فکر آخرت حقیقت پسندی ہے
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ۵﴾ (فاطر:5)
دو جمعے قبل فکر آخرت پر بات ہو رہی تھی اور فکر آخرت پر بات کی ضرورت نہایت اشد ضرورت ہے جس کی اہمیت کو شاید اکثر لوگ نہ سمجھتے ہوں، تاہم فکر آخرت انسان کے مقصد حیات کا گویا خلاصہ ہے، یعنی انسان کو آخرت کی فکر اگر لاحق ہو تو اسے زندگی کا مقصد حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے اور اس کے لئے وہ راہ ہموار ہوتی ہے۔ فکر آخرت ، یعنی آخرت کے بارے میں غور و فکر اور سوچ و بچار کرتا ، اس کے خیال اور اندیشے میں محو ہونا اور اس کے لئے تدبیر کرنا ایک ایسا موضوع ہے جو انسان کی ہر قسم کی غفلت و نسیان، بے پرواہی اور بے راہ روی کو ختم کر کے اسے بیدار اور چوکنا کر دیتا ہے۔ فکر آخرت نہایت کمزور ایمانی حالت کے لئے حتی کہ ایسی کمزور حالت ایمانی کے لئے کہ جو اپنی آخری سانسیں لے رہی ہو، ایسے ہے جیسے Sudden Cardiac Arrest کے لیے Electric Shock ہے۔
جہاں Sudden Cardiac Arrest کے مریض کے علاج کے تمام آپشنز ختم ہو جاتے ہیں وہاں بند ہوتی ہوئی حرکت قلب کو پھر سے حرکت میں لانے کے لئے Counter Shock دیا جاتا ہے۔
کچھ ایسے ہی آخرت کی فکر بھی انسان کی گرتی ہوئی ایمانی حالت کو تقویت اور سہارا دیتی ہے اور اسے پھر سے جادۂ طاعت پر گامزن کر دیتی ہے۔ آخرت کی فکر اور موت کا تذکرہ کسی بھی بہکے اور بھٹکے ہوئے انسان کو راہ راست پر لانے کے لئے ایک مؤثر ترین ذریعہ اور وسیلہ ہے اس لئے کہ یہ آخرت کی راہ میں حائل ہونے والے اسباب و حواجز کو دور کرتے ہیں۔
اس حقیقت سے سبھی آگاہ ہیں کہ انسان اپنے وقت ولادت سے لے کر پوری زندگی مسلسل اور بغیر کسی رکاوٹ کے سفر آخرت پر رواں دواں رہتا ہے۔ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ، شعوری یا غیر شعوری طور پر مسلسل چلا جا رہا ہے اور موت کے ساتھ یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے اور پھر آخرت کے مراحل شروع ہو جاتے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿يٰأَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلْقِيهِ﴾ (الانشقاق:6)
’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے ، پس اس سے ملنے والا ہے ۔‘‘
اس سفر کے طے ہونے میں تو کوئی وقفہ، کوئی تعطل اور کوئی رکاوٹ نہیں آتی، البتہ راو راست پر چلتے ہوئے اسے بہت سی روکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں مطلوب تو یہ ہے کہ انسان ان رکاوٹوں کو عبور کر کے اس جادۂ حق ، صراط مستقیم اور راہ راست پر گامزن رہے، مگر اکثر و بیشتر وہ رکاوٹیں لوگوں کا رخ موڑ دیتی ہیں، اور دو شاہراہ کو چھوڑ کر کسی پگڈنڈی میں اتر جاتے ہیں، کسی راستے پر چل کر کوئی وہاں تک پہنچتا ہے؟ اس کا حساب کتاب یوم آخرت کو ہوتا ہے اور اس پر جزا اور سزا ہوتی ہے۔
دوران سفر میں جو رکاوٹیں انسان کو پیش آتی ہیں ان کا احاطہ تو بہت مشکل ہے کیونکہ وہ ایک کثیر تعداد میں ہیں، اور جہاں رکاوٹیں مصائب و مشکلات کی صورت میں ہوتی ہیں وہاں نعمتوں کی شکل میں بھی ہوتی ہیں کہ نعمتیں بھی آزمائشیں اور رکا ئیں ہیں۔ تو ان رکانوں کا نام، ان کی اقسام اور ان کی گفتی تو اگر چہ ممکن نہیں، لیکن اُن سب کو ایک نام ضرور دیا جا سکتا ہے اور وہ ہے دنیا کی لذتیں۔ آخرت کی فکر اور موت کی یاد ان لذتوں کو چکنا چور کر دیتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے آپ ﷺنے فرمایا:
((أكْثَرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَاتِ يَعْنِي الْمَوْتِ)) (جامع ترمذی:2307)
’’لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔‘‘
تو فکر آخرت اور ذکر موت نہایت ہی مفید اور ضروری ہے۔ فکر آخرت اور ذکرموت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ دنیا سے کنارہ کش ہو جا ئیں، اور اس کی قطعاً فکر نہ کریں، دنیا کی فکر ضرور کریں، مگر جتنی فکر دنیا کے لئے کرتے ہیں کم از کم اتنی فکر تو آخرت کے لئے بھی ہوئی چاہیے، اگر چہ حقیقت پسندی اور عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ آخرت کی زیادہ فکر کی جائے، کیونکہ دنیا عارضی بھی ہے اور ادھوری بھی، جبکہ آخرت دائمی بھی ہے اور مکمل بھی۔
یعنی آخرت کی نعمتیں کامل اور مکمل اور دائمی ہیں اور دنیا کی نعمتیں ناقص اور ادھوری ہیں، اور پھر دنیا کی نعمتوں سے محرومی آخرت کی کامیابی پر ہرگز اثر انداز نہیں ہوتی، لیکن اگر آخرت کی فکر ترک کر دی جائے کہ جس کا مطلب آخرت کے لئے کوشش ترک کرنا ہے تو یہ طرز فکر اور انداز زندگی یقینًا آخرت کی کامیابی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ت اتنی آسان، عام فہم اور سادہ سی بات ہمیں کیوں سمجھ میں نہیں آتی ، اس کے اسباب جاننے کی کوشش کریں تو ان میں سے ایک بڑا سبب دنیا کی کشش ہے، جو کہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے، دنیا کی کشش ایک بہت بڑی حقیقت ہے کوئی عقلمند انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا، دنیا کی کشش سے متعلق آیات و احادیث ہم کئی بار سن چکے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے
﴿ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ ؕ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ﴾ (آل عمران:14)
’’لوگوں کے لئے مرغوبات نفس مزین کر دیئے گئے ہیں، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں، حقیقت میں جو بہتر ٹھکانہ ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔‘‘
یہ متاع دنیا جس کا اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے انسان کی فطری خواہشات ہیں، مگر اس پر مستزاد یہ کہ اللہ تعالی نے انہیں اور مزین کر دیا اور خوبصورت بنا دیا ہے، یعنی جو چیز پہلے سے انسان کے لئے پر کشش تھی اسے مزید پرکشش بنا دیا، گویا اس کی کشش کو چار چاند لگا دیئے گئے، تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس میں کسی قدر شدید کشش ہو سکتی ہے۔
تو دنیا پرکشش ہے، اس کی ہر چیز پرکشش ہے، تمام نعمتیں پرکشش ہیں، اس شدت کشش کی بنا پر انسان بے ساختہ اس کی طرف کچھا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے آزمائش اور امتحان کے لئے جہاں دنیا کو پرکشش بنایا ہے تو وہاں اس سے بچنے کے لئے اس کے نقصانات سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔
﴿ وَ هَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِۚ۱۰﴾(البلد:10)
’’اور ہم نے دونوں نمایاں راستے اسے دکھا دیئے ۔‘‘
یعنی خیر اور شر کا راستہ بتا دیا۔ اور فرمایا:
﴿ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ۖۗ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۲
اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا﴾( الدهر:2۔3)
’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تا کہ اس کا امتحان لیں۔ اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھایا، خواہ شکر کرنے والا بنے، یا کفر کرنے والا ۔‘‘
یعنی ہم نے اسے سمع و بصر دے کر ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کی مکمل راہنمائی بھی کی ہے، اسے شکر کا راستہ بتایا اور ناشکری اور کفر کے راستے سے بھی آگاہ کر دیا۔ اب اس کی مرضی ہے وہ جو بھی راستہ اختیار کرے۔
اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۸﴾ ( الشمس:8)
’’اس کا فجور اور تقوی دونوں اس پر الہام کر دیئے۔‘‘
تو دنیا کو اللہ تعالی نے امتحان کے لئے پر کشش بنایا ہے تو دوسری طرف اس کے نقصانات سے آگاہ بھی کر دیا ہے۔ مگر کچھ تو نہیں ایسی ہیں جو دنیا کو انسان کے لئے پر کشش بنا کر پیش کرتی ہیں مگر صحیح بات سے آگاہ نہیں کرتیں، چنانچہ اللہ تعالی نے اسے دھو کے کے مترادف قرار دیا ہے۔
چنانچہ ان سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا:
﴿﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ۵﴾ (فاطر:5)
’’اے لوگو! یقینًا اللہ کا وعدہ حق ہے پس دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے، اور نہ وہ بڑا دھو کے باز یعنی شیطان تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے نہ پائے۔‘‘
دنیا کا دھوکہ یہ ہے کہ انسان اس کی کشش سے گھائل ہو کر سمجھ بیٹھے کہ سب کچھ یہی ہے اور اگر آخرت ہے بھی تو جیسے اس دنیا میں مزے کر رہا ہے ایسے ہی وہاں بھی مزے کرے گا۔
﴿وَّ لَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا۳۶﴾( الكهف:36)
’’تاہم اگر بھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا۔‘‘
اور شیطان بے شمار طریقوں سے انسان کو دھوکہ دیتا ہے، مگر اللہ کے بارے میں دھو کہ دینے کا مطلب ہے کہ کچھ لوگوں کو تو کچھ یوں دھوکہ دے کہ اس کا ئنات کا کوئی خالق نہیں ہے، یہ دنیا خود بخود چل رہی ہے، اور کچھ لوگوں کو کچھ اس طرح دھوکہ دے کہ گناہ کی فکر نہ کرو، اللہ بڑا غفور و رحیم ہے یعنی اللہ تعالی کی رحمت اور مغفرت کا غلط مفہوم پیش کر کے انہیں دھوکہ دے۔ دنیا کو انسان کے لئے مزین کرنے والی ایک قوت شیاطین الجن کے ساتھ ساتھ شیاطین الانس بھی ہیں کچھ لوگوں پر بطور سزا ایسے لوگوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔
﴿وَ قَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ ۚ اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ۠۲۵﴾ (فصلت:25)
’’اور ہم نے ان پر ایسے ساتھی مسلط کر دیئے تھے جو انہیں آگے اور پیچھے ہر چیز خوشنما بنا کر دکھاتے تھے اور ان پر بات ثابت ہو گئی ، ان قوموں کے ساتھ ساتھ جو جنوں اور انسانوں میں سے ان سے پہلے گزر چکی تھیں بے شک وہ خسارہ اٹھانے والے تھے۔‘‘
اور یہ اللہ تعالی کی مستقل سنت ہے کہ برے لوگوں کو ، بری خواہشات رکھنے والے انسانوں کو بھی اچھے ساتھی نہیں دلواتا، بلکہ ان کی اپنی خواہشات اور رجحانات کے مطابق انہیں یرے ساتھی دیتا ہے۔
پھر جیسے جیسے وہ برائی کی پستیوں میں اترتے جاتے اور اس کی دلدل میں پھنستے جاتے ہیں اتنے ہی بدتر سے بدتر انسان اور شیاطین ان کے ہم نشین بنتے جاتے ہیں۔ تو یه قانون فطرت ہے کہ برے لوگوں کو برے ساتھی ملتے ہیں اور جو برے لوگوں اور برے وزیروں اور مشیروں میں گھر جائے تو خیر کا کام کیسے کر سکتا ہے۔
کسی اچھے اور شریف انسان کے ساتھ اتفاقا اگر کوئی برا ساتھی آبھی جائے تو وہ زیادہ دیر تک اس کے ساتھ نہیں چل سکتا۔
دنیا بے شمار طریقوں سے انسان کو دھوکہ دیتی ہے، دنیا میں بے جان چیزوں کی کشش انسان کو اپنی طرف مائل تو کرتی ہے مگر اس کی جاندار چیزیں بالخصوص انسان زیادہ کشش اور اثر رکھتے ہیں۔
اور انسان میں نفس امارہ تو اسے بہت زیادہ برائی کی طرف مائل کرنے والا اور اس کا حکم دینے والا اور رغبت دلانے والا ہے۔
جب اس قدر کشش در کشش میں انسان گھرا ہوا ہو اور کوئی رہنمائی کرنے والا نہ ہو، تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کسی قدر بڑی مصیبت اور آزمائش میں مبتلا ہے۔ دنیا کس طرح انسان کے لئے تباہی کا باعث بنتی ہے اور کیونکر اس سے بچا جاسکتا ہے، آئندہ خطبات میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ
حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ آپ نے دلائل کی روشنی میں جانا کہ انسان بری طرح دنیا کی کشش میں پھنسا ہوا ہے، مگر اس سے کس طرح نکلتا ہے کوئی چلانے والا نہیں، ہماری طرف سے اس کے لئے کوشش نہیں، کس قدر بے بسی ہے، کس قدر ہماری حالت قابل رحم ہے، بس اللہ تعالی کی خصوصی عنایت کے طلبگار ہیں۔ دنیا کے ساتھ انسان کو اس قدر شدید لگاؤ ہے کہ اسے کم کرنا آسان نہیں ہے۔ محض وعظ ونصیحت کافی نہیں اگر خود کوشش نہ کی جائے لہذا خود کوشش کرنا ہوگی اور اس کے لئے ہمیں اس بات کا اہتمام کرنا ہوگا کہ موت کو یاد کرنے کے مواقع تلاش کئے جائیں کہ موت ہی ایک ایسی حقیقت ہے کہ جب یہ آتی ہے بلکہ جب اس کے آثار آتے ہیں تو دنیا کی تمام نعمتیں، تمام کششیں، تمام رعنائیاں، تمام دھو کے دم توڑ جاتے ہیں، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے تمام سیارے ٹوٹ جاتے ہیں تمام خواہشات مرجھا جاتی اور ماند پڑ جاتی ہیں، تمام رابطے اور واسطے چکنا چور ہو جاتے ہیں، تمام سفارشیں اور تعلقات بے اثر ہو جاتے ہیں، تمام نعمتیں جو کہ انسان کو دھوکے میں مبتلا کرنے والی ہوتی ہیں بے معنی ہو جاتی ہے۔
موت کو یاد کرنے کا مطلب: قبر کے احوال ، حشر اور نشر کے احوال، قیامت کے مناظر، میزان اور پل صراط پر پیشی اور اس طرح کے دیگر احوال و مناظر کو یاد کرنا ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
……………..