اخلاق و آداب کی ضرورت و اہمیت

﴿وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا۪ۙ۝۷ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۝۸ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۝۹ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۝۱۰﴾(الشمس:7۔10)
جن بڑے بڑے اور عظیم الشان کاموں کی اسلام دعوت دیتا، ترغیب دلاتا اور شوق پیدا کرتا ہے اُن میں سے ایک ادب اختیار کرنا بھی ہے، ادب انسان کی ضرورت ہے اور ادب میں ہی انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت و فلاح مضمر ہے۔
ادب در حقیقت انسان کے اندر پوشیدہ مثبت قوتوں کو عملی جامہ پہنانے کا نام ہے، اللہ تعالی نے انسان کو اس طرح ڈیزائن کیا ہے کہ اُس کے اندر پوشیدہ قوتوں کو، ان استعدادات اور صلاحیتوں کے ذریعے جو اُس کے اندر ودیعت کی گئی ہیں، درجہ کمال تک پہنچانے کے چیلنج کو
قبول کرنے کی صلاحیت رکھ رکھی ہے اور
﴿فَالْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا﴾ (الشمس:8)
’’پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی ۔‘‘
چنانچہ وہ اس الہام کو لاشعوری طور پر محسوس کرتا ہے اُس پر غور و فکر کرنے ، تربیت حاصل کرنے اور اسے سیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ، ہر انسان خوش اخلاقی اور بد اخلاقی کے فرق کو خوب سمجھتا ہے، اور کوئی بھی شخص برے اخلاق اور بری صفات کی نسبت کو اپنے لیے پسند نہیں کرتا ۔
ادب جیسا کہ آپ جانتے ہیں تمام اچھی صفات کو مشتمل ہے، ادب ہر کام کو درست اور موزوں طریقے سے کرنے کا نام ہے، وہ قول ہو یا فعل ، اور ادب زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے، کوئی عمل اور کوئی شعبہ اس سے مستثنیٰ نہیں ہے
قوموں کی زندگی میں ادب کتنا اہم ہوتا ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہر قوم چاہے کتنی ہی پس ماندہ، ان پڑھ اور جاہل کیوں نہ ہو، اس کے ہاں بھی زندگی گزارنے کے کچھ نہ کچھ آداب ضرور ہوتے ہیں، جیسا کہ اسلام سے پہلے کے دور کو دور جاہلیت کہا جاتا ہے مگر اس کے باوجود ان کے ہاں بعض بڑی اچھی صفات پائی جاتی تھیں اور وہ بہت اچھے آداب رکھتے تھے، جنھیں اسلام نے آکر ان کی نوک پلک سنوار دی۔
اسلامی آداب اور دیگر اقوام عالم کے آداب میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ ان کی بنیاد دین ہے، اگر چہ یہ دنیا کی زندگی خوش اسلوبی سے گزارنے کے طریقے ہیں مگر ان کے پیچھے عقیدہ توحید ہے، ایمان بالآخرت ہے، اور یہ کہ اسلامی آداب عین فطرت کے مطابق ہیں۔ اسلامی آداب کتنے خوبصورت، کتنے بلند پایہ اور قابل رشک ہیں کہ اغیار ان پر ہم سے حسد کرتے ہیں، جیسا کہ احادیث میں ہے ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ حُسَدٌ ))
’’یہودی بڑے حاسد لوگ ہیں ۔‘‘
((وَإِنَّهُمْ لَا يَحْسُدُونَنَا عَلٰى شَيْءٍ كَمَا يَحْسُدُونَنَا عَلَى السَّلَامِ و على (آمین)) (السلسلة الصحيحة:692 ، ابن خزيمة:551)
’’ وہ ہم سے کسی چیز پر ایسا حسد نہیں کرتے جیسا سلام پر اور آمین پر حسد کرتے ہیں۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے، حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((كَانَ الْيَهُودُ يَتَعَاطَسُونَ عِنْدَ النَّبِيِّ يَرْجُونَ أَنْ يَقُولَ لَهُمْ يرحمكم الله))
’’یہودی لوگ آپ ﷺکے پاس چھینکتے تھے یہ امید کرتے ہوئے کہ آپ ﷺانھیں جواب میں یرحمکم الله کہیں گے کہ اللہ تم پر رحم فرمائے ۔
((فَيَقُولُ يَهْدِيكُمُ اللهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ)) (ترمذي:2739)
’’مگر آپﷺ فرماتے:‘‘
((فَيَقُولُ يَهْدِيكُمُ اللهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ)) ہدایت دے اور تمھارا حال درست فرمائے ۔
چھینکنے کے آداب تو یہ ہیں کہ چھینکنے والا: الحمد للہ کہے اور سنے والا: يرحمك الله کہے کہ اللہ تم پر رحم فرمائے اور جواب میں پھر چھینکنے والا: يهديكم الله ويصلح بالكم ہے۔ مگر آپﷺ پر حمکم اللہ کے بجائے يهديكم الله ويصلح بالكم فرماتے، کیونکہ رحمت کی دعا خاص ہے، اہل ایمان کے لئے ، البتہ آپﷺ ان کے لیے ہدایت کی دعا فرما دیتے۔
اب اندازہ کریں کہ چھینک جسے ہمارے معاشرے میں کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، پہلے تو چھینک کو رنگا رنگ کی آوازوں کے ساتھ چھینکا جاتا ہے، بالخصوص اُس کا انتقام تو بعض لوگ بہت ہی بد تہذ یبانہ انداز میں کرتے ہیں اور پھر اس موقعے پر سننے والے کی طرف سے عموماً ایک ملتا جلتا جملہ کہا جاتا ہے کہ عافیت ہو، صحت ہو، صبر، جیبو (یعنی جیو) ان میں سے جو سب سے زیادہ مناسب جملہ ہے وہ تو ہے God Bless You
مگر اسلام میں چھینکنے کے آداب ان سب سے مختلف، با معنی اور مکمل آداب ہیں، چھینکنے والا اگر الحمد للہ نہ کہے تو اسے یرحمک اللہ کے ساتھ جواب نہ دیا جائے، جیسا کہ حدیث میں ہے اور اگر وہ الحمد للہ کہے تو پھر اسے یرحمک اللہ کہا جائے اور جواب میں پھر چھینکنے والا
يهديكم الله ويصلح بالكم ہے۔
یہاں قابل غور نقطہ یہ ہے کہ اگر چھینکنے والا مسلمان بھی ہو مگر وہ الحمد للہ نہ کہے تو یرحمک اللہ کہنا جائز نہیں ، چہ جائیکہ نان مسلم بھی ہو اور الحمد للہ بھی نہ کہے چنانچہ اسے Bless You کہنا جائز نہیں البتہ اس کے لیے ہدایت کی دعا کر سکتے ہیں۔
بہت سے مسلمان جہاں ایک طرف ان اسلامی آداب سے واقفیت نہیں رکھتے وہاں دوسری طرف وہ مغرب کی تہذیب سے متاثر ہوتے ہوئے Bless You کہتے ہیں۔ اسی طرح جمائی کے آداب بھی ہیں، جیسا کہ ایک ہی حدیث میں چھینک اور جمائی کے آداب بتلائے گئے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ يُحِبُّ العُطَاسَ ويكره التَّثّاؤُبَ))
’’اللہ تعالی چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو نا پسند کرتا ہے۔‘‘
((فَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللهَ، فَحَقِّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ سَمِعَهُ أَنْ يشمته))
’’اور اگر چھینکنے والا الحمد للہ کہے تو ہر سننے والے مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس کی چھینک کا جواب دے جو کہ پر حمك الله ہے ۔‘‘
((وَأَمَّا التَاؤُبُ فَإِنَّمَا هُوَ مِنَ الشَّيْطَانِ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ))
’’جبکہ جمائی شیطان کی طرف سے ہے، پس جہاں تک ممکن ہو اس کو روکے۔‘‘
((فَإِذَا قَالَ: هَا، ضَحِكَ مِنْهُ الشَّيْطَانُ)) (صحيح البخاري:6223)
’’جب وہ جمائی لیتے ہوئے ہا کرتا ہے تو شیطان اس سے بنتا ہے۔‘‘
آپ نے کبھی دیکھا ہے کسی ایسے شخص کو جمائی لیتے ہوئی جو جمائی کے آداب سے واقف نہ ہو، کس طرح پورا منہ کھول کر ہاہا کر رہا ہوتا ہے، اس کے چہرے کا کیا حلیہ بن جاتا ہے اگر اس وقت آئینے میں وہ اپنی شکل دیکھ لے تو وہ خود بھی بہت شرمندہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی آداب انسان کی ضرورتوں اور اس کے فطری تقاضوں کے عین مطابق ہیں اور اسلامی ہدایت و رہنمائی انسان کی دنیا و آخرت کے لیے کامل اور مکمل اور سب سے بہتر رہنمائی ہے، چنانچہ آپ سے علم ہر خطبے میں یہ بات ارشاد فرماتے:
((وخير الهدي هدي محمد ))
’’سب سے بہتر ہدایت و رہنمائی محمدﷺ کی ہدایت و رہنمائی ہے۔‘‘
اور اس کی تصدیق اللہ تعالی یوں فرماتے ہیں:
﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ) (النجم:3۔4)
’’آپﷺ اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے ، جو بھی بات کرتے ہیں اللہ کی طرف سے وحی کی گئی ہوتی ہے ۔‘‘
تو اسلامی آداب صرف دنیا کی زندگی کے لیے ہی نہیں ہیں بلکہ آخرت کی کامیابی کے لیے بھی ہیں ۔
جمائی سے متعلق یہ عقیدہ آپ کو اسلام کے سوا دنیا کے کسی دین و مذہب اور نظام میں نہیں ملے گا کہ آدمی جب جمائی لیتے ہوئے منہ کھول کر ہا کرتا ہے تو شیطان اس سے بنتا ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ:
((إِذَا تَشَاءَ بَ أَحَدُكُمْ فَلْيُمْسِكُ بِيَدِهِ عَلَى فِيْهِ ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ)) (صحيح مسلم: (2995)
’’جب تم میں سے کوئی جمائی لے تو اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کو بند کرے، کہ شیطان اس میں داخل ہوتا ہے۔‘‘
اب جو شخص ان باتوں پر ایمان نہ رکھتا ہو، اسے ان پر عمل کی کیسے توفیق حاصل ہو گی، اور جو شخص ان باتوں سے ناواقف ہو وہ سنت پر اور ان آداب پر عمل کر کے کیسے ثواب حاصل کر پائے گا۔
یہ آداب یوں تو بڑے بنیادی سے ہیں کہ جن کی تعلیم اور تربیت گھر میں دی جاتی ہے، مگر چونکہ ہمارے گھروں میں ان کا اہتمام نہیں کیا جاتا اور اکثر و بیشتر ان کا سبب دین سے ناواقفیت ہوتی ہے، بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا گیا ہے جو پڑھے لکھے، دین دار اور عمر رسیدہ
بھی ہوتے ہیں، مگر ان بنیادی آداب سے ناواقف ہوتے ہیں۔ البتہ کچھ آداب ایسے ہیں کہ تقریبا ہر مسلمان کو ان کی کچھ نہ کچھ سوجھ بوجھ ضرور ہوتی ہے، مگر وہ بعض اوقات تکبر اور انا کی نذر ہو جاتے ہیں، جیسا کہ سلام ہے۔
ایک دوسرے کو ملتے وقت سلام کرنے کی اہمیت سے تو آپ واقف ہی ہیں کہ یہود مسلمانوں سے اس بات پر حسد کرتے ہیں، مگر ہمارے ہاں بعض دولت مند، اور عبدہ و منصب والے، یا جنھیں عام اصطلاح میں بڑے لوگ کہا جاتا ہے وہ کسی غریب آدمی کو سلام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں بلکہ اُن کے سلام کا جواب دینے میں بھی مفت محسوس کرتے ہیں، چنانچہ اُن کے سلام کے جواب میں یا تو ہوں” کہہ دیں گے یا کوئی اور بات شروع کردیں گے کہ سنا بھئی کیا حال ہے! وغیرہ۔
تو اسلام نے سلام کے ایسے آداب مقرر کئے ہیں کہ جن میں امیر اور غریب کا کوئی فرق اور امتیاز نہیں رکھا گیا، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الكَثير)) (صحيح مسلم:2160)
’’سوار پیدل چلنے والے کو سلام کہے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کہیں۔‘‘
سلام کرنے کے ان ضوابط میں نہ کسی کی توہین ہے اور نہ کسی کی بڑائی ہے، اس میں ایک دوسرے کے لیے خیر خواہی کی دعا ہے اور ان دعائیہ کلمات کے کہنے والے کو اجر و ثواب ہے۔ بعض قوموں کے ہاں خیر مقدمی آداب کا بڑا تو ہین آمیز انداز ہوتا ہے، جیسا کہ کسی کے
سامنے اتنا جھک جانا کہ رکوع کی شکل اختیار کر جائے، جیسا کہ جاپانیوں کے ہاں ہے۔ اور اسی طرح ہندوستان میں بڑوں کے ادب واحترام میں ان کے پاؤں کو چھونا، تو اس انداز میں انسانیت کی تذلیل ہے۔ اور اسلام میں صرف اس بات کی خواہش کرنا کہ لوگ اس کے لیے تعظیماً کھڑے ہوں، سخت نا پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے بلکہ ایسے شخص کے لیے ایسی شدید وعید آئی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَّمْثَلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَاماً فَلْيَتَبُوا مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ))
’’جو شخص یہ چاہے کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔‘‘
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار حضرت ابن الزبیر اور ابن عامر کے پاس تشریف لے گئے تو ابن عامر کھڑے ہو گئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے فرمایا:
((اجلِسُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ يمثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ)) (سنن ابی داود:5229)
’’بیٹھ جاؤ کہ میں نے آپﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے‘‘
لہذا ہمارے ہاں سکولوں میں ٹیچرز کے لیے جو کھڑا ہونے کا رواج ہے وہ سراسر غیر اسلامی ہے، ٹیچرز کا احترام اپنی جگہ مگر کسی بھی خلاف سنت کام میں ادب و احترام نہیں ہو سکتا ، وہ بے ادبی ہے، بالخصوص جب کہ اس قدر شدید وعید ہو کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینے کا کہا گیا ہو۔ کچھ لوگ استاد کے لیے علم کی تکریم کے طور پر کھڑا ہونے کو جائز سمجھتے ہیں، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ‘‘ (سنن تر مذی:2754)
’’صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے نزدیک آپﷺ سے زیادہ محبوب شخصیت تو کوئی نہ تھی، مگر وہ جب آپ ﷺکو دیکھتے تو آپﷺ کے لیے کھڑے نہ ہوتے، کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ آپ ﷺاسے نا پسند فرماتے ہیں۔‘‘
ہاں اگر کوئی شخص سفر سے لوٹا ہو، یا دیر بعد ملاقات ہو رہی تو خوشی سے کھڑے ہو کر ملنے کو علماء کرام جائز سمجھتے ہیں جس سے اس کی تعظیم مقصود نہ ہو۔
تو سلام دنیا کی زندگی کے آداب ہی نہیں بلکہ یہ ایک عقیدہ ہے، نیکی اور ثواب ہے، سلام اللہ تعالی کے نام السلام سے ماخوذ ہے جس کا معنی سلامتی ہے، آپ جب کسی کو السلام علیکم کہتے ہیں تو مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے تم پر سلامتی ہو، یعنی اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی حفاظت میں رکھے۔ اسلام میں سلام کی اہمیت کا اندازہ کیجیے کہ جنت میں بھی سلام ہی کے الفاظ سے جنتیوں کا خیر مقدم کیا جائے گا ، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:
﴿وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍۚ۝۲۳
سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِؕ۝﴾ (الرعد:23۔24)
’’ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہے تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا، پس کیا ہی خوب ہے آخرت کا گھر ۔‘‘
سلام کی اہمیت کا ایک یہ انداز بھی ملاحظہ کیجئے ، حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
قال: ((آتي جبريل النبيﷺ))
’’جبریل علیہ السلام آپ ﷺکے پاس آئے ۔‘‘
فَقَالَ: ((يَا رَسُولَ اللهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ معها إناء فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ))
’’اے اللہ کے رسول ﷺ یہ خدیجہ آپ کے پاس آ رہی ہیں ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں کوئی سالن ہے، شوربہ ہے یا کھانا ہے‘‘
((فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّى))
’’پس جب وہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیے گا اور میری طرف سے بھی ۔‘‘
((وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبِ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نصب)) (صحيح البخاری:3820)
’’اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک گھر کی خوشخبری دے دیجئے ، جس میں کوئی شور شرابہ ہوگا اور نہ تکلیف و تھکن ہوگی ۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ جب آپﷺ نے انھیں اللہ تعالی کی طرف سے سلام پہنچایا، تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب میں فرمایا: ((إِنَّ اللهَ هُوَ السَّلَامُ، وَعَلَى جِبْرِيلَ عليه السلام وَعَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ
السَّلامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ))
’’اللہ تعالی ہی السلام ہیں ، جبریل علیہ السلام پر سلام ہو، اور اے اللہ کے رسول ﷺ آپ پر بھی سلام اور اللہ تعالی کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔‘‘
حضرت خدیجہ بنی ان کی سمجھداری اور فقاہت کا اندازہ کیجئے کہ انھوں نے اللہ تعالی پر سلام نہیں بھیجا بلکہ فرمایا کہ اللہ تعالی تو خود سلام ہے ، جیسا کہ ایک حدیث میں اللہ تعالی پر سلام بھیجنے سے منع بھی کیا گیا ہے:
((لا تَقُولُوا السَّلام عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ))(نسائی:1168)
’’یہ مت کہو کہ اللہ تعالی پر سلام ہو، کہ اللہ تعالی ہی سلام ہے ۔‘‘
یہ اخلاق و آداب جہاں دنیا کی زندگی کو سنوارتے ہیں وہاں یہ انسان پر اللہ تعالی کی رحمت بھی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (آل عمران:159)
’’اے پیغمبر سے یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہیں ورنہ اگر کہیں آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔‘‘
تو ادب انسان کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے ، ادب سے انسان کو معاشرے میں عزت و احترام ملتا ہے، ادب سے دیگر بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں ، ادب کی اہمیت اور ترغیب و تاکید کے حوالے سے علماء کرام کے بہت سے اقوال ہیں ، جو پھر کسی وقت ان شاء اللہ بیان کریں گے۔
…………………