہ السلام ایسے شخص کے لیے بددعا کر رہے ہیں جو رمضان المبارک سے یوں استفادہ نہ کر سکے کہ جس سے اپنے آپ کو بخشوا سکے اور مغفرت حاصل کر سکے اور آپ سے عوام اس پر آمین فرما رہے ہیں۔

کیا اب بھی رمضان المبارک کی اہمیت سمجھ نہیں آئی یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے؟

اس مبارک مہینے کے دو عشرے گزر چکے ہیں، ہم نے اُن میں کیا کھویا اور کیا پایا ، اگر ہم رمضان المبارک سے استفادے کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس کا جائزہ لینا ہوگا اور اُس کے مطابق آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔

تو خیر ہماری مجموعی طور پر جو حالت ہے اُس سے ہم سب آگاہ ہیں ، سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہے؟ اس قدر بھر پور ترغیب کا اور شدید وعید اور ترہیب کا ہم پر اثر کیوں نہیں ہوتا ؟ تو اصل بات یہ ہے کہ جسے جانے بغیر کوئی چارہ نہیں ، ہم چیں بجبیں ہوں، یا چون و چرا کریں، اسے جاننا ضروری ہے اگر ہم رمضان المبارک سے استفادے کے لیے مخلص ہوں تو اور وہ یہ ہے کہ ہمارے دل سخت ہو چکے ہیں اور دلوں کی سختی بہت بڑی بدبختی ، بدنصیبی اور محرومی ہے۔ اور دلوں کی سختی کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ دل وعظ ونصیحت سے اثر نہیں لیتے، عبادات خشوع و خضوع سے عاری ہوتی ہیں۔

ہم اگر اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنی اپنی کیفیت جاننا چاہیں تو سب کچھ عیاں ہو جائے گا اور ہم اپنی خوبیوں اور خامیوں کو خوب جان سکیں گے۔ مگر کسے پڑی ہے کہ وہ اپنی دنیا کی زندگی اور معمولات زندگی کا مزد کر کرا کرے اور رنگ میں بھنگ ڈالے اور وہ جو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے اسے بے مزہ کر لے۔ دلوں کی سنگینی تمام تر برائیوں کی جڑھ ہے، اور اللہ کے قرب اور تقوی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور دلوں کی نرمی اور رقت ہر قسم کی خیر اور بھلائی اور تقوی کے حصول کا اک ذریعہ ہے۔

دلوں کی نرمی اور سلامتی حقیقی کامیابی کے لیے لازم اور مطلوب و مقصود ہے کہ:

﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ۝اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ۝﴾ (الشعرا:88۔89)

ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے الفاظ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں یوں ذکر فرمائے ہیں کہ ﴿وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ﴾

’’ اور مجھے اُس دن رسوا نہ کرنا جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے‘‘﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ﴾

’’ کہ جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نه اولاد ‘‘

﴿ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ۝﴾ ’ سوائے اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔‘‘

 تو دلوں کی سلامتی قیامت کے روز واحد ذریعہ نجات ہوگا اس لیے دلوں کی حفاظت صفائی ستھرائی اور پاکیزگی اور سلامتی کی فکر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہونا چاہیے۔

متعدد آیات و احادیث میں اس کی اہمیت کو خوب خوب اجاگر کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿أَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ﴾ (الزمر:22)

’’وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالی نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے پس وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے۔‘‘

یعنی جس کا سینہ تنگ ہے، پتھر کی طرح سخت ہو چکا ہے جو اسلام کی باتوں اور نصیحتوں کو قبول نہیں کرتا، کیا وہ ایک جیسے ہو سکتے ہیں، یقینًا نہیں۔

چنانچہ پھر ایسے دل والوں کے لیے وعید بیان کرتے ہوئے فرمایا:

﴿ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ؕ﴾ ’’تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے ہیں ۔‘‘

 اور ایک مقام پر دلوں کی سختی کی مذمت کرتے ہوئے اور اہل ایمان کو اس سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا:

﴿ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ۝۱۶﴾ (الحديد:16)

’’کیا اہل ایمان کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پکھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں! اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی ، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزرگئی تو ان کے دل سخت ہو گئے ۔‘‘

یعنی اہل کتاب کی بے حسی، دل کی مردنی اور اخلاق کی پستی پر جب ایک مدت گزرگئی اور انھوں نے اپنی اصلاح کی فکر اور کوشش نہ کی تو اُن کے دل سخت ہو گئے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سینوں میں اپنے دلوں کو ٹولیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں دل سخت تو نہیں ہو گئے!

دلوں کی سختی کی بہت سی اور واضح علامات ہیں، اُن میں سے چند ایک پر ہی غور کر لیجئے، معاملہ کھل کر سامنے آجائے گا۔

اللہ کا ذکر اور اس کا کلام سن کر اور وعظ ونصیحت سن کر کبھی دل میں رفت پیدا ہوئی اور آنکھوں سے آنسو ٹپکے؟

٭ کبھی کسی یتیم کو دیکھ کر سینے سے درد بھری آہ نکلی؟

٭ کبھی کسی مظلوم و بے بس اور کسی تکلیف میں مبتلا شخص کو دیکھ کر دل میں شفقت و رحمت نے جوش مارا؟

٭ کبھی اللہ کے عذاب سے ڈر کر رونگٹے کھڑے ہوئے اور جسم میں کپکپی طاری ہوئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے؟

٭ اور اگر وقفے وقفے سے دل پر ایسی کیفیت طاری نہیں ہوتی تو پھر جان لیجئے کہ دل سخت ہو چکے ہیں لہذا اب ان کے علاج کی فکر کیجئے۔

اور علاج سے پہلے دل کی سختی کے اسباب جانا بھی ضروری ہے تا کہ ان سے اجتناب کر سکیں۔ دلوں کی تختی کا ایک عمومی سبب تو کثرت ذنوب و معاصی ہے جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿كَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰى قُلُوبِهِمْ مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ (المطففين:14)

’’ہرگز نہیں! بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔‘‘

اور ایسے ہی حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ ذَنْبًا كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ))

’’بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔‘‘

((فَإِنْ تَابَ وَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُهُ))

’’اگر وہ توبہ کرلے، گناہ ترک کردے اور استغفار کرے تو اُس کا دل صیقل ہو جاتا ہے قلعی ہو جاتا ہے۔‘‘

((وَإِنْ زَادَ زَدَاتْ حَتّٰى يَعْلُو قلبه))

’’لیکن اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے تو پھر وہ نقطہ اور دھبہ پورے دل پر چھا جاتا ہے۔‘‘

((فذلك الران الذي ذكر الله في كتابه)) (المستدرك للحاكم: 3908، الترغيب والترهيب:120/4)

پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے۔‘‘

تو یہ دلوں کی سختی کا ایک عام سبب ہے، مگر دلوں کی سختی کے تفصیلی اسباب میں سے چند یہ ہیں:

٭ نماز با جماعت کی پابندی اور اہتمام نہ کرنا۔

٭ قرآن پاک کی تلاوت نظر و تدبر کے ساتھ نہ کرنا۔

 ٭ حرام کا روبار میں ملوث ہوتا۔

٭ دنیا کی رونق اور رعنائیوں میں کھو جانا اور موت اور آخرت کو فراموش کر دینا۔

اور اس طرح کے اور بہت سے اسباب ہیں جو دلوں کی تختی کا باعث بنتے ہیں۔ اور اگر قسوت قلبی کے علاج کی بات کریں تو سب سے پہلے تو اُن باتوں کو ترک کرنا ہوگا جو دلوں کی تختی کا باعث بنتی ہیں اور پھر اس کے بعد ہر نیک کام دلوں کی تختی دور کرنے اور انھیں نرم کرنے کا سبب بنتا ہے اور ظاہر ہے فرائض کی ادائیگی اور محرمات سے اجتناب کے بعد ور نہ اگر فرائض کو نظر انداز کر رہے ہوں، محرمات کا ارتکاب کر رہے ہوں اور کچھ نیک کام کر کے سمجھنے لگیں کہ اب ہم دین دار ہو گئے ہیں اور اب ہمارے دل سخت نہیں مار ، ہے تو اس طرح ایک بہت بڑے دھوکے میں مبتلا ہوں گے۔

فرائض کی ادائیگی اور حرام کاموں سے اجتناب کے بعد چند خصوصی اعمال دلوں کو مزید صاف ستھرا بناتے ، ان کا زنگ دور کرتے اور انھیں نرم کرتے ہیں۔

ان میں سے چند یہ ہیں:

٭ تفکر و تدبر کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔

٭ رات کی تاریکی میں قیام اللیل کرنا، اور خشوع و خضوع کے ساتھ تہجد پڑھنا۔

٭ کثرت سے صدقہ خیرات کرنا ۔

 ٭ صبح و شام کے اذکار پابندی اور اہتمام کے ساتھ پڑھنا۔

٭ اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا۔

اور موت کو یاد کرنا تو گویا سب سے زود اثر عمل ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:

((أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللذَّاتِ ، يعنى الْمَوْتَ)) (سنن ترمذی:2307)

’’فرمایا: لذتوں کو چکنا چور کر دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔‘‘

 اور جب دنیا کی لذتیں چکنا چور ہو جاتی ہیں تو پھر دل ہر قسم کی آلائش سے صاف ہو جاتے ہیں۔

نماز با جماعت کے اہتمام کے بعد ہر نیکی انسان میں تقوی پیدا کرنے اور دلوں کو نرم کرنے کا سبب بنتی ہے، ان میں سے ایک عمل کا خصوصی طور پر آپﷺ نے ذکر فرمایا:

حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اس روایت کرتے ہیں: ((أَنَّ رَجُلًا شَكَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَسْوَةَ قَلْبِهِ ))

’’ایک شخص نے آپ ﷺسے اپنے دل کی تختی کی شکایت کی ۔‘‘

(فقال): تو آپﷺ نے فرمایا:

((اِمْسَحْ رَأْسَ اليتيم وَأَطْعِمِ الْمِسْكِينَ))

(مسند احمد:9018 ، الترغيب والترهيب:316/3)

’’یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو، اور مسکین کو کھانا کھلاؤ۔‘‘

 مسکین کو کھانا کھلانے سے دل میں ایک بشاشت ، فرحت اور تازگی پیدا ہوتی ہے، مسرت حاصل ہوتی ہے اور مزید نیکی کی رغبت پیدا ہوتی ہے جو کہ دل کی نرمی کا باعث بنتی ہے یہ تو ہم جانتے اور محسوس کرتے ہیں اگر چہ ان الفاظ کے ساتھ نہ بھی جانتے ہوں ، مگر یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے میں کیا کیا حکمتیں ہیں اس پر ایک بڑی دلچسپ تحقیق سامنے آئی ہے۔

از راه ہمدردی اور خیر خواہی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا ایک ہمدردی اور خیر خواہی کی علامت ہے اور اس کا ایک اجر وثواب بھی ہے اور اس سے بچے کو ایک قسم کے تحفظ، ہمدردی اور خیر خواہی کا احساس ہوتا ہے، یہ تو ہم جانتے ہیں مگر اس کا فزیکلی بچے کی جسمانی نشو و نما پر اور اس کی قوتوں اور صلاحیتوں پر اثر ہوتا ہے اور بہت واضح اثر ہوتا ہے اس کا شاید ہم سے اکثر لوگوں کو علم نہ ہو۔

دوسری جنگ عظیم میں یتیم شیر خوار بچوں پر ایک تحقیق کی گئی، ان میں سے جن بچوں کو نرسز یا کسی اور ٹیک کیئر کرنے والوں کی طرف سے از راہ شفقت سر پر ہاتھ پھیرا جاتا، یا گلے لگایا جاتا وہ بچے اُن بچوں کے مقابلے میں جنھیں اس طرح کی نگہداشت حاصل نہ رہی۔  ان کا وزن 48فیصد زیادہ رہا، ان کا نروس سسٹم جلدی میچور ہوا، وہ زیادہ ایکٹیو ر ہے اور بیماریوں سے جلد صحت یاب ہوتے رہے اور بڑے ہونے کے بعد ان کے عقلی اور نفسیاتی ٹیسٹ بھی دوسروں کی نسبت بہتر آئے ۔ اور اسی طرح اس تحقیق کے بعد اس موضوع پر مزید تحقیقات بھی ہوئیں تو دلوں کی تختی دور کرنے کی بات ہو رہی تھی ، دلوں کی سختی اگر دور ہو تو شاید ہمیں رمضان المبارک کی اہمیت سمجھ میں آجائے۔

رمضان المبارک کی آمد سے چند جمعے پہلے سے رمضان المبارک کی اہمیت سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں، ایمان کو بڑھانے اور برانگیختہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، ایمان کا درجہ بلند کئے بغیر مقصد رمضان حاصل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس کے لیے وہ آیات واحادیث ذکر کیں کہ جو دلوں کو نرم کردیں، خون کو گرم کر دیں، جذبات کو بھڑ کا دیں، شعور پیدا کر دیں، احساس جگا دیں اور اللہ کے حضور سر جھکا دیں، مگر لگتا ہے شاید زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ خیر اب بھی وقت ہے، آپ جانتے ہیں کہ آپﷺ آخری عشرے میں خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ راتوں کو جا گنا، اپنے اہل خانہ کو جگانا اور تیز ہواؤں سے بڑھ کر سخاوت کرنا۔ ہم اگر رمضان المبارک سے استفادہ کرنے کے خواہشمند ہوں تو اب بھی موقع ہے۔

لیلۃ القدر ا بھی باقی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

………………….