نماز میں خشوع و خضوع کیسے اختیار کریں۔۔۔؟
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ  [المؤمنون: 2-1] 
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّت آشنائی
ذی وقار سامعین!
نماز اسلام کا اہم رکن ہے، جو مومن کی روحانی حالت کو بہتر بنانے اور اس کے خدا کے ساتھ تعلق کو مستحکم کرنے کا ذریعہ ہے۔ نماز کو سنت کے مطابق ادا کرنا انتہائی ضروری ہے ، جو شخص نماز کو سنت کے مطابق ادا نہیں کرتا ، ایسے شخص کو اس کی نماز کوئی فائدہ نہیں دیتی ، بلکہ بعض أوقات نقصان دہ ہوتی ہے ،  مالک بن حویرث کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي
”تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔“ [صحیح بخاری: 6008] 
اسی طرح سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ ]صحیح مسلم:4493[
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے متعلق ہمارا کوئی حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘ 
اس لئے نماز کو سنت کے مطابق ادا کرنا بہت ضروری ہے ، سنت کے مطابق نماز ادا کرنے میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے ، نماز میں خشوع و خضوع اختیار کیا جائے۔
خشوع وخضوع کا مطلب، نماز کے ہر رکن کو پورے اطمینان اور سکون سے اَدا کرنا ہے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كَانَ  خُشُوعُهُمْ فِي قُلُوبِهِمْ، فَغَضُّوا بِذَلِكَ الْبَصَرَ، وَخَفَضُوا بِهِ الْجَنَاحَ
”ان کا خشوع دل میں ہوتا ہے۔اس کی بنا پر ان کی آنکھیں جھک جاتیں اور اعضاء ڈھیلے ہو جاتے۔“ [تفسیر الطبری: 8/17]
خشوع و خضوع کا مطلب ہے دل کی سکون اور توجہ کا حالت میں آنا، جہاں بندہ اپنے رب کی محبت، عظمت اور رحم کو محسوس کرتا ہے۔ یہ حالت انسان کو نماز کے ہر رکن میں کامل توجہ دینے کی ترغیب دیتی ہے اور اس کی عبادت کو باطنی خوشی اور سکون بخشتی ہے۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل و کرم سے نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرنے کی اہمیت و فضیلت ، نہ کرنے کی مذمت اور چند ایمان افروز واقعات سنیں گے۔
 نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرنے کی اہمیت
نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرنے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے نماز پڑھی ہی نہیں ، دو روایات پیشِ خدمت ہیں:
سیدنا ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے اس کے بعد ایک اور شخص آیا۔ اس نے نماز پڑھی، پھر نبی کریم ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا ؛
ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ” واپس جاؤ اور پھر نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔“ 
وہ شخص واپس گیا اور پہلے کی طرح نماز پڑھی اور پھر آ کر سلام کیا۔ لیکن آپ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا ؛
ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ” واپس جاؤ اور پھر نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔“
آپﷺنے اس طرح تین مرتبہ کیا۔ آخر اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اس کے علاوہ اور کوئی اچھا طریقہ نہیں جانتا، اس لیے آپ مجھے نماز سکھا دیجئیے۔ آپﷺنے فرمایا ؛
إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاَةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، وَافْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلاَتِكَ كُلِّهَا
” جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو پہلے تکبیر تحریمہ کہہ۔ پھر آسانی کے ساتھ جتنا قرآن تجھ کو یاد ہو اس کی تلاوت کر۔ اس کے بعد رکوع کر، اچھی طرح سے رکوع ہو لے تو پھر سر اٹھا کر پوری طرح کھڑا ہو جا۔ اس کے بعد سجدہ کر پورے اطمینان کے ساتھ۔ پھر سر اٹھا اور اچھی طرح بیٹھ جا۔ اسی طرح اپنی تمام نماز پوری کر۔“ [صحیح بخاری: 757]
❄سیدنا حذیفہ  سے روایت ہے:
أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يُصَلِّي فَطَفَّفَ فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ مُنْذُ كَمْ تُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ قَالَ مُنْذُ أَرْبَعِينَ عَامًا قَالَ مَا صَلَّيْتَ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً وَلَوْ مِتَّ وَأَنْتَ تُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ لَمِتَّ عَلَى غَيْرِ فِطْرَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيُخَفِّفُ وَيُتِمُّ وَيُحْسِنُ 
انھوں نے ایک آدمی کو ناقص نماز پڑھتے دیکھا۔ سیدنا حذیفہ نے اس سے پوچھا: تو کتنے عرصے سے ایسی نماز پڑھ رہا ہے؟ اس نے کہا: چالیس سال سے۔ آپ  نے فرمایا: یقین کر چالیس سال سے تو نے نماز پڑھی ہی نہیں اور اگر تو اسی قسم کی نماز پڑھتا پڑھتا مر جاتا تو حضرت محمد ﷺ کے دین پر فوت نہ ہوتا۔ پھر آپ کہنے لگے: بلاشبہ انسان ہلکی نماز پڑھنے کے باوجود مکمل اور اچھے طریقے سے نماز پڑھ سکتا ہے۔ [صحیح بخاری: 1313]
صحیح بخاری[791] میں ہے: لَا يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ’’وہ رکوع و سجود مکمل نہیں کر رہا تھا‘‘
نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرنے کی فضیلت
❄اللہ تعالیٰ نے  اپنے پاک کلام میں کامیاب مومنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ  
”یقیناً کامیاب ہوگئے مومن۔ وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔“ [المؤمنون: 2-1]
❄خشوع و خضوع ان خوش نصیبوں کا وصف ہے جو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اجر عظیم کے مستحق ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
”بے شک مسلم مرد اور مسلم عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کا بہت ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، ان کے لیے اللہ نے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔“ [الاحزاب: 35]
❄انبیاء کرام علیہم السلام کا وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
 إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ
”بے شک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف سے پکارتے تھے اور وہ ہمارے ہی لیے عاجزی کرنے والے تھے۔“ [انبیاء: 90]
❄صحابی رسول أبو محمد کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
  خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ۔
”اللہ تعالیٰ نے پانچ نماز فرض کی ہیں، جو شخص ان کے لیے اچھی طرح وضو کرے گا، اور انہیں ان کے وقت پر ادا کرے گا، ان کے رکوع و سجود کو پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ اسے بخش دے گا، اور جو ایسا نہیں کرے گا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اس کو بخش دے، چاہے تو عذاب دے“۔ [ابوداؤد: 425 صححہ الالبانی]
❄سیدنا عقبہ عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ وُضُوءَهُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، مُقْبِلٌ عَلَيْهِمَا بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ، إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ
’’جو بھی مسلمان وضو کرتا ہے اور وہ اچھی طرح وضو کرتا ہے ، پھر کھڑے ہو کر پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔“[صحیح مسلم: 553]
❄سیدنا عقبہ عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
ما من مسلمٍ يتوضأ فيُسبِغُ الوضوءَ، ثم يقومُ في صلاتِه، فيعلمُ ما يقول، إلا انفتَل، وهو كيومِ ولدَتْه أمُّه
”جو مسلما ن و ضو کرتا ہے تو وہ اچھی طر ح و ضو کرتا ہے پھر اپنی نما ز میں لگ جاتا ہے،جو وہ کہتا ہے اسے سمجھتا ہے،نما ز سے فا رغ ہو تا ہے تو وہ اس طر ح ہوتا ہے کہ اسے آ ج ہی اس کی ماں نے جنا ہے۔“ [صحیح الترغیب: 546]
❄سیدنا ابوالدرداء   سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
مَنْ تَوَضَّأَ , فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ , ثُمَّ قَامَ , فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ , أَوْ أَرْبَعًا شَكَّ سَهْلٌ , يُحْسِنُ فِيهِمَا الذِّكْرَ وَالْخُشُوعَ , ثُمَّ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ , غَفَرَ لَهُ
”جو شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر دو رکعتیں مکمل خشوع کے ساتھ پڑھے پھر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے تو اللہ اسے ضرور بخش دے گا۔“ [مسند احمد: 27546]
نماز میں خشوع وخضوع اختیار نہ کرنے کی مذمت
نماز پوری توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنی چاہئے ، جو نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا نہیں کرتے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور نبیﷺنے کئی باتیں ارشاد فرمائی ہیں:
❄ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ۔وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ
”پس ان نمازیوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔وہ جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔اور عام برتنے کی چیزیں روکتے ہیں۔“ [الماعون:  7-4]
مولانا صلاح الدین یوسف ﷫لکھتے ہیں:
”اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں۔ یا پہلے پڑھتے رہے ہیں، پھر سست ہوگئے یا نماز کو اس کے اپنے مسنون وقت میں نہیں پڑھتے، جب جی چاہتاہے پڑھ لیتے ہیں یا تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنا لیتے ہیں یا خشوع خضوع کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ یہ سارے ہی مفہوم اس میں آجاتے ہیں، اس لئے نماز کی مذکورہ ساری ہی کوتاہیوں سے بچنا چاہئے۔ یہاں اس مقام پر ذکر کرنے سے یہ بھی واضح ہے کہ نماز میں ان کی کوتاہیوں کے مرتکب وہی لوگ ہوتے ہیں جو آخرت کی جزا اور حساب کتاب پر یقین نہیں رکھتے۔“
❄ارشادِ ربانی ہے:
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا
”بے شک منافق لوگ اللہ سے دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ وہ انھیں دھوکا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔“  [النساء:  142]
مولانا عبدالرحمٰن کیلانی ﷫اپنی مایہ ناز تفسیر ”تیسیر القرآن“ میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
”نماز اسلام کا اہم رکن ہے اور مومن اور کافر میں فرق کرنے کے لیے یہ ایک فوری امتیازی علامت ہے منافقین چونکہ اسلام کے مدعی تھے لہٰذا انہیں نماز ضرور ادا کرنا پڑتی تھی کیونکہ جو شخص نماز باجماعت میں شامل نہ ہوتا تو فوراً سب کو اس کے نفاق کا شبہ ہونے لگتا تھا۔ لیکن ایک مومن اور منافق کی نماز میں فرق ہوتا تھا۔ مومن بڑے ذوق و شوق سے آتے اور وقت سے پہلے مسجدوں میں پہنچ جاتے۔ نماز نہایت اطمینان اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے اور نماز کے بعد بھی کچھ وقت ذکر اذکار میں مشغول رہتے اور مسجدوں میں ٹھہرے رہتے تھے۔ ان کی ایک ایک حرکت سے معلوم ہوجاتا تھا کہ انہیں واقعی نماز سے دلچسپی ہے اس کے برعکس منافقوں کی یہ حالت تھی کہ اذان کی آواز سنتے ہی ان پر مردنی چھا جاتی۔ دل پر جبر کر کے مسجدوں کو آتے۔ نماز میں خشوع و خضوع نام کو نہ ہوتا تھا۔ دلوں میں وہی مکاریوں اور فائدہ کے حصول کے خیالات اور نماز ختم ہوتے ہی فوراً گھروں کی راہ لیتے۔ ان کی تمام حرکات و سکنات اور ان کے ڈھیلے پن سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا تھا کہ انہیں نہ نماز کی اہمیت کا احساس ہے نہ اللہ سے کچھ محبت ہے اور نہ ہی اللہ کے ذکر سے کوئی رغبت ہے۔ وہ مسجدوں میں آتے ہیں تو محض حاضری لگوانے کے لیے اور نماز پڑھتے ہیں تو دکھانے کے لیے۔“
❄ علاء بن عبدالرحمان سے روایت ہے:
أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي دَارِهِ بِالْبَصْرَةِ، حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الظُّهْرِ، وَدَارُهُ بِجَنْبِ الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَيْهِ، قَالَ: أَصَلَّيْتُمُ الْعَصْرَ؟ فَقُلْنَا لَهُ: إِنَّمَا انْصَرَفْنَا السَّاعَةَ مِنَ الظُّهْرِ، قَالَ: فَصَلُّوا الْعَصْرَ، فَقُمْنَا، فَصَلَّيْنَا، فَلَمَّا انْصَرَفْنَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ، يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ، قَامَ فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا، لَا يَذْكُرُ اللهَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا» 
وہ نماز ظہر سے فارغ ہو کر حضرت انس  کے ہاں بصرہ میں ان کے گھر حاضر ہوئے ، ان کا گھر مسجد کے پہلو میں تھا ، جب ہم ان کی خدمت میں پہنچے تو انھوں نے پوچھا: کیا تم لوگوں نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے ان سے عرض کی: ہم تو ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر لوٹے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: تو عصر پڑھ لو۔ ہم نے اٹھ کر (عصر کی )نماز پڑھ لی ، جب ہم فارغ ہوئے تو انھوں نےکہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ’’ یہ منافق کی نماز ہے ، وہ بیٹھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ (جب وہ زرد پڑ کر) شیطان کے دو سنگوں کے درمیان چلا جاتا ہے تو کھڑا ہو کر اس (نماز)کی چار ٹھونگیں مار دیتا ہے اور اس میں اللہ کو بہت ہی کم یاد کرتا ہے۔‘‘ [صحیح مسلم: 1412]
نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرنے کے ایمان افروز واقعات
سلف صالحین کے ایمان افروز واقعات ہمیں اس بات پر ابھارتے اور ترغیب دیتے ہیں کہ   اللہ کی عبادت میں لگن رکھیں اور  خشوع و خشوع کے ساتھ نماز ادا کریں۔
سیدنا عبّاد بن بشر :
حضرت جا بر بن عبد اللہ  بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسو ل اللہ ﷺکے سا تھ غز وہ ذات الرقاع میں تھے،آپ ﷺ نے ایک مقا م پر پڑا ؤ ڈالا تو فرمایا: آ ج پہرا کو ن دے گا ؟ دو صحا بی تیا ر ہو ئے ایک حضرت عما ر بن یا سر  جو مہاجر تھے اور دو سرے انصا ر سے تعلق رکھنے وا لے حضرت عبا د بن بشر  تھے۔آ پ ﷺ نے فرمایا: 
كُونَا بِفَمِ الشِّعْبِ ”وادی کے کنا رے جس رخ پر دشمن ہے و ہاں کھڑے ہو کر پہرا دو۔“
چنا نچہ تھو ڑی دیر بعد حضرت عمار  لیٹ گئے اور حضرت عباد بن بشر  نماز پڑھنے لگے،دشمن نے جب انہیں کھڑے دیکھا تو سمجھا یہ کھڑا پہرادے رہا ہے تو اس نے تا ک کر تیر چلا یا تو وہ حضرت عبا د  کے جسم میں پیو ست ہو گیا،انہوں نے نماز ہی میں تیر نکال کر پھینک دیا اور نما ز پڑھتے رہے،اس طرح یکے بعد دیگر ے دشمن نے دو اور تیر پھینکے اور وہ بھی ان کے جسم میں پیو ست ہو گے۔حضرت عباد  انہیں جسم سے نکال دیتے،انہوں نے نما ز منقطع نہ کی،پھر انہوں نے رکو ع اور سجدہ کیا،نما ز سے فا ر غ ہو کر حضرت عما ر بن یا سر  کو اٹھایا،ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمار  بیدار ہو ئے،دشمن نے سمجھا کہ وہ خبر دا ر ہو گئے ہیں تو وہ بھا گ گیا،حضرت عما ر  نے جب حضرت عبا د  کو خو ن آلود دیکھا تو فرمایا: سبحا ن اللہ،تم نے پہلا تیر نکالنے پر مجھے اٹھا یاکیوں نہیں ؟: حضرت عبا د  نے فرما یا: 
كُنْتَ فِي سُورَةٍ أَقْرَؤُهَا، فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا.
”سو رۃ الکہف پڑھ رہاتھا میں نے پسند نہ کیا کہ اسے چھو ڑ دوں۔“ [ابوداؤد: 1412 حسنہ الالبانی]
  سیدنا عبد اللہ بن زبیر :
آ پ بڑ ے جلیل القد ر صحا بی ہیں ہجرت کے پہلے سال مہا جر ین کے گھر وں میں سب سے پہلے پید ا ہو نے و الے یہی حضرت عبد اللہ بن زبیر  ہیں عمر و بن دینا ر ﷫فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن زبیر  سے بہتر نما ز پڑھتے ہو ئے کسی کو نہیں دیکھا۔نما ز کے لیے کھڑے ہو تے تو یوں جم کر کھڑے ہو تے کہ دیکھنے و الا خیال کرتایہ لکڑی کا تنا کھڑا ہے بڑی لمبی نما ز پڑھتے۔مسلم بن ینا ق ﷫کا بیان ہے :
ایک با ر تو رکو ع اتنا طو یل کیا کہ ہم نے سو رئہ البقرہ،آل عمر ان،النسا ء،اور الما ئدہ تلا وت کر لی،جن دنوں حجا ج بن یوسف ان کیخلا ف حرم کعبہ میں سنگ با ری کر رہا تھا،منجنیق سے پتھر بر ستے،وہ نما ز پڑھ رہے ہو تے تو ان سے بے نیا ز ہو کر التفات تک نہ کرتے ایک با ر نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کے بیٹے ہا شم پر چھت سے سانپ آ گرا،اہل خانہ گھبر ا ٹھے سا نپ سا نپ پکا را،مگر حضرت عبداللہ بن زبیر  بر ابر نما ز پڑھتے رہے،وہ گو یا نماز میں اسقدر مستغرق تھے کہ انہیں اس واقعہ کی خبر تک نہ ہو ئی۔ [سیر اعلام النبلاء]
سیدنا عر و ۃ بن زبیر ﷫:
مد ینہ طیبہ کے فقہا ء سبعہ میں ان کا شما ر ہو تا تھا بڑ ے عا بد و ز اہد اور کبا ر تا بعین میں سے تھے رو زا نہ دن کو قر آ ن میں دیکھ کر ربع قر آ ن تلا وت کر تے اور پھر رات تہجد کی نما ز میں بھی اسی قد ر تلا وت فر ما تے۔نماز میں ان کے خشوع اور انہما ک کا یہ عا لم تھا کہ ان کے پاؤں کو موذی بیما ری لا حق ہو ئی اور بڑھتی چلی گئی۔طبیبوں نے ٹا نگ کا ٹ دینے کا مشو رہ دیا وہ اس پر آ ما دہ ہو ئے تو انہوں نے کہا کہ ہم آ پ کو ایسی دو ائی پلا تے ہیں جس سے آ پ کی قوت عقل و فکرزائل ہو جا ئے گی اور یوں آ پ ٹا نگ کا ٹنے کی ٹیس و درد سے بچ جائیں گے انہوں نے فرمایا: با لکل نہیں،میں نہیں سمجھتا کہ کو ئی شخص ایسی چیز کھا ئے کہ اس کی عقل ماؤف ہوجا ئے،ٹا نگ کا ٹنی ہے تو میں نما ز پڑ ھتا ہوں آ پ اسی دو را ن اپناکا م تمام کر لیں مجھے اس کا احسا س نہیں ہو گا۔چنا نچہ حضرت عر و ۃ ﷫نے دو رکعت نفل شرو ع کئے تو طبیبوں نے آ ری سے ان کی ٹانگ کاٹ دی،مگر انہیں اس کا احسا س تک نہ ہوا۔
حا فظ ابن کثیر ﷫نے ہی لکھا ہے کہ حضرت عروۃ ﷫نے ایک شخص کو جلد ی جلدی نما ز پڑ ھتے دیکھا تو انہوں نے اسے اپنے پا س بلا یا اورفر ما یا:
أَمَا كَانَ لَكَ إِلَى رَبِّكَ حَاجَةٌ؟ إِنِّي لَأَسْأَلُ اللَّهَ  فِي صَلَاتِي حَتَّى أَسْأَلَهُ الْمِلْحَ
”بھا ئی تمہاری کوئی حا جت و ضرو رت ایسی نہ تھی جوتم نمازمیں اپنے رب سے طلب کر تے؟  میں تو اپنی نما ز میں اللہ تعالیٰ سے سو ال کرتا ہوں حتی کہ نمک کی ضرورت ہو تی ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے ما نگتا ہوں۔“[ البد ایہ: ج9ص103]
حضرت عبداللہ غزنو ی ﷫:
حضرت مو لا نا عبداللہ غزنو ی ﷫للہیت و تقو ی میں یکتا ئے رو زگا ر تھے اور شیخ الکل حضرت میاں نذیر حسین محد ث دہلو ی﷫ کے ارشد تلامذہ میں شما ر ہو تے تھے،نما ز میں محویت اور تو جہ الی اللہ کا یہ عا لم تھا کہ اپنی جا ن کی خبر نہ رہتی،ایک مر تبہ عصر کی نما ز پڑھا رہے تھے کہ یکایک سخت با رش ہو گئی،ایسی سخت با رش کہ مقتدی سب نما ز چھو ڑ کر بھاگ گئے،صرف دو چا ر رہ گئے،نما ز سے فا رغ ہو کر جب دعا کے لیے ہا تھ اٹھائے تو ہا تھ کیچڑ سے بھر ئے ہو ئے تھے،فر ما نے لگے،با راں شد،و اللہ عبد اللہ را خبر نہ شد،با رش ہو ئی اللہ کی قسم عبد اللہ کو خبر نہیں ہو ئی۔
حضرت میاں صاحب ﷫فرما یا کر تے تھے: کہ مو لو ی عبداللہ حد یث ہم سے پڑھ گیا اور نما ز پڑھنی ہمیں سکھاگیا۔حضرت میاں صا حب ﷫کا یہ فرمان غو ر طلب ہے،نما ز پڑھنے کا سلیقہ و طریقہ محض کتا بیں پڑھنے سے حا صل نہیں ہو تا،اس کے لیے بھی مر بی و را ہنما کی ضرورت ہے،رہبر کی راہنما ئی میں جہاں اور مشکل منز لیں آ سا ن ہوجا تی ہیں وہاں نماز پڑ ھنے کا سلیقہ بھی حا صل ہو جاتا ہے۔ [فلاح کی راہیں از مولانا ارشادالحق اثری﷾]
نماز میں خشوع و خضوع کیسے اختیار کریں۔۔۔؟
خطبہ جمعہ کے آخر میں اس اہم سوال کا جواب دینا ہے کہ وہ کونسے طریقے اور أسباب ہیں جن کو اختیار کرکے نماز میں خشوع و خضوع کو پیدا کیا جا سکتا ہے؟ نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرنے کے لیے یہ چند طریقے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:
1. نیت کی صفائی: نماز کے آغاز سے پہلے دل میں یہ نیت کریں کہ آپ اللہ کی رضا کے لیے نماز پڑھ رہے ہیں اور ذہن میں یہ بات ہو کہ میں یہ عبادت کرتے ہوئے اللہ کو دیکھ رہا ہوں اور اپنے پروردگار سے محو گفتگو ہوں ، جیسا کہ حدیث جبریل   میں احسان کا معنی بتلایا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ
”تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو کم از کم یہ خیال ضرور رہے کہ اللہ تعالیٰ تو مجھے دیکھ رہا ہے۔“ [صحیح بخاری: 50]
2. معانی سمجھیں: قرآن کی تلاوت اور اذکار کے معانی جاننے کی کوشش کریں۔ یہ آپ کو توجہ مرکوز کرنے میں مدد دے گا۔
3. خاموشی اور سکون: نماز کے دوران اپنے اردگرد کی چیزوں سے دور رہنے کی کوشش کریں۔
4. تدبر: نماز میں پڑھے جانے والے الفاظ اور آیات پر غور کریں۔ یہ آپ کی روحانی حالت کو بہتر بنائے گا۔
5. آہستگی: نماز کے ہر رکن کو آہستہ اور سکون کے ساتھ ادا کریں۔ جلد بازی سے پرہیز کریں۔
6. دعا و استغفار: نماز سے پہلے اور بعد میں اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو خشوع و خضوع عطا فرمائے۔
7. نماز کی جگہ: ایسی جگہ پر نماز پڑھیں جہاں سکون ہو اور distraction کم ہو۔
8. تکرار: نماز کی ادائیگی کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں۔ جتنی بار آپ نماز پڑھیں گے، اتنی ہی بار آپ کے خشوع و خضوع میں اضافہ ہوگا۔
9. ذہنی تیاری: نماز سے پہلے کچھ لمحے اللہ کی یاد میں گزاریں، تاکہ دل کو سکون ملے۔