حکمت کی اہمیت و ضرورت

﴿یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۶۹﴾ (البقرة:269)
گذشتہ جمعے بات ہورہی تھی کہ با عزت و باوقار، پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے حکمت کا ہونا ضروری ہے اور حکمت کے بغیر زندگی بہت کٹھن اور دشوار اور الجھنوں اور پریشانیوں کا شکار ہوتی ہے، بے مزہ اور بے مقصد ہوتی ہے، نہ فرائض کی پرواد ، نہ حقوق کی فکر، نہ انجام کا غم ، بس جو جی میں آئے کر گزرنے کی لگن ہوتی ہے، چھینا جھپٹی، لوٹ مار اور دھوکہ دہی طرز معیشت ہوتا ہے، دھینگا مشتی، لڑائی جھگڑا اور جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا معیار طرز معاشرت ہوتا ہے، نہ ہمدردی، نہ خیر خواہی، نہ شفقت و رحمت، بس لابی و خود غرضی ایسے آدمی کا وتیرہ ہوتا ہے۔
حکمت کی ضرورت و اہمیت سمجھ آجانے کے بعد انسان کو اُس کی محرومی پر فکر مند ہونا چاہیے اور اُس کے حصول کی سعی و جد و جہد کرنی چاہیے۔
تا ہم جب تک ہمیں حکمت حاصل نہیں ہو جاتی بلکہ اگر حاصل ہو بھی جائے تو بھی ہمیں سلف صالحین رحمہم اللہ کے پر حکمت اقوال وافعال اور واقعات سے مستفید ہو کر اپنی زندگیوں کو خوشگوار بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
سلف صالحین رحمہم اللہ کے اخلاق و آداب اور علم و حکمت سے بھر پور حالات و واقعات ہمارے لیے کس قدر مفید اور اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ قرآن وحدیث میں ہمیں اس کی ترغیب دی گئی ہے، کہ ہم ان لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی اللہ تعالی سے دعا مانگیں کہ جن پر اللہ تعالی کا انعام ہوا ہے، اور انبیا و رسل علیہم السلام یقینًا ان کے سرفہرست ہیں۔
چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((الْحِكَايَاتُ عَنِ الْعُلَمَاءِ وَمَحَاسِبُهُمْ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كَثِيرٍ مِنَ الْفِقْهِ ، لِأَنَّهَا آدَابُ الْقَوْمِ)) (ترتيب المدارك وتقريب المسالك ، ج:1، ص:23)
’’علماء کرام کے حالات و واقعات، اُن کی حکایتیں اور خوبیاں جانا مجھے بہت زیادہ علم فقہ سے زیادہ محبوب ہیں ، کیونکہ وہ ان کے آداب و اخلاق ہیں ۔‘‘
تو عمومی طور پر گذشتہ زمانوں اور گذشتہ قوموں کے حالات و واقعات کا علم کہ جسے تاریخ کہا جاتا ہے، بہت مفید علم ہے، اُس سے انسان کی اداسی، اکتاہٹ اور وحشت دور ہوتی ہے، عبرت و نصیحت حاصل ہوتی ہے، مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے میں مدد ملتی ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ:
اِقْرَوُوا التاريخ إِذْ فِيهِ الْعِبَر
ضَلَّ قَوْمٌ لَيْسَ يَدْرُونَ الْخَبَرْ
’’تاریخ کا مطالعہ کرو کہ اس میں بڑی عبرتیں ہیں، جو قوم تاریخ سے آگاہی نہیں رکھتی وہ بھٹک جاتی ہے۔‘‘
قرآن پاک میں گذشتہ قوموں کے واقعات بیان کئے گئے اور پھر ان کے فوائد بتلائے گئے ہیں کہ گذشتہ قوموں کے قصے بیان کرنے میں کیا فوائد اور حکمتیں ہیں۔
تو عمومی طور پر گذشتہ قوموں کے حالات و واقعات جاننے سے بہت فوائد حاصل ہوتے ہیں، مگر بالخصوص سلف صالحین علیہم السلام کے حالات زندگی جان کر اُن کے صفات حمیدہ اور اخلاق عالیہ کی طرف دل میں میلان اور رجحان پیدا ہوتا ہے، انہیں اپنانے کا جذبہ اور شوق پیدا ہوتا ہے
گذشتہ ادوار کے حالات جاننے کے حوالے سے سب سے اہم دور آپ ﷺ کا دور مبارک ہے، جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:
((خَيْرُ الْقُرُونَ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ)) (صحيح البخاري:2652)
’’سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر جو اس سے متصل اور پھر جو اُس سے متصل ‘‘
آپ ﷺکے زمانے میں، آپ ﷺکے اقوال و افعال جو کہ سنت کہلاتے ہیں، سراسر خیر اور بھلائی اور حکمت ہیں اور وہ ہر دور کے لیے خیر اور بھلائی اور حکمت ہیں۔ اور حکمت تو آپ سے کلام کے فرائض منصبی میں بالخصوص شامل ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے آپﷺ کے فرائض منصبی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ﴾ (الجمعة:2)
’’آپ سے کم لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔‘‘
ایسے ہی دیگر انبیاء و رسل علیہم السلام کے اقوال و افعال بھی پر از حکمت ہیں کہ انہیں بھی اللہ تعالی نے حکمت سے نوازا تھا، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
﴿فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا۝۵۴﴾ ( النساء:54)
’’ہم نے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم سے نوازا۔‘‘
تو ان کے پر حکمت اقوال و افعال اور فیصلے بھی ہمارے لیے ذخیرہ ہدایت و رہنمائی ہیں، ان میں سے ایک کا سرسری طور پر ذکر کرتا چلوں۔
حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا:
((كَانَتِ امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا جَاءَ الذِئْبُ فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا))
’’ دو عورتیں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بچے کو اٹھا کر لے گیا۔‘‘
((فَقَالَتْ لِصَاحِبَتِهَا إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ))
’’اس نے اپنی ساتھی عورت سے کہا کہ بھیڑ یا تیرے بچے کو لے گیا ہے۔‘‘
((وَقَالَتِ الْأُخْرَى إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ))
’’دوسری عورت نے کہا: وہ تو تیرا بچہ لے گیا ہے۔‘‘
((فَتَحَاكمتا إلى داود عَلَيْهِ السَّلَامُ))
’’وہ فیصلہ داؤ و علیہ السلام کے پاس لے گئیں ۔‘‘
((فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى فَخَرَجَتَا عَلَى سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَلَيْهِمَا السلام))
’’انھوں نے بڑی کے حق میں فیصلہ دیا تو وہ دونوں سلیمان بن داود علیہما السلام کے پاس گئیں ۔‘‘
((فَأَخْبَرَ تَاهُ ))
’’اور انھیں واقعہ کی خبر بتائی۔‘‘
((فَقَالَ ائْتُونِي بِالسِّكِينِ أَشُقَّهُ بَيْنَهُمَا))
’’تو سلیمان علیہ السلام نے کہا: میرے پاس چھری لاؤ میں لڑکے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کو ایک ایک دوں ۔‘‘
((فَقَالَتِ الصغرى: لا تَفْعَلْ يَرْحَمُكَ اللهُ، هُوَ ابْنُهَا))
’’اس پر چھوٹی عورت بولی کہ اللہ آپ (عالی) پر رحم کرے ایسا مت کیجیے یہ بڑی ہی کا بچہ ہے۔‘‘
((فَقَضَى بِهِ لِلصغرى)) (صحيح البخاري:6769)
’’تو انھوں نے فیصلہ چھوٹی کے حق میں کر دیا ۔‘‘
تو انبیاء علیہم السلام کے اقوال وافعال تو یقینًا پر حکمت ہیں ہی، جن کا ذکر ان شاء اللہ بعد میں کریں گے، مگر سب سے پہلے ایک ایسی شخصیت کا ذکر کرنا چاہیں گے جو نبی تو نہیں ہیں مگر اللہ تعالی نے خصوصی طور پر انہیں حکمت سے نوازنے کا ذکر فرمایا ہے اور وہ ہیں حضرت لقمان علیہ السلام۔
لفظ علیہ السلام اگر چہ ے لیے خاص ہے اور کسی غیر نبی کے لیے اس کے استعمال میں علماء کرام کے مابین اختلاف ہے۔
اور جو جواز کے قائل ہیں وہ بھی صرف صحابی تک کے لئے، یا ایسی شخصیات کے لیے جن کا اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ذکر خیر کیا ہے اور وہ بھی کسی شعار کے طور پر نہ ہو، یعنی کسی صحابی کو دوسرے صحابہ سے افضل ظاہر کرنے کی نیت اور عقیدے سے نہ ہو۔ انسان کی زندگی میں حکمت کی ضرورت و اہمیت جان لینے کے بعد جب کسی غیر نبی کو حکمت عطا کئے جانے کی بات سامنے آئے تو گویا اس کی اہمیت بیان کرنا مقصود ہوتا ہے اور مطلب ہوتا ہے کہ اُن کی پر حکمت باتوں پر غور و فکر کیا جائے اور توجہ دی جائے۔
تو اللہ تعالی حضرت لقمان حکیم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا لَقَمْنَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ﴾ (لقمان:12)
’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ تعالی کے شکر گزار بنو۔‘‘
یعنی اللہ تعالی کی عطا کردہ اس حکمت و بصیرت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ اس نعمت پر شکرگزاری اور احسان مندی کا رویہ اختیار کیا جائے۔ حضرت لقمان حکیم کی شخصیت کے بارے میں جو معلومات روایات میں ملتی ہیں وہ کچھ یوں ہیں کہ:
(كَانَ لُقْمَانُ عَبْداً حَبَشِيًّا نَجَاراً)
’’ کہ حضرت لقمان حبشی غلام تھے اور پیشے کے لحاظ سے بڑھی تھے (کار پنٹر تھے )‘‘
بعض نے درزی بھی کہا ہے۔
اسی طرح ان کے حلیے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے اور یہ کہ وہ بنی اسرائیل میں داؤد علیہ السلام کے زمانے میں قاضی تھے۔ اُن کی حکمت بھری باتوں میں سے ایک یہ بیان کی جاتی ہے کہ:
((كَانَ لُقْمَانُ عَبْداً حَبَشِيًّا نَجَّاراً))
’’کہ لقمان ایک حبشی غلام بڑھتی تھے۔‘‘
((فَقَالَ لَهُ مَوْلاهُ اذْبَحُ لَنَا هَذِهِ الشَّاةَ، فَقَالَ اثْتِنِي بِأَطْيَبِهَا مضغتين))
’’ان کے مالک نے کہا: ہمارے لیے ایک بکری ذبح کرو اور کہا کہ اس کی دو عمدہ بوٹیاں بھی لے کر آنا ۔‘‘
((فَاتَاهُ بِاللِّسَانِ وَالْقَلْبِ))
’’تو وہ اس کے پاس زبان اور دل لے کر آئے ۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ: اذْبَحْ لَنَا هَذِهِ الشَّاةَ))
’’پھر اس نے کہا کہ ہمارے لیے یہ بکری ذبح کرو۔‘‘
((فَذَبَحَهَا))
’’ چنانچہ اس نے ذبح کیا۔‘‘
((قَالَ: أَلْقِ أَخْبَثَهَا مُضْغَتين))
’’اور کہا: اس کی دوندی اور خبیث بوٹیاں نکال کر پھینک دو۔‘‘
((فَالْقَى اللِّسَانَ وَالْقَلَب .))
’’تو اس نے زبان اور دل نکال کر پھینک دیے ۔‘‘
((فَقَالَ لَهُ: قُلْتُ لَكَ إِئتِنِي بِأَطْيَبهَا، فَأَتَيْتَني بِاللِّسَان وَالْقَلْبِ ثُمَّ قُلْتُ لَكَ الْقِ أَخْبَثَهَا مُضْغَتَيْنِ، فَأَلْقَيْتَ اللَّسَانَ والقلب))
’’تو اس کے مالک نے اس سے کہا: میں نے تم سے کہا کہ اس میں سے سب سے اچھے دو ٹکڑے لے کر آؤ تو تم دل اور زبان لے کر آئے ، پھر میں نے کہا کہ س میں سے دو خبیث ٹکڑے نکال کر پھینک دو تو تم نے دل اور زبان نکال کر پھینک دیے ۔‘‘
((فَقَالَ لَقْمَانُ: إِنَّهَ لَيْسَ مِنْ شَيْءٍ أَطْيَبَ مِنْهُمَا إِذَا طَابًا)) (مصنف ابن شیبه:34294)
’’پھر لقمان علیہ السلام نے کہا: ان دونوں سے بڑھ کر کوئی بھی عمدہ اور پاکیزہ چیز نہیں ہے جب یہ دونوں اچھی اور پاکیزہ رہیں ۔‘‘
((ولا أَخْبَثَ مِنْهُمَا إِذَا خَبُثًا ))
’’اور نہ ان دونوں سے کوئی بری چیز ہے اگر یہ بُری ہو جائیں ۔‘‘
اسی طرح ایک روز وہ ایک مجلس میں بیٹھے لوگوں کو وعظ و نصیحت کر رہے تھے کہ:
((فَأَتَاهُ رَجُلٌ وَهُوَ فِي مَجْلِسِ نَاسٍ يُحَدِّثُهُمْ))
’’ایک آدمی ان کے پاس آیا اور وہ لوگوں کی مجلس میں بیٹھے ان سے باتیں کر رہے تھے۔‘‘
((فَقَالَ لَهُ: أَلَسْتَ الَّذِي كُنْتَ تَرْعَى مَعِيَ الْغَنَمَ فِي مَكَانَ كَذَا وَ كذا))
’’تو اس نے کہا: کیا تم وہی نہیں ہو جو میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چرایا کرتے تھے؟‘‘
((قَالَ: نَعَمْ))
’’کہا: ہاں‘‘
((قَالَ: فَمَا بَلَغَكَ بِمَا أَرَى؟))
’’کہا: تو اس مقام پر کہ جہاں میں تمہیں دیکھ رہا ہوں ، کیسے پہنچے ؟‘‘
((قَالَ صِدقُ الْحَدِيثِ، وترك ما لا يعنيني))
’’کہا: سچ بولنے اور لایعنی باتوں سے دور رہنے سے ۔‘‘
بولنا اور لایعنی باتوں سے دور اور خاموش رہنا یقینًا بہت بڑی حکمتیں ہیں، اسلام میں ان کی بڑی ترغیب دی گئی ہے اور تاکید کی گئی ہے۔ مگر لوگوں نے انہیں اپنی سمجھ اور مزاج کے مطابق ڈھال رکھا ہے۔
حالانکہ سچ بولنے اور منہ پھٹ ہونے میں فرق ہے، بہت سے لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کچی اور کھری بات کرتے ہیں اور منہ پہ بات کرتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ اپنے نحصے کی تسکین کے لیے ایسا کر رہے ہوتے ہیں، اگر سچائی اور کھری بات حکمت سے خالی ہو تو ایسی سچی اور کھری بات کرنے والا منہ پھٹ تو ہو سکتا ہے مگر گھر انہیں، وہ صرف اپنا غصہ نکالنا چاہتا ہے، کسی کی اصلاح نہیں چاہتا، کسی کی تو ہین اور دل آزاری کی پرواہ نہ کرنا بہت بڑی خامی ہے، البتہ کچھ بہت ہی مخصوص حالات میں اس کا جواز نکلتا ہے۔ تو منہ پھٹ ہوتا خوبی نہیں خامی ہے، ایسے کھرے پن کی انسان کو بڑی مہنگی قیمت چکانا پڑتی ہے، اور وہ ہے لوگوں کے دلوں میں اس کی عزت اور احترام کا ختم ہو جاتا۔ اور ایسے کھرے پن کے مقابلے میں جس محاورے کا اسے نشانہ بنا پڑتا ہے وہ ہے کسی کو منہ نہ لگانا، ایسے آدمی کو کوئی منہ لگانا پسند نہیں کرتا، مگر اسے شاید نہ اس کا احسان ہوتا ہے اور نہ پرواہ جیسا کہ تکبر کرنے والے کی مثال یہ دی جاتی ہے کہ تکبر کرنے والا گویا پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہے جہاں اسے پہاڑ کے دامن میں کھڑے لوگ بہت چھوٹے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت کو رییلائز نہیں کر پاتا کہ پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہوئے لوگوں کو، پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوا شخص ایسے ہی بہت چھوٹا نظر آتا ہے۔ حکمت بالخصوص دعوت و اصلاح کے حوالے سے نہایت ہی ضروری ہے، ورنہ کسی کی گمراہی کا سبب بن سکتی ہے یا بہت بڑے فتنے کا باعث بن سکتی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ:
((حَدَثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ))
’’لوگوں سے وہ بات کرو جو وہ سمجھتے ہوں ۔ یعنی ان کی علمی اور ذہنی استعداد کے مطابق بات ہو۔‘‘
((أَتَرِيدُونَ أَنْ يُكَذِّبَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟)) (صحيح البخاری ، کتاب العلم:128)
’’کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو جھٹلا دیا جائے ؟‘‘
اگر کوئی آدمی کم علم، کم فہیم اور کمزور ایمان والا ہو، اور آپ اس سے کوئی ایسی بات کریں، جو اُس کے علم اور سمجھ سے بالاتر ہو اور بہت زیادہ پختہ ایمان والا بھی نہ ہو کہ وہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے (آمنا و صدقنا) کہہ دے کہ اچھا اگر چہ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی مگر چونکہ قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے لہذا (آمنا و صدقنا) میرا اس پر ایمان ہے اور تصدیق کرتا ہوں۔
تو ایسا آدمی جواب میں یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں ایسی بات نہیں مانتا تم اپنا دین اپنے پاس رکھو۔ تو بغیر حکمت کے کھری بات کرنے سے آپ کسی کی گمراہی کا سبب بن سکتے ہیں۔
حکیمانہ بات مسئلے کو سلجھاتی ہے اور حکمت سے عاری بات معاملے کو بگاڑ دیتی ہے۔ حکمت کی انسان کو زندگی کے تمام شعبوں میں ضرورت ہے، حکمت کو نظر انداز کرنا، اس کی ضرورت محسوس نہ کرنا اور اس کے حصول کے لیے کوشش نہ کرنا بہت بڑی کوتاہی ہے۔
حکمت، دور اندیشی اور بصیرت کسی جلد باز، جذباتی اور جنونی کو حاصل نہیں ہوتی۔ حکیمانہ طرز عمل کے سردست دو ایک واقعات ذکر کرتے ہیں، اور ابھی تو حکمت کے موضوع کی صرف تمہید ہی بیان ہو رہی ہے، اصل موضوع ان شاء اللہ اس کے بعد شروع ہوگا۔
شاہی آداب مجلس کے حوالے سے ایک حکمت کی بات ملاحظہ فرمائیے اصمعی ایک بہت بڑے شاعر اور ادیب تھے، ہارون رشید سے انھیں بڑی قربت تھی ، ایک دفعہ کئی روز کے وقفے کے بعد جب وہ دوبارہ ہارون رشید کے دربار میں حاضر ہوئے تو ہارون رشید نے ان
سے کہا:
((يَا أَصْمَعِي كَيْفَ كُنْتَ بَعْدِي؟))
’’اے اصمعی! ہم سے دور رہ کر تمھارا وقت کیسا گزار ؟‘‘
((قَالَ الْأَصْمَعِي: مَا لَا قَتْنِي بَعْدَكَ أَرْضٌ))
’’تو اصمعی نے جواب دیا: آپ کے بعد زمین نے مجھے کہیں ٹکنے نہیں دیا (قرار لینے نہیں دیا بھر نے نہیں دیا )۔‘‘
((فَتَبَسَّمَ الرَّشِيدُ ، فَلَمَّا خَرَجَ النَّاسُ قَالَ لِلْأَصْمَعِي: مَا مَعْنَى قَوْلِكَ مَالَا لَا قَتْنِي أَرْضٌ))
’’تو یہ سن کر ہارون رشید مسکرادیے ، پھر جب لوگ چلے گئے تو اصمعی سے کہنے لگے تمھارے ’’مالا قنني أرض‘‘ کا کیا معنی ہے؟
((قَالَ: مَا اسْتَقَرَّتْ بِي أَرْضُ))
’’کہا زمین نے مجھے کہیں ٹھہر نے نہیں دیا ۔‘‘
((قَالَ: هَذَا حَسَنٌ وَلَكِنْ لَا يَنْبَغِي أَنْ تُكَلِّمَنِي بَيْنَ يَدَيِ النَّاسِ إِلَّا بِمَا أَفْهَمُهُ))
’’کہا: ٹھیک ہے، مگر تمہیں نہیں چاہیے کہ تم لوگوں کے سامنے مجھ سے ایسی بات کرو، سوائے اس کے کہ جو میں سمجھ سکوں اور پھر اس کی وجہ بتائی کہ اگر میں خاموش رہوں گا تو لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اس کو سمجھ نہیں آئی اور اگر میں درست جواب نہ دوں گا تو بھی لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ مجھے سمجھ نہیں آئی ۔‘‘
((قَالَ الْأَصْمَعِي: فَعَلَّمَنِي أَكْثَرَ مِمَّا عَلَّمْتُهُ)) (اخبار النحويين البصريين للسيرافي ، ج:1، ص:50، تاریخ دمشق ، ج:73، ص: 309)
’’صمعی نے کہا: تو ہارون رشید نے مجھے اس سے زیادہ سکھایا جو میں نے انھیں سکھایا۔
خیر! یہ تو حکمت و دانائی کے کچھ مخصوص واقعات ہیں ، روز مرہ کی زندگی میں بھی حکمت و دانائی کی انسان کو اشد ضرورت ہوتی ہے ، آپ جانتے ہیں کہ زندگی کے معاملات میں انسان کو بسا اوقات پیغام رسانی کی ضرورت بھی پڑتی ہے ، اور پیغام بر اگر حکمت نہ رکھتا ہو تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کسی قدر معاملات کو بگاڑنے اور نقصان کرنے کا سبب بن سکتا ہے، اور اگر وہ اپنے قول و فعل میں حکمت سے کام لینا جانتا ہو تو ایسے شخص کو بھیج کر انسان مطمئن سا ہو جاتا ہے چنانچہ شاعر اس صورت حال کو کچھ یوں بیان کرتا ہے:
إِذَا كُنْتَ مُرْسِلًا فِي حَاجَةٍ
فأرسل حَكِيمًا وَلَا تُوْصِهِ
’’اگر کسی کام سے کسی کو کہیں بھیجنا چاہتے ہو تو کسی حکیم اور صاحب فہم و فراست کو بھیج دو اور بے شک اسے کچھ نہ بھی سمجھاؤ بجھاؤ۔ یعنی صاحب فہم و فراست شخص اپنی حکمت و دانائی کے سبب معاملے کو خود ہی سلجھائے گا جب کہ اس کے برعکس اگر وہ شخص حکمت و دانائی سے محروم ہو گا تو اسے چاہے جتنا بھی سمجھا بجھا کر بھیجیں گے کوئی خیر کی خبر نہیں لائے گا۔‘‘
تو حکمت ایک بہت بڑی حقیقت ہے ، اس کا حصول انسان کی اشد ضرورت ہے اور اس کا فقدان انسان کا بہت بڑا مسئلہ ہے مگر افسوس کہ اس دور میں حکمت کے فقدان کو سرے سے کوئی مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا حالانکہ حکمت کے بغیر انسان کے مسائل سلجھنے میں نہیں آتے بلکہ الجھتے ہی چلے جاتے ہیں، ترجیحات بدلتی چلی جاتی ہیں ، معیارات خلط ملط ہوتے چلے جاتے ہیں ، صحیح اور غلط کے ، اچھے اور عمرے کے خود ساختہ معیار جنم لینے لگتے ہیں ، اپنے مفادات کے پیش نظر کچھ جرائم کی سنگینی کو کم کر دیا جاتا ہے اور کچھ کو بڑھا دیا جاتا ہے ، اب ذرا غور فرمائیے کسی طرح مالی بدعنوانی کے جرم کو بڑھا چڑھا کر دنیا کا سب سے بڑا جرم بنا دیا گیا ہے جب کہ بدکاری ، بے حیائی اور فحاشی و عریانی کو نظر انداز کر کے اس کی سنگینی کو اتنا کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے گویا وہ کوئی سرے سے جرم ہی نہیں ہے، حالانکہ سب سے بڑی بد دیانتی تو اخلاقی بددیانتی ہے، مالی بددیانتی بھی اگر چہ جرم ہی ہے مگر اخلاقی جرم کے مقالے میں بہت کم اور اس کا اندازہ یوں بھی لگا سکتے ہیں کہ چور کا صرف ہاتھ کاٹا جاتا ہے جب کہ زانی کو سنگسار کیا جاتا ہے، اب آپ کسی ایسے شخص کے بارے میں کیا کہیں گے جو کسی کو بدنام کرنے کے لیے، اس کی کردار کشی کرتے ہوئے اسے چور چور کہہ کر اس کی تشہیر کرتا چلا جائے جب کہ اس کی اپنی حالت یہ ہو کہ اس پر مالی بدعنوانی اور اخلاقی بد دیانتی کے بیسیوں الزامات ہوں ۔ آخر میں کسی کے جرم کی سنگینی کو نظر انداز یا کم کرنے کی کوشش کے حوالے سے ایک واقعہ ذکر کر کے بات ختم کرتا ہوں ۔
خلیفہ ولید بن عبد الملک کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبد الملک تخت نشین ہوا تو اس نے حجاج بن یوسف کے منشی اور مشیر کو (یزید بن ابو مسلم ) کو اپنا مشیر مقرر کرنا چاہا جس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس سے کہا:
((أَسْأَلُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ لَا تُحْيِي ذِكْرَ الْحَجَّاجِ بِإِسْتِكْتَابِكَ إياه))
’’اے امیر المؤمنین! اس کو اپنا کا تب اور مشیر بنا کر حجاج کی یاد تازو نہ کریں‘‘
((فَقَالَ: يَا أَبَا حَفْصٍ إِنِّي لَمْ أَجِدْ عِنْدَهُ خِيَانَةَ دِينَارٍ وَلَا دِرْهَم))
’’سلیمان بن عبدالملک نے کہا: اے ابو حفص! میں نے اس کے ہاں کسی ایک درہم یا دینار کی خیانت بھی نہیں پائی ۔‘‘
((قَالَ عُمَرُ: أَنَا أَجِدُكَ مَنْ هُوَ أَعَفُّ مِنْهُ فِي الدِّينَارِ والدرهم))
’’حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کہا: میں آپ کو درہم و دینار کے معاملے میں اس سے بھی زیادہ پا کدامن دکھا سکتا ہوں ۔‘‘
((قَالَ: وَمَنْ هُوَ؟))
’’خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے کہا: اور وہ کون ہے؟‘‘
((قَالَ: إِبْلِيسُ ، مَا مَسَّ دِينَارًا وَلَا دِرْهَمَا ، وَقَدْ أَهْلَكَ هَذَا الخَلْق” (سراج الملوك ، ج: 1، ص:70))
’’کہا: ابلیس ، کہ اس نے درہم و دینار کو بھی چھوا بھی نہیں مگر تمام مخلوق کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔‘‘
تاہم حکمت کی ضرورت و اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے ، اس پر مزید گفتگو ان شاء اللہ آئند و خطبہ جمعہ میں کریں گے۔
اقول قولي هذا واستغفر الله العظيم لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب انه هو الغفور الرحيم
……………………