اخلاق و آداب کی موجودگی خوش سیرتی اور شائستگی کی دلیل
﴿وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا۪ۙ۷ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۸ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۹ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۱۰﴾ (الشمس:7۔9)
انسانی زندگی میں اخلاق و آداب کی ضرورت و افادیت سے کسی باشعور اور سلیم الفطرت انسان کو ہرگز انکار نہیں ہو سکتا اس کی انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی میں بھی اخلاق و آداب کی اشد ضرورت ہے ورنہ انسان اور جانوروں کے طرز زندگی میں فرق کرنا دشوار ہو جائے گا۔ اخلاق و آداب کی انسانی زندگی میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قوموں کا عروج وزوال انہی سے وابستہ ہے۔ قرآن وحدیث میں اس حقیقت کو جابجا بیان کیا گیا ہے اور انسانی تاریخ بھی اس پر شاہد ہے۔
تو میں اپنے حسن اخلاق سے ترقی اور عروج سے ہمکنار ہوتی ہیں اور شان و شوکت اور عزت و عظمت کی بلندیوں پر فائز ہوتی ہیں، اور اپنی اخلاقی گراوٹ اور پستی کے سبب ذلیل و رسوا اور تباہ و بر باد ہوتی ہیں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ حسن اخلاق کا مطلب صرف اچھی اور سلجھی ہوئی گفتگو کرنا ہی نہیں ، بلکہ حسن اخلاق میں تمام صفات حمیدہ شامل ہیں اس میں عدل و انصاف ہے رواداری ہے، شرم و حیا ہے ، آداب مجلس ہیں ، آداب طہارت ہیں امانت و دیانت ہے، اور دیگر تمام خصال حسنہ ہیں۔ اخلاق سے محرومی انسان کو ذلت و رسوائی، تباہی و بربادی اور پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے۔
قوموں کی ہلاکت اور تباہی و بربادی ایک اصطلاح ہے ، جس سے مراد انھیں نیست و نابود کر دینا اور جڑ سے اکھاڑ دینا بھی ہے، اور اس کا معنی کمزوری ، بے بسی اور بے کسی میں اور تکلیفوں ، مصیبتوں اور بیماریوں میں مبتلا کر دینا بھی ہے۔
جیسا کہ قرآن پاک میں متعد د قوموں کو نیست و نابود کر دینے کا ذکر بھی فرمایا ، اور بعض دوسرے مقامات پر اور احادیث مبارکہ میں بعض بداعمالیوں پر انھیں تنگیوں تکلیفوں اور بیماریوں میں مبتلا کر دینے کی وعید بھی سنائی۔
جیسا کہ حدیث میں ہے آپﷺ نے فرمایا: ((يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِيتُمْ بِهِنَّ ، وَأَعُوذُ بِاللهِ أَنْ تُدْرِكُوهُنَّ))
’’فرمایا! اے مہاجرین کی جماعت اپانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر تم ان میں مبتلا ہو گئے ، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم وہ حالات پاؤ۔‘‘
((لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا ، إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونَ وَالَا وَجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي اَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوا)) (سنن ابن ماجه:4019)
’’جب کسی قوم میں فحاشی جنم لیتی ہے حتی کہ وہ اسے علی الاعلان کرنے لگ جاتے ہیں تو ان میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں ، جو ان کے اسلاف میں نہ ہوتی تھیں ۔ ‘‘
اسی طرح کچھ اور کوتاہیوں اور بداعمالیوں کا ذکر بھی فرمایا غرضیکہ کسی قوم کی تباہی و بر بادی کا سب سے خطر ناک سبب جو بات بنتی ہے وہ ہے اقدار کی تبدیلی ، اخلاقیات کی پستی اور زوال کسی قوم کی سب سے خطر ناک کمزوری ہوتی ہے ۔
جب اقدار تبدیل ہو جاتی ہیں ، اخلاقی اقدار کی بے قدری ہونے لگتی ہے اور مادی اقدار معزز ہو جاتے ہیں تو تباہی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ قوموں کا اخلاقی زوال بڑے غیر محسوس انداز میں ہوتا ہے ، عوام تو کیا اکثر خواص بھی اسے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ، اخلاقی زوال اپنی آخری حدوں کو چھورہا ہوتا ہے، اور عوا م اسے اک معمولی گناہ سمجھ رہے ہوتے ہیں ، وہ یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ یہ بہت بڑا فتنہ ہے۔
جب بیدار مغز ، دوراندیش ، دین سے گہری وابستگی رکھنے والے لوگ موجود ہوں تو وہ فتنوں کو فورا بھانپ لیتے ہیں اور لوگوں کو خبر دار کر دیتے ہیں ، لیکن جب ایسے لوگ معاشرے سے نا پید ہو جاتے ہیں تو پھر معاشرہ فتنوں کا شکار ہو جاتا ہے اور کوئی بتانے والا نہیں ہوتا ۔
اب اندازہ کیجئے اور غور فرمائیے کہ ایک صاف ستھرے اور پاکیزہ معاشرے اور ایک اخلاقی پستی کا شکار اور فتنوں میں گھرے ہوئے معاشرے کے درمیان کسی طرح فرق کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلاف میں الحطيئۃ نامی ایک شاعر تھا، مگر اپنی بداخلاقی اور بد زبانی میں بڑی شہرت رکھتا تھا اور لوگ اس کی بد زبانی سے ڈرتے تھے، کیونکہ اس کی بد زبانی سے کوئی شخص بھی محفوظ نہیں تھا جتی کہ اُس نے اپنی ہوئی ، اپنے بھائی ، اپنے ماں باپ اور خود اپنے آپ کو بھی نہ بخشا ۔ (البداية والنهاية ،ج:11 ص349)
اس نے ایک بار حضرت الزبرقان بن بدر رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف بھی چند شعر کہہ دیئے۔ انھیں معلوم ہوا تو انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اُس کی شکایت کی اور بتایا کہ الحطيئة نے میرے خلاف یہ یہ شعر کہے ہیں: اور ان میں سے ایک شعر یہ تھا:
دع المَكَارِمَ لَا تَرْحَلْ لِبُغْيَتِهَا
وَاقْعُدْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الطَّاعِمُ الكَاسِي
’’ان اخلاقیات کو چھوڑو، اُن کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ نہ کرو، بلکہ بیٹھے رہو تمھارا کام تو بس کھانا پینا اور لباس زیب تن کئے رکھنا ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عننہ نے فرمایا: تم سمجھتے ہو کہ اس نے شعروں میں تمھاری ہجو بیان کی ہے؟ تو انھوں نے کہا: ہاں، اس نے میری جوان مردی کی توہین کی ہے، کیا میں اتنا کیا گزرا اور بے کار آدمی ہوں کہ میرا کام بس کھانا پینا اور کپڑے پہن کے بیٹھے رہنا ہے!
تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ٹھیک ہے، حستان کو بلاؤ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: (أتراه هجاه) کیا الحطيئة نے الزبرقان کی ہجو اور مذمت کی ہے؟
تو حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
((لَمْ يَهْجِهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّهُ سَلَحَ عَلَيْهِ سَلْحًا))
’’کہ اس نے ہجو نہیں بلکہ اُس نے اس کے اوپر گندگی کی ہے یعنی پاخانہ کیا ہے۔‘‘
تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے سزا کے طور پر ایک کنویں میں ڈال دیا، تو اُس نے کنویں میں ہی بیٹھے چند شعر کہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ کی منت سماجت کی، تو حضرت عمر رضی اللہ نے اسے کنویں سے نکالا ، اور فرمایا: اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے یہ ایک مثال بن جائے گی تو میں تیری زبان کاٹ دیتا، لہٰذا آئندہ خیال کرنا اور کسی مسلمان کی تذلیل نہ کرنا۔ (البداية والنباة ، ج:1، ص:350)
اب معاشروں کے فرق کو ملاحظہ کیجئے کہ ایک طرف ایک ایسا معاشرہ ہے کہ ایک شعر پر ایک آدمی کو سزا ہو جاتی ہے اور دوسری طرف ایک ایسا معاشرہ ہے کہ جس میں ایک آدمی اور ایک شعر نہیں ہوتا بلکہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں اور اس شعر جیسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں اور وہ بھی سر عام Social Media اور Traditional Media پر، اور دن رات بہتان بازی اور الزام تراشی ، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں اور مجموعی طور پر معاشرہ کس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ ان باتوں کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا ، جو جب چاہے جس طرح چاہے دوسروں کی پگڑی اچھال دے، کوئی پوچھ نہیں سکتا ۔ کیونکہ اخلاقی اقدار بدل گئی ہیں، اور بد اخلاقی کو آزادی اظہار رائے کا نام دے دیا گیا ہے ، اور لوگوں کی توہین کرنا ، انھیں الٹے ناموں سے پکارنا اپنا جمہوری حق سمجھ لیا گیا ہے۔ بات دراصل یہ سمجھنا اور سمجھانا چاہ رہا تھا کہ اخلاقی اقدار کی تبدیلی ، اخلاق و آداب کا زوال و انحطاط بڑے غیر محسوس انداز میں ہوتا ہے ، لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلتا اور وہ یکسر بدل چکے ہوتے ہیں، ایک دوسری قوم بن چکے ہوتے ہیں، ایک ایسی قوم کہ جس پر اللہ کے عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہوتا ہے۔﴿وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا﴾ (بنی اسرائيل:16)
’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں ، اور وہ اس میں نا فرمانیاں کرنے لگتے ہیں ، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے، اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔‘‘
اور اللہ تعالی کے ہاں بڑے اٹل اور غیر مبدل اصول ہیں کہ جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم نافرمانیوں کے ذریعے اپنے آپ کو ثابت نہیں کر دیتی کہ اب وہ اللہ تعالی کے انعامات اور اس کی مہربانیوں اور عنایتوں کی مستحق نہیں رہی ، تب تک اللہ تعالی ان
سے وہ نعمتیں نہیں چھینتے۔
﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ۵۳﴾ (الانفال:53)
’’یہ اس لیے کہ اللہ تعالی ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کہ پھر بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی اور یہ کہ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
ہمارے اسلاف جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مستحق قرار دیے گئے اور پھر جو نعمتیں انھیں دی گئیں ان میں سے ایک بہت بڑی نعمت امن و امان تھی ، رزق کی فراوانی تھی ، عزت اور شان و شوکت تھی ، رعب وہ بد یہ تھا، اب سوال یہ ہے کہ یہ تمام نعمتیں ہمیں وراثت میں ملی
تھیں، مگر پھر کیا ہوا کہ وہ ہم سے چھن گئیں؟
اس لیے کہ ہم نے اپنی بداعمانیوں سے ثابت کر دیا ہے کہ ہم ان نعمتوں کے مستحق نہیں رہے چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ آج ہماری غیر مسلم معاشرے میں بالخصوص کوئی عزت نہیں ہے ہمیں گھٹیا سمجھا جاتا ہے، تو ہین کی جاتی ہے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے ، در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ، اپنے ملکوں میں اپنی مرضی کے قوانین نہیں بنا سکتے ، اپنی مرضی کا معاشرہ ترتیب نہیں دے سکتے ، ہمیں ہدایات دی جاتی ہیں کہ انسانی حقوق کیا ہیں ، آزادی نسواں کیا اور ملک کا انتظام جمہوری ہونا چاہیے کہ نظام خلافت ہونا چاہیے اس سے بڑھ کر ہے ہی ، بے کسی اور ذلت و رسوائی کیا ہوگی! مگر یہ تمام تر تکلیفیں، مصیبتیں اور آزمائشیں اس بدبختی کے سامنے ہیچ ہیں جو ہم پر مسلط ہے، اور جانتے ہیں وہ کیا ہے؟
دہ ہے ہماری بے حسی یعنی یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ہمیں احساس نہیں ہے کہ ہم ذلت و رسوائی کی زندگی گزار رہے ہیں ہم ناچ گانے کو بے حیائی اور فحاشی نہیں سمجھتے ، بلکہ ایک ہاتھ اس سے بھی آگے ہیں ، کہ اس بے حیائی کو سپورٹ کرنے پر فخر کرتے ہیں ، بلکہ ایک ہاتھ اس سے بھی آگے ہیں کہ ایسے بے حیائی اور فسق و فجور پھیلانے والوں کو اپنے ملک کا سر براہ بنانا چاہتے ہیں ۔
عجیب بات ہے! غیرت جو ایک مسلمان کا خاصہ ہے اس کا زیور ہے جو اس کی جوان مردی ہے، اس سے یکسر دستبردار اور بے نیاز ہو گئے ہیں!
یہ بات یاد رہے کہ ہم اپنا وہ کھویا ہوا مقام ، دو شان و شوکت ، عزت و افتخار اور رعب ود بد بہ مصنوعی طریقوں سے ہرگز واپس نہیں لا سکتے ، چاہے جتنے بھی منصوبے بنا لیں، جتنے بھی تجزیہ نگار ، دانشور اور تھینک ٹینک بٹھا لیں اور جتنے بھی جتن کر لیں، کیونکہ جو اللہ کا فیصلہ ہے وہ ائل ہے، اس میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں آسکتی اور اللہ کا فیصلہ کیا ہے؟
﴿وَاَنْتُمُ الْأَعْلَونَ إِنْ كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ (آل عمران:139)
’’غلبہ تمھارا ہی ہے، بشرطیکہ تم مومن بن جاؤ۔‘‘
مسلمانوں کی تمام پریشانیوں اور مصیبتون کا اور تمام مسائل کا حل صرف ایک بات میں ہے، ایک شرط سے مشروط ہے اور وہ یہ ہے کہ مومن بن جائیں ، اور یہی فیصلہ دوسرے الفاظ میں جو لوگوں میں زیادہ مشہور ہے، وہ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِاَنْفُسِهِم ) (الرعد: 11)
’’ اللہ تعالی کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا ، جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہیں بدل لیتی‘‘
یعنی اپنے اخلاق اور اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ مسلمانوں کے عروج اور زوال کے اللہ تعالی کے ہاں جو مسلمہ اصول ہیں ، وہی اصول غیر مسلموں کے عروج و زوال کے بھی ہیں ، سوائے اس کے کہ مسلمانوں کے عروج میں ایک اضافی شرط ہے اور وہ یہ کہ وہ مومن بن جائیں، اور پھر اس اضافی شرط کے نتیجے میں اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی مدد اور تائید و نصرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں قوموں کے عروج و زوال کے اصول تقریبا یکساں ہیں ، اور ان کا خلاصہ تین باتیں ہیں عدل وانصاف ، رواداری یعنی tolerance اور اخلاق و آداب ۔ جو قو میں ان تین اوصاف کی حامل ہوں گی انھیں دنیا میں کامیابی اور عروج نصیب ہوگا اور جو قو میں ان صفات سے محروم ہوں گی وہ محکوم و مشہور ہوں گی اور ان کے تابع ہوں گی ۔
مسلمان اس دور میں زوال اور انحطاط کا شکار ہیں اس میں تو کوئی شک نہیں، ہماری بد حالی اور کسمپرسی اس کا واضح اور بین ثبوت ہے، مگر ایک بات جو علی وجہ البصیرت ، بر ملا اور فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مسلمان اس دور میں بھی انفرادی طور پر اپنی تمام تر کوتاہیوں ، خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود دنیا کی تمام قوموں سے بہتر ہیں۔ البتہ ہمارے اداروں میں ان چیزوں کا فقدان ہے اور وہ اس معیار پر پورے نہیں اترتے، لیکن وہ تو میں جو اس وقت دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں آج وہ بھی ان اوصاف سے دستبردار ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں عدل و انصاف کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے، رواداری کو خیر باد کہہ دیا گیا ہے اور اخلاق و آداب تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔ یہ دور قرب قیامت کا دور ہے ، اس کی بہت کی علامات ظاہر ہو چکی ہیں اور بہت ابھی باقی ہیں بالخصوص بڑی بڑی نشانیاں ، جو علامات ظاہر ہو چکی ہیں ان میں سے ایک خون ریزی کی کثرت بھی ہے، جسے دہشت گردی بھی کہا جا سکتا ہے۔
حدیث میں ہے ، آپ ﷺنے فرمایا ((إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ أَيَّامًا، يُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ ، وَيَنْزِلُ فِيهَا
الْجَهْلُ ، ويكثر فيها الهرج ، والهرج القتل )) (صحیح مسلم ، كتاب العلم:2672)
’’قیامت سے پہلے ایسے ایام آئیں گے کہ ان میں علم دین اٹھالیا جائے گا ، جہالت نازل ہوگی یعنی عام ہوگی اور ہرج کی کثرت ہوگی ۔ اور فرمایا: ہرج کا مطلب ہے : قتل ۔‘‘
تو قتل و غارت اور دہشت گردی ، علامات قرب قیامت میں سے ہے، یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور مسلمان بالخصوص اس کا شکار ہیں۔ اور مسلمان خصوصی طور پر اس کا شکار اس لیے ہیں کہ اس کے پیچھے کچھ خفیہ ہاتھ ہوتے ہیں جو کسی کو نظر نہیں آتے۔ دہشت گرد جس قوم ، جس ملک اور جس مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہوں وہ دہشت گرد ہی کہلاتے ہیں ۔ اور عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ دہشت گرد کی کسی قوم اور مذہب کے ساتھ نسبت نہ کی جائے اور اگر کی جائے تو پھر ہر دہشت گرد کی کی جائے، کسی ایک دہشت گرد کو دہشت گرد کہنا اور دوسروں کو mentally sick یا depression کا شکار قرار دیتا سراسر نا انصافی ہے اور عدل و انصاف کے منافی ہے ، اس سلسلے میں نت نئے قوانین اس کی واضح دلیل اور منہ بولتا ثبوت ہیں ۔
دوسری چیز رواداری اختتام پذیر ہے ، بالخصوص مذہبی رواداری اور نسلی رواداری ، اور تیسری چیز اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ، کسی ایسی شخصیت کو اپنا سر براہ منتخب کر لینا جو اخلاقیات میں ناکام اور انتہائی پست اور نیچ ہو، لوگوں کی مجموعی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ تو وہ تین چیزیں جو کسی قوم کے عروج، برتری اور کامیابی کی علامت اور ضمانت سمجھی جاتی ہیں جب کسی قوم کا اُن میں زوال اور انحطاط شروع ہو جائے تو مطلب ہوگا کہ اُس قوم کے زوال کا آغاز ہو گیا ہے۔
اور قو میں بنتی مشکل سے ہیں مگر ٹوٹتی آسانی سے ہیں، قو میں بنانے میں اجتماعی کوششیں درکار ہوتی ہیں، مگر توڑنے میں کسی ایک نااہل اور جنونی شخص کا کردار بھی کافی ہو سکتا ہے۔ تا ہم وہ اوصاف جو کسی قوم کو دوسری قوموں پر برتری دلاتے ہیں اور بام عروج تک پہنچاتے ہیں وہ مسلمانوں کا خاصہ ہیں، آج مسلمان ضروران اوصاف سے ایک درجہ پیچھے ہیں مگر بعید نہیں کہ وہ اوصاف پھر سے مسلمانوں میں لوٹ آئیں، مسلمانوں میں وہ اوصاف دنیا کے مفادات حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہیں۔ آج اپنے اسلاف کے کارناموں، ان کے اخلاق و آداب کی بلندی ، ان کے عدل و انصاف اور رواداری کو یاد کرتے ہیں تو دنیا میں وہ صفات کہیں نظر نہیں آتیں۔ آج اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اپنے اسلاف کی رواداری کے واقعات پڑھ کر سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ اور تاریخ بھی مسلمان مصنفین کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ عیسائی اور یورپین مصنفین کی لکھی ہوئی ، صرف ایک واقعہ عرض کرتا ہوں ملاحظہ کیجیے:
خلیفہ معتضد بالله (سن 892سے 903 ) ان کے دربار میں جہاں تمام وزراء و امراء دست بستہ کھڑے رہتے تھے، وہاں ان کا وزیر اعظم ثابت بن قرۃ کو مقرر کیا گیا تھا، جو کہ ایک صابی المذہب عالم تھا۔
ایک دن خلیفہ معتضد اور ثابت بن قرۃ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ٹہل رہے تھے کہ دفعتاً معتضد نے اپنا ہاتھ میں لیا، ثابت ڈر گیا، معتضد نے کہا ڈرو نہیں، میرا ہاتھ اوپر تھا، میں نے گستاخی پسند نہ کی ، اہل علم کا ہاتھ اوپر ہونا چاہیے۔
…………………….