مسجد: انقلاب کا سر چشمہ
❄مسجد تعمیر کرنے کی فضیلت ❄مسجد آباد کرنے کی فضیلت
❄مسجد کے آداب
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ [التوبہ: 18]
ذی وقار سامعین!
ساری زمین اللہ کی بنائی ہوئی ہے ، وہی اس کا مالک اور خالق ہے، زمین کے کچھ ٹکڑے اور حصے اللہ کو محبوب اور پیارے ہیں۔ زمین کے وہ حصے مساجد کہلاتے ہیں۔ مسجد کا معنٰی ہے سجدہ کرنے کی جگہ ، یعنی وہ جگہ جہاں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوا جاتا ہے، اپنی جبینِ نیاز جھکائی جاتی ہےاور گڑگڑایا جاتا ہے مسجد کہلاتی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ مَسَاجِدُهَا، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ أَسْوَاقُهَا [صحیح مسلم: 1528]  
”اللہ کے نزدیک (انسانی ) آبادیوں کا سب سے ناپسندیدہ حصہ ان کے بازار ہیں۔“ 
مسجد اسلامی معاشرت کا ایک اہم مرکز ہے جہاں عبادت، تعلیم، اور اجتماعی زندگی کی سب بنیادیں رکھی جاتی ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں مومن اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں۔ مسجد نہ صرف عبادت کا مقام ہے، بلکہ یہ مسلمانوں کے لیے ایک اجتماعی پلیٹ فارم بھی ہے جہاں وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دین کی باتیں کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل و کرم سے مسجد تعمیر اور آباد کرنے کی فضیلت ، آداب اور مساجد میں کرنے کے چند ضروری کام ذکر کریں گے۔
مسجد تعمیر کرنے کی فضیلت
❄سیدنا عثمان بن عفان کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ.
”جس نے مسجد بنائی ، اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہو، تو اللہ تعالیٰ ایسا ہی ایک مکان جنت میں اس کے لیے بنائے گا۔“  [صحیح بخاری: 450]
❄سیدنا جابر بن عبداللہ  سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ أَوْ أَصْغَرَ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ
’’جس نے اللہ کے لئے قطات(کبوتر کی طرح کا ایک چھوٹا سا پرندہ)کے گھونسلے جتنی یا اس سے بھی چھوٹی مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر تیار کرے گا۔‘‘ [ابن ماجہ: 738 صححہ الالبانی]
❄سیدنا عثمان غنی نے شہادت کے وقت گھر کے اوپر چڑھ کر جو باتیں کی تھیں ، ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی:
أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلَانٍ فَيَزِيدَهَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ ” فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي، فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهَا رَكْعَتَيْنِ، قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ
میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہو گئی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کون آل فلاں کی زمین کے ٹکڑے کو اپنے لیے جنت میں اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اسے مسجد میں شامل کر دے گا؟“، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس میں دو رکعت نماز پڑھنے نہیں دے رہے ہو، لوگوں نے کہا: ہاں، بات یہی ہے۔ ۔۔۔ [ترمذی: 3703 صححہ الالبانی]
مسجد آباد کرنے کی فضیلت
جو مسجد بنا تو نہیں سکتا لیکن مسجد کو آباد کرتا ہے اور مسجد سے تعلق رکھتا ہے، اس کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ آباد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسجد جا کر پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے، مسجد کی صفائی کرتا ہے اور لوگوں کو مسجد کی طرف بلاتا ہے۔
❄اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ 
”اللہ کی مسجدیں تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا۔ تو یہ لوگ امید ہے کہ ہدایت پانے والوں سے ہوں گے۔“ [التوبہ: 18]
❄ سیدنا ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ
سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ ان میں سے ایک  ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہتا ہے۔  ] صحیح بخاری: 660 [
❄ سیدنا  بریدہ اسلمی  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
بَشِّرْ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ 
”اندھیرے میں چل کر مسجد آنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور(بھرپوراجالے) کی بشارت دے دو۔“ [ترمذی: 223 صححہ الالبانی] 
❄سیدنا  ابوہریرہ  روایت ہے کہ نبی کریمﷺسے فرمایا:
مَنْ غَدَا إِلَى المَسْجِدِ وَرَاحَ، أَعَدَّ اللَّهُ لَهُ نُزُلَهُ مِنَ الجَنَّةِ كُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ
”جو شخص مسجد میں صبح شام بار بار حاضری دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی کا سامان کرے گا۔ وہ صبح شام جب بھی مسجد میں جائے۔“ [صحیح بخاری: 662]
❄سیدنا  ابوہریرہ  سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَطَهَّرَ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ مَشَى إِلَى بَيْتٍ مَنْ بُيُوتِ اللهِ لِيَقْضِيَ فَرِيضَةً مِنْ فَرَائِضِ اللهِ، كَانَتْ خَطْوَتَاهُ إِحْدَاهُمَا تَحُطُّ خَطِيئَةً، وَالْأُخْرَى تَرْفَعُ دَرَجَةً 
”جس نے اپنے گھر میں وضو کیا،پھر اللہ کے گھروں میں سے اس کے کسی گھر کی طرف چل کر گیا تاکہ اللہ کے فرضوں میں سے ایک فریضے کو ادا کرے تو اس کے دونوں قدم (یہ کرتے ہیں کہ) ان میں سے ایک گناہ  مٹاتا ہے اور دوسرا درجہ بلند کرتا ہے۔“ [صحیح مسلم: 1521]
❄سیدنا ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
صَلَاةُ أَحَدِكُمْ فِي جَمَاعَةٍ تَزِيدُ عَلَى صَلَاتِهِ فِي سُوقِهِ وَبَيْتِهِ بِضْعًا وَعِشْرِينَ دَرَجَةً وَذَلِكَ بِأَنَّهُ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلَّا رُفِعَ بِهَا دَرَجَةً أَوْ حُطَّتْ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ وَالْمَلَائِكَةُ تُصَلِّي عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ مَا لَمْ يُحْدِثْ فِيهِ مَا لَمْ يُؤْذِ فِيهِ وَقَالَ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا كَانَتْ الصَّلَاةُ تَحْبِسُهُ 
جماعت کے ساتھ کسی کی نماز بازار میں یا اپنے گھر میں نماز پڑھنے سے درجوں میں کچھ اوپر بیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ کیوں کہ جب ایک شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد میں صرف نماز کے ارادہ سے آتا ہے۔ نماز کے سوا اور کوئی چیز اسے لے جانے کا باعث نہیں بنتی تو جو بھی قدم وہ اٹھاتا ہے اس سے ایک درجہ اس کا بلند ہوتا ہے یا اس کی وجہ سے ایک گناہ اس کا معاف ہوتا ہے اور جب تک ایک شخص اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے جس پر اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے برابر اس کے لیے رحمت کی دعائیں یوں کرتے رہتے ہیں ” اے اللہ ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما، اے اللہ اس پر رحم فرما۔ “ یہ اس وقت تک ہوتا رہتا ہے جب تک وہ وضوتوڑ کر فرشتوں کو تکلیف نہ پہنچا ئے جتنی دیر تک بھی آدمی نماز کی وجہ سے رکا رہتا ہے وہ سب نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔ [صحیح بخاری: 2119]
❄سیدنا ابوہریرہ  کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:
مَا تَوَطَّنَ رَجُلٌ مُسْلِمٌ الْمَسَاجِدَ لِلصَّلَاةِ وَالذِّكْرِ، إِلَّا تَبَشْبَشَ اللَّهُ لَهُ كَمَا يَتَبَشْبَشُ أَهْلُ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ إِذَا قَدِمَ عَلَيْهِمْ
”جو مسلمان مسجد کو نماز اور ذکر الٰہی کے لیے اپنا گھر بنا لے تو اللہ تعالیٰ اس سے ایسا خوش ہوتا ہے جیسے کہ کوئی شخص بہت دن غائب رہنے کے بعد گھر واپس لوٹے، تو گھر والے خوش ہوتے ہیں۔“[ابن ماجہ: 800 صححہ الالبانی]
❄سیدنا عقبہ بن عامر کہتے ہیں:
خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي الصُّفَّةِ فَقَالَ أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يَغْدُوَ كُلَّ يَوْمٍ إِلَى بُطْحَانَ أَوْ إِلَى الْعَقِيقِ فَيَأْتِيَ مِنْهُ بِنَاقَتَيْنِ كَوْمَاوَيْنِ فِي غَيْرِ إِثْمٍ وَلَا قَطْعِ رَحِمٍ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ نُحِبُّ ذَلِكَ قَالَ أَفَلَا يَغْدُو أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَعْلَمُ أَوْ يَقْرَأُ آيَتَيْنِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَيْنِ وَثَلَاثٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثٍ وَأَرْبَعٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَرْبَعٍ وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنْ الْإِبِلِ 
رسول اللہ ﷺ گھر سےنکل کر تشریف لائے۔ہم صفہ(چبوترے) پر موجودتھے،آپ ﷺنے فرمایا:” تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ روزانہ صبح بطحان یا عقیق(کی وادی) میں جائے اور وہاں سے بغیر کسی گناہ اور قطع رحمی کے دو بڑے بڑے کوہانوں والی اونٹنیاں لائے؟”ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہم سب کو یہ بات پسندہے آپ نے فرمایا:”پھر تم میں سے صبح کوئی شخص مسجد میں کیوں نہیں جاتا کہ وہ اللہ کی کتاب کی دو آیتیں سیکھے یا ان کی قراءت کرے تو یہ اس کے لئے دو اونٹنیوں (کے حصول) سے بہتر ہے اور یہ تین آیات تین اونٹنیوں سے بہتر اور چار آیتیں اس کے لئے چار سے بہتر ہیں اور(آیتوں کی تعداد جو بھی ہو) اونٹوں کی اتنی تعداد سے بہتر ہے۔”  [صحیح مسلم: 1873]
مسجد کے آداب
مسجد کے کئی آداب ہیں ، چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ مسجد کو صاف ستھرا رکھنا:
مسجد کی تعمیر کے بعد اسے صاف ستھرا رکھنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ مسجد اللہ کا گھر ہے۔جب ہم اپنے گھروں کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں تو اللہ کے گھر اِس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انھیں صاف ستھرا رکھا جائے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
أَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِبِنَائِ الْمَسَاجِدِ فِی الدُّوْرِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَیَّبَ 
”رسول اللہ ﷺ نے محلوں میں مسجدیں تعمیر کرنے اور انھیں صاف وستھرا اور خوشبودار رکھنے کا حکم دیا۔“ [ابوداؤد: 455 صححہ الالبانی]
مسجد کی صفائی اتنا عظیم عمل ہے کہ سیدنا ابوہریرہ  کہتے ہیں:
أَنَّ أَسْوَدَ رَجُلًا أَوْ امْرَأَةً كَانَ يَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَمَاتَ وَلَمْ يَعْلَمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْتِهِ فَذَكَرَهُ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ مَا فَعَلَ ذَلِكَ الْإِنْسَانُ قَالُوا مَاتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَفَلَا آذَنْتُمُونِي فَقَالُوا إِنَّهُ كَانَ كَذَا وَكَذَا قِصَّتُهُ قَالَ فَحَقَرُوا شَأْنَهُ قَالَ فَدُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ 
کالے رنگ کا ایک مرد یا ایک کالی عورت مسجد کی خدمت کیا کرتی تھیں‘ ان کی وفات ہوگئی لیکن نبی کریم ﷺ کو ان کی وفات کی خبر کسی نے نہیں دی۔ ایک دن آپ نے خود یاد فرمایا کہ وہ شخص دکھائی نہیں دیتا۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ان کا تو انتقال ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کی کہ یہ وجوہ تھیں ( اس لیے آپ کو تکلیف نہیں دی گئی ) گویا لوگوں نے ان کو حقیر جان کر قابل توجہ نہیں سمجھا لیکن آپ نے فرمایا کہ چلو مجھے ان کی قبر بتادو۔ چنانچہ آپ ﷺ اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ [صحیح بخاری: 1337]
نبی اکرمﷺخود بھی مسجد بھی صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے ، سیدنا انس بن مالک  کہتے ہیں:
جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَبَالَ فِي طَائِفَةِ المَسْجِدِ، فَزَجَرَهُ النَّاسُ، «فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَضَى بَوْلَهُ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَنُوبٍ مِنْ مَاءٍ فَأُهْرِيقَ عَلَيْهِ» 
”ایک دیہاتی شخص آیا اور اس نے مسجد کے ایک کونے میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اس کو منع کیا تو رسول کریم ﷺ نے انھیں روک دیا۔ جب وہ پیشاب کر کے فارغ ہوا تو آپ نے اس ( کے پیشاب ) پر ایک ڈول پانی بہانے کا حکم دیا۔ چنانچہ بہا دیا گیا۔“ [صحیح بخاری: 221]
2۔ بدبودار چیز کھا کر مسجد نہ آنا:
سیدنا جابر بن عبداللہ کہتے ہیں:
نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَكْلِ الْبَصَلِ وَالْكُرَّاثِ، فَغَلَبَتْنَا الْحَاجَةُ، فَأَكَلْنَا مِنْهَا، فَقَالَ: «مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ الْمُنْتِنَةِ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَأَذَّى، مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ الْإِنْسُ» 
رسول اللہ ﷺ نے پیاز اور گندنا کھا نے سے منع فرمایا ۔ سو (ایک مرتبہ )ہم ضرورت سے مجبور ہو گئے اور انھیں کھا لیا تو آپ نے فرمایا : ’’جس نے اس بدبودار سبزی میں سے کچھ کھایا ہو وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے ، فرشتے بھی یقیناً اس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔‘‘  [صحیح مسلم: 1255]
سیدنا معاویہ بن قرہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ هَاتَيْنِ الشَّجَرَتَيْنِ وَقَالَ مَنْ أَكَلَهُمَا فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا وَقَالَ إِنْ كُنْتُمْ لَا بُدَّ آكِلِيهِمَا فَأَمِيتُوهُمَا طَبْخًا قَالَ يَعْنِي الْبَصَلَ وَالثُّومَ 
رسول اللہ ﷺ نے ان دو سبزیوں سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے ” جس نے یہ کھائی ہوں وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے ۔ “ اور فرمایا ” اگر تم نے انہیں ضرور ہی کھانا ہو تو پکا کر ان کی بو ختم کر لیا کرو ۔ “ 
راوی نے کہا کہ ان سبزیوں سے مراد پیاز اور لہسن ہے۔ [ابوداؤد: 2827 صححہ الالبانی]
الشیخ مولانا عبدالستار الحمادحفظہ اللہ لکھتے ہیں:
”حقہ نوشی یا سگریٹ کا استعمال ویسے بھی منع ہے، کیونکہ اس میں بے شمار طبی اور معاشرتی نقصانات ہیں، خاص طور پر ان حضرات کا تازہ تازہ حقہ یا سگریٹ پی کر مسجد میں آنا جس سے دوسرے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہو، شرعاً اس کی ممانعت ہے۔ اشیاء خوردنی میں مولی یا لہسن کا استعمال جائز ہے لیکن اگر کوئی شخص انہیں استعمال کر کے مسجد میں آئے اور اس کے منہ کی ہوا سے دوسرے لوگوں کو تکلیف ہو تو شرعاً اس کی ممانعت ہے۔
حضرت جابر  سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص کچا لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے دور رہے یا فرمایا کہ وہ ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔ [صحیح بخاری: 7359]
اس حدیث کے پیش نظر ہر اس چیز کو استعمال کر کے مسجد میں آنا منع ہے جو دوسروں کے لیے ناگواری کا باعث ہو، خواہ استعمال ہونے والی چیزیں حلال ہوں یا حرام۔ تمباکو کا استعمال تو علمائے اسلام کے ہاں محل نظر ہے چہ جائیکہ اسے استعمال کر کے مسجد میں آنا جائز ہو جس سے دوسروں کو ناگواری ہوتی ہو۔“ [فتاوٰی أصحاب الحدیث:  93/3]
3۔ تحیۃ المسجد پڑھنا:
سیدنا ابوقتادہ بن ربعی انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلَا يَجْلِسْ حَتَّى يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ
”جب کوئی تم میں سے مسجد میں آئے تو نہ بیٹھے جب تک دو رکعت (تحیۃ المسجد کی) نہ پڑھ لے۔“ [صحیح بخاری: 1163] 
4۔ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے:
سیدنا ابوذر کہتے ہیں کہ نبیﷺنے فرمایا:
عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ 
’’ میرے سامنے میری امت کے اچھے اور برے اعمال پیش کیے گئے ، میں نے اس کے اچھے اعمال میں راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو دیکھا ، اس کے برے اعمال میں بلغم کو پا یا جو مسجد میں ہوتا ہے اور اسے دفن نہیں کیا جاتا ۔‘‘  [صحیح مسلم: 1233]
سیدنا انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبیﷺنے فرمایا:
البُزَاقُ فِي المَسْجِدِ خَطِيئَةٌ وَكَفَّارَتُهَا دَفْنُهَا
”مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے ( زمین میں ) چھپا دینا ہے۔ “ [صحیح بخاری: 415]
5۔ مسجد میں خرید و فروخت اور گمشدہ چیز کا اعلان منع ہے:
سیدنا ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ فَقُولُوا لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً فَقُولُوا لَا رَدَّ اللَّهُ عَلَيْكَ 
‘ جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید وفروخت کررہاہو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے، اور جب ایسے شخص کودیکھوجو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اُسے) تلاش کرتاہو تو کہو : اللہ تمہاری چیزتمہیں نہ لوٹائے’۔ [ترمذی: 1321 صححہ الالبانی]  
6۔ مسجد میں بلند آواز سے باتیں کرنا منع ہے:
سائب بن یزید کہتے ہیں:
كُنْتُ قَائِمًا فِي المَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ، فَجِئْتُهُ بِهِمَا، قَالَ: مَنْ أَنْتُمَا – أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا؟ – قَالاَ: مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ، قَالَ: «لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ البَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا، تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» 
میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ حضرت عمر بن خطاب  سامنے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انھیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔ میں بلا لایا۔ آپ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ  نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ رسول کریم ﷺ کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟  [صحیح بخاری: 470]
7۔ داخل ہوتے اور نکلتے وقت مسنون طریقہ اپنائیں:
مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں  مسجد میں رکھیں اور نکلتے وقت بایاں پاؤں پہلے باہر نکالیں ، سیدہ عائشہ کہتی ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ التَّيَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِي شَأْنِهِ كُلِّهِ، فِي طُهُورِهِ وَتَرَجُّلِهِ وَتَنَعُّلِهِ
”رسول اللہ ﷺ اپنے تمام کاموں میں جہاں تک ممکن ہوتا دائیں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ طہارت کے وقت بھی، کنگھا کرنے اور جوتا پہننے میں بھی۔“ [صحیح بخاری: 426]
8۔ داخل ہوتے اور نکلتے وقت مسنون دعا پڑھیں:
سیدنا ابوحمید  سے یا ابو اسید انصاری سے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو نبی ( ﷺ ) پر سلام پڑھے پھر کہے:
اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ
”اے اللہ ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔“ 
اور جب باہر نکلے تو کہے : 
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسأَلُك مِن فَضلِكَ 
”اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے فضل و عنایت کا سوال کرتا ہوں ۔ “  [ابوداؤد: 465 صححہ الالبانی]
9۔  اذان کے بعد بلا ضرورت مسجد سے نہ نکلنا:
اذان ہونے بعد بلا ضروررت مسجد سے نکلنا نہیں چاہئے ، أبو شعثاء کہتے ہیں:
كُنَّا قُعُودًا فِي الْمَسْجِدِ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْمَسْجِدِ يَمْشِي فَأَتْبَعَهُ أَبُو هُرَيْرَةَ بَصَرَهُ حَتَّى خَرَجَ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «أَمَّا هَذَا، فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ہم مسجد میں حضرت ابو ہریرہ   کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ مؤذن نے اذان کہی ، ایک آدمی مسجدسے اٹھ کر چل پڑا، حضرت ابو ہریرہ   نےمسلسل اس پر نظر رکھی حتی کہ وہ مسجد سے نکل گیا ، حضرت ابو ہریرہ   نےکہا : یہ شخص ، یقینا اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے ۔ [صحیح مسلم: 1489]
مسجد: انقلاب کا سر چشمہ
مسجد کو اسلامی معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل ہے ، نبی مکرمﷺنے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلا کام مسجد نبوی کو تعمیر کرنے والا کیا ہے ، آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ، آپ کو نظر آئے گا کہ بڑے بڑے انقلاب اور بڑی بڑی تحریکیں مساجد سےاٹھی ہیں ، مسجد نبوی کو لے لیں ، یہ مسجد ایک ہی وقت میں عبادت گاہ بھی تھی ، پارلیمنٹ بھی تھی ، عدالت بھی تھی ، یونیورسٹی بھی تھی اور اسلامی فوج کی تربیت گاہ بھی تھی ، یہ مسجد نبوی کئی لوگوں کی ہدایت کاسبب بنی ، یہاں آکر کئی لوگوں کی کایا پلٹ گئی، دل کی دنیا بدل گئی ، صرف دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
❄سیدنا ابو ہریرہ  نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے نجد کی طرف کچھ سوا ر بھیجے وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے ( سردار وں میں سے ) ایک شخص ثمامہ بن اثال نامی کو پکڑکر لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ حضور اکرم ﷺ با ہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ تو کیا سمجھتا ہے؟ ( میں تیرے ساتھ کیا کروں گا ) انہوں نے کہا:
عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ
”محمد! میرے پاس خیر ہے ( اس کے باوجود ) اگر آپ مجھے قتل کردیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے ، اس نے جنگ میں مسلمانوں کو مارااور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو (احسان کرنے والے کا ) شکر اداکر تا ہے لیکن اگر آپ کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہیں مجھ سے مال طلب کر سکتے ہیں۔“ 
حضور اکرم ﷺ وہاں سے چلے آئے ، دوسرے دن آپ نے پھر پوچھا ثمامہ اب تو کیا سمجھتا ہے؟ انہوں نے کہا ، وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں ، کہ اگر آپ نے احسان کیا تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر اداکر تا ہے ۔ آنحضرت ﷺ پھر چلے گئے ، تیسرے دن پھر آپ نے ان سے پوچھا اب تو کیا سمجھتا ہے ثمامہ؟ انہوں نے کہا کہ وہی جو میں آپ سے پہلے کہہ چکا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ  سے فرمایاکہ ثمامہ کو چھوڑ دو (رسی کھول دی گئی ) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کرکے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور پڑھا :
” اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمد ا رسول اللہ “ 
اور کہا:
يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ
”اے محمد! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لئے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لئے محبوب نہیں ہے۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے۔ اللہ کی قسم! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میر ا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے۔“ 
آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا۔ اب آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ ﷺ  نے انہیں بشارت دی اور عمر ہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ تم بے دین ہوگئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا:
  لَا وَلَكِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
”نہیں ، بلکہ میں محمد ﷺ کے ساتھ ایمان لے آیا ہوں اور خدا کی قسم! اب تمہارے یہاں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم ﷺ اجازت نہ دے دیں۔“ [صحیح بخاری: 4372]
❄جریر بن عبداللہ  کہتے ہیں کہ ہم دن کے ابتدائی حصہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کچھ لوگ ننگے بدن، ننگے پیر، تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، زیادہ تر لوگ قبیلہ مضر کے تھے، بلکہ سبھی مضر ہی کے تھے۔ ان کی فاقہ مستی دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ اندر گئے، پھر نکلے، تو بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی، آپ نے نماز پڑھائی، پھر آپ نے خطبہ دیا، تو فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا﴾﴿وَ اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ﴾
”لوگو! ڈرو، تم اپنے رب سے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ اور انہیں دونوں (میاں بیوی) سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیئے۔ اور اس اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم سب ایک دوسرے سے مانگتے ہو۔ قرابت داریوں کا خیال رکھو کہ وہ ٹوٹنے نہ پائیں، بیشک اللہ تمہارا نگہبان ہے، اور اللہ سے ڈرو، اور تم میں سے ہر شخص یہ (دھیان رکھے اور) دیکھتا رہے کہ آنے والے کل کے لیے اس نے کیا آگے بھیجا ہے۔
آدمی کو چاہیئے کہ اپنے دینار میں سے، اپنے درہم میں سے، اپنے کپڑے میں سے، اپنے گیہوں کے صاع میں سے، اپنے کھجور کے صاع میں سے صدقہ کرے“، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: ”اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی سہی“، چنانچہ انصار کا ایک شخص (روپیوں سے بھری) ایک تھیلی لے کر آیا جو اس کی ہتھیلی سے سنبھل نہیں رہی تھی بلکہ سنبھلی ہی نہیں۔ پھر تو لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ کھانے اور کپڑے کے دو ڈھیر اکٹھے ہو گئے۔ اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ انور کھل اٹھا ہے گویا وہ سونے کا پانی دیا ہوا چاندی ہے (اس موقع پر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کرے گا، اس کے لیے دہرا اجر ہو گا: ایک اس کے جاری کرنے کا، دوسرا جو اس پر عمل کریں گے ان کا اجر، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کیا، تو اسے اس کے جاری کرنے کا گناہ ملے گا اور جو اس اس پر عمل کریں گے ان کا گناہ بھی بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کوئی کمی کی جائے۔“ [نسائی: 2555 صححہ الالبانی]